وفاق المدارس خیبر پختونخوا کی جانب سے اعزازی تقریب میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مختصراً خطاب


پشاور: وفاق المدارس خیبر پختونخوا کی جانب سے قائد جمعیۃ کے اعزاز میں تقریب سے حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا مختصر خطاب (پشتو سے اُردو ترجمہ)

22 اکتوبر 2024

مدارس کے حوالے سے جو ڈرافٹ اس وقت پاس نہ ہو سکا وہی ڈرافٹ پاس ہوا ہے اور مفتی تقی عثمانی صاحب جب آئے تو انہوں نے بھی تصدیق کر دی کہ ہاں یہ اطمینان بخش ہے کیوں کہ 21 واں دفعہ اس میں شامل کیا گیا تھا۔

تو وہ بھی پاس ہوا سود کے حوالے سے یہ لکھا گیا کہ یکم جنوری 2028 یا دو جنوری 2028 یہ چار پانچ سال ہم نے کیوں دیے یہ کورٹ کا فیصلہ ہے شریعت کورٹ نے سود کے خلاف جو فیصلہ دیا ہے اس میں تمام اداروں سے کہا گیا ہے کہ آپ 2027 کے آخر تک اپنے اداروں میں تمام مالیاتی نظام کو سود کی آلائشوں سے پاک کریں گے تو چوں کہ کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا ہے اور ان کو ایک مدت تک وقت دیا ہے تو اب اگر ہم اس مدت کو کم کرتے تو یہ شور و غوغا کرتے تو بوجوہ تدریجی نظام کہ کیوں کہ جمہوریت تدریجی عمل کا نام ہے یہ انقلاب نہیں ہوتا، تو جب ایک فیصلہ عدالت میں آگیا تو اب جن کمرشل بینکوں نے اپیلیں دائر کیں ہیں اور اس کی وجہ سے وہ عمل رک گیا ہے تو جیسے ہی پانچ سال پورے ہوتے ہیں ہم کورٹ جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ یہ ساری اپیلیں خارج کر دے کیوں کہ مدت پوری ہو گئی ہے اور اب آئین کا یہ تقاضا ہے تو جب آئین کا تقاضا ہوگا اور اٹارنی جنرل پیش ہوگا یا حکومت کی طرف سے وزیر قانون پیش ہوگا تو کیا وہ اپنے آئین کے خلاف بات کرے گا؟ اب تو وہ اس بات کا پابند ہوگیا وہ یہی کہے گا کہ مدت پوری ہوگئی ہے اور آئین کا یہ تقاضا ہے تو اس حد تک ہم بات کو لے آئیں ہیں کہ حکومت کو ہم نے ایک حد متعین کرکے دی ہے کہ آپ اس حد سے آگے نہیں جاسکتے، اب اگر وہ نہیں کریں گے تو وہ الگ بات ہے لیکن ہم نے ایک حد تک ان چیزوں کو درست کر دیا ہے۔

دوسرا مسئلہ شریعت کورٹ کا تھا شریعت کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی نہیں تھا بس ایک فرضی عدالت تھی وہ ایک فیصلہ دیتے میں جاکے درخواست دے دیتا اور وہ فیصلہ سناتے کہ بس یہ بات ختم، اب ہم نے شریعت کورٹ کو ایک قوت دی ہے کہ ان کا فیصلہ اٹل ہوگا، مؤثر ہوگا اور عملی ہوگا اور اگر کوئی اس کے خلاف اپیل کرتا ہے تو وہ باضابطہ اپیل کرے گا وہ بھی سپریم کورٹ شریعت ایپلٹ پینل کو باقاعدہ درخواست کرے گا اور اپیل کرے گا اور اپیل کے نتیجے میں کورٹ یہ بھی کر سکتا ہے کہ سٹے دے دے یا سٹے کی بجائے کیس کی سماعت شروع کر دے اس کو ہم نے حد دے دی کہ اگر ایک سال میں اپیل کا فیصلہ نہیں ہوا تو خودبخود شریعت کورٹ کا فیصلہ مؤثر ثابت ہوگا اور شریعت کورٹ کے جتنے ججز تھے یہ خود اپنے کورٹ کے چیف جسٹس نہیں بن سکتے تھے باہر سے ایک ریٹائرڈ جج کو لاکے ان کا چیئرمین یا چیف جسٹس بنا دیا جاتا، اب ہم نے آئین میں ان کے لیے یہ راہ ہموار کر دی کہ شریعت کورٹ کے اپنے ججز میں سینئر جج اسی کورٹ کا چیف جسٹس بنے گا۔

تو یہ سب باتیں اس حوالے سے ہم نے مکمل کیں ہیں اس کے بعد تیسرا حصہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ہے حسین احمد صاحب نے کہا کہ پہلے صرف رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی اور پورے کہ پورے بنڈل رکھ دیے جاتے اور پھر وہ کمیٹی میں ڈمپ کیے جاتے اب بھی میرے خیال میں بڑے بڑے کمرے بھرے پڑے ہیں اب اس میں یہ ہوا کہ حکومت فوراً پابند ہوگی کہ معاملات بحث کے لیے بھی پیش کیے جائیں گے اور جب اس پر بحث ہوگی تو سوائے قانون سازی کے پھر کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔

اب چوں کہ علماء کرام موجود ہیں اور میں نے یہ بات کل حضرت کے سامنے بھی رکھی تھی کہ کیوں نا ہم خاموشی سے اپنے علماء کی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنائیں وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کو بھی مطالعہ کرے اور اس کی بنیاد پر ہم اپنے پٹیشن تیار کریں اور شریعت کورٹ میں داخل کر دے کہ یہ قانون شرعی ہے یہ شرعی ہے یہ شرعی ہے شور و غوغا بھی نہیں ہوگا اور اسمبلی کے بحث مباحثے بھی نہیں ہوں گے اور وہ فیصلہ دیں گے کہ یہ شریعت کے مطابق ہے تو جب اس پر ایک دفعہ شریعت کا نام آجائے اور پھر اسے دوسرے کورٹ لے جایا جائے گا تو اس کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اور یہ پھر ان کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ اس میں ردوبدل کر سکے۔

تو یہ بھی ایک تجویز ہے ہم جمعیۃ میں بھی اس پر ان شاءاللہ بحث کریں گے اور ایک طریقہ کار وضع کریں گے باقاعدہ اس کے لیے ٹیم بیٹھی ہیں اور وہ صرف یہی کام کرتے ہیں کہ پٹیشن تیار کرے اور ہم اسے کورٹ بھیجے کیوں کہ کورٹ مظبوط ہوگا تو وہ جب ایک فیصلہ کرے گی تو وہ قانون ہوگا۔

تو بہر حال ان چیزوں پر ہم غور کر رہے ہیں تو اب یہ تین باتیں اس میں آگئی اور قانون کا ایک ایکٹ تھا وہ پاس ہوا سینیٹ میں بھی پاس ہوا اور قومی اسمبلی میں تھوڑا لیٹ ہوگیا کیوں کہ ان کا پرنٹ نہیں آیا تھا کیوں کہ جو قانون بن جاتا ہے پھر قومی اسمبلی میں آتا ہے اور جب اسمبلی میں آیا تھا تو وزیر اعظم کے تقریر کے بعد وزیر قانون نے اٹھ کر وہ پیش کیا اس بل میں ایک لفظ جو ہم نے سینیٹ میں ان سے منوایا تھا اور انہوں نے وہ نوٹ کیا تھا اور پاس ہوگیا تھا لیکن جب کاپی اسمبلی پہنچی تو اس میں وہ نہیں تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ بھئی یہ تو آپ نے مان لیا تھا اور قلم سے لکھا تھا تو اب تو یہاں پرنٹ میں آنا چاہیے تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کلیریکل فالٹ ہے پھر اٹھ کر سپیکر سے کہا کہ ہم یہ ایک لفظ کا اِضافہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہاں پر پاس ہوا ہے تو آپ ہمیں اجازت دے کہ ہم اس کو دوبارہ شامل کر سکے۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

،ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamJUIswat

پشاور: وفاق المدارس خیبر پختونخوا کی جانب سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کے اعزاز میں تقریب ہمیں 77 سال بعد پارلیمنٹ میں تاریخی پیش ملی۔ الحمدللہ، ملک کو سود سے پاک معیشت کی راہ پر گامزن کرنے کا خواب اب حقیقت کے قریب ہے۔ سوسائٹی ایکٹ بل پاس ہونے سے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل آسان ہوگا اور انہیں اداروں کے دباؤ سے نجات ملے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔ شریعت کورٹ کے فیصلوں کی حد اور ججز کے اختیارات میں بہتری لاتے ہوئے عدالت کی خودمختاری کو مضبوط کیا گیا ہے۔ اس تاریخی موقع پر پوری قوم اور اہل مدارس کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, October 22, 2024


0/Post a Comment/Comments