قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب
21 اکتوبر 2024
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
جناب اسپیکر! میں نے آج اس ایوان کے سینیئرز کی باتیں سنیں، اس میں حقائق بھی تھے تنقید بھی تھی کچھ تلخی کا پہلو بھی تھا لیکن میری گفتگو تنقید کے بدلے تنقید پر مبنی نہیں ہوگی بلکہ تعریف کے بدلے تعریف پر مبنی ہوگی۔
جناب اسپیکر! کچھ چیزیں ہمیں خود سمجھنے ہوں گے، آج ہم جس موضوع پہ بات کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور آج ہم جو آئینی ترمیم پاس کرنے جا رہے ہیں اس کا آغاز کب ہوا، اس کا سبب کیا بنا، یہاں ایک مسئلہ اٹھا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیا جائے، ایک یہ بھی تجویز تھی کہ ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور یہ بحث میڈیا میں زیادہ چلتی رہی باضابطہ طور پر ہمارے سامنے ایسی کوئی بات نہیں آئی لیکن بالآخر پارلیمان کے اندر سے بھی سیاسی حلقوں کے اندر سے بھی جب اس قسم کی باتیں ہمیں یہاں پہنچی تو میں نے اس وقت اسی فلور پہ یہ عرض کیا تھا کہ یہ ایک آئینی ترمیم ہوگی اور آئینی ترمیم کا موضوع شخصیات ہیں، یہاں پر اصل میں جھگڑا شخصیات کے حوالے سے ہے کہ اگر ایک جج ہے تو اس سے حکمران پارٹی گھبرا رہی ہے اگر دوسرا جج ہے تو اس سے حزب اختلاف کی جماعت جو ہے وہ گھبرا رہی ہے اور ایک کی کوشش یہ ہے کہ فلاں جج ہو دوسرا کہتا ہے کہ فلاں جج ہو اس چیز میں ایک مسئلہ پھنس گیا تھا جس کے لیے میں نے عرض کیا تھا کہ آئینی ترمیم کو شخصیات کے تنازع میں یرغمال نہ بنایا جائے بلکہ آئینی اصلاحات لائی جائے باقاعدہ طور پر اور ملک کے عدالتی نظام کو بھی ٹھیک کیا جائے اور ظاہر ہے یہ میرا ایک تصور تھا اور ہمارے مدنظر تھا یہ کہ 2006 میں جب پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جناب میاں نواز شریف صاحب کے اور جناب بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو اس کو ایک پذیرائی ملی، اس کے مندرجات کو ایک پذیرائی ملی اور اس کے اندر ایک آئینی عدالت کا تذکرہ تھا اور ظاہر ہے میں ہوں یا جتنی بھی یہاں پر پارلیمانی جماعتیں ہیں جو اس وقت موجود تھی یا جو سیاست دان تھے اس وقت ہر چند کے بہت سے لوگ اس کے دستخطی نہیں ہیں لیکن بعد میں ایسے فورم وجود میں آئے کہ ان فورمز پر جب ریزولیشنز آئے تو وہ انکلوڈڈ بائی سی او ڈی اور ہم نے بھی اس پر ساتھ دیا ہے لیکن جناب اسپیکر ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ سی او ڈی نہ تو آئین کا متبادل ہے یہ نہ قانون کا متبادل ہے یہ محض ایک اخلاقی معاہدہ ہے ملک کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ہم اس سوچ پہ اتفاق کرتے ہیں اور اپنے سیاسی اور جمہوری سفر میں جہاں ہمیں کوئی مشکل درپیش آئے گی تو ہم اس باہمی اخلاقی معاہدے سے رہنمائی حاصل کریں، اگر کہیں پر اس کا آئین سے تصادم ہو تو ظاہر ہے کہ پھر آئین پہ عمل ہوگا لیکن اگر ہمارے پاس دو تہائی اکثریت حاصل ہو کسی بھی پارٹی کے پاس اور وہ اس سی او ڈی کے اندر مندرجہ کسی معاہدے کے شق کے حوالے سے تبدیلی لانا چاہیں تو لا سکتے ہیں لیکن آئین مقدم ہوگا اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔
جناب اسپیکر! جہاں جب بات آئین کی آئی تو آئین میری نظر میں بلکہ آپ سب دوستوں کی نظر میں اس کی حیثیت ایک میثاق ملی کی ہے، یہ پاکستان کے ہر شہری کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے اور قوم کے بیچ میں صوبوں کے بیچ میں طبقوں کے بیچ میں قومیتوں کے بیچ میں اگر کوئی کمٹمنٹ ہے تو وہ اس آئین کی بنیاد پر ہے اس کے اساس پر ہم پاکستانی ہیں اس کے اساس پر ہم پاکستان کے ساتھ ایک عہد و پیمان رکھتے ہیں، اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے آئین کی اہمیت کو ہمیں سمجھنا ہوگا، آئین ایک مستحکم دستاویز ہوتی ہے اور جو دستاویز جتنی مستحکم ہو اتنا ہی اس کے اندر ترمیم و تغیر کرنا بھی ذرا مشکل ہوتا ہے، ہم سادہ اکثریت سے قانون پاس کر لیتے ہیں لیکن آئین میں تبدیلی ہمیں دو تہائی اکثریت سے کرنی ہوتی ہے اگر ہم ازروئے شریعت دیکھ لیں کتاب اللہ پوری امت کا سب سے زیادہ مستحکم دستاویز ہے کسی کا مجال ہے کہ اس کے اندر ایک لفظ کا آگے پیچھے کر لیں زبر زیر کی تبدیلی کر لیں، کسی پیغمبر تک کو بھی اجازت نہیں، جتنا وہ مستحکم دستاویز ہے اتنی ہی اس کے اندر استحکام پایا جائے گا اور پھر تغیر اور تبدل نہیں ہوگا، ہم انسانی قوانین انسانی ضابطوں کی بنیاد پر بھی اسی اصول کو لیتے ہیں کہ اگر ہمارے سامنے کوئی مستحکم دستاویز ہے تو اس میں تغیر و تبدل ذرا مشکل کام ہوتا ہے اور اگر عام قانون ہے تو اس میں تبدیلی جو ہے اس کے لیے نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ ہم ذرا آئین کی بھی تاریخ دیکھ لیں اور ہم ذرا آئینی ترامیم کی بھی تاریخ لے لیتے ہیں، میں ان متنازعہ ترامیم کی بات نہیں کرتا جو کسی نے یا اپنی اکثریت کی بنیاد پر کرا دی ہے یا کسی ڈکٹیٹر نے کرا دیے میں ان مثالوں کو مدنظر رکھوں گا جو ہمارے لیے آئیڈیل ہو سکتے ہیں اور جس کو ہم اپنے لیے ایک رہنما اصول کے طور پر اپنا سکتے ہیں، جیسے کہ میرے عزیز گرامی بلاول بھٹو صاحب نے اس کا ذکر بھی کیا اور میں بھی بڑے فراخدلی کے ساتھ آج کی اس آئینی ترمیم کو آخری شکل دینے میں ان کی بھرپور کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں جہاں اپنے برخوردار جناب بلاول بھٹو صاحب کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں جناب میاں نواز شریف صاحب جناب شہباز شریف صاحب جناب نذیر تارڑ صاحب جناب اسحاق ڈار صاحب اور یقیناً ان کاوشوں میں میرے ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی شامل رہی ہے۔ میں نے خود اس میں جو کردار ادا کیا جو اللہ نے مجھے توفیق دی میں نے اپنی بھرپور کوشش سے ایک متفقہ آئینی ترمیم بنانے میں محنت کی اور کوشش کی اور اللہ کے فضل و کرم سے اللہ نے مجھے کامیاب کیا۔
جناب اسپیکر! جب آئین بن رہا تھا اس وقت کا سیاسی ماحول کیا تھا؟ ملک ٹوٹ چکا تھا، ملک کے ٹوٹنے پر سیاسی اختلافات تھے، کون ذمہ دار ہے اس کا؟ اور یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا، ہم فوری طور پر ایک باقاعدہ مستقل آئین نہیں بنا سکے ہم ایک عبوری آئین کی طرف گئے اور کچھ عرصہ عبوری آئین حکمران تھا، ون یونٹ ٹوٹ گیا تھا، دو صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعۃ علماء اسلام کی اتحاد سے حکومتیں بنی اور دو صوبوں میں پنجاب اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، ایسے وقت میں جب کہ بلوچستان اسمبلی کو توڑ دیا گیا اور جس پر احتجاج کرتے ہوئے میرے والد صاحب نے اس وقت صوبہ سرحد کے ون یونٹ کے بعد پہلے وزیراعلی تھے انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور نو مہینے سے زیادہ ان حکومتوں کی عمر نہیں رہی، اب ظاہر ہے کہ یہی چیزیں سیاسی ماحول میں شدت پیدا کرتی ہے اور شدت کے ماحول میں یہ تمام قیادت بیٹھی جس میں خان عبدالولی خان موجود تھے، جس میں میرے والد مولانا مفتی محمود موجود تھے، جس میں پروفیسر غفور احمد موجود تھے، جس میں مولانا شاہ احمد نورانی موجود تھے، جس میں چوہدری ظہور الٰہی موجود تھے، جس میں محمود علی قصوری موجود تھے، جس میں غوث بخش بزنجو موجود تھے، ان تمام اکابرین نے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر سن 73 کے آئین پر دستخط کیے، ایک متفقہ آئین اس قوم کو عطاء کیا، بکھرے ہوئے سیاسی ماحول میں انہوں آئین نے جس ذمہ داری اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے آج ایک مثال ہے، مشعل راہ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو ایک اچھے مثال کے طور پر پیش کر کے اس کی پیروی کرے۔ جناب اسپیکر یہ بڑے لوگ تھے اب وہ نہیں ہیں اب ہم جیسے ناکارہ لوگ بھی بڑے کہلاتے ہیں، مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں، مجھ سے تجربے میں بھی بڑے ہیں، خواجہ صاحب پھر بھی مجھے وہ بزرگ کہتے ہیں ابھی میں جوان ہوں بزرگ نہیں ہوں۔ لیکن جب اٹھارویں ترمیم کے لیے ہم بیٹھے ہیں جناب اسپیکر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نو مہینے سے زیادہ آپس میں بیٹھے ہیں، میاں رضا ربانی صاحب اس کو چئیر کر رہے تھے، ہمارے اسحاق ڈار صاحب اس میں موجود تھے، فاروق ستار صاحب اس میں موجود تھے، ان کے ساتھ ان کی ٹیمیں موجود تھیں اور ہم نے نو مہینے گزار کر ماضی کے تمام خرابیوں کو آئین سے نکالنے کے لیے کام کیا، ہم متفقہ نتیجے پر پہنچے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عدلیہ کے حوالے سے اس وقت ججز کے تعین کے لیے پارلیمنٹ کو ایک کردار دیا گیا لیکن بہت جلدی ہی انیسویں ترمیم کے ذریعے سے وہ واپس لے لیا گیا، میں آج پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اس پارلیمنٹ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اس ایوان کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور زعمائے قوم جو اس سے پہلے میرے ساتھ اجلاس میں بھی اکٹھے بیٹھتے رہے ہیں اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے لے کر آج تک ہم مسلسل جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں میں ان کے سامنے یہ سوال رکھتا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں جمہوریت کی جنگ لڑتے ہیں جمہوریت کو طاقتور بناتے ہیں لیکن عملاً آمرانہ قوتیں مضبوط ہوئی ہے اور جمہوریت کمزور ہوئی ہے، کبھی ہم اس پر سوچیں گے؟ کیا بطور ایک سیاسی کارکن کے ہم نے ایک دن اس پر غور کرنا ہے؟
جناب اسپیکر! میں متنازعہ باتیں آج نہیں چھیڑنا چاہتا، اس آئین کے ترمیم کے حوالے سے پہلے مسودہ اور آج جس جگہ پر وہ پہنچ رہا ہے اس میں فرق خود واضح ہے اور اس پر ہر شخص خود تبصرہ کر سکتا ہے مجھے ضرورت نہیں ہے کہ میں اس پر تبصرے کروں۔ ابتدائی مسودہ 56 کلازز پر مشتمل تھا اور جب اس کو حتمی شکل دی گئی تو یہ 22 کلازز کا ایک ترمیمی بل بنا ہے۔ یہ کانٹ چھانٹ یہ نظریاتی بنیادوں پر ہوئی ہے ہے ایسی چیزیں اس میں موجود تھیں کہ جس میں ہم جمہوری لوگ پارلیمانی لوگ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے دعوے کے ساتھ جمہوریت کا قتل کر رہے تھے! معافی چاہتا ہوں میں آپ کا برابر کا شریک ہوں، خطائیں اگر ہماری ہیں وہ ایسی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو الزام دیتے رہے، آج اگر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھی شکایت کر رہے ہیں ان کا لیڈر جیل میں اس حالت میں ہے اور چونکہ کل ہی ملاقات کر کے بھی آئے ہیں تو اس ملاقات کی فوری خبر جو ان کی طرف سے آئی وہ واقعی قابل قبول نہیں ہو سکتی جی، جلسے اجتماعات وہ ایک جمہوری حقوق ہیں اگر جمہوری حقوق کے دائرے میں کوئی فیصلہ کرتا ہے جلسہ کرتا ہے اس کو جلسے کا حق ہے لیکن میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر میاں نواز شریف صاحب پر ظلم ہوتا ہے، میاں شہباز شریف صاحب پر ظلم ہوتا ہے، آصف علی زرداری صاحب اور ان کی بہن کے ساتھ ان کی جماعت کے سینیئرز کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوتا ہے اور میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوں، ان کے خلاف ہونے والے ہر قدم پر میں نے فرنٹ لائن پر لڑائی لڑی ہے اگر میں اس وقت آپ کے اوپر ہونے والے مظالم میں آپ کے شانہ بشانہ تھا تو میں آج بھی عمران خان پر ہونے والے سختیوں کی مذمت کروں گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ اپوزیشن تقسیم ہو جائے لیکن میں نے نہ حکومت اور اپوزیشن کو تقسیم ہونے دیا ہے اور نہ اپوزیشن کو آپس میں تقسیم ہونے دیا ہے اور نہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو آپس میں تقسیم ہونے دیا ہے، میں نے پیپلز پارٹی سے بھی بلکہ حکومت سے بھی درخواست کی تھی کہ آپ یہ مسودہ شنگھائی کواپریشن کانفرنس کے بات کریں، میں نے پی ٹی آئی سے بھی درخواست کی تھی کہ ان دنوں میں آپ کسی قسم کا کوئی مظاہرہ نہ کریں، کیوں؟ باہر سے مہمان آرہے ہیں، مہمان ویسے بھی قابل قدر ہوتا ہے گھر میں بھی اگر بھائیوں کے اندر اور عزیزوں کے درمیان کوئی تھوڑی سی کوئی خلش ہوتی بھی ہے تب بھی جب مہمان آتا ہے تو وہ مل کر اس کی خدمت کرتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں تو پھر گھر کے داخلی اختلافات اور ناراضگیاں بھول جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا اساس ہے اور میں نے اسی بنیاد پر یہ بات کہی تھی میں شکر گزار ہوں جناب شہباز شریف صاحب کہ آپ نے اس مسودے کو ان دنوں میں اس پر کام کرنا چھوڑ دیا اور اس کو مؤخر کر دیا تھا۔ ان کاوشوں سے اور ان تبدیلیوں سے اس آئینی ترمیم کا جو مفہوم اور جس کا تصور تھا وہ مکمل تبدیل ہو گیا، ابتدائی مسودے کا تصور بالکل مختلف تھا اور اب جو چیز ہم پاس کر رہے ہیں اس کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے اور اس صورت میں ہمیں کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا اور آج ہم متفقہ طور پر اس کو دستاویز بنا کر اسمبلی سے پاس کرانا چاہتے ہیں پارلیمنٹ سے پاس کرانا چاہتے ہیں۔
ہم آج بھی ایک بات کہنا چاہتے ہیں جی کہ عدالت کی تشکیل کے حوالے سے ہر چند کے میں نے ایک آئینی عدالت کی بات کی تھی لیکن جتنے بھی ہم نے محنت کی اور کوشش کی اور مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کی اس تصور پر اتفاق نہیں آرہا تھا، کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ آئیڈیل ہے اس طرح ہونا چاہیے، میں آج بھی اس نظریے کے ساتھ جنگ نہیں لڑ رہا ہوں لیکن یہ جمہوریت ہے انقلاب نہیں! انقلاب میں آپ یکلخت نظام کو تبدیل کرتے ہیں لیکن جمہوریت میں آپ تدریجی اصلاحات کی طرف جاتے ہیں تدریجی طور پر آپ اصلاحات لاتے ہیں، اس میں جن چیزوں کے ہم کافی عرصے سے اس قابل نہیں تھے کہ کر سکیں آج ہم بڑی مشکل سے وہاں پہنچے ہیں کہ جو ہم نہیں کر سکتے تھے آج ہم کر پا رہے ہیں۔
