چھبیسویں آئینی ترمیم: مولانا فضل الرحمن نے کیا پایا؟
حافظ مومن خان عثمانی
پچھلے 35 دنوں سے شروع ہونے والا عمل بالآخر 20 اکتوبر 2024 کو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا، آئین پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم بل پر طویل مشاورت کے بعد آئین پاکستان کے ڈھانچے میں تبدیلیاں لائی گئیں، اس مشاورت میں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کاسب سے بڑا اور بنیادی کردار رہا اور مولانا صاحب کا گھر اس مشاورت کا مرکز تھا جہاں بلاتفریق حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے زعماء دن رات آتے رہے اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اپنے اپنے نکات شیئر کرکے مشاورت لیتے رہے، اس موقع پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تمام اہم ارکان کی ایک نہیں بلکہ کئی دفعہ حاضری ہوئی، بلکہ بعض اوقات تو رہنماؤں کی لائن لگی رہتی تھی، آخری دنوں میں ایک خوشگوار اور دلچسپ مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جب پی ٹی آئی کا وفد بیرسٹر گوہر خان کی سربراہی میں مولانا صاحب کے گھر میں موجود تھا اور اوپر سے پیپلز پارٹی کا وفد بھی جناب بلاول بھٹو کی قیادت میں پہنچا اور شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کیا اور ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے ملے، ورنہ یہ حضرات ایک دوسرے کامنہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر ”یونیورسٹی آف مولانا“ میں آکر ان کو بھی اخلاقی قدروں کا کچھ خیال کرنا پڑا، شروع دنوں میں جب ایک دفعہ پی ٹی آئی کا وفد مولانا صاحب کے گھر پہنچا اور پتہ چلا کہ یہاں حزب اقتدار کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں تو پی ٹی آئی رہنما باہر ہی سے واپس چلے گئے تھے مگر پیپلز پارٹی کے وفد نے اس قدر نفرت انگیزی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جب وہ اندر تشریف لے آئے تو پی ٹی آئی والے بجائے منہ موڑنے کے اٹھ کر ان سے ملے، حکومت نے آئینی ترامیم کا جو مسودہ شروع میں تیار کیا تھا اور جس کو وہ لانا بھی چاہتی تھی مگر مولانا فضل الرحمن نے اس مسودے کو مسترد کردیا اور کراچی کے سفر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے ساتھ بیٹھ ایک مشترکہ مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر اس مسودے پر مسلم لیگ ن کو متفق کیا، مولانا فضل الرحمن نے پورے مرحلے میں جو کردار اداکیا ہے اس پر تقریباً تمام لوگ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں اور ممنون بھی کہ انہوں نے ملک وقوم اور جمہوریت کوبچانے کے لئے ایک خطرناک قانون سازی کا راستہ روک کر ایک جرات مندانہ کردار ادا کیا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹونے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اس بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت اگر کسی نے کی ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں، ان کے اس کردار کو تاریخ یاد رکھے گی“ بلاول بھٹونے یہ بھی کہاکہ ”اپنے والد صدر زرداری کے بعد کسی کو مانتا ہوں تو وہ مولانا ہیں“ مولانا صاحب نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اس ترمیمی بل پر متفق کیا تھا مگر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد انہوں نے وہی کیا جو وہ کرتے چلے آئے ہیں، اب اس طرف آتے ہیں کہ مولانا صاحب نے اس قانون سازی میں کیا پایا ہے؟ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن نے اس موقع سے بھرپور فائیدہ اٹھاتے ہوئے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے، جس سے حزب اختلاف کی جماعتوں کوبھی بڑا فائدہ پہنچاہے، مولانا صاحب نے ایک طرف تو ملٹری کوٹس کا راستہ روک دیاہے، دوم: مولاناصاحب نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹینشن روک دی ہے، سوم: مولانا صاحب نے آرٹیکل 245 کے تحت آرمی ایکٹ اور چیف کی ایکسٹینشن کو روک دیا جس کو پارلیان تحفظ فراہم کرتا رہا، یہ کام گزشتہ دور حکومت میں پی ٹی آئی سے کروایا گیا تھا، یہ سب کچھ مولانا فضل الرحمن کی مرہون منت ہیں کہ انہوں نے کوئی پریشر نہیں لیا اور ڈنکے کی چوٹ پر اس کے خلاف کھڑے رہے اور مضبوط دلائل سے ان چیزوں کو ملک وقوم اور جمہوریت کے خلاف قرار دے کر حکومتی ارکان کو مطمئن کرتے ہوئے ان کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، اس کا سب بڑا اور فوری فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا، مولانا فضل الرحمن نے اس آئینی ترمیم سے جوسب بڑا فائدہ ملک وقوم اور اسلام کو دیا ہے وہ سودی نظام کے خاتمے کو آئین کا حصہ بنا دینا ہے کہ جنوری 2028ء تک ملکی معیشت کو سودی لین دین سے پاک کر دیا جائے گا یہ مولانا فضل الرحمن کی وہ تاریخی کامیابی ہے جس پر تاریخ ہمیشہ فخر کرے گی، یہ ملک وقوم اور اسلام کے لئے مولانا فضل الرحمن کی شاندار اور یادگار خدمت قرار پائے گی، ایک اور بڑی اور شاندار کامیابی یہ ہے کہ مدارس کے رجسٹریشن کا معاملہ دہائیوں سے دردِ سر بنا ہوا تھا، ہر حکومت میں وفاق المدارس العربیہ کے ذمہ داران اس معاملے میں پریشان رہتے تھے اور کوئی حکومت اس کو حل کرنے کے لئے تیار نہ تھی، 26ویں ترمیمی بل میں مولانا فضل الرحمن نے مدارس اسلامیہ کایہ دیرنہ اور پیچیدہ مسئلہ حل کرکے تمام مکاتب فکر کے مدارس اور ان کے ارباب اختیار پر بہت بڑا احسان کردیا ہے، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی منیب الرحمن اور شیخ الحدیث مولانا عبد المالک کی دعائیں رنگ لائیں اور مولانا فضل الرحمن کی 35 دنوں کی جہد مسلسل نے اس معاملے کو آئین پاکستان کا حصہ قرار دے دیا، اس کے علاوہ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ملک میں اسلامی قانون سازی کے لئے 1973ء میں اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی تھی اور اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے علاوہ ماہرین قانون کوبھی شامل کیا گیا تھا کہ ملک میں نافذ تمام قوانین کواسلامی اصولوں کے مطابق بنایا جائے گا اور غیر اسلامی قوانین کو ختم کیاجائے گا، اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی قانون سازی کے لئے کئی عرصہ سے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دی ہے مگر حکمرانوں کی غفلت، نااہلی اور دین سے دوری نے ان سفارشات کوردی کی ٹوکری میں رکھ کر طاق نسیاں کے حوالے کردیا ہے، مولانا فضل الرحمن نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس معاملے کو بھی آئین کا حصہ بنا دیا ہے، یہ بھی ایک اہم کامیابی ہے، اگر مولانا صاحب بھی اس موقع پر پی ٹی آئی والی سیاست کرتے ہوئے بائیکاٹ کرلیتے، مخالفت کی وجہ سے حکومت سے ہاتھ ہی نہ ملاتے تو یہ سنہری موقع ضایع ہو جاتا اور پھر برسوں اس پر افسوس ہوتا مگر مولانا صاحب نے حسب عادت اپنی فہم وفراست، ذہانت اور سیاسی بصیرت سے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اعتماد میں رکھا اور دونوں کے ساتھ مزاکرات کرتے ہوئے اپنا موقف منوا کر بہت سی کامیابیاں سمیٹ لیں، کچھ لوگوں کو علماء کے ساتھ دشمنی ورثہ میں ملی ہوتی ہے اور ہر جگہ علماء کو ٹارگٹ کرتے ہیں، ان پر بے جا تنقید کرتے ہیں ان کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں، ان کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، ان کے اچھے کاموں کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مدرسہ میں پڑھنے والے سوائے نماز روزہ کے کچھ نہیں جانتے، مولانا فضل الرحمن کے اس شاندار کردار نے ایسے لوگوں کی نہ صرف آنکھوں میں خاک ڈال دی بلکہ ان کے چہروں پر کالک مل دی اور دنیا پر ثابت کیاکہ مولوی اگر صاحب کردار ہو تو وہ پوری قوم کو اپنے پیچھے چلاتا ہے، وہ پوری قوم کی قیادت کرتا ہے، مشکل حالات میں وہ قوم کی توجہ کا مرکز بنتا ہے بڑے بڑے پھنے خان اس کے دربار میں جھک جھک کر اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈنے آتے ہیں، مولانا صاحب نے ملک کے تمام سیاست دانوں اور ان کے پشتیبانوں کوایک بارپھر دکھایا کہ ہمارے بغیر تم کچھ بھی نہیں کرسکتے، تم ہماری سیٹیں تو ہم سے چھین کر دوسروں کودے سکتے ہو مگر ہماری سیاست، فہم وفراست، خداد بصیرت اور کردار کو محدود یا ختم نہیں کرسکتے، آج مولانا صاحب 13 سیٹوں کی معمولی سی اقلیت کے ساتھ تاریخی کامیابی حاصل کرکے دنیا کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کو کہتے ہیں، یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی قیادت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر ایسا ہوا ہے مگر ہماری یاداشت کمزور ہیں ہم جلدی بھول جاتے ہیں، قانون سازی سے حکومتی پارٹی اور ان کے پشتیبانوں کے مقاصد کچھ اور تھے وہ کچھ اور سوچ کر اس میدان میں کود پڑے تھے مگر مولانا صاحب نے کالے سانپ کے دانت ہی توڑ ڈالے اور اس کا زہر نکال کر قانون سازی کا رخ ملک وقوم اور ان کی بہتری کی طرف موڑدیا، ان 35دنوں میں مولانا فضل الرحمن نے شاید ہی کسی دن اپنی نیند پوری کی ہو کیونکہ مہمانوں کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا نہ دن کو نہ رات کو ہر وقت مولانا کے گھر میں ایک بھیڑ رہتی تھی مگر اس تھکاوٹ کے بدلے مولانا صاحب نے ملک وقوم کوبہت کچھ دے دیاہے، پوری قوم کو اس شاندار کامیابی پر مولانا صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایک طرف انہوں نے ملک وقوم کو بہت بڑے انتشار سے بچالیا اور دوسری طرف عوام، ملک، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کے حوالے سے کئی کامیابیاں حاصل کرکے انہوں نے دینی مدارس سمیت تمام پاکستانیوں پر بہت بڑا احسان کیاہے۔ اللہ کرے حکمرانوں کو ان قوانین پر عمل درآمد کی توفیق بھی ملے۔
جزاك اللهُ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں