قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب کا بول نیوز کے پروگرام تبدیلی ڈاکٹر دانش کے ساتھ میں خصوصی گفتگو


قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب کا بول نیوز کے پروگرام تبدیلی ڈاکٹر دانش کے ساتھ میں خصوصی گفتگو
 22 ستمبر 2024

السلام علیکم
تبدیلی ود ڈاکٹر دانش کے ساتھ حاضر ہیں ایک اہم انٹرویو اہم وقت میں اہم شخصیت کے ساتھ ہماری خوش نصیبی ہماری چینل کی خوش نصیبی کہ آج جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہمارے ساتھ ہیں آپ کا بہت شکریہ سر، آپ نے ایک دن کے وزٹ میں ہمیں ٹائم دیا ہے آج کی انٹرویو کے لیے آپ کا بہت شکریہ
بہت ہی اہم خبر سے آج اپنا سٹارٹ کرتا ہوں اور یہ یروشلم پوسٹ کی خبر ہے اور یہ خبر میں انہوں نے عمران خان صاحب کو اسرائیل کا حمایتی کہا ہے اس خبر میں اور انہوں نے ان تمام باتوں کو جو کہ اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا اب سے کچھ دنوں پہلے کہ عمران خان اور اسرائیل کے حوالے سے کیا ریلیشن شپ ہے اس کی تصدیق کر دی ہے آپ نے اس کے اوپر بہت بات چیت کی ہے پہلے بھی، تو اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب تو یوروشلم پوسٹ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان صاحب اور اسرائیل بہت قریب ہیں کیا کہیں گے سر؟
مولانا فضل الرحمان: تو ظاہر ہے جی کہ اب میں نے تو یہ باتیں کوئی بارہ تیرہ سال تک کہیں ہے بڑے تسلسل کے ساتھ کہی ہیں اور اب جو خبریں سامنے آرہی ہیں اب کچھ ڈیوٹی تو آپ کی بھی ہے نا کہ آپ آئندہ تبصرہ کرتے رہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ہم نے اپنے رائے کا اظہار بھی کیا اور اپنے رائے کا اصرار بھی کیا ہے تو میرے خیال میں وہ اظہار بھی کافی تھا اور وہ اصرار بھی کافی تھا مزید تبصرے میں آپ کے لیے چھوڑنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر دانش: سر کیوں وہ جو یہ جو اب ظاہر ہے آپ نے بات تو ہم پر ڈال دی ہے عمران خان اسرائیل کی حمایتی ہیں آپ یہ بات کافی عرصے سے اور بہت بلند طریقے سے آپ نے ان چیزوں کو اسٹیبلش کیا جو آج خود اسرائیل کے اخبار اور یروشلم پوسٹ اس کی اہمیت بھی ہے سر، کہا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ بولتے ہیں ان کی بڑی امپورٹنس ہوتی ہے تو آپ کے موقف میں تو عمران خان کی اس بیانات کے حوالے سے کوئی تبدیلی تو نہیں آئی ہے سر؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے یہ اس حوالے سے میں عرض کروں یہ تو میری جماعت کا فیصلہ تھا کہ ہم نے اپوزیشن میں بیٹھنا ہے اب ظاہر ہے کہ ہم نے سات اٹھ سیٹوں کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنا تھا جبکہ اپوزیشن بینچوں پر پی ٹی آئی کوئی ستر اسی سیٹوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اب یہ تو ممکن نہیں ہمارے لیے کہ ہم حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن کریں اور اپوزیشن کے خلاف بھی اپوزیشن کریں، تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس بات کو ترجیح دی اور پارلیمانی کردار کے لیے ہونا بھی یہی چاہیے کہ ہم نے ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک پالیسی دی اور چونکہ وہ خود میرے گھر تشریف لائے تھے بڑے بڑے وفود کے ساتھ اور ایک دن نہیں بلکہ دو دن مسلسل آئے اور اس کے بعد ہم نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ جمعیۃ علماء اسلام کے جو آپ کے بارے میں تحفظات ہیں وہ نہ اتنے ہیں کہ ہم کہیں کہ آپ ہمارے درمیان کوئی پردہ ہے نہ اتنے ہیں کہ آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی دیوار ہے بلکہ اتنے ہیں کہ جیسے آپ کے اور ہمارے درمیان پہاڑ ہیں تو یہ ایک لمحے میں پہاڑ جو ہے وہ سر نہیں کیے جاسکتے تو اس لحاظ سے آپ کو جے یو آئی کے تحفظات دور کرنے ہوں گے اور انہوں نے اس پر اتفاق کیا لیکن تحفظات دور کرنے کے لیے بھی بلکہ مذاکرات کرنے کے لیے بھی تو ماحول چاہیں گے، تو یقیناً ہم نے ایک دوستانہ ماحول بنانے میں کردار ادا کیا اور دونوں نے کیا وہ انہوں نے بھی کیا ہم نے بھی کیا اور اب ہم اس پوزیشن پہ آگئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ ماحول میں مذاکرات کر سکتے ہیں اور بات چیت کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: اچھا سر میڈیا رپورٹس ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ عمران خان صاحب سے میں تو وہاں نہیں تھا لیکن میڈیا رپورٹ ہے عمران خان صاحب سے مولانا فضل الرحمان صاحب کے بارے میں جب پوچھا گیا تو عمران خان صاحب نے کہا کہ ان پر ہمیں اعتماد نہیں ہیں اور وہ ان کی کردار بڑے مشکوک ہیں تو اس پر آپ کیا کہیں گے؟ آج بھی عمران خان صاحب آپ کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان: یہ میرے رپورٹ میں تو نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ جب اسد قیصر کے ہاں ہمارا کھانا تھا دوپہر کا تو ایک صحافی نے سوال کیا وہ اس انداز میں کیا کہ آج آپ کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا تو میں نے بھی ازراہ مذاق کہا کہ میں بھی جواب نہیں دیتا لیکن اس تفصیل کے ساتھ یہ رپورٹ یہ میرے ہاں رپورٹڈ نہیں ہے تاہم میں نے آپ کو اپنی بات مکمل نہیں کی کہ اب ہم نے کمیٹی بنائی ہے اور انہوں نے بھی کمیٹی بنائی ہے اس وقت تک ہم نے نہ کوئی ایسا ایونٹ کیا ہے کہ صاحب آپ کے اور ہمارے جلسے مشترک ہوں گے یا ہم سڑکوں پر مل کر آئیں گے تو اس حوالے سے ابھی تک تو ہم بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں جو کمیٹیوں کی گفتگو ہے وہ بھی بڑے ابتدائی مراحل میں ہیں ایون کہ ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے ہر چند کہ ہمیں اپنے رائے پر اصرار نہیں ہے اور نہ ہی ہم کوئی زور دے رہے ہیں لیکن شاید آپ کے اور ہمارے موقف میں فرق ہو اور دونوں کے رائے اس پر مختلف رہے جو بھی فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گی اس پر ہر پارٹی اپنا اپنا ردعمل دینے میں آزاد ہوگی تو اس حد تک تو بات چیت ہمارے اور ان کے درمیان ہوئی ہے۔
