مولانا فضل الرحمٰن کا مستقل مؤقف!
انجنئیر ضیاء الرحمن (مرکزی کوآرڈینیٹر ڈیجیٹل میڈیا سیل)
1973 میں بھی ہر پارٹی اپنے منشور پر ووٹ لے کر آئیں اور ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر کھڑی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے نظریاتی حدود کے اندر اندر گنجائشیں لے اور دے کر اتفاق رائے سے آئین دیا۔ پھر تاریخ گواہ ہے کہ اس آئین میں ترامیم بھی وہی کامیاب اور دیرپا رہیں جو اتفاق رائے سے آئیں۔ جہاں اتفاق رائے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، وہی ترمیم متنازعہ ہو گئی۔ آج بھی ترمیم وہی کامیاب اور دیرپا ہوگی جو اتفاق سے ہوگی۔
سیاست اپنی طے شدہ نظریاتی حدود کے اندر اندر گنجائش دینے اور لینے کا نام ہے۔ یہی گنجائش حکومتی پارٹیاں، یعنی پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی دیں گی، اور یہی گنجائشیں اپوزیشن میں بیٹھی پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام بھی دیں گی۔ تو آئین بھی محفوظ ہوگا، ریاست بھی مضبوط ہوگی، اور سیاست کو بھی دوام ملے گا۔
کل جس طرح باجوہ اور فیض حمیدی کے دور میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہمارے دوست اس بات کو تسلیم کرتے تھے، اور آج جس طرح PTI کے لوگ تسلیم کرتے ہیں، اور آنے والے کل کا پتہ نہیں کہ اور کون کون تسلیم کرے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ مولانا فضل الرحمن صاحب کل بھی آئین اور جمہوریت کے کھلواڑ کرنے والوں کا راستہ روک رہے تھے اور آج بھی وہی کر رہے ہیں۔ بس دیکھنے والوں کی یا ڈائریکشن تبدیل ہوگئی ہے یا ان کی نظر کی عینک۔
مجھے امید ہے کہ جب عافیت اور خیر سے ان ترامیم کی دھول چھٹے گی، تو حمایت اور مخالفت دونوں کرنے والوں کو ایک ہی روشن چہرہ نظر آئے گا جو کل عمران خان کی حکومت میں بھی آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑا تھا اور آج شہباز شریف کی حکومت میں بھی جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے۔
You are 100% correct, I agree with you
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں