43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب

43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب

25 اکتوبر 2024

الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب صدر محترم، اکابر علماء کرام، مشائخ عظام، بزرگان ملت، میرے جوانوں، میرے دوستو، میرے بھائیو، حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب نے تو سارے راز فاش کر دیے اب میں کیا کہوں گا، من آنم کہ من دانم، مجھے اپنی حیثیت معلوم ہے میں اپنی کم مائیگی سے واقف ہوں، میں آپ کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں اور جو کچھ بھی کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کیا ہے، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خدمت کی توفیق بھی دی اور اگر کچھ کامیابیاں ملیں تو اس کی نسبت بھی ہمیں عطاء کر دی یہ اسی کی مہربانی ہے اور اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

ہم حکومت میں تھے، ہمارے پاس اکثریت تھی جمعیۃ کی چار وزارتیں تھیں، یہی شہباز شریف صاحب وزیراعظم تھے، مدارس کے بارے میں یہی ڈرافٹ جو آج پاس ہوا ہے یہ اسی وقت تیار ہوا تھا اس وقت بھی اس پر اتفاق تھا اس وقت پاس نہیں ہو سکا آج ہم حزب اختلاف میں ہیں 16 کی بجائے ہمارے پاس آٹھ ممبر ہیں قومی اسمبلی میں اور اس کے باوجود کامیاب ہو گیا اور وہ بل پاس ہو گیا تو ظاہر ہے کہ آپ خود اندازہ لگائیں اس میں ہمارا کیا کمال ہے اس وقت ہم ہوتے تو اس وقت کامیاب ہو جاتا جب ہم حکومت میں بھی تھے ہماری تعداد بھی زیادہ تھی ہمارے پاس وزارتیں بھی تھیں نہیں ہو سکا اور آج جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو ہو گیا تو اللہ کی طاقت کے بغیر کون کر سکتا ہے؟ ہاں ہمارا ایمان بڑھ گیا، ہمارے عقیدے میں پختگی آئی ہے کہ مدارس کا محافظ اللہ ہے، اور دنیا کی کوئی طاقت دین مدرسے کا خاتمے کا خواب دیکھے گا تو ہمیشہ تشنہ تعبیر بنے گا۔

میرے محترم دوستو! آپ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک فیصلہ آیا مبارک ثانی کیس کے نام سے، کیس مختصر تھا کہ ملزم کی ضمانت ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے فیصلے میں غیر ضروری طور پر اضافہ کیا گیا اور وہ فیصلہ متنازع ہو گیا اسے قوم نے قبول نہیں کیا ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور سپریم کورٹ کو اس کا ادراک ہوا، اس کے بعد ایک نظر ثانی اپیل میں اس نے پھر فیصلہ دیا اس سے بھی قوم مطمئن نہیں ہو سکی پھر اپنے فیصلے کی اصلاح کے لیے عدالت نے دوبارہ سماعت رکھی تمام مکاتب فکر کے علماء کو بلایا گیا مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا گیا اور میں بھی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی عدالت میں پیش ہوا اور وہ بھی ختم نبوت کے لیے پیش ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں کامیابی بخشی ایک مختصر فیصلہ آیا جس پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق رائے کیا اور پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، اب اس کا تفصیلی فیصلہ آنا تھا اس میں جوں جوں تاخیر ہوتی گئی ہر طرف تشویش بڑھتی گئی لیکن بالآخر وہ تفصیلی فیصلہ بھی آگیا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے کچھ تھوڑا سا اس میں اضافہ کرنا بھی تجویز کیا، حضرت مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی اس کا مطالعہ کیا، میرے پاس بھی وہ تفصیلی فیصلہ آیا کچھ الفاظ کے اضافے کچھ رد و بدل کچھ حوالوں کا اضافہ جو ہم سے ہو سکا اور اسی وقت جب ہم اس پر بحث کر رہے تھے تو مجھے ایک تجویز یاد آئی کہ مولانا اللہ وسایا صاحب نے کسی وقت مجھے یہ تجویز دی تھی اب مجھے بھول گئی تھی اسی وقت ان سے رابطہ کیا کہ بھئی ہم اب آخری تفصیلی فیصلے کو دیکھ رہے ہیں آپ نے ایک تجویز دی تھی ذرا دوبارہ دہرا دیجیے انہوں نے دوبارہ دہرائی اس تجویز کو بھی فیصلے میں سمویا گیا اور الحمدللہ وہ تفصیلی فیصلہ بھی آگیا اور قادیانیت ایک بار پھر بری طرح شکست کھا گئی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے جس طرح میں نے لاہور کانفرنس میں کہا تھا اور میں یہ بھی بتا دوں کہ لاہور کانفرنس جو سن 1974 کے سات ستمبر کی گولڈن جوبلی کے طور پر منایا جا رہا تھا یوم الفتح کے طور پر منایا جا رہا تھا اس نے تاریخ لاہور کے تمام بڑے بڑے جلسے کے ریکارڈ توڑ دیے تھے، تو دعوت میں تو الحمدللہ کوئی کمی نہیں رہی تھی لوگوں نے بھرپور دعوت قبول کی لوگ پہنچے اور یہ آپ کی طاقت تھی کہ جس قوت نے عدالت عظمیٰ کو بھی اپنے رائے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا، تو یہ حفاظت کا فریضہ آئندہ بھی ادا کرتے رہو گے یا سو جاؤ گے؟ اور عہد کرو کھڑے ہو کر عہد کرو اس بات کا کہ ہم اس عقیدے کی حفاظت آخری سانس تک کریں گے، خون کے آخری قطرے تک کریں گے اور کسی کو بھی ناموس رسالت پر حملہ کرنے کی اجازت پاکستان کی سرزمین پر نہیں دی جا سکے گی۔

میرے محترم دوستو! ہم ساری زندگی اس بات کی جنگ لڑتے رہے ہیں کہ پاکستان میں سود سے پاک نظام معیشت آئے لیکن 77 سال ہو گئے آج تک ہماری وہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان جب انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو اس کی افتتاحی جلسے میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ مغرب کے نظام معیشت نے دنیا میں فساد برپا کیا ہے، مغربی نظام معیشت دو عالمی جنگوں کا سبب بنا ہے، انسانیت کو تباہ کیا ہے، ہم نے اس ملک کو قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نظام معیشت دینا ہے۔ میں حیران ہوں قائد اعظم کے ان پیروکاروں پر جو ہمیں تو ان کا مخالف قرار دیتے ہیں خود ان کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں 77 سال سے انہوں نے بانی پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا، آج حالات بن گئے، 26ویں ترمیمی بل کی تجویز آئی، میں نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی، مسئلہ یہ تھا کہ ججوں کی مدت ملازمت میں اضافہ کیا جائے یا سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، ہمارا موقف یہ تھا کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کرنی ہوگی اور ایک سرکاری ملازم کی مدت ملازمت میں اضافہ یا ان کی تعداد میں اضافہ یہ آئینی ترمیم کو زیب نہیں دیتا، ہم شخصیات کے ہاتھوں آئین کو یرغمال نہیں دیکھنا چاہتے، اگر آپ نے ترمیم کرنی ہے تو عدلیہ کی اصلاحات پر مبنی ایک بل لاؤ، سپریم کورٹ سے الگ ایک آئینی کورٹ بناؤ جو آئینی مسائل سن سکے یہ ہم اس لیے کہہ رہے تھے کہ آج بھی سپریم کورٹ میں عام لوگوں کے 60 ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں اور فیصلہ نہیں ہو رہا ان کا، پورے ملک میں چھوٹی عدالتوں سے لے کر بڑی عدالتوں تک 24 لاکھ مقدمات پینڈنگ پڑی ہے آج تک اس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا، مدعی مدعیٰ علیہ فوت ہو جاتے ہیں اس کے اگلی نسل بھی بوڑھی ہو کر فوت ہو جاتی ہے پھر اس کی اگلی نسل میں مقدمات منتقل ہوتے ہیں اور عدالتیں اپنے سر سے بوجھ نہیں اتارتا، جب میں نے یہ بات کہی تو بڑی معصومیت کے ساتھ مجھے کہا گیا کہ جی عدالتوں کے ججوں کی مدت ملازمت میں اضافہ بھی ہم نے چھوڑ دیا، ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہم نے چھوڑ دیا، آپ کے عدالتی اصلاحات کی تجویز بھی ہم نے قبول کر لی، آئینی عدالت کی بات بھی ہم نے قبول کر لی، اب تو آپ کی ساری باتیں ہم نے مان لی اب تو آپ آمادہ ہوں گے ہمیں ووٹ دینے پہ، تو ہمیں کہا گیا کہ اب تو آپ ہمیں ووٹ دیں گے میں نے کہا کہ ووٹ تب دوں گا جب میں آپ کے مسودے کا مطالعہ کرونگا، یہ تو عنوان ہے جو میں نے کہے تھے معنون کیا ہے؟ اس کی تفصیلات اور جزیات کیا ہیں؟ اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ اب وہ ہمیں مسودہ نہیں دکھا رہے تھے، ہم نے کہا جب تک ہم مسودہ نہیں دیکھیں گے ہم کس طرح تائید کریں گے! بہرحال تیسری رات دن سے لے کر رات کے ساڑھے تین بجے تک وہ ہمیں جگائے رکھے، کوئی آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے، کوئی آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے، بالآخر ہمیں مسودہ ہاتھ آگیا جب ہم نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ کسی سطح پر بھی ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھا، میں ایک چیز کا ذکر کروں گا آپ کے سامنے کہ آئین ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اس ترمیم میں بنیادی انسانی حقوق کا دائرہ تنگ کر دیا گیا تھا، کچھ استثنائیات ہوتی ہیں ان استثنائیات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا، ہم نے کہا کہ یہ تو آئین تباہ ہو جائے گا، کہاں گئی جمہوریت؟ کہاں گئے لوگوں کے انسانی حقوق؟ اور مزید کئی آئینی دفعات پر ہم نے اعتراضات کئیں، ہم نے کیا حاصل کیا تفصیل میں جاؤں گا تو پھر تو بڑا وقت چاہیے، 56 نکات پر مشتمل حکومتی مسودہ، 56 نکات پر مشتمل حکومتی مسودہ اس کو ہم 22 نکات پر لے آئے، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہمیں کتنی بڑی صفائی کرنی پڑی اس مسودے کی، آپ دیکھیں گے کہ مسودے کے نکات تو 27 ہیں میں تو 22 کہہ رہا ہوں یہ پانچ پھر ہم نے خود اپنی طرف سے اس میں ترمیم کروا کے داخل کرا دیا ہے تو پھر 27 ہو گئے۔

سود کا خاتمہ کر دیا اب لوگ کہتے ہیں کہ جی آپ نے یکم جنوری 2028 تک بڑا لمبا وقت دے دیا ہے، او بھئی میں نے نہیں دیا ہے شریعت کورٹ نے دیا تھا، شریعت کورٹ کا فیصلہ ہے اب یہ آئین کی رو سے ایک بنیادی پالیسی وجود میں آگئی، اب دوسری چیز ساتھ پڑھتے جاؤ اسی چیز کے ساتھ کہ یکم جنوری 2028 سے سود رِبا ممنوع ہوگا ختم کر دیا جائے گا، اس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ شریعت کورٹ جب فیصلہ دیتی تھی جب اس کے خلاف کوئی ایک عام سی درخواست چلی جاتی تھی تو فیصلہ اڑ جاتا تھا اور پھر پتہ نہیں قیامت تک کب سپریم کورٹ کا فیصلہ جو ہے اس کے حق میں آتا ہے یا اپیل سنی جاتی ہے یا نہیں سنی جاتی کوئی بندش آئین میں نہیں تھی، ہم نے اس میں یہ ڈال دیا کہ اب سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک سال ہوگا ایک سال تک اس کے خلاف اپیل وہ اس پر فیصلہ آئے گا اگر فیصلہ ایک سال میں نہ آیا تو شریعت کورٹ کا فیصلہ وہ خود بخود مؤثر قرار پائے گا، اب ان چیزوں کو آپ دیکھیں کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپیل سنے گا باقاعدہ اپیل سنے گا صرف ایک عام درخواست نہیں اور باقاعدہ اپیل پر شریعت کورٹ کے ہر فیصلہ یہ ہو یا کوئی اور اگر ایک سال تک اس کی اپیل پر فیصلہ نہ آیا تو شریعت کورٹ کا اپنا فیصلہ موثر ہو جائے گا۔ اب جب یہ پالیسی آگئی تو جس وقت سماعت ہوگی تو کیس میں مدعی آئے گا بمقابلہ وفاقی حکومت کے، وفاقی حکومت کا اٹارنی جنرل پیش ہو یا وفاقی حکومت کا وزیر قانون پیش ہو وہ اب پابند ہو گیا ہے کہ وہ اپنے آئین کی روشنی میں رائے دے گا اور اس فیصلے کی مخالفت نہیں کر سکے گا۔ ان ساری چیزوں کو ملا کر پڑھا کرو پھر بات سمجھ میں آئے گی مجھے نہیں معلوم کہ میں ساری بات سمجھا بھی سکا ہوں یا نہیں لیکن یہ ساری چیزیں جس وقت آپ کے ذہن میں آجائیں گے۔

ہماری اسلامی نظریاتی کونسل سن 1973 میں بنی جب آئین بنا اور یہاں ہم بار بار اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں کہ سن 73 کے آئین کے بعد اس کونسل کی آج تک ایک سفارش پر ایک قانون سازی بھی نہیں ہوئی، وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اسمبلی میں پیش ہو جاتی ہے آگے جاتی ہے کمیٹیوں کے پاس ڈمپ ہو جاتی ہے پڑی رہتی ہے الماریاں بھری ہوئی ہیں دوبارہ اسمبلی میں لانے کا کوئی پابندی آئین میں نہیں تھی، اب اس دفعہ اس ترمیم کے ذریعے وہ رپورٹ صرف پیش نہیں ہوگی بحث کے لیے لائی جائے گی جب بحث ہوگی تو یہ ظاہر ہے ایوان دو فریقوں میں تقسیم ہوگا کچھ کہیں گے کہ اس کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے اور بات جائے گی قانون کے مطابق کوئی فیصلہ لانے پر پارلیمنٹ مجبور ہوگی کہ وہ قانون کے مطابق اور سفارشات کے مطابق قانون سازی کریں گے، وہاں تک پہنچانا بھی تو تھا نا تو وہاں تک پہنچانے کا راستہ ہم نے بنا دیا ہے۔ اب یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ ہم میں اب بھی اس کو پیشرفت سمجھتا ہوں ایک کامیاب پیشرفت سے اس کو تعبیر کرتا ہوں، ہم نے اب اس کو کامیاب بنانا ہے اور اس کو رو بہ عمل لانے کے لیے آپ کو جاگے رہنا ہے، جمعیۃ کی تنظیموں کو جاگے رہنا ہے پبلک میں جانا ہے خاموش نہیں بیٹھنا، ختم نبوت کے مبلغین کا فرض ہوگا کہ وہ جگہ جگہ اپنا موقف لے کر پبلک کو زندہ رکھے اور جو پاکستان کے عوام اس حوالے سے زندہ رہیں گے کسی مائی کا لعل اس قوانین کا اور شریعت کا راستہ نہیں روک سکے گا ان شاءاللہ، لیکن اگر آپ گھروں میں چلے گئے، مدرسوں کی حجروں میں چلے گئے، محراب کے اندر پھنس گئے، اس کے بعد پھر ذمہ دار آپ ہوں گے ہم نہیں ہوں گے۔

میرے محترم دوستو! ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں اب ہم نے اس سے آگے جانا ہے، کچھ میں ذرا تھوڑا سا چوں چوں سن رہا ہوں کہ کوئی اور 27 ویں ترمیم آرہی ہے جو اس میں نہیں ہو سکا وہ کیا جائے گا، تمہارا باپ بھی نہیں کرسکے گا! کر کے دکھاؤ زرا اور پھر اپنا حشر دیکھ لو کہ تمہارا کیا حشر کیا جاتا ہے، اس طرح بھی آسان نہیں ہے کہ آپ آرام سے کوئی ترمیم لائیں گے اور ہم چوڑیاں پہن کر گھروں میں عورتوں کی طرح بیٹھے رہیں گے یہ بھی نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔ کوئی نہ سوچیں کہ جن چیزوں کو ہم نے مسترد کیا اور 26 ویں ترمیم سے نکالا اسے دوبارہ کسی ترمیم کے ذریعے سے اسمبلی میں لایا جائے گا اور لوٹوں کے ووٹوں سے پاس کرو گے اور پھر وہ چلنے دیں گے ہم! لوٹوں کے ووٹوں سے پاس ہونے والی ترمیم قوم کو قابل قبول نہیں ہوتی، ہم نے سپریم کورٹ سے اپنا فیصلہ واپس لینے پر ان کو مجبور کیا، قومی اسمبلی میں تو ہوں خود بیٹھے ہوئے ہیں! اور اگر کل کلاں ہم اسمبلی میں نہ بھی ہوں تب بھی الحمدللہ باہر آپ لوگ تو ہیں نا، تو پھر مل کر نکلیں گے نا ان شاءاللہ، تو بے فکر رہیں اور یہ بات بالکل صحیح کہی مولانا اللہ وسایا صاحب نے کہ پارلیمانی ان کامیابیوں کے بعد ایک پہلے جلسے سے میں خطاب کر رہا ہوں اور وہ بھی ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے تو ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باصفات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو دل میں حاضر سمجھتے ہوئے عہد کیجیے کہ ہم نے اس ملک کو اسلام کے حقیقی منزل تک پہنچانا ہے ان شاءاللہ العزیز۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

ویڈیو | چنیوٹ: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب

Posted by Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan on Friday, October 25, 2024

0/Post a Comment/Comments