مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملہ سمیت اہم ایشوز پر مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملتان میں اہم پریس کانفرنس

مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملہ سمیت اہم ایشوز پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی ملتان میں اہم پریس کانفرنس

20 ستمبر 2024


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

وصل اللہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم 

ملتان میڈیا کو خوش آمدید کہتا ہوں، میری خواہش تھی کہ ملتان آیا ہوں تو آپ سے مل لوں اور اسلام آباد کے ہنگامہ خیز ماحول کے بعد میں پہلی پریس کانفرنس آپ کے ہاں سے کر رہا ہوں، بہرحال بڑی گھمبیر صورتحال تھی وہاں جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا، اور پہلے تو میڈیا کے غلام گردشوں میں آئینی ترامیم کا چرچا تھا رفتہ رفتہ وہ باتیں سیاسی حلقوں میں آنے لگ گئی، اس پر ہم نے یہ موقف اختیار کیا کہ بجائے اس کے کہ ہم شخصیات کو سامنے رکھتے ہوئے آئین میں ترمیم کریں کیوں نا ہم عدالتی اصلاحات کی طرف جائیں، ہم نے یہ تجویز دی اور اس پر کچھ تفصیل ہم نے پھر وہاں جو پارلیمانی کمیٹی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں بیان کی لیکن ہر چند کے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جی اب ہم تو ججوں کے مدت ملازمت میں اضافہ کا تجویز بھی واپس لے رہے ہیں، ججوں کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی واپس لے رہے ہیں اور ایک فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ اس کی آپ کی تجویز کو ہم قبول کر رہے ہیں، تو آپ ہمارا ساتھ دیں۔ لیکن ہم نے کہا کہ جی یہ تو عنوان ہے ایک اصولی گفتگو ہے جو میں نے کی ہے جب آپ ڈرافٹ دکھائیں گے مسودہ ہمارے سامنے آئے گا تب بات ہوگی کہ آپ نے اس میں کیا تفصیلات طے کی ہیں، حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہی تھی، غالباً ایک کاپی انہوں نے پیپلز پارٹی کو دی تھی اور بالآخر خدا خدا کر کے ایک کاپی انہوں نے ہمیں مہیا کی، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ان کی کاپی اور ہماری کاپی ایک جیسے ہو گی یا اس میں کوئی فرق ہوگا اور جو کاپی ہمیں مہیا کی گئی ہے اس کے بعد معلوم یہ ہوا ہے کہ اب اس کے بعد جو نئی کوئی اس کی کاپی آئی ہے اس میں جو کچھ فرق ہے اور کچھ اس میں کچھ چیزیں کاٹی گئی ہیں کچھ اضافہ کی گئی ہیں تو ایسے جیسے بالکل کوئی تیاری نہ ہو اور وہ بغیر تیاری کے ایوان سے توقع رکھ رہے تھے کہ ہمیں سپورٹ کیا جائے، تاہم جب ہمیں کاپی مہیا کی گئی اور ہمارے وکلاء نے اس کو دیکھا تو ہمیں بہت افسوس ہوا اس بات پر کہ آئین جو ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور اس میں معمولی سا ایک استثناء ہے وہ بھی ملٹری کے حوالے سے لیکن یہاں تو انسانی حقوق بنیادی حقوق کا دائرہ محدود کر دیا گیا اور ملٹری کا رول جو ہے اس میں بہت اضافہ کیا گیا جو استثنائی چیز ہے اس کی توسیع دی گئی اور جو آئین کا بنیادی انسانی حقوق کا چیپٹر ہے اسے محدود کر دیا گیا ہے، اسی طرح کورٹس کے حوالے سے ججوں کی تقرری کے حوالے سے یہاں تک کہ ہائی کورٹس کے ججوں کے تبادلے کے حوالے سے کہ اگر مجھے کسی جج پہ اعتماد نہیں ہے یا میرے حق میں فیصلہ نہیں دے سکے گا تو اس کو فوراً تبادلہ کر دیں یا یہ کہ کیس اس سے اٹھا کر دوسرے کو دے دیں اب یہ چیزیں جو ہیں یہ نظام کو انتہائی متاثر کر دیتی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کئی دہائیوں سے ہم دیکھتے ہیں کہ مفادات کا لین دین ہمارے ملک کی سیاست بنتی ہے لیکن ہم نے نظریات، اصول اور قوم کی آواز کو تقویت دینے کی سیاست کی اور ہر ایسی تجویز کو ہم نے مسترد کر دیا کہ جو مفاد عامہ کے خلاف تھی، بنیادی انسانی حقوق کی نفی کر رہی تھی، عدل و انصاف مہیا کرنے میں صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا اور اس کے علاوہ اگر عام آدمی کا کوئی مسئلہ ہو۔۔۔

ہم نے یہ تجویز اس لیے دی کہ ایک تو میثاق جمہوریت میں فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ کا تصور موجود ہے اور صراحت کے ساتھ لکھا گیا ہے ہے دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ میں اس وقت جو عام لوگوں کے کیسز ہیں کوئی 60 ہزار کیسز اس وقت پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں اور پورے ملک میں اگر دیکھا جائے چھوٹے عدالتوں سے لے کر بڑے عدالتوں تک 24 لاکھ کیسز جو ہیں وہ پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں نسلیں جو ہیں وہ آگے بھگتی ہیں اس چیز کو اور مقدمات ختم نہیں ہو پا رہے، تو اس حوالے سے ایک دلیل تھی کہ ایک کانسٹیٹیوشنل کورٹ موجود ہو تاکہ سیاسی معاملات، آئینی معاملات، حکومت اور کسی ادارے کے درمیان کوئی معاملہ ہو جائے تو وہی کیس وہ نمٹاتے رہے باقی پبلک کے جو کیسز ہیں وہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور جلد انصاف لوگوں کو مہیا ہوتا رہے۔ اس حوالے سے جو مسودہ ہمیں دیا گیا تھا اس وقت تک تو ان کے پاس اکثریت نہیں تھی اور دارومدار جمعیۃ علماء اسلام کے ممبران پر تھا جمیعۃ علماء اسلام نے واضح طور پر کہا کہ ہم مطمئن نہیں ہیں اور ہم اس مسودے کو ووٹ دینے سے معزور ہیں، اب بلاول صاحب بھی تشریف لائے تھے میرے پاس اور ان کے اور ہمارے درمیان بھی بات چیت ہوئی اور اس پر اتفاق ہوا کہ ہم بھی ایک مسودہ بنا لیتے ہیں وہ بھی ایک ڈرافٹ تیار کر لیں گے پھر ہم ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کریں گے ہم اتفاق رائے چاہتے ہیں پارلیمنٹ کا کام یہی ہے کہ وہ قانون سازی کرے آئین سازی کرے ترامیم کرے قانون پاس کرے، یہ جاب ہے ہمارا اور اس پر ہم کسی قسم کا قدغن بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن اداروں کے درمیان اگر طاقت کا توازن بگڑتا ہے تو وہ بھی ملک کے نظام کو تہس نہس کر سکتا ہے اس لیے ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہر ادارے کا ایک اپنا دائرہ کار ہے جسے آئین متعین کرتا ہے اور اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار کی حد تک خود کو محدود رکھے گا تو اپنا اپنا کردار بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ وہ کر سکیں گے اور ورنہ تو پھر ایک ادارہ دوسرے ادارے کے مقابلے میں طاقتور بننے کی کوشش کرے گا اور اس لڑائی میں ملک کمزور ہو جاتا ہے، چنانچہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے اسٹیبلشمنٹ نے طاقتور بننے کی کوشش کی، انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، اپنی مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کی تو آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک ہر لحاظ سے کمزور ہوگا۔ اقتصاد کے لحاظ سے کمزور، انصاف کے لحاظ سے کمزور، عدالتوں کو مزید کمزور کیا جا رہا ہے اور میں ایک بات انتہائی دکھی دل کے ساتھ کر رہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں وہ دن بھی دیکھے ہیں جب فوج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی اور آج بدقسمتی سے میں وہ دن بھی دیکھ رہا ہوں کہ فوج کے حق میں کوئی بات کرنے کو قبول نہیں کرتا جی، ایسا کیوں ہے؟ یعنی ہمارے لیے بھی ایک دکھ کی بات ہے ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے اداروں کا احترام ہو، فوج کا احترام ہو، عدلیہ کا احترام ہو، پارلیمنٹیرینز کا احترام ہو اور وہ اپنی ضمیر کے مطابق کام کریں، اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کریں، میرے خیال میں پھر ملک بھی طاقتور ہوگا عوام بھی مطمئن ہوں گے اور ان کا نظام ٹھیک چلے گا جی۔


سوال و جواب:

صحافی کا سوال: مولانا صاحب بلاول نے آپ کی تجاویز سے کس حد تک اتفاق کیا ہے اور کوئی ٹائم پیریڈ بھی طے ہوا ہے کہ بلاول صاحب اور آپ کب تک متبادل بل تیار کرلیں گے؟

مولانا صاحب کا جواب: انہوں نے بھی کام شروع کر دیا ہے اور ہم نے بھی کام شروع کر دیا ہے وکلاء اس پہ کام کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہفتہ 10 دن تو اس میں لگ جائیں گے کہ ہم ایک کانسپٹ میں جو ہے اتفاق کریں۔


صحافی کا سوال: جو ایک آپ ڈرافٹ تیار کر رہے ہیں اس میں آپ کا کیا مطلب یہ کے فوکس کیا ہوگا اگر اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے بات ہوگی عدالتوں کے حوالے سے یا آئینی کانسٹیٹیوشنل کورٹ کے حوالے سے؟ 

مولانا صاحب کا جواب: ہمارا تو ظاہر ہے جی کہ جس پر اتفاق رائے ہے وہ کانسٹیٹیوشنل کورٹ کے قیام پر ایک اتفاق رائے موجود ہے، لیکن یہاں پر ہمیں ایک بدنیتی نظر آئی کہ کانسٹیٹیوشنل کورٹ کی تجویز قبول کر کے بھی وہ عدالتی ڈھانچہ اس طرح تشکیل دے رہے تھے کہ مخالفین کی گردن زدنی کریں اور اپنے مفادات کے لیے اس کو استعمال کرے، جب آپ ایک اصول کی بات بھی قبول کرتے ہیں اچھی بات بھی قبول کرتے ہیں لیکن اگر اس میں نیتیں خراب ہو جاتی ہیں اور آپ سے دوسرا کہے کہ آپ تو یہ چیز کر رہے ہیں لیکن اس کی جو تشکیل آپ کر رہے ہیں وہ تشکیل نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے تو پھر بھی وہ کام جو ہے وہ مقصد حاصل نہیں کرتا۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: میں تو یہی بات آپ سے کی ہے نا کہ بنیادی حقوق کا دائرہ محدود ملٹری کا جو استثناء تھا ایک خاص حد تک اس کو توسیع دے دی گئی ہے، تو یہ چیزیں ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی حقوق کو پامال کر رہی ہیں، ہم بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کے ضامن ہیں اور پارلیمنٹ کو اس کا ضامن ہونا چاہیے۔ 


صحافی کا سوال: اسپیکر قومی اسمبلی نے خط لکھا اور اس کے اندر انہوں نے نشستوں کا باقاعدہ نمبریں بھی دی ہیں آپ کی جماعت کو بھی انہوں نے تین سیٹیں دی ہیں مخصوص نشستوں سے اگر الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے تو پھر تو حکومت کی جو ہے وہ ٹو تھڑڈ جو ہے وہ پوری ہوتی ہے پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟

مولانا صاحب کا جواب: ہم پھر بھی اپنے موقف پہ کھڑے رہیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کو کوئی غلط فیصلہ یا غلط قانون سازی سے روکے جو بھی ہماری قوت ہوگی، جتنی ہماری قوت ہے ہم اتنی ہی ذمہ دار ہیں اس سے زیادہ کے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں لیکن کبھی بھی ہم آئین کو تہ و بالا کرنا، عدلیہ کو تہ و بالا کرنا کسی بھی ادارے کو تہس نہس کرنا اور کوئی نقصان دینا اس کی ہم حمایت نہیں کرسکتے۔


صحافی کا سوال: 

مولانا صاحب کا جواب: آرٹیکل 9 اب آگیا ہے لیکن اب یہی بات تو ہمارے لیے سوال ہے میں نے آپ سے پہلے بھی کہا کہ اس کے بعد کچھ تبدیلی ہوئی ہے تو پتہ نہیں وہ کیا ہے تو ایک مسودہ، پھر دوسرا مسودہ، تیسرا مسودہ اور سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس تشویش میں کیوں رکھا جا رہا ہے یہ کنفیوژن کیوں ہے اور پارلیمنٹیرینز اگر اپنی قانون سازی کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہوں وہ کیا آئین سازی اور قانون سازی کرسکتے ہیں۔


صحافی کا سوال: 

مولانا صاحب کا جواب: ناراض تو نہیں ہونگے آپ؟ کیونکہ آپ کو جو جواب دیتا ہوں میں وہ کچھ اور بن جاتا ہے تو دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اپوزیشن بینچوں پہ ہیں پی ٹی آئی بھی اپوزیشن بینچوں پہ ہے اور ہم قومی اسمبلی میں آٹھ اراکین کے ساتھ سینٹ میں پانچ اراکین کے ساتھ جبکہ وہ 80 اور 90 اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی میں موجود ہیں، ایک پارٹی جو حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن میں ہو اور اپوزیشن کے خلاف بھی اپوزیشن کرے یہ تو دنیا میں پارلیمانی رواج نہیں ہے، اس وقت باقاعدہ ہمارا کوئی اتحاد نہیں ہے، بہرحال اس دوران میں جب یہ 26 ویں ترمیم لائی گئی تو اس پر حکومت بھی برابر ہمارے ساتھ رابطے میں رہی، پی ٹی آئی بھی برابر ہمارے ساتھ رابطے میں رہی، دن میں کئی کئی میٹنگیں ہماری ہوتی رہیں، میں ان کے خیالات بھی سنتا تھا ان کے خیالات بھی سنتا تھا اور پھر ہم آپس میں بیٹھ کر اس پر غور کر کے اپنی ایک جماعتی رائے بناتے تھے، اس وقت ہمارا ان سے کوئی اتحاد ایسا باضابطہ نہیں ہے نہ کسی تحریک کے لیے البتہ جو پارلیمانی رول ہے اس میں ڈے ٹو ڈے ایشوز پر ہم بات کر سکتے ہیں اس پر ہم ایک مشترکہ موقف بھی لے سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا باقاعدہ اتحاد نہیں ہے البتہ بہتر ہے ہم اس چیز کو ایک مثبت سفر سمجھتے ہیں کہ ہمارے جو تلخیوں والا ایک دور تھا اگر وہ اعتدال پہ آتا ہے اور ایک بہتر تعلقات کی صورت بنتی ہے تو اس کی طرف ہمیں بڑھنا چاہیے۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: دیکھیے اگر وہ غلط چیز پر وہ مُصر ہے کہ ہم نے غلط کام کرنا ہے اور اس کے لیے جہاں سے بھی چاہیں لوگوں کو توڑ تاڑ کے اور مفادات بھی پھر ایک سوداگری والا کام ہوگا ہم اس سے دور رہیں گے اور ان شاءاللہ اصولی سیاست کریں گے اپنا موقف دیں گے اور مجھے یقین ہے ان شاءاللہ کہ اگر انہوں نے ایسی حرکت کی اور ہم نے اس پر رد عمل دیا تو وہ ایسا نہیں کر سکتے۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: میرے خیال میں اگر ایک پارٹی چیئرمین وہ یہ سمجھتا ہے کہ مِس کمیونیکیشن ہوئی ہے اور اس کو نہیں ہونا چاہیے تو میں اس کو اپریشییٹ کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کچھ سمجھے اور ہم کچھ سمجھے اور اگر ہم کسی اتفاق رائے تک پہنچتے ہیں تو میرا خیال میں یہ ایک اچھی علامت ہوگی پاکستانی سیاست کے لیے۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: دیکھیے میں پھر وہی لفظ دہراؤں گا کہ بات تو بعض دفعہ اچھی ہوتی ہے اصولاً ہم اس کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن اس موقع پر اور اس طرح کا کرتب دکھانا اس کے پیچھے نیت کیا ہو سکتی ہے وہ ذرا آپ خود سوچ لیں، ایک غلط ترمیم کو پاس کرنے کے لیے فوری طور پر اتنا بڑا اقدام کر رہے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ ان کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں پہنچے گا بس یہ ہے کہ جو لوگ ان کی خدمت لے رہے ہیں شاید وہ خدمت کا مصداق بنیں۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: آپ نے تو بڑی تصویر کھینچی ہے مجھے کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی شاید، دیکھیے بنیادی بات پھر وہی ہے کہ ہم نے ایک آئینی رول ادا کرنا ہے اور بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ہماری اسمبلیاں جو ہیں وہ عوام کی منتخب جو ہے وہ نہیں ہوا کرتی وہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کی بنیاد پر اور ان کی نادیدہ کارکردگی کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ وہ اقتصاد پہ کنٹرول کر سکتے ہیں، نہ وہ امن پہ کنٹرول کر سکتے ہیں، نہ وہ عوام کو مطمئن کر سکتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی منتخب حکومت اور اس کا موقف عوامی سطح پر رد کیا جا رہا ہے، میں آپ کو ایک عجیب لطیفے کی بات بھی ہے یعنی ہم شکایت کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس مسودہ نہیں ہے، مسودہ ہے تو کون سا مسودہ ہے لیکن ہمارے موقف کی تائید اس وقت پبلک میں زیادہ ہے اور جو لوگ ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں عوام دیہاتوں میں محلوں میں بازاروں میں گھروں میں ان کے پاس تو سرے سے مسودے کے کوئی ہوا ہی نہیں گئی تو جن کے پاس بالکل ہی مسودہ نہیں ہے وہ کیوں رد کر رہے ہیں اس بات کو جب کہ ہم تو ساری چیزیں ڈاکومنٹس دیکھ رہے ہیں ان پر تبصرہ کرتے ہیں ان پر رائے قائم کرتے ہیں یہ ہے وہ عوامی سوچ جو اس وقت سامنے آئی ہے کہ کیا یہ پارلیمنٹ واقعی عوام کی امنگوں کے ترجمان ہے؟ میرے خیال میں نہیں ہے۔ 


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: دیکھیے ایسے ماحول میں لوگ بٹ جاتے ہیں ایک ہم لوگ ہوتے ہیں جو کسی پرابلم کو انجوائے نہیں کر سکتے ذمہ داری کے ساتھ ہمارا پورا فوکس ہوتا ہے کہ ہم اس پر کیا رائے قائم کریں اس کو کس طرح حل کریں، ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو اس صورتحال کو انجوائے کرتا ہے، تو اس ساری صورتحال میں میں کم از کم اس بات سے متاثر نہیں ہوں کیونکہ ہم نے مقصد کو دیکھنا ہے کاز کو دیکھنا ہے عوام کی خواہشات کو دیکھنا ہے ان کی ضرورتوں کو دیکھنا ہے آئین کو تحفظ دینا ہے پارلیمنٹ کو تحفظ دینا ہے عدلیہ اور فوج کے اپنے دائرے کار کو تحفظ دینا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ادارے طاقتور ہوں اور اپنے دائرہ کار میں کام کریں۔ 


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: کیا اچھا ہوتا کہ پارلمان یہ کردار ادا کرتی جو آپ فرما رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ایسا کردار ادا کر رہی ہے جس میں عوام کی خدمت کم اور طاقتوروں کی خدمت زیادہ ہے۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: ایک تو آپ بنیادی مسئلے کی طرف جائیں گے کہ ہم اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے جی، ہم اس اسمبلی کو عوام کا نمائندہ نہیں کہتے، ہم اس حکومت کو عوام کو نمائندہ نہیں کہتے اور فوری طور پر ہم دوبارہ عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں یہ ہمارا بنیادی اصول جی اور اس پر ہم قائم ہیں اس کے لیے ہم آواز بھی اٹھاتے ہیں لیکن چونکہ میری پارٹی یہ طے کر چکی ہے کہ ہر چند کے ہمارا یہ موقف ہے کہ ہم الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے جیسے 2018 میں ہم نے نہیں کیا تھا تاہم پارلیمانی رول جو ہے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے، پارلیمانی رول سے اگر ہم بالکل ہٹ جاتے ہیں تو پھر معاشرے میں کیا اس پر اثرات ہوتے ہیں وہ منفی اثرات بہت زیادہ ہوں گے تو ہم اپنے پارلیمانی رول کو بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنا موقف بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: دیکھیے کچھ باتیں تو ایسی ہیں جو اگر پبلک کی طرف سے مطالبہ آتا ہے چاہے وہ کے پی میں ہے چاہے وہ بلوچستان میں ہے کہ ہمارے جو لاپتہ افراد ہیں ان کو بازیاب کیا جائے یا ان پر کھلے مقدمات لگائے جائیں اور ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تو یہ ایک جائز مطالبہ ہے ہمارے نظر میں اور میرے خیال میں جب کسی کی اس طرف نظر نہیں تھی تو مجھے یاد ہے میں نے کوئٹہ کے میزان چوک میں اس مسئلے پر تقریر کی تھی اور سخت الفاظ کے ساتھ کہا تھا کہ گمشدگی جو ہے یہ ایک خاندان کے لیے انتہائی کرب کا باعث ہوتا ہے جی لیکن اب لوگوں کو اپنے بچے تو مہیا کرو، ان کے پیارے تو ان کے ساتھ ملاؤ کہیں سے، تو یہ ایک بنیادی پرابلم ہے دوسری وجہ یہ ہے حضرت کہ لڑائی تو ہر جگہ پر ہے بلوچ ایریاز میں بھی ہے پشتون ایریاز میں بھی ہے، آج بھی شمالی وزیرستان میں جنگ ہو رہی ہے جنوبی وزیرستان میں بھی جنگ ہو رہی ہے، ہمارا ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں یہاں تو مغرب کے بعد پولیس نظر ہی نہیں آتی اور موٹر ویز تک کو بالکل چھوڑ دیا ہے ان کی حفاظت کرنا بھی چھوڑ دیا انہوں نے تو جہاں ریاست جو ہے وہ آپ کے تحفظ کے لیے تیار ہی نہیں ہے وہ اپنے تھانوں میں جو ہے وہ سکڑ جاتی ہے اور رات کے وقت کوئی نظر نہیں آتا تو پھر مسلح گروہ ہی جو ہے وہ گلی کوچوں میں اور سڑکوں میں۔۔۔۔ 


صحافی کا سوال: مولانا صاحب حال ہی میں چند دن پہلے افغانستان کے قونصل خانے کے لوگ قومی ترانے میں کھڑے نہیں ہوئے اس کے اوپر بڑی بحث ہے۔۔۔

مولانا صاحب کا جواب: زیادہ تر یہ سوال وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ کے سامنے بھی کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہوتے اور جھنڈے کے لیے کھڑے ہونے کو فرض عین سمجھ لیتے ہیں، کھڑا ہو گیا تو احترام ہے ہم تو سب کھڑے ہو جاتے ہیں جی۔

صحافی: اگر کھڑے نہیں ہوئے تو؟

مولانا صاحب: کچھ نہیں ہوتا، کوئی آسمان نہیں گرتا۔


صحافی کا سوال: ۔۔۔۔۔ 

مولانا صاحب کا جواب: سرسری طور پر تو میں نے دیکھا ہے اس کو اور جو کام وہ پارلیمنٹ میں نہیں کر سکے اس کو پارلیمنٹ سے بائی پاس کر کے آرڈیننس کے ذریعے وہ لا رہے ہیں، تو آرڈیننس جو ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہوگا اس پر اعتراضات ہوں گے، جب پیپلز پارٹی نے ہم سے بات کی ہے اور ہم نے سنجیدگی سے ان کی گفتگو کو لیا ہے اور ہم بڑے سنجیدگی کے ساتھ چاہتے ہیں کہ ان امور کے اوپر ہم ایک پیکج پہ ہم اتفاق کر لیں ایک مسودے پہ ہم اتفاق کر لیں تو یک طرفہ طور پر اگر پریزیڈنسی سے ایسا آرڈیننس جاری ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تو صدر بھی ہے لیکن پیپلز پارٹی کا کو چیئرمین بھی ہے تو وہ اپنی پارٹی کے رخ کو تبدیل کر رہے ہیں اور یہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو ائی کے مفاہمت کے درمیان رکاوٹ بن سکتی ہے۔ 


صحافی کا سوال: کسی دوست ملک کے ذریعے آپ پر دباؤ ڈالا گیا، کیا یہ سچ ہے؟ 

مولانا صاحب کا جواب: بھئی آپ حضرات اپنے چینلوں پہ بیٹھ کر ڈیسک پہ بیٹھ کر جو چاہیں کہیں میرا اس سے کوئی سروکار نہیں۔


صحافی کا سوال: آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اپنا ٹینور پورا کرلے گی؟ 

مولانا صاحب کا جواب: میرا تو خیال یہ نہیں ہے کہ وہ پورا کر سکتی ہے کیونکہ ان کی جو پالیسیاں سامنے آرہی ہیں، عوام کے اندر بہت زیادہ ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے، لوگ مہنگائی سے تنگ ہو چکے ہیں، ہر فرد جو ہے وہ تکلیف محسوس کر رہا ہے، بجلی نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس کوئی سکت ہے تو وہ بھی جنریٹر چلاتے ہیں اور اس میں جو خرچہ آتا ہے اس کا آپ خود اندازہ لگائیں کہ کس طریقے سے مڈل کلاس کے لوگ بھی وہ بھی مشکل میں مبتلا ہیں، تو اس سارے صورتحال میں عوام تو ویسے بھی مطمئن نہیں ہے اور یہ جو آج پبلک جس کے پاس مسودہ ہی نہیں ہے جنہوں نے کچھ پڑھا ہی نہیں ہے لیکن جذباتی طور پر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ نہیں جانا چاہیے یہ وہ پبلک کی ناراضگی ہے کہ حکومت ان کے زندگی کو آسان نہیں بنا سکے اور ان کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ بہت بہت شکریہ


ضبط تحریر: محمد ریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

ویڈیو: مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملہ سمیت اہم ایشوز پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی ملتان میں اہم پریس کانفرنس

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, September 20, 2024


0/Post a Comment/Comments