اس حوالے سے میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ پارلیمنٹ کو ایک بہت بڑا شرف حاصل ہو رہا ہے اس پورے پارلیمنٹ کو ایک شرف حاصل ہو رہا ہے اور پوری پارلیمنٹ جو اسلامی جمہوری پاکستان کی پارلیمنٹ ہے اور پاکستان کے عوام جس کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا اور آج وہ فیصلہ دے رہی ہے کہ 2028 کے بعد ملک کے اندر ہر طرح کے سودی کاروبار اور معاملات یہ ممنوع ہوں گے، یہ آج بہت بڑا فیصلہ ہم نے کیا ہے، ہمارے کورٹ نے فیصلہ کیا 1997 میں فیصلہ کیا لیکن اگر نظرثانی کیسوں کے نتیجے میں آج تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں آسکا، ابھی پھر شریعت کورٹ نے اس کے حوالے سے فیصلہ کیا لیکن کمرشل بنک عام بنک وہ دوبارہ نظر ثانی میں چلے گئے اور وہ اتنی کمزور عدالت ہے ہماری شریعت کورٹ کہ اس کے خلاف کوئی درخواست دے دے تو ان کا فیصلہ معطل ہو جاتا ہے، اب اس کو مضبوط بنانا ہے اور اللہ تعالی نے بڑے واضح طور پر فرمایا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ
کہ اللہ سے ڈرو اور تمہارے ذمے جو سود کا کوئی مال ہے اس کو چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو۔ اور اگر نہیں کرتے فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ اگر تم یہ کاروبار نہیں چھوڑتے تو پھر اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور مفسرین نے لکھا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والے آخرت میں جب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے تو اللہ کہے گا تلوار اٹھاؤ لڑو میرے ساتھ جنگ کرو میرے ساتھ اگر تیرے اندر ہمت ہے تو! کیا وہ اللہ کے سامنے تلوار اٹھا سکے گا؟ لیکن اللہ اسی پر اس کو شرمندہ کرے گا اور ذلیل کرے گا تم نے دنیا میں سودی کاروبار کیا تھا اب اٹھاؤ نا تلوار میں نے تیرے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا، تو اس حوالے سے میں شکر گزار ہوں کہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے ہمارے اس ترمیم کو قبول کر لیا ہے اور ہم اللہ سے من حیث القوم معافی مانگیں اور یہ پارلیمنٹ قوم کے نمائندہ ہے ہم جب یہاں پر بیٹھ کر اس 77 سالوں کا جرم اس پر اللہ سے معافی مانگیں گے تو اللہ غفور الرحیم ہے ان شاءاللہ وہ پوری قوم کو معاف کر دے گا۔ ہر بات یعنی آپ خود اندازہ لگائیں جب پاکستان بنا اور ہم نے سٹیٹ بینک آف پاکستان بنایا تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مغرب کے نظام معیشت نے ہمارے لیے مشکلات پیدا کیں ہیں بلکہ انسانیت کے لیے مشکلات پیدا کیں ہیں ہم ملک میں وہ نظام معیشت لائیں گے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوگا، ہر بات پہ ہم قائد اعظم کا حوالہ دیتے ہیں یہاں ہم ان کا حوالہ کیوں بھول گیا! ہم نے کیوں اس ملک کے نظام کو ٹھیک نہیں کیا! تو یہ بھی آج اس ترمیم کی بہت بڑی کامیابی ہے اور ساتھ میں شریعت کورٹ کے فیصلے جو لامحدود وقت کے لیے معطل رہتے تھے اب اسے ایک سال تک کے لیے اس کی حد مقرر کرتی ہے کہ اگر ایک سال کے اندر تک اس کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر آگے جا کر سپریم کورٹ پر کوئی رائے دے سکے گا لیکن وہ پابند ہوگا اس کا اور شریعت کورٹ کے اندر کے ججز وہ اپنی کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا آج کے بعد وہ خود اپنے عدالت کا چیف جسٹس بن سکیں گے۔ اسی طریقے سے اگر شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی اور ایک سال میں کوئی فیصلہ نہ آیا اس اپیل کے حوالے سے تو شریعت کورٹ کا فیصلہ خود بخود مؤثر ہو جائے گا یہ بھی ایک بڑی مثبت پیش رفت ہے اس حوالے سے اور میں شکر گزار ہوں کہ ہماری اس وقت جو حکومت میں بیٹھے ہوئے اراکین ہیں انہوں نے اس کو حمایت بخشی ہے۔
اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ہم سن 1973 کے آئین کی بات کرتے ہیں، ہم سن 1973 کے آئین کی ترامیم کے بات کرتے ہیں، سن 1973 کی آئین کے بنتے ہی اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہوئی، سوال پیدا ہوا کہ جب ہم نے آئین میں کہہ دیا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، جب ہم نے آئین میں کہہ دیا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، جب ہم نے آئین میں کہہ دیا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوگا شریعت کے مطابق قانون، اب یہاں پر تو مسلکی اختلافات ہیں مذہبی اختلافات ہیں کس فرقے کے قواعد و ضوابط اور ان کے فقہ کے تابع قانون بنے گا تو یہ ایک کونسل بنائی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کی نمائندگی، ماہرین قانون و آئین، ریٹائرڈ ججز اس کے رکن بنے لیکن آج 2024 تک سن 73 میں بنے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر جو کہ مکمل ہو چکے ہیں ایک قانون سازی بھی نہیں ہوئی ایک قانون سازی بھی! کیا یہ ہم سب کے لیے باعث شرم بات نہیں ہے! تو اس حوالے سے آج حکومتوں کو ازروئے آئین و دستور پابند کیا جا رہا ہے کہ ایک سال کے اندر اندر آپ کو ایوان میں بھی پیش کرنا ہوگا اور ایوان اس سفارشات پر قانون سازی کے لیے غور و خوض شروع کریں گے بحث بھی کرے گا اس پر اور ہاؤس میں کوئی نیا مسئلہ آگیا ایک ممبر اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مسئلے کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے، پہلے 40 فیصد ہاؤس کے اراکین ووٹ کرتے تھے تب جا کر وہ اس قابل ہوتا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جا کر اس کو حوالے کر دیا جائے اب اس کو آسان بنایا گیا 25 فیصد پر لایا گیا یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے ایک پیش رفت ہے کہ ہم کچھ اس ملک کی اسلامی شناخت کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں اور آج کی اس ترمیم میں ان باتوں کی شمولیت کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اس ایوان نے 77 سال سے ہم جس چیز کے منتظر تھے اس حوالے سے ایک مؤثر پیش رفت کی ہے اور اس پر پورا ایوان مبارکباد کا مستحق ہیں۔
تو جناب اسپیکر اس حوالے سے ہمیں آج عہد و پیمان کرنا ہوگا کہ ہم نے صرف وہی سفر آگے جاری رکھنا ہے کہ جس میں یہ ملک اور اس ملک کا آئین، آئین کا بنیادی ڈھانچا جو اس سے پہلے بھی واضح ہو چکا ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ اٹھارویں ترمیم کے وقت بھی اس پر اتفاق رائے کیا گیا بعد میں بھی مختلف فورمز پر اس پہ اتفاق کیا گیا کہ سب سے اولین چیز وہ اسلام ہے یہ ملک اسلامی ہے، یہ ملک مذہبی ہے یہ ملک سیکولر نہیں ہے! اور یہ ملک جمہوری ہے یہ آمرانہ نہیں ہے! یہاں آمریت نہیں چلے گی! تو ایک مذہبی ملک ہے اسلام اس کا مذہب ہے اور دوسرا یہ جمہوری ملک ہے یہاں پر کوئی آمریت نہیں ہوگی، جمہوریت کا لفظ یہ آمریت کی نفی کرتا ہے اور تیسری چیز ہمارا وفاقی نظام ہے کہ ایک وفاق کے نیچے چار وحدتیں ہیں مزید بھی ہو سکتی ہے لیکن اس میں آئینی ترمیم کرنی ہوگی تو یہ بھی ایک بنیادی چیز ہے کہ ہم ایک وفاقی نظام رکھتے ہیں اور ہم کسی ون یونٹ کو تسلیم نہیں کریں گے اور صوبوں کے اختیارات ہونگے، صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے اختیارات دیے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ 1973 میں آئین بنا جو اختیارات اس وقت آئین میں صوبوں کو دیے گئے تھے اس میں کہا گیا تھا کہ مزید اختیارات بھی اضافہ 11 سال تک کیا جائے گا، 11 سال بھی گزر گئے اور پھر بھی 11 سال گزر گئے اور پھر بھی 11 سال گزر گئے اور کہیں جا کر 2010 میں ہمیں یہ موقع ملا اور پھر یہ اسلام کے حوالے سے پیش رفت سن 73 آئین بنا ایک قانون سازی نہیں ہوئی کم از کم آج ہمیں اس حوالے سے بھی یہ تدریجی عمل ہے ایک جمہوری انداز ہے ہم تاخیر کر رہے ہیں سو یقیناً گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن اگر ہم نے تیزی کی اور ہم نے جمہوریت کو مستحکم کیا تو ہمیشہ کے لیے ڈکٹیٹر یا آمرانہ سوچ رکھنے والی قوتیں مایوس ہو جائے گی، ہم نے ہمیشہ ان کو دعوت دی ہم اس کے گنہگار ہیں، ہم نے غلط فیصلے کیے ہیں ہمیشہ اس حوالے سے، تو آج ہم ایک اچھی پیش رفت کی طرف بڑھ رہے ہیں ہم نے جو بھی کوشش کی اور محنت کی ہے اسی حوالے سے کی ہے کہ پارلیمنٹ عوام کے نمائندہ ہے عوام کے پاس خود اعتمادی ہونی چاہیے عوام کو ہم نے خود اعتمادی دینی ہے کہ فیصلے آپ نے کرنے ہیں اور آپ کے نمائندوں نے کرنے ہیں کسی نے باہر سے آکر ہم پر فیصلے مسلط نہیں کرنے اور الحمدللہ اس بار ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں، میرے خیال میں ہم نے پروموٹ کرنا ہے اگر ہمارے تحریک انصاف کے دوست چونکہ ان کی بھی محنت شامل ہے میرے ساتھ یہ یہاں تک جو ہم پہنچے ہیں جتنی میٹنگیں میری حکومتی ٹیموں کے ساتھ ہوئی ہے اتنی ہی ان کے ساتھ ہوتی رہی ہیں ایک لمحے کے لیے ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کچھ باتیں نہیں کی اور ان کے نوٹس پہ ہم نہیں لائے، ہر بات ان کے نوٹس میں لائے ہیں جہاں ان کے ذہن میں کوئی اشکالات آتے تھے وہ تشریف لائے انہوں نے ہماری رہنمائی کی اور آج جہاں ہم پہنچے ہیں میرے خیال میں ان کا ایوان کے اندر برابر کا حصہ ہے، اب یہ اور بات ہے کہ وہ احتجاجاً ووٹ نہیں کر رہے ہیں اور وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ووٹ آپ کے ساتھ نہیں کر رہے ہیں تو میں اس پر ان کو مجبور نہیں کر سکتا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق بنتا ہے کہ اپنا احتجاج کرائیں۔ بہت شکریہ آپ سب کا۔
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
26 ویں آئینی ترمیم ، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا تاریخی خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, October 20, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں