مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں اہم پریس کانفرنس 3 اکتوبر 2024


قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا اسلام آباد میں اہم پریس کانفرنس

3 اکتوبر 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 

آپ حضرات کا شکر گزار بھی ہوں اور آپ سے معذرت خواہ بھی ہوں کہ ایک لمبے عرصے سے آپ یہاں تشریف لے آتے ہیں اور یہاں کی جو سیاسی سرگرمیاں ہیں اس کو آپ کور کر رہے ہیں، تو آج میں نے سوچا کہ آپ سے براہ راست ملاقات بھی ہو جائے بات چیت بھی ہو جائے۔

اس وقت جو سب سے کربناک اور تکلیف دہ موضوع ہے وہ اسرائیل کی وحشیانہ دہشت گردی ہے ریاستی دہشت گردی اور جو غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے 50 سے 60 ہزار مسلمانوں کو جو بچے ہیں خواتین ہیں بوڑھے ہیں عام شہری ہیں ان کو شہید کیا ہے انہوں نے اور ابھی تک ان کا خون پی پی کر ان کا پیاس نہیں بجھ رہا ہے، اب انہوں نے اس سلسلے کو جو ہے وہ لبنان تک وسیع کر دی ہے دوسرے اسلامی ممالک تک وہ آگے بڑھ رہا ہے تو اس دہشت گردی کا راستہ روکنا امت مسلمہ کا فرض بن جاتا ہے اور ایسے حالات میں امت مسلمہ کی خاموشی یا ان کے حکمرانوں کی جو خاموشی ہے وہ پوری امت مسلمہ کے لیے تشویش کا باعث ہے، ہمیں بڑا واضح موقف لینا چاہیے، عملی اقدامات کرنے چاہیے اور فلسطین کے آزادی اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے مسلمانوں کو ایک متحدہ کمان میں آنا چاہیے مشترکہ دفاع میں ان کو ایک پالیسی بنانی چاہیے۔

یہ بھی بڑی واضح بات ہے کہ اسرائیل اس وقت جو اسلحہ استعمال کر رہا ہے اس میں امریکہ اور مغربی دنیا کا اسلحہ شامل ہے، اس کی پشت پر وہ لوگ موجود ہیں اور انسانی نسل کشی کے اس عالمی سطح کا جرم جو وہ کر رہے ہیں انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں کس بنیاد پر آج کے بعد امریکہ کو یا مغربی دنیا کو انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہوگا جبکہ انسانوں کا خون ان کے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور وہ عالمی دنیا کی قیادت کی بات کرتے ہیں، امریکہ اور مغربی دنیا کو عالمی دنیا کی قیادت کا اب کوئی حق حاصل نہیں ہے پرسکون عالمی زندگی، انسانیت کی زندگی یہ مطلوب ہے اور یہ اس کے دشمن ہیں انسانوں کا قتل عام کا ایک کئی دہائیوں پر مشتمل اب ان کی جو تاریخ ہے وہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے اور ان کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔

اسلامی دنیا کے نامور شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کا یہ خیال ہے کہ مسلمان جب ان کی شخصیات دنیا سے چلی جائیں تو مسلمان اپنا جذبہ ہار جاتا ہے، مسلمان اور اسلام اس کی بقا کا دارومدار ان کے عقیدے پر ہے اس کی توحید پر ہے ان کے اسلام پر ہے اور اسلام کی بقا کے لیے وہ ہتھیار نہیں ڈالتے وہ آگے بڑھتے ہیں اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں، شخصیات آتی ہیں جاتی ہیں اس نے ایک دن تو دنیا سے جانا ہی ہے لیکن عقیدہ جو ہے وہ دائمی ہے وہ برقرار رہتا ہے اور آج بھی مسلمان اگر زندہ ہے تو توحید پر مر مٹنے کے جذبے کے ساتھ زندہ ہے۔

اس وقت پاکستان میں شنگائی تعاون کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے ہم دنیا بھر سے اس تنظیم سے وابستہ ممالک کے سربراہان اور ان کے جو مندوبین ہیں ان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں، ہر چند کے پاکستانی معیشت اس حد تک زمین بوس ہو چکی ہے کہ اس حکومت سے کہ جو ہماری نظر میں عوام کی حقیقی نمائندہ بھی نہیں ہے اس سے کوئی زیادہ استفادہ کرنے یا اس کانفرنس کو پاکستانی معیشت کے لیے ثمر آور بنانے کے لیے ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں ہے، تاہم یہ کانفرنس اگر یہاں ہو رہی ہے تو ہم مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور امید وابستہ کرتے ہیں کہ شاید پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی بہتری کی کوئی نوید دے سکے۔

اس مقصد کے لیے میں حکومت سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو آئینی ترمیم کے بل ہے اس کو مؤخر کر دیا جائے تاکہ یہ کانفرنس اب انجام کو پہنچے، اس دوران میں داخلی جو تنازعات ہیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور اس کو ہمیں یکجہتی میں تبدیل کر دینا چاہیے اور کسی قسم کے تناظر سے ہمیں بالاتر ہو جانا چاہیے، میں اپوزیشن سے بھی یہی اپیل کروں گا کہ وہ اپنے احتجاجات اس دوران نہ کریں اس کو مؤخر کر دیں تاکہ اس دوران میں کوئی منفی پیغام ہمارے عوام کے صفوں سے نہ جائے اور مہمانوں کا یہاں پر جو موجودگی ہے اس میں قوم ایک صف پر نظر آئے۔

ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی ایم کے جرگے کے منتظمین پر کوئی تشدد ہوا ہے جو بڑی قابل مذمت بات ہے، یہ لوگ ان سے اختلاف کیے جا سکتا ہے ان کے نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس پر ڈیبیٹ کیا جا سکتا ہے لیکن غیر مسلح ہے اور وہ ایک جرگہ کر رہے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان مخالف سوچ ابل رہی ہے تو ایسے اقدامات تو انہیں مزید برانگیختہ کرنے کی کوشش ہے اور اس کو برانگیختہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، تو حکومت کو بھی ذمہ دارانہ رویے اپنانے چاہیے اور اس قسم کے اقدامات سے شاید پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ہمیں یکجہتی کی طرف جانا چاہیے اور حب الوطنی کے لیے ہمیں ماحول بنانا چاہیے تاکہ لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کریں اور یہاں پر جو لوگ اس وقت احتجاج پر ہیں ان کو بھی ہمیں مین سٹریم لائن پہ لانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کو ہم متحد کر سکیں اور پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنا سکیں۔

جہاں تک اس آئینی ترمیم کا مسئلہ ہے مجھے حیرت ہے اس بات پر کہ انہیں اس بات میں عجلت کس چیز کی ہے اور اس میں کوئی ایمرجنسی مجھے نظر نہیں آرہی، ایک زمانے میں ہمیں کہا گیا کہ اتوار کے دن ہی کرنا ہے ورنہ سوموار آئے گا تو آسمان زمین پہ گر آئے گا، آسمان تو نہیں گرا ایک ستارہ بھی نہیں گرا، تو اس طریقے سے لوگوں پہ ایمرجنسی مسلط کر کے کہ ان لیوا جس طرح بھی وہ چاہیں ہم بل کی منظوری دے دیں میرے خیال میں یہ بل اپنی تفصیلات کے ساتھ اصول کے ساتھ نہیں تفصیلات کے ساتھ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو پاس کیا جائے اس کو سپورٹ کیا جائے اور ہم کسی بھی قیمت پر حکومت کے ساتھ پلس ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور حکومت عجیب ہے یعنی آپ خود اندازہ لگائیں اسلامی نظریاتی کونسل 1973 میں بنی اور آئین میں لکھا ہوا ہے کہ سات سال کے اندر اس نے ان کی سفارشات پر قانون سازی کرنی ہے آج 2024 ہے ایک سفارش پر بھی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے لیے کوئی جلدی نہیں ہے لیکن ان کے معروضی مفادات، فوری مفادات، سیاسی مفادات، اس میں اتنی جلدی ہوتی ہے کہ راتوں رات آئین میں ترمیم کی جائے۔ آپ کو یاد ہے اٹھارویں ترمیم کے لیے ہم نو مہینے بیٹھے رہے ہیں نو مہینے بیٹھ کر ہم نے مشکل سے ایک ترمیم تیار کی ہے، آج 24 گھنٹے کے اندر اندر ایک ترمیم کے لیے ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ اس کو پاس کریں، کس طرح یہ ہو سکتا ہے کیسے یہ ممکن ہے تو یہ چیزیں جو ہیں ہمیں واضح کرنی چاہیے کہ یہ جلد بازی ہمیں قبول نہیں ہے اور ملک آج جن حالات سے گزر رہا ہے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے جو صورتحال ہے جہاں حکومتی رٹ ختم ہو گئی ہے اس رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بھی موجود ہیں اختیارات بھی موجود ہیں کوئی نئی قانون سازی یا ان سازی کی ضرورت بھی نہیں ہے، یہاں پر ملٹری کورٹس کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، یہاں پر عدلیہ میں اصلاحات کے نام پر۔۔۔ ہماری تجویز ہے ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ میں اصلاحات ہوں، ابھی آج بھی ایک فیصلہ آیا ہے 63 اے کے حوالے سے 63 اے کے حوالے سے فیصلہ اگر آیا ہے عدالت کا فیصلہ ہے ہم قبول کرتے ہیں لیکن بات بنیادی یہ ہے کہ اس میں کوئی میچ فکسنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ کوئی سیل پرچیز کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے اس کو جی، یہ پہلو اپنی جگہ پر ہونا چاہیے کہ ہمیں عدالت کا احترام بھی ہے ان کے فیصلے ہیں لیکن ہمارے ملک کی جو روایات ہیں ان کو بھی مدنظر رکھ کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس کا غلط فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے اور حکومتیں اس کا پہلی بھی غلط فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔

ہمارے دینی مدارس کے حوالے سے آج تک ان کی رجسٹریشن بند ہے، بند حکومت کی طرف سے ہے پھر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بغیر رجسٹریشن کے مدارس چل رہے ہیں، ان کے اکاؤنٹس بند ہیں تو کہتے ہیں ان کے آمدن کا پتہ نہیں چل رہا کہاں سے اس کو پیسے آرہے ہیں، یہ ساری چیزیں حکومت کی طرف سے ہیں اور اس پر کوئی ایمرجنسی ان کے لیے نہیں ہے، کیوں؟ اس میں باہر کی دنیا سے مغرب کی دنیا سے ان کو شاباش ملتی ہے، جس مسئلے پر ان کو مغرب کی طرف سے شاباش ملتی ہو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جہاں سے وہ سمجھتے ہوں کہ ہم نے اپنے مفادات کے لیے ترمیم کرنی ہے تو فوراً ترمیم بھی لے آتے ہیں اور قانون سازی کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جو ملک میں ابھی تک پینڈنگ مسائل ہیں اور اس کے لیے قانون سازیاں روکی گئی ہیں، کیوں روکی گئی ہیں؟ اچھی بھلی معاملات اتفاق رائے ہونے کے باوجود مدارس کے معاملات کو طے نہیں کیا گیا تو یہ ساری چیزیں اہم ہیں اور پاکستان میں اس کو پرائرٹی ملنی چاہیے اگر اس کو پرائرٹی نہیں ملے گی ہمارے نزدیک جو حکومت کی طرف سے تجاویز آرہی ہیں کوئی ہمارے نزدیکی پرائرٹی نہیں ہے ہم اس میں کوئی اہمیت نہیں دیں گے جس کو ہم اہمیت دینا چاہتے ہیں ان کو لائیں، ہماری بھی بات سنی جائے نا اگر ہم اتنے اہم ہیں اور ہمارا ووٹ اتنا ضروری ہے تو پھر ہمارے مقاصد کے لیے ضروری کیوں نہیں ہے! تمہارے مقاصد کے لیے کیوں ضروری ہے! تو یہ ہماری گذارشات ہیں اور اس حوالے سے میں ایک بار پھر اپ کا شکر گزار ہوں۔


سوال و جواب

سوال: مولانا صاحب آپ یہ بتائیے گا کہ آپ نے کہا کہ عدالت کے لیے میچ فکسنگ نہیں ہونی چاہیے تو کیا یہ جو فیصلہ آیا ہے پھر اس کو آپ میچ فکسنگ سمجھتے ہیں؟

جواب: نہیں میں سمجھتا نہیں ہوں ہونا نہیں چاہیے، میں نہیں کہہ رہا ہے کہ ہے لیکن میں کہتا ہوں نہیں ہونا چاہیے۔

سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ یہ بھی ایک عدالت کا فیصلہ آیا جیسے آپ نے بات کی اور دوسرا حکومت نے فوری طور پہ یہ وہاں سے پتہ چلا ہے کہ فوری طور پر مشترکہ اجلاس جو ہے وہ بلایا جانے کی جو ہے وہ امکانات ہیں اور جلد بلایا جائے گا اگر ان دنوں میں اگلے آنے والے دو تین دنوں میں اجلاس بلایا جاتا ہے اور آئینی ترمیم کا کوئی مسودہ پیش کیا جاتا ہے اس صورت میں جے یو آئی کا اور دوسری اپوزیشن کا کیا کٹ ہوگا کس طرح سے آپ جائیں گے کیا آپ اس کا بائیکاٹ کریں گے یا وہاں پہ احتجاج کریں گے اس حوالے سے کوئی حکمت عملی۔۔۔۔

جواب: دیکھیے ابھی تک نہ ہمیں مشترکہ اجلاس بلانے کی خبر ہے اور نہ اس حوالے سے ہم نے بھی کوئی حکمت عملی بنائی ہے، ظاہر ہے ہمارا ایک موقف ہے جو بھی حکمت عملی ہوگی ہمارے موقف کے تابع ہوگی۔

سوال: جے یو آئی کے علاوہ حکومت کے پاس جو نمبر گیم ہے وہ پوری ہے کیا آپ کے ساتھ جو اس وقت ملاقاتیں ہیں اس سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کیا اس طرح کی کوئی بات ہے اور اگر نمبر میں پوری ہے تو آپ کے پاس ملاقاتوں کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔

جواب: ابھی ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جس حوالے سے آپ بات کررہے ہیں۔ 

سوال: مولانا صاحب آپ نے فلسطین کی بات کی اور امت مسلمہ کی بات کی تو یہ رول جو ہے وہ سعودی عرب ادا کر سکتا ہے لیکن سعودی عرب ابھی تک کچھ بھی نہیں کر رہا تو آپ کا کیا سٹانس ہے سعودی عرب کو کیا کرنا چاہیے آپ مطمئن ہے اس سے؟

جواب: میرے خیال میں سعودی عرب کو قیادت کرنی چاہیے امت مسلمہ کی ان کا ایک مقام ہے اور پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، ترکی ان کا ایک گروپ ہونا چاہیے جو فلسطین کے مسئلے پر یہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرے اور امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر لائیں۔

سوال: مولانا صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی جو میڈیا ٹیم ہے وہ ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا، آپ کے جو چار پانچ جو چھوٹے بڑے ترجمان ہیں ان کی جانب سے کوئی رسپانس نہیں آتا، باقی سیاسی جماعتیں تعاون کرتی ہے پارٹی کے جو میڈیا ٹیم ہے۔۔۔

مولانا صاحب: آپ کیسے تعاون چاہتے ہیں؟ 

صحافی: کوئی کال نہیں اٹھاتا کوئی جواب نہیں دیتے۔۔۔

مولانا صاحب: اسلم غوری صاحب کو اشارہ کرتے ہوئے یہ سوال آپ سے ہے۔۔۔ 

صحافی: مولانا صاحب آپ کو بہت بہت مبارک ہو آپ پھر امیر منتخب ہوگئے ہیں، مولانا صاحب نویں کی دہائی سے لے کر اب تک آپ ہی امیر چلے آرہے ہیں حالانکہ آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو کیا جمعیۃ علماء اسلام میں اب تک آپ کے مقابلے میں کوئی امیر نہیں آیا؟

مولانا صاحب: یہ تو جماعت سے پوچھیں جی۔

سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ آپ نے تو پارلیمنٹ کو مسترد کر دیا اور آپ نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کو کوئی حاصل نہیں ہے کوئی آئینی ترمیم کرنے کا، دوسری جانب یہ بھی خبریں ہیں کہ آپ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ترمیم کا مسودہ بنا رہے ہیں تو یہ مطلب ہے کوئی اس میں کیا ہے کہ آپ اگر۔۔۔

جواب: میں نے اپنے سوچ آپ کو بتا دی ہے یہ ہماری سوچ ہیں باقی ہمارے رابطے ہیں، پیپلز پارٹی سے بھی ہمارا رابطہ ہے اور ان سے بھی یہی طے ہوا ہے کہ آپ بھی ایک ڈرافٹ بنا دیں ہم بھی ایک ڈرافٹ بناتے ہیں، پی ٹی آئی سے بھی یہی بات ہوئی ہے کہ آپ بھی ایک ڈرافٹ بنا دیں ہم بھی ایک ڈرافٹ بناتے ہیں پھر ان کو شئیر کرتے ہیں تمام پارٹیوں کے درمیان جہاں تک اتفاق رائے ہو سکتا ہے ہمیں کوئی اتفاق رائے سے تو جھگڑا نہیں ہے

سوال: تو پھر اتفاق رائے والی یہ پارلیمنٹ پاس کرسکتی ہے؟

 جواب: اگر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو سب سے اچھی بات ہے لیکن بظاہر اس وقت تک اتفاق رائے نہیں ہے۔

سوال: مولانا صاحب آپ فرما رہے ہیں کہ منڈیاں نہیں لگنی چاہیے خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن جو ٹریک ریکارڈ ہے وہ تو منڈیاں بھی لگیں گی خرید و فروخت بھی ہوگی یہ کیا بہتر نہیں ہوتا کہ جمیعۃ علماء اسلام باقاعدہ اس میں پارٹی بنتی اور فل کورٹ کا مطالبہ کرتی تو یہ معاملہ کسی نہ کسی حد تک رک سکتا تھا۔

جواب: یہ تو آپ پہلے مشورہ دیتے نا اب وقت گزر گیا تو مشورہ دے رہے ہیں۔۔۔

سوال: مولانا صاحب آج کے فیصلے سے رول کراسنگ تقریباً الاؤ ہو چکی ہے بطور سیاستدان پارلیمنٹیرین آپ اس چیز کو کیسے دیکھتے ہیں کہ اب لوگوں کی وفاداری۔۔۔

جواب: الحمدللہ 88 سے میں اسمبلی میں ہوں نہ ہی کسی صوبائی اسمبلی میں نہ ہی وفاق میں کوئی ایک ممبر بھی ہمارا کوئی فلور کراس نہیں کر سکا ہے جی، ہم اپنی پارٹی کی ذمہ دار ہیں الحمدللہ اللہ نے ہمیں یہ عزت دی ہے ہمارے اراکین پارٹی کے ساتھ بڑے مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ان کی ایک کمٹمنٹ ہوتی ہے اور آج بھی ہمیں یہ امید ہے کہ ان شاءاللہ جمعیۃ علماء اسلام کے بارے میں بے فکر رہیں باقی جو ہے وہ ان کا خیال رکھا جائے۔

سوال: پہلی دفعہ آپ نے جو انکار کیا اس کے بعد دوسری کوشش میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اگلی ترمیم کسی نہ بائے ہوک اینڈ بائے گروپ اگر کروا لی جاتی ہے تو آپ نے پشاور میں کہا کہ یہ ترمیم کا جو مسودہ ہے یہ آئینی ترمیم کا نہیں مارشل لاء کا مسودہ ہے تو اگر یہ بائی ہوک اینڈ بائی گروپ کروا لی جاتی ہے زور زبردستی تو پھر آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی؟

جواب: ظاہر ہے جی کہ ہم تو اس سے اختلاف رائے کریں گے اور اختلاف رائے کی نوعیت کیا ہوگی وہ پھر باقاعدہ ابھی تو ہمارے نئے الیکشن ہوئے ہیں نہ ہمارے عاملہ بنی ہے ابھی تک نام ہے شوریٰ بنی ہے تو وہ بنیں گے تو ان شاءاللہ یہ ساری چیزیں ان میں زیر بحث آئیں گی۔

سوال: سیاسی رہنماؤں سے تو آپ کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ایک ایسی ملاقاتیں بھی ہیں جو کیمروں کے سامنے نہیں ہوئی تھی مطلب سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی کوئی آپ کے ساتھ رابطے پر ہے کوئی رابطہ نہیں ہے، سر خلائی مخلوق تو یہاں پر نہیں آتی 

جواب: نہیں کوئی نہیں آیا، آپ 24 گھنٹے باہر ہوتے ہیں آپ کے سامنے کوئی گزرا ہے؟ صبح کے اذان تک تو آپ کھڑے ہوتے ہیں۔

سوال: آج بھی اس بات پہ قائم ہے کہ آپ کے بغیر یہ ترمیم نہیں ہوگی آج بھی آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے جماعت کے بغیر یہ ترمیم نہیں ہو سکتی؟

جواب: یہ مجھے ابھی تک تو نہیں ہے اور آگے اگر کوئی اور صورتحال بن جاتی ہے تو اس کا میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا لیکن ہم اپنی رائے کے تابع ہوں گے ہم اپنے موقف کے تابع ہوں گے اور مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پہ بات کریں گے۔ سوال: پارلیمنٹ کے اندر اس کو روکیں گے یا کہ روڈز پہ بھی آنے کا کوئی پروگرام ہے آپ کا؟

جواب: یہ ساری چیزیں جب ہماری شوریٰ بیٹھے گی تو اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔

سوال: مولانا صاحب ذرائع سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ آپ سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے حوالے سے جو ہے کچھ تحفظات کا اظہار کیا جاتا تھا تو تحریک انصاف اور آپ کی جماعت کا یعنی جو آپس میں جو رابطہ ہوتا رہا اور اسی طرح وزیر اعلیٰ کے پی کے حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار۔۔۔۔

مولانا صاحب: کچھ تحفظات کا؟ یہ تو آپ نے بڑی معمولی لفظ کہا ہے، وہاں سرے سے حکومت ہی نہیں ہے۔

سوال: مولانا صاحب آج جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے، کیا کوئی۔۔۔

جواب: میں نے تو بات کرلی اس کے اوپر یہی کافی ہے نا جی

سوال: اچھا مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ حکومت کہتی تھی کہ پہلے آپ کو منانے کی کوشش کی رہنما آتے رہے بعد میں ان کا ہی موقف یہ تھا کہ اب ہمیں مولانا صاحب کی شاید ضرورت نہ پڑے تو کیا حکومت کامیاب ہوگئی آپ کے بغیر۔۔۔۔

جواب: اس پر تو دو تین سوالات آگئے ہیں ہم نے بات کر لی ہے تو بار بار دہرانے کی کیا ضرورت ہے۔

سوال: اچھا مولانا صاحب کل عرفان صدیقی صاحب نے آپ سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے اپنی گفتگو میں باہر بتایا کہ پی ٹی آئی والے کیونکہ وہ بھی پولیٹیکل سٹیٹ ہولڈر ہیں اس آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت میں تو وہ تو ان کو روز ڈاکو اور چور کہتے ہیں تو وہ ان سے ڈائریکٹلی بات نہیں کرتے تو مولانا صاحب اگر چاہیں ان سے بات کر سکتے ہیں ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں تو ایسی کوئی پیشکش آپ کو ہوئی اور اس میں آپ یہ کردار ادا کر رہے ہیں؟

جواب: ہماری تو اول دن سے یہ کوشش ہے کہ اختلاف رائے ہو لیکن جو تعصبات اور نفرتیں ہیں اور دشمنی تک بات چلی جاتی ہے ملکی سیاست میں یہ عنصر نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے ہماری کوشش بھی ہے، اب سب سے زیادہ اختلاف تو پی ٹی آئی اور ہمارا تھا لیکن اگر ہم اپوزیشن میں آکر بیٹھے ہیں تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز ہم کوشش کر رہے ہیں کہ حزب اختلاف جو ہے وہ آپس میں کسی باہمی مزاحمت کا شکار نہ ہو اور اس میں ہم کامیاب آگے بڑھ رہے ہیں اور میں یہ بھی چاہوں گا کہ اختلاف ہو اختلاف ہوتے ہیں اپوزیشن اپنا کردار ادا کرتی ہے حکومت اپنا کردار ادا کرتی ہے تعمیری تنقید جو ہے وہ تو حسن ہے ہماری جمہوریت کا ہمارے پارلیمنٹ کا اور یہ رہے گا اور جس طرح جتنا حجم عمل کا ہوگا اتنا ہی حجم رد عمل کا ہونا چاہیے۔

سوال: مولانا صاحب آپ کی وجہ سے پچھلی مرتبہ ان کا سب نظام جو ہے وہ دھڑام سے گر گیا، اتوار والا دن بھی جو تھا کہ آسمان گر پڑے گا وہ واقعی گر پڑا ان پہ، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ پھر جو ہے یہ کوشش، آپ کا سیاسی تجزیہ کیا کہتا ہے کہ پھر اسی طرح یہ ہونے جا رہا ہے یا نہیں؟

جواب: حضرت ابھی تک تو ہمیں کوئی ایسی اطمینان بخش چیز نہیں ملی ہے کیونکہ روز کوئی نہ کوئی مسودے میں نیا نیا مسودہ آتا ہے روز کوئی نیا مسودہ آتا ہے پھر ایک نیا مسودہ آتا ہے تو اس طریقے سے تو ابھی تک وہاں پر بھی کوئی ایک یکجہتی موجود نہیں ہے نہ یکسوئی موجود ہے کہ ہمیں کوئی ایک بات کہی جائے، جس وقت کوئی ایک بات پر پہنچے گا تو پھر ہم بات کریں گے۔

سوال: مولانا صاحب کل پی ٹی آئی نے ڈی چوک پہ احتجاج کی کال دی ہوئی ہے تو کیا اس کی حمایت۔۔۔

جواب: میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کا اور ہمارا کسی طرح بھی کوئی مشترکہ اجتماع کا کوئی فیصلہ آپس میں نہیں ہوا ہے جی، وہ اپنے جلسے کریں گے ہم اپنے جلسے کریں گے لیکن ہم نے ایک اپیل کی ہے کہ جب تک باہر کے مہمان یہاں موجود ہوں ہمیں کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے کہ منفی پیغام جائے ادھر جی۔

سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ جماعت اسلامی کی جانب سے سات تاریخ کو ملین مارچ کا اعلان کیا گیا ہے اسلام آباد میں غزہ اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے اگر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن صاحب آپ سے اس حوالے سے رابطہ کرتے ہیں جیسے انہوں نے دو دن پہلے پی ٹی آئی سے بھی ملاقات کی اور آج بلاول ہاؤس بھی گئے تھے غزہ ملین مارچ کے حوالے سے اگر جماعت اسلامی آپ سے رابطہ کرتی ہے اور آپ منع کر رہے ہیں کہ اس وقت جو شنگائی تعاون تنظیم ہے اس کے مندوبین بھی اسلام آباد میں موجود ہیں اگر کوئی رابطہ کرتے ہیں تو آپ کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟

جواب: ابھی میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور جب تک کوئی رابطہ نہیں ہوتا تو میں اگر پہ تو جواب نہیں دے سکتا جی۔

بہت شکریہ جی


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات 

#teamJUIswat

اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی اہم پریس کانفرنس

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, October 3, 2024

0/Post a Comment/Comments