ڈاکٹر دانش: اچھا سر یہاں پر ایک بڑی امپورٹنٹ بات ہے جو میں کرنا چاہوں گا اور ظاہر ہے آپ کو بہت لوگ اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے بارے میں آپ کی رائے سب کو پتہ ہے اس کا آپ نے ابھی بھی بتایا کہ یہ باتیں آپ تو بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں جو کہ یروشلم پوسٹ نے اس کی تصدیق کی ہے اور ٹائمز آف اسرائیل اخبار نے اس کی دعوے کیے تھے تو اس جماعت کے ساتھ آپ کا آگے اتحاد بنتا ہوا اگر کوئی چیز بنتی ہے تو اس پہ کوسچن تو اٹھے گا نا سر؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیں میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنا تجزیہ اپنا رائے پیش کرنا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ، مجھے کوئی یہ نہیں معلوم کہ عمران خان اور ان کے پارٹی کے آئندہ کے عزائم کیا ہے ہم نے بھی سیاست کیا ہے لیکن میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ خبریں ہیں اور یہ ان کے پرانا حال احوال دے رہے ہیں کسی زمانے میں میں بات کر رہا تھا اور یہ خاموش تھے تو اب وہی باتیں وہ کر رہے ہیں لیکن اس کا امکان تو موجود ہے کہ اب ان کا وہ ہدف ناکام ہو چکا ہے اب وہ مقاصد اور نصب العین ان کے نہیں رہے ہیں اب وہ شاید اپنے طور پر اس کے برعکس سوچ رہا ہو تو یہ موقع تو ہم ان کو دینا چاہیں گے نا کہ اگر ان ساری چیزوں سے وہ رجوع کرتے ہیں اور جیسے وہ کہتے بھی ہیں کہ یوٹرن جو ہے وہ اچھے لیڈر کی علامت ہوتی ہے تو یہ چیزیں اگر سافٹ ہو جاتی ہیں اور معاملات بہتر ہو جاتے ہیں اور آئندہ جو کوئی ایسے عزائم نہیں ہیں اور یہ پرانی خبریں ہیں جو آرہی ہیں اور وہ ہمارے جو گفتگو ہوتی تھی اس کی تصدیق کر رہی ہیں تو میں اس پر اس لیے بھی سخت بات نہیں کروں گا بالکل بھی نہیں کروں گا اس لیے کہ اب یہ کمیٹی فارم کر دی ہے۔
ڈاکٹر دانش:  چلے سر میں آگے چلتا ہوں، میں آتا ہوں سر آصف علی زرداری صاحب بڑے عرصے بعد آپ سے انہوں نے آکر ملاقات کی خود چل کر آئے آپ کے پاس کوئی خاص بات سر؟
مولانا فضل الرحمان: زرداری صاحب ہمارے بہت پرانے دوست ہیں ہمارے بھائیوں کی طرح تعلقات ہیں اور میرے گھر ان کی تشریف اوری جو ہے اس میں میں سوچتا ہوں میرا گلا ہے کہ انہوں نے دیر کر دی بہت دیر کر دی مجھے بہت پہلے توقع تھی کہ وہ تشریف لائیں گے تا ہم دیر آید درست آید والی بات ہے لیکن اس میں کوئی ایسی باتیں نہیں ہوئی ہیں کہ جس کو ہم سیاسی خبر کہہ سکیں اور اس کو ہم میڈیا کے حوالے کہہ سکیں جی بس وہ معمول کے مطابق تو آپ اپنی ناراضگی ختم کریں آپ میرے خیال میں کھانا کھا لیں اس وقت، تو اس طرح سے مسکراتے بات چیت ہوئی ہے۔
ڈاکٹر دانش: کوئی علیحدگی میں گفتگو نہیں ہوئی؟
مولانا فضل الرحمان: علیحدگی میں یہی باتیں ہوئی ہے۔
ڈاکٹر دانش: کوئی خاص ایسا مدعا جس کے اوپر کوئی ایسی بات آپ نے کچھ چھیڑا ہو؟
مولانا فضل الرحمان: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی اور اس وجہ سے ان کو پھر جلدی بھی جانا پڑ گیا اور پھر میں فالو کرتا رہا ان کو وہ کوئی ڈاکٹرز نے ان کو دو تین دن ارام کرنے کے لیے بھی کہا ان کے جو مصروفیت تھی وہ بھی منسوخ کر دی انہوں نے، تو ظاہر ہے کچھ طبیعت میں ایسی بات ہو گی۔
ڈاکٹر دانش: تو پرانے دوست ایک دفعہ پھر مل گئے سر
مولانا فضل الرحمان: جی کہہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: اب یہ کنٹینیو آگے رہے گا سر، اچھا سر دیکھا ہم نے وزیراعظم پہلے ملے پھر صدر صاحب بھی آگئے پھر صدر صاحب چلے گئے پھر وزیراعظم صاحب آئے تو شہباز شریف صاحب جب ملاقات آپ کرتے تھے ایک طرف تو پی ایم ایل این کے وہ ظاہر ہے ان کی بھی حیثیت ہے اور دوسری طرف جو ہے وہ وزیراعظم پاکستان ہے تو ان کی ملاقات اور پھر ان تمام ماحول کوئی اہم گفتگو سر؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے میاں نواز شریف صاحب ہوں یا میاں شہباز شریف صاحب ہوں اس خانوادے کے ساتھ حضرت میرا بہت پرانا تعلق ہے وہ تعلق اختلاف کی صورت میں بھی رہا ہے اور اتفاق کی صورت میں بھی رہا ہے، ہم وضع دار لوگ ہیں تعلقات کا احترام کرتے ہیں ابھی بھی لحاظ کر رہے ہیں ابھی بھی ان کا احترام ہمارے دل میں ہے لیکن جہاں تک سیاسی موقف کا تعلق ہے تو ہم نے واضح طور پر ان سے یہ کہا کہ دیکھیے پہلے بات تو یہ ہے کہ ہم نے ایک پوزیشن لی ہوئی ہے اور سات آٹھ مہینوں میں ہم نے چاروں صوبوں میں ملین مارچ کیے ہیں ابھی لاہور میں جو ہمارا جلسہ تھا شاید لاہور کی تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ نہیں ہوا ہوگا جو ختم نبوت کے حوالے سے تھا اور مزید بھی ہم آگے پروگرام رکھتے ہیں تو میں نے کہا آپ لوگ بھی تو سیاسی زندگی میں نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں آپ بھی نیب کے اور ایف آئی اے کے اور ان کی تحقیقات کے اور جیلوں سے اور جلاوطنیوں سے گزرے ہیں، کیا کبھی آپ کے لیے کبھی ممکن رہا کہ ایک دم اپنا سارا سیاست کا رخ تبدیل کر کے جو ہے تو ایک یوٹرن آپ لے سکیں گے تو جس طرح سیاسی لوگ سمجھتے ہیں ان چیزوں کو کہ ایک سیاسی جماعت کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے ایک سٹانس لے لیا ہے اور اس میں ہم کوئی فوری طور پر بدل کر سکیں ہم اس الیکشن پر اعتماد نہیں کر رہے اور اس وقت میں نے ان کو یہ بھی کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ ملاقات نہ ہو آگے پیچھے بھی باتیں ہوتی رہتی ہے ہماری تو میں نے ان سے کہا جی آپ اس وقت پاکستان پر ایک اقلیت حکومت کر رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ کی اپنی تعداد تو اتنی نہیں ہے کہ وہ حکومت کر سکے پیپلز پارٹی ان کے ساتھ بینچوں پر بیٹھی ہوئی ہیں جو حکومت کا اپنے آپ کو شامل نہیں کہہ رہی ہے جی صرف ان کو سپورٹ دے رہی ہے تو سپورٹ دینے والی قوت جو ہے وہ ہٹ جاتی ہے تو پھر حکومت بھی چلانا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اب یہ ایک کمزور پوزیشن ہے کہ آپ کے ساتھ وہ حکومت میں شریک نہیں ہے وہاں سہارا دیے ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپوزیشن مضبوط ہے تو یہ ساری صورتحال ملک کی جو ہے اور پارلیمان کی جو ہے وہ آپ کو حق نہیں دے رہی ہے کہ آپ حکومت کرنے کا اب آپ حق نہیں رکھتے سیدھی بات یہ ہے۔
ڈاکٹر دانش: آپ نے سامنے کہہ دیا کہ آپ حق نہیں رکھتے؟
مولانا فضل الرحمان: میں تو کہتا رہتا ہوں میں نے ان کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں کہا ہے اسمبلی میں بھی کہا ہے۔
ڈاکٹر دانش: کیا جواب دیا سر انہوں نے کے اسی مقصد کے لیے آئے تھے کہ جی وہ آپ کو کوئی پیش کش کریں سر؟
مولانا فضل الرحمان: ظاہر ہے وہ تعلقات کو ذرا نرم رکھنے کے لیے یا کوئی یہ خیال رکھتے ہوں گے سمجھتے ہوں گے وہ سیاسی لوگ ہیں اتنا تو وہ بھی سمجھتے ہیں کہ فضل الرحمان کے لیے ایک دم جس طرح تبدیلی یا ڈائیورشن جو ہے۔
ڈاکٹر دانش: وہ تو میں سوال کروں گا سر، اچھا سر ایک سوال کلئیر کریں کہ میڈیا میں آیا ہے میں چاہتا ہوں کلئیر ہونا چاہیے آپ ہی کے زبان سے ہونا چاہیے کہا گیا کہ میاں نواز شریف صاحب مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملنے آرہے تھے اسلام آباد آچکے تھے مولانا فضل الرحمن صاحب نے نواز شریف سے ملنے سے انکار کر دیا کوئی ایسی بات ہوئی؟
مولانا فضل الرحمان: لا حول ولا قوۃ، میں تو ان کی پارٹی کی دوسری تیسری قیادت کے آنے سے بھی انکار نہیں کیا تو میں ان کی قیادت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اس طریقے سے تو، خبر مجھے بھی ملی تھی کہ شاید وہ آرہے ہیں لیکن ان کی طرف سے تو باضابطہ رابطہ نہیں ہوا اور میڈیا میں میں نے دیکھا جی تو اس کے بعد مجھے یہ اطلاع آئی کہ نہیں پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا ہے اور میاں صاحب بھی وہاں پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں اور دوسرے تمام پارٹیوں کے سربراہان بھی پہنچ گئے ہیں تو آپ بھی چلیں تو میں وہاں گیا تو پارلیمنٹ نہیں تھا اور وہ جو خصوصی کمیٹی ہے اس کا اجلاس تھا تو میں اس کے اجلاس میں چلا گیا اور باقی باتیں پھر وہاں اجلاس میں ہوتی رہی لیکن اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو سکا اس لیے کہ وہ ایک ترمیم کے لیے بلایا گیا تھا اس وقت ان کی تعداد پوری نہیں ہو رہی تھی تو میاں صاحب پھر واپس چلے گئے انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ بات چیت کا کوئی فائدہ ہے نہیں اور تعداد پوری نہیں ہے حکومت کی۔
ڈاکٹر دانش: ہوم ورک پورا نہیں تھا اس لیے میاں نواز شریف صاحب بھی چلے گئے حالانکہ وہ ووٹ کاسٹنگ کرنے کے لیے آئے تھے۔
مولانا فضل الرحمان: میرا اندازہ یہ تھا کہ وہ شاید اپنے ساتھیوں پر ناراض ہو کر واپس گیا ہوں۔
ڈاکٹر دانش: لیکن آپ نے ان سے ملنے سے انکار نہیں کیا یہ تو کلیئر ہو گیا۔ اچھا سر یہ تو بلاول بھٹو صاحب
مولانا فضل الرحمان: بلکہ میں تو آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ ہر چند جو حکومت میں ہے ہم اپوزیشن میں ہے جس طرح میں شجاعت حسین صاحب کے گھر جا سکتا ہوں میں میاں صاحب کے گھر بھی جا سکتا ہوں کوئی مشکل نہیں میرے لیے۔
ڈاکٹر دانش: اگر میاں صاحب نے بلایا
مولانا فضل الرحمان: اگر نہ بھی بلایا تو بھی جا سکتا ہوں لیکن یہ ہے کہ سیاسی ملاقاتیں ضرورتوں کے ساتھ ہونا چاہیئے۔
ڈاکٹر دانش: لیکن یہ تو ساری خبر چلی گئی ہے بہت امپورٹنٹ کہ آپ کسی بھی وقت میاں صاحب سے مل سکتے ہیں اور اگر میاں صاحب آپ کو بلائیں گے تو آپ فوراً جائیں گے ملاقات کریں گے؟
مولانا فضل الرحمان: کوئی اشکال نہیں ہے لیکن موقف ہمارا اپنا ہوگا وہ جو گفتگو ہوگی دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر دانش: آپ نے بھی نواز شریف کو بہت سے معاملات میں کنونس کیا ہے میاں صاحب نے بھی آپ کو کنونس کیا ہوگا؟
مولانا فضل الرحمان: میں عرض کروں کہ جتنے بھی حضرات آئے ہیں میرے خیال میں جتنا ہم سے ہو سکا شائد ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکے ہوں گے اس میں کوئی شک نہیں ہم کمزور ہیں لیکن جتنا ہم سے ہو سکا ہم نے کوشش کی کہ ہم پورے احترام کے ساتھ ان کو ریسیو کریں احترام کے ساتھ ان کو سی آف کریں اور جو ایک مہمان کا احترام ہو سکتا ہے تو
ڈاکٹر دانش: بلاول صاحب دو دفعہ آگئے سر آپ کے پاس، وہ کیوں آئے تھے؟
مولانا فضل الرحمان: دو دفعہ سے زیادہ بھی آسکتا ہے۔
ڈاکٹر دانش: نہیں سر دو دفعہ آئے تھے کسی خاص مسئلے پہ آئے۔
مولانا فضل الرحمان: وہ آئے تھے جی اس پہ جی کہ وہ جو مسئلہ ہو گیا تھا جو آئینی ترمیم عدالتی ترمیم کا مسئلہ تو اس پر ان کا خیال یہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی اپنا ایک ڈرافٹ بنا دے اور جے یو آئی اپنا ایک ڈرافٹ بنا لے اور ہم پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور وکلاء اس پر بیٹھ کر ایک جس پہ اتفاق ہو سکتا ہے وہی اتفاقی نکات نکال کے اسی کو پھر ہم اسمبلی میں پیش کر سکیں تو میں نے کہا یہ بھی ایک مثبت پریکٹس ہے آپ بھی کر لیتے ہیں ہم بھی کر لیتے ہیں تو جہاں پہ بات ٹھہر جائے گی پتہ چل جائے گا اتفاق کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: تو یہ دوسری ملاقات میں یا پہلی ملاقات میں؟ پہلی ملاقات میں تو انہوں نے آپ سے ریکویسٹ کی ہوگی کہ سر مہربانی کریں سب کچھ سجا ہوا ہے ہر چیز تیار ہے آپ آئیں اور آکے اس ووٹنگ کرنے۔
مولانا فضل الرحمان: نہیں ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی بلکہ وہ خود بھی جیسے کچھ اپنے دل میں تحفظات کی ہوئی تھی آئین ترمیم کے بارے میں اور ان کی گفتگو لب و لہجہ سے یہی اندازہ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ بھی کچھ تحفظات رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: مسودہ دیکھا تو انہوں نے سر یا اسی دن دیکھا جس دن آپ سے ملاقات کی؟
مولانا فضل الرحمان: مجھے جب پہلی ملاقات جب ہوئی اور وہ میرے پاس موجود تھے جب مجھے پتہ چلا کہ ہمارے گھر میں مسودہ آگیا ہے مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ ان کے پاس بھی پہلے سے آیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر دانش: کپڑے کے تھیلے میں تھا، تھیلے میں لپٹا ہوا تھا؟
مولانا فضل الرحمان: یہ تو ریسیو کرنے والے کہتے ہیں کہ کالے تھیلے میں تھا۔
ڈاکٹر دانش: تو سر وہ مسودہ آگیا آپ کے پاس اور بلاول بھٹو صاحب دو دفعہ آئے اور آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ جی آپ بھی تیار کریں ہم بھی تیار کریں۔ اب سر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسا ترمیم جو ہر طرف سے پذیرائی خاص طور پر 2006 میں جو میثاق جمہوریت کا تھا وہ اس کا حصہ تھا آپ بھی اس کا حصہ تھے بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی تھیں میاں نواز شریف صاحب بھی تھے کانسٹیٹیوشنل کورٹ، آپ اس کے کتنے داعی ہیں سر؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے میں یہ بات ضرور عرض کروں گا کہ میثاق جمہوریت جن پارٹیوں کے درمیان طے ہوا تھا اس پہ ہم موجود نہیں تھے اور ہم اس کے دستخطی بھی نہیں ہیں لیکن بعد میں مختلف فورمز پر جب کوئی ایسے ریزولوشن آئے تو ہم نے اس پر ہاں کیا ہے ظاہر ہے جب ہاں کر دیا تو ہم بھی پابند ہو گئے اس کا ہمیں بھی اتفاق کر لیا ہے اور اس ڈاکومنٹس میں یہ بات بڑی سراحت کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ ایک کانسٹیٹیوشنل کورٹ ہونی چاہیے، تو ایک دستوری کورٹ ہو اور اس میں صرف سیاسی جو مقدمات ہوتے ہیں آئین کی تشریحات ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ تو وہ اسی وہی بورڈ ڈسکس کرتا رہے اور جو ساٹھ ہزار عام لوگوں کے کیسز اس وقت سپریم کورٹ پہ پینڈنگ ہے ان پر ان لوگوں کے اوپر بھی رحم کیا جائے تاکہ ان کے کیس جلد نمٹائے جا سکیں اور پورے ملک میں حضرت چھوٹے عدالتوں سے لے کر بڑے عدالتوں تک چوبیس لاکھ کیسز ایسے ہیں کہ جو پینڈنگ پڑے ہیں تو خیر کوئی عام آدمی کو کوئی حق نہیں ہے عدالتوں سے ان کو انصاف کی توقع ہوتی ہے تو اب یہ ہے کہ اس پر تو ہمیں اتفاق تھا لیکن حکومت نے جو جو ان کے رائے تھی اور اس کو ہم نے رد کیا تھا ان کی رائے یہ تھی کہ ہم ججوں کی مدت ملازمت میں اضافہ اس پر ترمیم لائے اور سپریم کورٹ کے ججز میں اضافے کا ایک ترمیم لائے اور دونوں آئینی ترامیم بھی تھی ایکٹ کے تحت شائد نہیں ہو سکتی یا ایک ہو سکتا ہے دوسرا نہیں ہو سکتا تو اس حوالے سے ہم نے ان سے کہا کہ میں نے بلکہ اسمبلی میں تقریر کی اسی بنیاد پر کہ آپ آئینی ترمیم کر رہے ہیں اور یہ اتنی اہم چیز ہوتی ہے کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے اسی لیے تو اس میں رد وبدل کے لیے سخت شرط رکھی گئی ہے تو یہ اس کی استحکام اور اس کو مستحکم بنانے کے لیے یہ شرائط دی گئی ہیں، آپ صرف افراد کو ایک فائدہ پہنچانے کے لیے یہ بہانے بنا رہے ہیں کہ جی اس میں یہ فائدہ ہوگا یہ فائدہ ہوگا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے جی کہ فائز عیسیٰ صاحب کو انہوں نے بنانا تھا اور بنا لیا انہوں نے جی بس ایک فرد تک بات جائے گی دوبارہ لوگ سمجھتے ہیں باتوں کو اور میڈیا پہ تبصرے ہوتے ہیں اس سے لوگوں کو پیغام پہنچتے رہتے ہیں جی تو اس حوالے سے میں نے ایک تقریر کی اور میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ مدت میں اضافہ تعداد میں اضافہ ان باتوں کو چھوڑیں اب لانا چاہتے ہیں تو عدالتی اصلاحات لائے جوڈیشل ریفارمز لائے ہیں اور یہ جو فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ ہے اس کا بھی میں نے ذکر کیا اسی لیے کہ یہ پتہ تھا کہ وہاں پر جو ہے تو خیر بہرحال یہ باتیں جب میں نے کہی تو سپیکر صاحب نے مجھے متوجہ کیا کہ یہ ہم نے یہ خصوصی کمیٹی بنائی ہوئی ہے اگر آپ یہ تجاویز وہاں رکھ دیں تو بہتر ہوگا تاکہ وہ وہاں پر ڈسکس ہو سکے تو میں نے وہاں کمیٹی میں جا کر باتیں رکھی لیکن اس وقت کا پہلا اجلاس تھا اور چیئرمین ہمارے خورشید شاہ صاحب بنے تھے تو ان کو مبارکباد بھی دی اور میں نے اپنی بات کی تھی لیکن میں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس کمیٹی کی کوئی ٹی او آرز طے ہوئے ہیں ایجنڈا کیا ہوگا اس کا، تو وہ بھی اس وقت تک نہیں بنا تھا اگلے دن شاید پھر انہوں نے اس کو اناؤنس کیا۔
ڈاکٹر دانش: آپ اپنی سفارشات دے کے آگئے اس ایشو پہ کمیٹی کو؟
مولانا فضل الرحمان: جی ہاں، تو اس کے بعد پھر اگلے اجلاس میں بھی گیا ہوں اور اتنا پتہ چلا کہ وہ کیا رائے رکھتے ہیں کیا کیا کرنا چاہتے ہیں جی، تو ہم نے کہا کہ جی جو ہم نے اس کو مطالعہ کیا ہے آپ کے اس ترمیمی بل کا وہ تو سرے سے پورے آئین کا حلیہ بگاڑ رہا ہے اور ہم امین ہیں اگر پارلیمنٹ پہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم امین ہیں اس بات کے کہ ہم جو بھی بات کر رہے ہیں وہ نہ آئین کے خلاف ہو وہ نہ قوم کے مفادات کے خلاف ہو نہ ہو اداروں کو متاثر کریں نہ اس کو کمزور کریں، یہ تو سارے آپ عدلیہ کو کمزور کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ بنیادی انسانی حقوق کو آپ اس کے دائرے کو تنگ کر رہے ہیں اور اس میں جو ایک استثنائی کیفیت ہے زیادہ تر ملٹری کے حوالے سے ہے اس کو آپ دائرہ بہت وسیع کر رہے ہیں اور طاقتور بنا رہے ہیں ان کو اور مضبوط کر رہے ہیں تو یہ شاید پبلک پہ اچھا اثر نہیں ڈالے گا اس کا بڑا رد عمل آئے گا۔
ڈاکٹر دانش: اس کا مطلب ہے بیسک اختلاف آپ کا جو تھا ایک تو مسودہ آپ کو نہیں دکھایا گیا دوسرا آپ کی سفارشات جو تھیں جو کہ بہت اہم تھی اس کو انکلوڈ نہیں کیا گیا تیسرا جو سب سے زیادہ آپ کا اعتراض ہے وہ فنڈامنٹل رائٹس یعنی انسان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کیونکہ ججز کی تعداد تو ماضی میں بھی بڑھتی رہی ہے ایجز اوپر نیچے ہوتی رہی ہیں سر اور یہ سپیسیفک ایک جج کے لیے نہیں تھی تو جتنے بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں ان کی عمر بڑھ جائے گی اور ہائی کورٹ کے جج کی عمر بڑھ جائے گی اور اگر سترہ جج کی بجائے کیونکہ پینڈنگ کیس ہے اگر کانسٹیٹیوشنل کوٹ الگ بھی کیا جائے تب بھی اس کورٹ کو اور مزید اگر ججز مل جائے جیسے انڈیا میں 31 سے بھی زیادہ ہے تو سر اس پہ آپ کا اعتراض سمجھ میں نہیں آیا فنڈامنٹل رائٹس کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے بہت صحیح بات کی کہ بنیادی حقوق اگر انسان کے متاثر ہو رہے ہیں تو وہ تو بہت خراب چیز ہے تو آپ کا مین اعتراض یہی تھا بنیادی؟
مولانا فضل الرحمان: نہیں بات یہ ہے جی کہ آپ نے بڑی تو دلچسپ بات کہی کہ مسودہ نہیں دکھایا گیا اب ظاہر ہے مسودہ نہیں تھا ہمارے پاس جی، اب ہوا میں ہم لڑ رہے تھے اور ہم بار بار اِصرار کر رہے تھے کہ ہمیں مسودہ حوالے کرو  بہرحال وہ خدا خدا کر کے مل تو گیا لیکن جب ہم نے اس کو دیکھا تو وہ تو سرے سے آئین کا بھی حلیہ بگاڑ رہا تھا انسانی حقوق ختم ہو رہے تھے عدلیہ کو اتنا کمزور کیا جا رہا تھا حضرت کہ اگر آپ کوئی سرکار کا کوئی کیس ہے کسی ہائی کورٹ جج کے پاس اور وہ سمجھے کہ جج ہمارے خلاف جا رہا ہے تو اس کو فوراً ٹرانسفر کر دیجیے یا یہ کہ اس سے فوری طور پر یہ کیس لے کر دوسرے جج کے سامنے رکھ دے یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: حکومت کو
مولانا فضل الرحمان: ظاہر ہے جی
ڈاکٹر دانش: تو حکومت تو کل آپ کی بھی ہو سکتی ہے؟
مولانا فضل الرحمان: یہ غلط ہے غلط غلط ہے نا یہ اگر آج کی حکومت کی ضرورت ہے ہم وقتی ضرورتوں کے لیے آئین میں کرتے ہیں پھر وقتی ضرورت کے تحت ہم نے ماضی میں جتنے تجربے کیے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جمہوری لوگ بات جمہوریت کی کرتے ہیں ہم بات کرتے ہیں جمہوریت کو طاقتور بنانے کی ہم بات کرتے ہیں پارلیمان کو طاقتور بنانے کی لیکن عملاً پارلیمان مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہے جمہوریت مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے جوڈیشری کو ابھی کمزور کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر دانش: ابھی کا یہ بتائیے کیا اسٹیٹس ہے سر؟
مولانا فضل الرحمان: ابھی کوئی اعتراض نہیں ہے اس کے اوپر لیکن یہ ہے کہ وہ جو ایک سینیارٹی کو بنیاد بنا کر ترقی والی بات تھی تو اس پر ہم نے یہ کہا تھا کہ صرف سینیارٹی تو نہیں ہے دلیل، یہ بھی تو دیکھنا چاہیے ہے کاکردگی اس کی کیا ہے فٹنس کو بھی دیکھا جائے گا کہ اس قابل بھی ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ جائے چیف جسٹس بنے بیمار آدمی ہو، تو یہ ساری چیزوں کو مدنظر رکھ کر 
