7 ستمبر مینار پاکستان میں گولڈن جوبلی ختم نبوت کانفرنس۔ حافظ مومن خان عثمانی


7 ستمبر مینار پاکستان میں گولڈن جوبلی ختم نبوت کانفرنس

حافظ مومن خان عثمانی

نشتر میڈیکل کالج ملتان کے مسلمان طلباء تفریح کے لئے سوات جاتے ہوئے قادیانیوں کے مرکز ربوہ ریلوے اسٹیشن پر گزر رہے تھے گزرتے ہوئے انہوں نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا جو قادیانیوں کو بہت برا لگا، سوات سے واپسی پر جب 29 مئی 1974ء کو طلباء کی گاڑی یہاں پہنچی تو قادیانیوں نے گاڑی کو روک لیا اور باقاعدہ تیاری کے ساتھ لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان مسلمان طلباء کو مارا پیٹا جس سے بہت سارے طلباء زخمی ہوگئے، جب یہ خبر فیصل آباد پہنچی تو مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا اور مولانا تاج محمودؒ کی قیادت میں قادیانیوں کے خلاف جلسہ جلوس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس طرح یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی، چوہدری ظہور الٰہی نے قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی تحریک پیش کی لیکن 4 جون کو قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی سات تحریکیں مسترد ہونے پراپوزیشن ارکان نے ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے واک آؤٹ کردیا۔

پنجاب بھر میں سانحہ ربوہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اکثر شہروں میں ہڑتال ہوئی متعدد مقامات پر قادیانیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو نزرآتش کیاگیا پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کی بعض مقامات پر فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہوئے اور سینکڑوں مظاہرین گرفتار ہوئے، ملتان میں انتظامیہ نے کالج کے تمام ہوسٹل بند کردئیے اور طلباء کو فوری طور پر گھروں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ پورے شہر میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کا گشت شروع ہوا، 9 جون 1974ء کو امیر تحریک ختم نبوت حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی طرف سے ایک اجتماع رکھا گیا جس میں بیس جماعتوں کو دعوت دی گئی تھی۔ اجلاس میں حضرت بنوریؒ کے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود،ؒ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ، نوابزادہ نصراللہ خان،ؒ چوہدری غلام جیلانی،ؒ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق،ؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ نے شرکت کی۔ حضرت بنوریؒ نے اجتماع کے اغراض ومقاصد بیان کئے اور کہا کہ ہمارا یہ اجتماع صرف ایک دینی عقیدہ کی حفاظت کے لئے ہے یہ اجتماع ختم نبوت کے مسئلے پر ہے اس کا دائرہ آخر تک محض دین رہے گا۔ ہمارے مدمقابل صرف مرزائی امت ہوگی ہم حکومت کو ہدف نہیں بنانا چاہتے اگر حکومت نے ان کی حفاظت کی یا ان کی حمایت میں کوئی غلط قدم اٹھایا تو اس وقت مجلس عمل کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔ اس اجلاس میں مجلس عمل کی طرف سے 14 جون کو ملک گیر ہڑتال اور قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کیاگیا۔ اس دوران حکومت نے مجلس عمل کے قائدین سے ملاقات کی۔ مجلس کی طرف سے حضرت بنوری ؒ نے اپنے مطالبات پیش کردئے۔ چنانچہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا حزب اختلاف کے ۲۲ ارکان نے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اور اس میں قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دینے کا فیصلہ ہوا۔ 22 اگست 1974 کو حزب اختلاف کے چھ راہنماؤں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، مولانا شاہ احمد نورانی،ؒ چوہدری ظہور الہیؒ، مسٹر غلام فاروق ؒ اور سردار مولا بخش سومروؒ اور حزب اقتدار کے مسٹر عبد الحفیظ پیرزادہ پر مشتمل ایک سب کمیٹی کی تشکیل دے دی گئی۔ سب کمیٹی کے ذمہ یہ کام لگا کہ وہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعہ قادیانی مسئلے کا متفقہ حل تلاش کریں۔ اگست 1974ء تک تحریک ختم نبوت کے تمام اکابر بالخصوص جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور جانشین حضرت لاہوریؒ حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ نے ملک کے چھوٹے بڑے بیسیوں شہروں میں جلسوں، جلوسوں اور خصوصی ملاقاتوں سے ملک بھر میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں شمع نبوت کے جذبات کو بھڑکا کرںایک شعلہ جوالہ بناڈالا۔ بھٹو حکومت بوکھلاہٹ کا شکار بن کر جذباتی ہوتی چلی جارہی تھی۔چونکہ تحریک کا مرکز ہمیشہ کی طرح لاہور ہی تھا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 20 اگست کو لاہور میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی اور تمام جائزوں سے واضح کیا کہ لاہور میں اصل محرک مولانا عبیداللہ انورؒ ہیں جن کی ان تھک دوروں کی وجہ سے ملک بھر میں عوام وخواص تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ اسی اجلاس میں مولانا عبیداللہ انورؒ کو گرفتار کرنے اور انہیں کوٹ لکھپت کی سخت ترین جیل کی کوٹھڑی میں (جہاں سزائے موت دئے جانے والوں کو چندروز رکھا جاتا ہے) بھیجنے کے احکامات صادر کردئیے گئے۔

جمعہ 23 اگست 1974ء کو حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ کو جامعہ مسجد مرکز خدام الدین حضرت امام لاپوری شیرانوالہ گیٹ لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔ حضرت اقدسؒ اپنے ساتھیوں کو جب جیل میں دیکھتے تو فرماتے اگر جان کام آجائے اور ختم نبوت کے باغیوں کا قلع قمع ہوجائے تو یہ سستا سودا ہے۔ 7 ستمبر 1974 ء تک پندرہ شب وروز حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ نے سزائے موت والی کوٹھڑی میں جان پر کھیل کر وقت گزارا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانیوں پر جرح جاری تھی۔ قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کی پارلیمانی زندگی کا اہم ترین واقعہ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت پیش آیا جب اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے ملت مرزائیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد سے بحث کرتےٹت وقت قومی اسمبلی میں کہہ دیا کہ میں تیاری نہیں کرسکا، آج جرح نہیں ہوسکتی۔ اس پر قائدملت اسلامیہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ؒنے کھڑے ہوکر فرمایا آج کے اجلاس کے لئے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے فرائض انجام دیتاہوں۔ اسمبلی کے فلور پر سناٹا چھا گیا۔ ایک عالم دین، مدرس اور مفتی بھلا کیا اٹارنی جنرل بنے گا؟ لیکن قومی اسمبلی کی تاریخ میں محفوظ ہے کہ جب کہ قائد جمعیۃ علماء اسلام مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے مرزا ناصر پر جرح کرتے ہوئے مسلمانوں کے مرزائیوں کے خلاف جملہ اعتراضات پیش کئے اور مرزا ناصر کو عقیدہ ختم نبوت کے بنیادی ۷۱ سوالات بطور جرح کئے تو اسمبلی کے اجلاس کے اختتام تک مرزا ناصر سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور یہ کہا کہ کل جواب دوں گا، اسمبلی سے چلاگیا۔ مسلسل تین روز تک مرزا ناصر جرح کے ایک سوال کا جواب بھی نہ دے سکا۔ 22 اگست سے پانچ ستمبر 1974 کی شام تک اس کے بہت سے اجلاس ہوئے مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہو سکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، سندھ میں دو اور پنجاب میں تین سیٹیں اور چھ اقلیتوں کے نام یہ ہیں: عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔ حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے کہ ان چھ کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لئے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست پڑتا تھا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا، اس کو رہنے دیں۔ مفتی صاحب نے کہا، جب اور اقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔ پیرزادہ نے جواب دیا، یہ اقلیتی فرقوں کا ڈیمانڈ تھا اور مرزائیوں کا ڈیمانڈ نہیں۔ مفتی صاحب نے کہا یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اور ہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کے ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔ 7 ستمبر 1974 کو اسمبلی نے فیصلہ سنانا تھا۔ ادھر سب کمیٹی 5 ستمبر کی شام تک کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکی۔ چنانچہ 6 ستمبر کی صبح کو مسٹر بھٹو نے مولانا مفتی محمودؒ سمیت سب کمیٹی کے چھ ارکان کو پرائم منسٹر ہاؤس بلایا جہاں دو گھنٹے کی مسلسل گفتگو کے باوجود بنیادی نقطہ نظر پر اتفاق رائے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اپوزیشن سمجھتی تھی کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔ بڑی بحث و تمحیص کے بعد مسٹر بھٹو نے یہ جواب دیا: میں سوچوں گا اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں دوبارہ بلاؤں گا۔“ عصر کو اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ پیرزادہ نے مفتی صاحبؒ سمیت دیگر ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ تار دراصل پیچھے سے ہلایا جارہا تھا۔ اپوزیشن نے اپنا موقف پھر واضح کیا کہ دفعہ 106 میں چھ اقلیتی فرقوں کے ساتھ مرزائیوں کی تصریح کی جائے اور بریکٹ میں ”قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ“ لکھا جائے۔ مسٹر پیرزادہ نے کہا، وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔مفتی صاحب نے کہا، ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے، احمدی تو ہم ہیں، ”چلو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار لکھ دو۔“ پیرزادہ نے نکتہ اٹھایا، دستور میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا۔ حالانکہ دستور میں حضرت محمد ﷺ اور قائداعظم کے نام موجود ہیں۔ اور پھر سوچ کر بولے، مفتی صاحب مرزا کے نام سے دستور کو کیوں پلید کرتے ہو؟الغرض 7 ستمبر 1974ء ہماری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب 1953ء اور 1974ء کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہوا:

”جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئینی یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔“

دستور ۶۰۱ کی شکل یوں بنی: ”بلوچستان، پنجاب، سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص فاضل نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان ایک، سرحد ایک، پنجاب تین، سندھ دو۔قومی اسمبلی کے اس تاریخی فیصلہ کے بعد قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمود جب اسمبلی ہاؤس سے باہر نکلے تو سیدھے راولپنڈی میں واقع دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت پہنچے۔ وہاں حضرت مفتی صاحب ؒ کا بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ حضرت مفتی صاحب ؒ پہنچے تو سالارِ قافلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر اور مجلس عمل ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ مصلے پر سجدہ ریز تھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے، آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ مفتی صاحب ؒ تشریف لائے اور انہوں نے آواز دی۔ ”حضرت! اللہ پاک کا شکر ہے، ہمارا مطالبہ مان لیا گیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے۔“ محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ دوبارہ سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لائے۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہہ رہے تھے، ”اللہ پاک ہم آپ کا شکر کیسے ادا کریں، آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔“ سجدہ سے اٹھتے ہوئے فرمانے لگے، ”اللہ نے مجھے سرخرو کیا ہے۔ مرنے کے بعد امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒسے ملاقات ہوئی تو میں کہہ دوں گا کہ آپ کے مشن میں تھوڑا سا حصہ ڈال کر آیا ہوں۔ آپ نے ختم نبوت کے جس پودے کو پانی دیا تھا، میں اسے پھل لگے ہوئے دیکھ آیا ہوں۔ اس طرح نوے سال سے مسلمانوں کو شدید پریشانی سے دوچار کرنے والا مسئلہ طویل جدوجہد کے بعد حل ہوگیا اور پاکستانی قانون میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار غیر مسلم اقلیت قرار دے دئے گئے۔7 ستمبر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے تمام تر سیاسی، مسلکی، گروہی ،لسانی، علاقائی اور نسلی تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنا کردار اداکریں کیونکہ اگر آپ ﷺ کی عزت وناموس محفوظ ہے تو ہمارا ایمان محفوظ ہے اگر خدا نخواستہ اس پر کوئی حرف آیا تو پھر بقول امام المحدثین حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒہم سے گلی میں پھرنے والا کتا بہتر ہے اگر ہم آنحضرت ﷺ کی عزت وناموس کا تحفظ نہ کرسکے۔ 7 ستمبر 2024 کو یوم دفاع ختم نبوت کے موقع پراس دفعہ قادیانیت کے خلاف ہونے والے فیصلے کے پچاس سال مکمل ہونے پر ”گولڈن جوبلی ختم نبوت کانفرنس“ مینار پاکستان کے سایہ تلے بڑے جوش وخروش سے منعقد ہورہی ہے اس عظیم الشان اجتماع سے قائد جمعیت مولانافضل الرحمن، عالمی مجلس ختم نبوت کے امیر حضرت مولاناحافظ ناصرالدین خاکوانی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا سمیت مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کے اکابرین خطاب کریں گے۔ یہ اجتماع قادیانیوں کے لۓ ایک بارپھر صور اسرافیل ثابت ہوگا جس سے ان کی پچاس سالہ ریشہ دوانیاں ایک بارپھر زمین کے اندر دفن کردی جائیں گی، یہ اجتماع ایسے حالات میں منعقد ہو رہا ہے کہ ملک کے اندر قادیانی لابی کو سپریم کورٹ کے اندر شکست فاش کاسامنا ہوچکاہے، کئی سالوں سے جاری ان کی سازشوں پر زبردست ضرب لگی ہے اور وہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے سپریم کورٹ جانے سے لگی ہے ، قائدجمعیت کی سپریم کورٹ آمد نے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے ورنہ اس سے قبل دو دفعہ انہیں ججز نے اپنے فیصلے میں قادیانیوں کوان کی من پسند سہولتوں سے نوازا تھا مگر قائد جمعیت نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکر ختم نبوت کی ایسی وکالت کر ڈالی کہ ایک بہت بڑے فتنے سے مسلمانوں کو نجات مل گئی، مینار پاکستان سے اٹھنے والی آواز اشرافیہ اور مقننہ میں بیٹھے ہوئے قادیانیوں کے سہولت کاروں کوبھی بیک فٹ پرجانے پرمجبور کردے گی اور گزشتہ چھ سات سالوں سے سرگرم لابی کی زبانوں کوبھی تالے لگ جائیں گے اور ان کی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی، ان شاء اللہ



0/Post a Comment/Comments