ڈاکٹر دانش: اس پر سر یہ جو اپوائنٹمنٹ آف ججز کے حوالے سے جو میرٹ آپ نے ابھی بتایا ہے اس پہ تو آپ کو اعتراض نہیں ہے نا؟
مولانا فضل الرحمان: میں آپ کو بتاؤں یہ ہمیں اعتراض بہت سی چیزوں پہ نہیں ہے لیکن جب اس کی تطبیق ہو رہی ہے اس پر عمل درآمد کا مرحلہ آتا ہے وہاں خراب کیا جا رہا ہے بہت سی چیزوں کو چیز اور یہ کان کو یہاں سے پکڑنے کی بجائے الٹی سائڈ سے پکڑنے والی بات ہے۔
ڈاکٹر دانش: صحیح جگہ سے پکڑیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان: حل ہو سکتے ہیں اب بات یہ ہے کہ مسئلہ نیتوں کا ہے ہر چیز تبدیل کی جا رہی ہے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ہر چیز تبدیل کی جا رہی ہے اپنی حکومت مفاد کے لیے یا اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کے لیے تو اب اگر ہم وقتی مفادات اسی تسلسل میں ہم نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے اسی تسلسل میں ہم نے پارلیمان کو کمزور کیا ہے یہاں پر ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی پنجوں کو مضبوط کیا ہے اور مسلسل مضبوط کیا ہے ہم کس منہ سے جمہوریت کی بات کر رہے ہیں ہم کس طرح جمہوریت کے علم بردار بن سکتے ہیں کیونکہ ہم ہر قدم ہر ہر پارلیمنٹ کے اندر اور ہر حکومت کے اندر فوج کے مفاد میں جاتا ہے اور اس کو تقویت دینے کے لیے جاتا ہے اور ہمیں کہتے ہیں جی ہم ناگزیر ہیں ہم ناگزیر ہیں یعنی ڈکٹیٹر ساری زندگی یہ تاثر قوم کو دیتا ہے کہ میں ناگزیر ہوں اگر میں نہ ہوا تو ملک نہیں ہے تو یہ چیزیں یہ تاثر جو ہے میرے خیال میں ہمیں لانا چاہیے کہ ملک مضبوط ہے ملک کے ادارے مضبوط ہیں ملک کا پارلیمان مضبوط ہے جمہوری عمل مضبوط ہے اور اس کو اس سمت میں لے جایا جائے کہ جہاں پر قوم مطمئن ہو سکے۔
ڈاکٹر دانش: اچھا سر یہاں پر میں آپ سے حجت کروں گا کہ پارلیمنٹ میں ہم نے بڑی تقریر سنی سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی تقریر سنی آپ لوگ کافی بیٹھے بندیال صاحب کی کورٹ تھی اس میں آپ نے فل کورٹ مانگا جو فیصلے آئے میاں نواز شریف صاحب الیکٹڈ وزیراعظم تھے ان کی حکومت کو جس طرح گرایا گیا غیر آئینی طور پہ پنجاب کے حکومت 63 اے پہ گرائی گئی ابھی آٹھ رکنی بینچ کا جو فیصلہ آیا ریزرو سیٹ کے بارے میں یقینا میں آپ سے پوچھوں گا کیا آپ سمجھتے ہیں۔ یہ ذولفقار علی بھٹو صاحب کو جو ہے وہ پھانسی دے دی گئی بے شمار جوڈیشری میں ایسے فیصلے ہیں 184/3 کا جو سوموٹو نوٹس کا ہے کہ تقریبا ستاون تو ثاقب نثار نے آپ کے
مولانا فضل الرحمان: جسٹس منیر کے زمانے سے گنے ناں
ڈاکٹر دانش: جسٹس منیر صاحب لے میں اس سے ہٹ نہیں رہا جسٹس منیر سے لے کر اگر 2024 تک ہم دیکھیں تو میرا اپنا یہ خیال نہیں ہے بہت سارے اسٹوڈنٹ آف لاء یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تباہی میں سب سے بڑا کردار جو ہے وہ عدالتی فیصلوں کا ہے جو جسٹس منیر سے لے کر آج تک ہوا ہے اور بھی ادارے ہیں اب ایک اور چیز بھی آتی ہے سر کے آپ انتظام، جج کی جو ریڈکشنز ہے آئین نے تو متعارف کیا ہوا ہے سر، پارلیمنٹ کی جو ریڈکشنز ہیں جوڈیشری کی جو ریڈکشنز ہیں ایگزیکٹو کی جو ریڈکشنز ہیں لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سر سوموٹو نوٹس کے تحت جسٹس افتخار نے یا جسٹس ثاقب نثار نے یا جسٹس بندیال نے یا ظہیر صاحب نے یہ جوڈیشل ایکٹیوزم پیدا کی اتنی طاقت دے دی کہ وہ انتظامی معاملات میں گھسنے لگے پارلیمنٹ کی طرف سے ہمیں تکلیف ملی سیاست دانوں نے اظہار کیا انتظامیہ نے اظہار کیا تو آپ نہیں سمجھتے سر کہ اس وقت جو عدالت ہے جس طرح ابھی آٹھ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا اور اس کے بعد وہ فیصلہ آپ کیسے دیکھتے ہیں لوگ اس کو ان کانسٹیٹیوشنل فیصلہ کہتے ہیں ری رائٹنگ آف دی کانسٹیٹیوشن میں جو ان کی اختیار نہیں ہے اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا فیصلہ مانو ہر صورت میں تو جوڈیشری آؤٹ آف وے جا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے اور ان کا احتساب بھی نہیں ہوتا ہے سر کسی جج کا احتساب بتا دی جسٹس منیر سے لے کر تو کیا ایسی عدالت کو جو خود ساختہ اختیار لے کر دوسروں کے اختیارات غصب کر رہی ہے اور بہت زیادہ آپ کے اپنے اختیارات سے تجاوز کام کر رہی ہیں اور ان کانسٹیٹیوشنل فیصلے کر رہی ہے اور اس کا کوئی بگاڑ بھی نہیں سکتا آپ نہیں سمجھتے کہ ان کو کنٹرول کیا جائے سر ان کی اصلاحات کی جائے جیسے دنیا میں ہوتا ہے؟
مولانا فضل الرحمان: ڈاکٹر صاحب آپ مجھے سپورٹ کر رہے ہیں یہ میرا دعویٰ ہے کہ آئینی اصلاحات ہونی چاہیے ایک تجویز تھی ہماری اور یہی انہوں نے مجھے جتلانے کی کوشش کی کہ آپ نے مدت ملازمت میں اضافے کی بات وہ ہم نے وہ واپس لے لی آپ نے ججز کی تعداد میں اضافے کو کہا کہ بھئی اس کو فی الحال چھوڑ دیں اور چھوڑ دیا آپ نے کہا کہ عدالتی اصلاحات ہونے چاہیے تو یہ بات میں نے اسی بنیاد پر کہی تھی کہ یہ ماضی مجھے معلوم تھی اور ہم نے ادارے کو اپنے دائر کار کے اندر اور اس کے اندر طاقتور بنانا تھا ہمارے ادارے اپنے دائرہ سے باہر جاتے ہیں اپنا ادارے کو کمزور کرتے ہیں دوسرے اداروں پر اپنا پنجا مضبوط کرنا اور ان کو ہاتھ ڈالنے کی طاقت جو ہے اپنے ہاں حاصل کرتے ہیں یہ سوچ اگر فوج میں ہے تب بھی غلط ہے یہ سوچ اگر عدلیہ میں ہے تب بھی غلط ہے یہ سوچ اگر پارلیمنٹ میں ہے تب بھی غلط ہے عدلیہ ہر قسم کے سپریم ہے لیکن پھر بھی کسی آئین کی تو پابند ہیں تو مین طاقتور چیز جو ہے وہ تو آئین کو ہونا چاہیے اور آئین اپنے اداروں کا جو دائرہ کار متعین کرتا ہے ہر ایک اپنی دائرہ کار کے اندر رہیں ان کے درمیان طاقت کا ایک توازن رہے اور اس توازن میں جو ہم ملک چلائیں گے تو فوج بھی مضبوط رہے گی عدلیہ بھی مضبوط رہے گی آپ کے بیوروکریسی بھی مضبوط رہے گی آپ کا پارلیمانی نظام بھی مضبوط رہے گا یہ چیزیں جو حرکتیں ہم کر رہے ہیں کہ وقتی ضرورتوں کے لیے اور ایک آئینی ترمیم لا رہے ہیں اس خیال سے کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو اوپر لانا ہے ان کے مخالف میں نے نیچے لانا ہے جب ہم افراد کو مدنظر رکھ کر آئین کے الفاظ استعمال کریں آئین کی اصطلاحات استعمال کریں یہ ہوتی ہے وہ بد نیتی کہ جس کی بنیاد پر پھر آپ دوسروں کے اعتماد میں بھی نہیں رہ سکتے یہ ہم نے موقف لیا ہے اور یہ باتیں بالکل صحیح ہیں آپ کی کہ آئینی اصلاحات ہونے چاہیے لیکن آئینی اصلاحات بھی ہو کہ کم از کم اس پر کس کا اختلاف ہے اور اس پر اپوزیشن اور حکومت کا اختلاف کیوں ہوگا لیکن اس طرح کا مسودہ تو لایا جائے نا تو ہم نے اختلاف اس بات پر کیا تھا کہ آپ نے جو ہمیں وہ مسودہ نہیں دکھلایا اور اب اندازہ لگائیں حضرت ہم نے تو پھر بھی کچھ تھوڑا بڑا پڑھا ہے کچھ تو پڑھا ہے چاہے آپ کو مسودہ ہو کچھ ہو میرا مسودہ کچھ ہو لیکن تبصرے کے لیے ایک ڈاکومنٹ تو ہے نا آگے عوام میں جو صورتحال بنی ہے انہوں نے تو سرے سے پڑھا ہی نہیں ہے نا وہ کیوں کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ مت دو یعنی وہ اعتماد کھو بیٹھیں پبلک ان کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھتی اس لیے دباؤ آتا ہے کہ آپ ان کے ساتھ نہیں جانا تو ان اصلاحات کی اگر ضرورت ہے تو پھر ہمیں سنجیدگی سے جانا چاہیے یہی ہم نے امید کی تھی چوھدری افتخار صاحب سے، وہ جسٹس افتخار ہم نے ان کے لیے تحریک چلائی میاں نواز شریف صاحب آل پارٹیز کانفرنس لندن میں بلائی ان ساری محنتوں کے بعد جب ان کو ہم نے واپس جگہ پہ بحال کیا تو پھر ہمارے ہی اوپر حملے کیے اور انہی کے لیے امتحان بن گیا اور ہمارے لیے امتحان بن گیا اور جج کے پاس، میں تو کتاب کا پابند ہوں میں تو آئین کے مطابق فیصلہ دے رہا ہوں میرے سامنے تو یہ چیزیں ان کے ہاں بھی الفاظ ہوتے ہیں فوج کے پاس بھی الفاظ ہوتے ہیں ہمارے پاس بھی الفاظ ہوتے ہیں بہت میٹھے خوبصورت اور معصوم قسم کے الفاظ و کلمات سے ہم ایک بری چیز، کہ بات تو سچی ہے کہ تمہارے ارادے غلط ہے تو اس چیزوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ہمیں ان چیزوں سے جلدی سے نکلنا ہوگا وقتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بجائے ہمیں ایک دائمی اصلاح کی طرف جانا پڑے گا۔
ڈاکٹر دانش: اچھا سر میں یہ ایک بہت ضروری ہے اور یہ لوگوں کی رائے ہے جو آتی ہے سیاست دانوں کا ہم احتساب دیکھتے ہیں انتظامیہ کا احتساب دیکھتے ہیں بیوروکریسی کا دیکھتے ہیں فوج کا بھی دیکھتے ہیں ان کا اپنا ہے خود ساختہ احتسابی عمل ہے اس میں کئی کوٹ مارشل ہم نے دیکھے ہیں ایڈمرل کے بھی دیکھیں ابھی ڈی جی آئی کورٹ مارشل آگئے لیکن سر جوڈیشری کا احتساب ہم نہیں دیکھتے بردر ججز حالانکہ ٹو اور نائن سپریم جوڈیشل کونسل ان کا موجود ہے آپ مجھے بتائیں سر کہ یہ آئین کی پامالی کریں یہ آئین توڑے یہ ان کانسٹیٹیوشنل فیصلہ کریں یہ الیکٹڈ وزیراعظم کو پھانسی لگا دیں یہ الیکٹڈ وزیراعظم کو ختم کر دیں یہ پنجاب کی حکومت کو ختم کر دیں اور خود اس کی تصدیق یہ خود کرتے ہیں کہ یہ سب ان کانسٹیٹیوشنل ہوا ہے پھر ہم مس کنڈکٹ دیکھتے ہیں کرپشن دیکھتے ہیں ججز ریفرنس جاتا ہے وہ ریزائن کرتے ہیں معاملات ختم ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی نے اپنے بعد سب سے زیادہ طاقت قاضی کو دی ہوئی ہے اور قاضی اپنا احتساب ہونے نہیں دیتا سر، انڈیا میں ہم دیکھتے ہیں دوسری جگہ دیکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں پارلیمنٹ اپنا رول ادا کرتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے اٹھارویں ترمیم جسے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک متفقہ ترمیم تھی ختم نبوت کے بعد یہ متفقہ ترمیم تھی اور اس کو چیلنج کرنا چاہا چوھدری افتخار نے، انہوں نے ہمیں انیسویں ترمیم پر مجبور کر دیا اور وہ جو ایک پارلیمانی کمیٹی بنی تھی جو کہ ججوں کی تقرری بھی اس کے سامنے سے گزرے گی وہ شق انہوں نے اڑا دی اور آج تک اس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور ترمیم کرایا گیا تو اس طرح 19ویں ترمیم جو ہے یہ اس میں پورے پارلیمنٹ کو اور حکومت کو بلیک میل کیا گیا اور کورٹ نے ہمیں بلیک میل کیا تو جب آپ پارلیمان کو جو سپریم ہے اس کو کوئی رول ہی نہیں دے رہے اور اس کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور یہ عوام کے نمائندے ہیں یہ آپ کو صرف ایک تصدیق دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے جو فیصلہ کر لیا اس کے پیچھے ہمارے پیچھے عوام ہے اور عوام کی تائید آپ کو حاصل ہے تو فوج بھی اگر لڑتی ہے تو پشت پر عوامی تائید ہونی چاہیے عدالت بھی اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس پر عوام کا اعتماد ہونا چاہیے بیوروکریسی اگر کوئی کام کرنا چاہے تو اس پر عوام جو اعتماد ہونا چاہیے یہ جو رشوتیں اور غبن جبر یہ چیزیں آجاتی ہے تو اس پر کون اعتماد کرے گا یعنی اگر پبلک کو یہ رپورٹ ہو جائے کہ اس قسم کی چیزیں ہیں۔ اب ہم سیاسی لوگ ہیں میں اگر بات کروں گا تو میں خبر کی بنیاد پر کرتا ہوں آپ عدالت ہیں آپ نے مجھے کہا کہ اپنی بات کیوں کہیے تو وہاں مجھے پھر دستاویز پیش کرنی پڑے گی اب ان چیزوں کی دستاویز ہوتی نہیں ہے لیکن ایک بات حقیقت بھی ہوتی ہے تاثر بھی اس کا بالکل صحیح ہوتا ہے لیکن اس قسم کی چیزوں میں ہمیں اصلاحات کی ضرورت پھر اصلاحات کا لفظ دوبارہ دہراؤں گا کہ اصلاحات بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر دانش: کون لائے گا سر پارلیمنٹ ؟
مولانا فضل الرحمان: پارلیمنٹ ہی لائے گی لیکن سلیقے سے لائے نا۔
ڈاکٹر دانش: مثلا آپ اس پہ متفق ہیں کہ عدالتوں کے ججز کا احتساب جو 2/9 کے تحت پارلیمنٹ نے بنایا تھا اس کے تحت نہیں ہو رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان: وہ تو ختم بھی کر دیا وہ کیا رہا ہے ہو ہی نہیں رہا تھا دیکھو بات یہ ہے کہ ہمیں یہ جو آپ کا ہے نا جی یہ مسودہ تو اس مسودہ کے بارے میں آپ ہم پہ اعتماد کریں جی اور ہم پہ اعتماد کریں ہم تو آپ ہی کی بات کر رہے ہیں اور ہم تو اپ ہی کی بات کر رہے ہیں ہم نے کہا دیکھو اعتماد جہاں تک بات ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے توحید کے لیے لڑ رہے تھے شرک کے خلاف لڑ رہے تھے آگ میں جھونک دیے گئے وہ پیغمبر اللہ کو کہتا ہے کہ کی آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تو اللہ کہتا تھا کیا تم مجھ کو یقین نہیں رکھتے تمہارا ایمان نہیں ہے اس کے اوپر، کہا ایمان ہے میں اپنے دلی اطمینان مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں تو پھر انہوں نے کہا دیکھو پھر پرندے لاؤ کاٹو اور مختلف پہاڑیوں پر رکھو کہ کس طرح آتے ہیں تو پیغمبر جو ہے وہ بھی کہتا ہے کہ میں اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتا ہوں ہمیں یہ حق بھی نہیں دے رہے تھے۔
ڈاکٹر دانش: ویلکم بیک، جی مولانا صاحب 2018 کی الیکشن کو بھی آپ نے ایکسیپٹ نہیں کیا تھا آپ وہ واحد شخص ہے جو کہہ رہے تھے کہ یہ غلط الیکشن ہے اس کو ختم کیا جائے 2024 کے الیکشن کو بھی آپ کہتے ہیں کہ یہ غلط کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کا یہ اسٹیٹمنٹ موجود ہے اب اس کی آپ تصدیق کیجئے گا کہ ملک میں جمہوریت اور ملک کے استحکام کے لیے آپ اپنی تمام خدمات دینے کو تیار ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں ارمان کرتے ہیں کہ جی ہم مولانا صاحب کے پاس جائیں گے یہاں انہوں نے اجلاس فٹ کر دیا ہے کہ ابھی رات کو 12 بجے اجلاس ہونا مولانا صاحب نے مان جانا ہے ہماری بات پتہ چلا مولانا صاحب نے اس دفعہ کہہ دیا کہ میں نہیں مانوں گا جب تک مسودہ نہیں پڑھوں گا یا ان اصلاحات کو جس کو میں نے میں سمجھتا ہوں صحیح بہتر نہیں ہوگا اس وقت تک
مولانا فضل الرحمان: حضرت ان کے پاس اصلاحات ہیں ہی نہیں اور عدلیہ کو خراب کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: میرا خیال ہے جنہوں نے بھی بنایا تھا انہوں نے اس پر ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ اچھا سر میں اس پہ آتا ہوں ابھی ایک اور ایک چیز فیصلہ ہوا ہے ریزرو سیٹ کے حوالے سے ظاہر ہے کہ اس کے اوپر ایک طرف پارلیمنٹ نے اپنا قانون لایا ہے دوسری طرف ججز جو ہیں وہ انہوں نے فیصلہ دیا ہے اٹھ رکنی جج جس کے بارے میں دو ججز نے بھی کہا کہ یہ ری رائٹنگ اف کانسٹیٹیوشن ہے پی ٹی آئی ہے ہی نہیں اس میں آپ سنی اتحاد کو دے دیتے سمجھ میں آتا ہے ایپلیکنٹ تھا یہ پاکستان میں کیا دنیا کے کسی جگہ پہ بھی اس کی ایسی ججمنٹ نہیں دی اب اس کو وہ کہتے ہیں مانو الیکشن کمیشن کو، ادھر وضاحت بھی کر دی ادھر پارلیمنٹ جو ہے وہ قانون لے کے آئی ہے اور اسپیکر نے خط لکھ دیا ہے تو اب آپ کی کیا رائے ہے کہ آیا سپریم کورٹ کی اس رائے کو یا جو اس فیصلہ ہے اس کو مانا جائے یا پارلیمنٹ نے جو الیکشن ہے 2017 کیا ہے اور اسپیکر نے جو خط لکھ کر الیکشن کمیشن کو دیا ہے وہ الیکشن کمیشن مانے؟
مولانا فضل الرحمان: میرے خیال میں قبل اس کے کہ ہم یہ کہے کہ انہوں نے جو کہا ہے وہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے اس سے ذرا تھوڑا پیچھے چلے جائیں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ عدالت منقسم ہے عدالت سیاسی ہو گئی ہے کچھ حصہ گورنمنٹ کو سپورٹ کر رہا ہے تو کچھ اس سے پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا ہے یہ خطرناک عمل ہے جو اس چیز سے پھوٹ کے آگئی ہے جو فیصلہ انہوں نے ایک دم اپیلیں کروا دیا اور نہ ایک کو سنا نہ دوسرے کو سنا نہ یہ دیکھا کہ ہم صحیح کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں اور یہ فیصلہ آ تو گیا ہے اب ہے تو عدالت کا فیصلہ لیکن کسی سطح پر بھی اس فیصلے پر اعتماد تو نہیں ہو رہا کہ انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ہے ہاں کسی کی مفاد میں جائے گا تو وہ کہے گا ٹھیک کیا ہے کسی کو نقصان میں جائے گا تو وہ کہے گا غلط کیا ہے لیکن مجھے ہر چند کے مخصوص نشستوں پر ہمارا بھی ایک موقف ہے اور پی ٹی آئی کے موقف سے ذرا مختلف ہے لیکن میں اپنے موقف پر اصرار نہیں کر رہا اگر مجھے کوئی فائدہ بھی مل رہا ہے تو میں اس پر کوئی زیادہ خوشیاں بھی نہیں منا رہا اور اگر نہیں ہوتی تو میں کچھ زیادہ ناراضگی کا بھی اظہار نہیں کر رہا ہوں ایک نارمل کیس کے طور پر لیتا ہوں کہ اگر اس طرح فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ صحیح ہوگا اس طرح فیصلہ ہو گیا تو غلط ہوگا لیکن یہ ہے کہ جو فیصلہ ہو جائے اس میں کوئی سروکار نہیں ہے اب یہ صورتحال تو سامنے آگئی ہے کہ اس فیصلے کو کسی سطح پر بھی قبول نہیں کیا جا رہا عدالتی فیصلے کو کسی کا ذہن ہی قبول نہیں کر رہا تو ایسے فیصلے کیوں دیتے ہیں جس سے کہ یہ اندازہ لگتا ہو کہ یہ ایک پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور دوسرا جو ہے وہ دوسرے پارٹی کو سپورٹ کر رہا ہے اس طرح فریق بن کر جب عدالت کا تاثر جائے گا یا کسی جج کا تصور جائے گا وہ کیا عدلیہ کے لیے مفید ہے کیا اس میں اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے پھر اور ہم اسی کو سپورٹ کریں۔
ڈاکٹر دانش: لیکن سر آپ یہ بتاتے ہیں کہ عدالتی فیصلہ جو کسی بھی لیول پر سپورٹ نہیں ہو رہا اس کی کوئی ججمنٹ بھی نہیں مل رہی ہے کانسٹیٹیوشن میں بھی نظر نہیں آرہا ہے اس کے اوپر بے تحاشہ رائے آپ کی بھی یہی رائے اب آئی سر میں یہ سوال پوچھیں کہ پارلیمنٹ نے جو قانون سازی کی ہے الیکشن ان 2017 ریزرو سیٹ کے حوالے سے، اب ظاہر ہے پارلیمنٹ ہے قانون سازی کر سکتی ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ
مولانا فضل الرحمان: اس حوالے سے بھی میرا جواب وہی ہے کہ جو فیصلہ بھی ہو جاتا ہے کیونکہ فیصلہ تو ہو رہا ہے وہ بھی تو الیکشن کمیشن کے تابع جا رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن جو ہے وہ آزاد ہے اور کورٹ کے کسی فیصلے کا وہ پابند نہیں ہے تو اس سائڈ پر سپیکر ہے اب سپیکر بھی تو ظاہر ہے جی کہ وہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس حوالے سے جو ہے وہ
ڈاکٹر دانش: لیکن جو قانون سازی ہوئی ہے الیکشن 2017 آپ اس سے متفق ہیں یا نہیں؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیں یہ کچھ چیزیں ہوتی ہیں جی کہ
ڈاکٹر دانش: اس میں ووٹ دیا ہے سر؟
مولانا فضل الرحمان: میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں کچھ چیزیں وہ ہوتی ہیں کہ ہم نے ضرور ان میں اگر ووٹ دیا ہے تو ہم اعتراف کریں گے اس کا لیکن ان حالات میں ایک چیز اگر صحیح بھی ہو تو اس کا کل غلط فائدہ اٹھانا
ڈاکٹر دانش: یہ فائدہ غلط اٹھایا لیکن سر قانون تو صحیح بنا یا نہیں بنا، مولانا کے جواب پر ڈاکٹر دانش کی ریپلائی اچھا قانون صحیح ہے تو سر الیکشن کمیشن کو ظاہر ہے فیصلہ کرنا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان: قانون اگر غلط بھی ہو نا تب بھی وہ نافذ العمل ہے ہاں ماننا پڑتا ہے اس کو
ڈاکٹر دانش: یہاں تو صرف فیصلے بھی نہ جو غلط ہوں وہ بھی نافذ ہو
مولانا فضل الرحمان: وہ تو خود عدالت نے بھٹو کے فیصلے کا کیا حشر کر دیا۔
ڈاکٹر دانش: تو یہی تو میں سوال اٹھا رہا تھا کہ سر
مولانا فضل الرحمان: عدالت خود کہتی ہے کہ ہمارا فلانا فیصلہ غلط تھا نواز شریف والا فیصلہ دیکھ لیں کئی فیصلے ہیں سارے فیصلے جو ہیں فیصلہ دینے میں وہ کوئی جب دقت محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش: وہ تو بہت زبردست بات کر دی کہ اس وقت جوڈیشری جو ہے وہ گروپنگ کا شکار ہے سر ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں دوسری طرف حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں اب سر ایک اور چیزیں آرہی ہیں اس پر میں آپ کی رائے لے لینا چاہتا ہوں کہ چیف الیکشن کمشنر جو ہیں وہ اب آخری ان کا ٹینور اور میرا خیال ہے ایک آدھ مہینہ رہ گیا ہے تو ایسی صورتحال میں سننے میں آرہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو بھی پارلیمنٹ توسیع دے سکتی ہے اگر ان کو توسیع دی جاتی ہے تو آپ کی کیا رائے ہے اس پہ؟
مولانا فضل الرحمان: تو اپنے آپ کو توسیع کیوں نہ دے دے اس کی بھی تو گنجائش نہیں ہے میرے خیال میں تو اصولی طور پر ان حالات میں جبکہ اعتماد کی فضا نہیں ہے اور پورے پارلیمنٹ پر لوگ اعتماد نہیں کر رہے اسمبلی کی اس انتخاب پر لوگ اعتماد نہیں کر رہے ہمیں ایسے فیصلے نہیں دینے چاہیے کہ جس سے تاثر پیدا ہو کہ یہ چونکہ الیکشن کمیشن ہمارے فائدے میں جا رہا ہے تو اس کو ذرا مزید وقت دے دیا جائے اور کوئی اور آتا ہے تو وہ شاید ہمارے فائدے میں نہ جاتا ہو تو اس قسم کی چیزیں اصولاً تو ٹھیک نہیں ہوتی وہ تو اپنے صوابدید کے مطابق اختیار بنتا ہے وہ کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش:چلیں اچھا سر یہ بتائیے کہ عمران خان صاحب فوجی عدالت کے تحت بہت ساری رائے ہے اس پہ کافی ترمیم بھی ججمنٹ بھی آچکی ہے فوجی ایکٹ کر رہی ہیں عمران خان صاحب کے دور میں بھی کئی سویلین کا ٹرائل ہوا اب سننے میں آرہا ہے کہ عمران خان صاحب جن کیسز میں ہیں وہ جنرل فیض ریٹائرڈ فیض اور نو مئی کے حوالے سے ان کا کیس تقریباً فوجی عدالت کے لیے بنتا ہے عدالت ظاہر ہے ایک اپنی رائے رکھتی ہے ابھی اس نے دینا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کا کیس فوجی عدالت میں چلتا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے دور میں چلایا بھی ہے اور وہ فوجی عدالت کے بہت حامی بھی تھے کئی سٹیٹمنٹ موجود ہے تو ان کیسز کے اوپر جہاں فوجی عدالت میں کیس عمران خان صاحب کا بنتا ہے وہاں اگر یہ جاتا ہے کہ تو آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں سر؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے یہ تو قانونی چیزیں ہیں اور کوئی کیس کسی کا بنتا ہے تو میں تو کسی سیاسی نظریے کے تحت یہ نہیں کہہ سکتا کہ بھئی کیونکہ میں اختلاف کرتا ہوں اس لیے یہ نہیں ہونا چاہیے تو اس کے آئینی اور قانونی پوزیشن پر تو ماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں اور ملٹری کورٹس جو ہے وہ تو ہر حکومت نے میری رپورٹس کے مطابق کیس بھیجے ہیں خود عمران خان نے بھیجے ہیں نواز شریف صاحب انہوں نے تو خصوصی عدالتیں بھی کسی زمانے میں مقرر کیے تھے تو ہر حکومت اپنی ضرورت کے تحت تو کام کرتی ہے کل وہی چیزیں ان کے گلے پڑ جاتی ہے اب جو پہلے سے چل رہا ہے اگر اس کے اندر کوئی کمزوری ہے تو اس کو درست کیا جائے یہ نہیں کہ اور بگاڑ دیا جائے۔
ڈاکٹر دانش: مستقبل کیا نظر آتا ہے سر عمران خان کا آپ کو، یہ سوال میں ہمیشہ آپ سے کرتا ہوں اور آپ جواب دیتے رہے ہیں ماضی کے تو آپ کو مستقبل کیا نظر آتا ہے ان کا؟
مولانا فضل الرحمان: مستقبل کے حوالے سے تو ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہم تو اس حالات میں جا رہے ہیں اور یہ جو دارومدار ہے کہ مستقبل کیا ہوگا اس میں زیادہ تر ان مقدمات کا بھی دخل ہے جو اس زیر سماعت ہے اور اس کی وجہ سے کچھ سیاسی لوگ حکومتیں کر رہے ہیں کوئی عدالتوں میں جا رہے ہیں تو اس پر دارومدار ہے کہ کیا رائے سامنے آئیں گے اس کے اور کیا فیصلے کریں گے۔
ڈاکٹر دانش: مثلا میں آپ ان کو کہاں دیکھتے ہیں نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں دوبارہ سیاست کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان: میں تو حضرت ذاتی طور پر کسی بھی سیاستدان کی گرفتاری کے حق میں نہیں ہوتا میں نے خود گرفتاریاں گزاری ہیں ان حالات سے گزرا ہوں اور میرے خلاف کوئی ایسا سیاسی کیس۔
ڈاکٹر دانش: لیکن سزا اور جزا کا تصور تو اسلام میں ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان: وہ تو ہونا چاہیے جرم کیا ہے تو سزا ہونی چاہیے کیونکہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے عدالت نے فیصلہ کرنا ہے لیکن دیانت کے ساتھ کرے۔
ڈاکٹر دانش: اچھا سر تین شخصیات کی سیاست آگے نظر نہیں آتی لوگ کہتے ہیں آصف علی زرداری صاحب کی بیماری کافی ہے تو عمران خان کا بھی میں نے آپ سے سوال پوچھ لیا تو ظاہر ہے کہ بہت بڑے بڑے کیسز ہے تو لوگ کہتے ہیں شائد اب وہ سیاست میں نہ ہو میاں نواز شریف صاحب کی بھی سیاست اب نظر نہیں آرہی آپ کیا سمجھتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے سیاست کا دارومدار یہ ہے کہ آپ پر قوم کتنا اعتماد کرتی ہے اگر میں آج پارٹی بناؤں اور دس سال کے بعد میں پورے پاکستان پہ چھا جاؤں ایک سال پہلے پارٹی بنتی ہے اگلے سال جو ہیں وہ صوبے پر چھا جاتی ہے جیسے بلوچستان میں ہوا ایک سال پہلے پارٹی بنتی ہے اور کوئی ملک پہ حکومت کرتی ہے جیسے ق لیگ بنائی گئی تو ایسی سیاست کا تو کوئی مستقبل نہیں ہوتا وہ وقتی طور پر کچھ اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال میں آجاتے ہیں باقی اگر جہاں تک نواز شریف صاحب کا تعلق ہے ٹھیک ہے ان کے فوج کے ساتھ تعلقات تھے فوج نے ان کو سہارا دیا اس مقام پر پہنچایا لیکن جب ان پر آزمائشیں آئیں تو مقابلہ کیا اور اپنی سیاسی قوت جو ہے انہوں نے محفوظ کر لی یہی صورتحال بھٹو صاحب کے بعد تھی پیپلز پارٹی کی کہ انہوں نے مقابلہ کیا بینظیر بھٹو میدان میں آئی اور انہوں نے اپنی پارٹی پوزیشن دوبارہ بنالی وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہے جی کہ یہ تو نہیں چلے گا کہ بھٹو صاحب کی امانت ہے یہ بھی نہیں چلے گا کہ نواز شریف صاحب کی امانت ہے پارٹی کا کردار بھی ایسا ہونا چاہیے کہ اس پر پبلک اعتماد کر سکے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے جس طرح سندھ میں حکومت بنی ہے اور ہمیں کہہ رہے ہیں کہ یہ پارٹی بڑی مقبول ہیں یا کے پی میں حکومت بنی ہے تمہارے ہاں تو بڑی مقبول ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے ایسا ہونا چاہیے کہ اس پہ عوام تبصرہ کرے اب انڈیا ہے انڈیا میں اتنا بڑا الیکشن ہوتا ہے کہ دو مرحلوں میں ہوتا ہے اور ایک ایک حلقے میں کئی لاکھ ووٹ دے دیتا ہے تب جاکر وہ کامیاب ہوتا ہے۔
ڈاکٹر دانش: تو نواز شریف صاحب کی سیاست مستقبل
مولانا فضل الرحمان: دارومدار ان پہ ہے۔
ڈاکٹر دانش: ابھی آپ کو کوئی نظر آتی ہے ان کی سیاست آج کل؟
مولانا فضل الرحمان: آج کل کی سیاست جو ہے اس میں اس وقت تو مجھے جمیعۃ ہی نظر آرہی ہے۔
ڈاکٹر دانش: آپ کا بہت شکریہ سر، آج آپ نے وقت نکالا ہمارے لیے آپ کا بہت شکریہ اللہ حافظ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments