مولانا فضل الرحمن کا گھر قومی اور بین الاقوامی شخصیات کی توجہات کا مرکز


مولانا فضل الرحمن کا گھر قومی اور بین الاقوامی شخصیات کی توجہات کا مرکز 

 حافظ مومن خان عثمانی

جمعیت علماء اسلام جب سے وجود میں آئی ہے اسی وقت سے یہ پاکستان میں نہایت ہی اہمیت کی حامل جماعت رہی ہے، کوئی حکمران بھی اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کرسکا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کے اکابر نے انگریزوں کے دور میں غلام ہندوستان کو غلامی سے چھڑانے کے لئے وہ بیش بہا قربانیاں دی ہیں جس کی مثال گزشتہ تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، ان کے خاندان اور شاگردوں سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ، حضرت سید احمدش شہید، مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ، شیخ الاسلام موللانا عبد الحئی، ان کے شاگردوں، پیروکاروں اور اولاد کی قربانیوں سے کون ناواقف ہے؟ 1857ء کی جنگ آزادی میں امام الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ، حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ، فقیہ الہند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ، مولانا مظہر نانوتویؒ اور شہید آزادی ہند حضرت حافظ محمد ضامن شہیدؒ کی لازوال قربانیوں کا کون انکار کرسکتاہے، تحریک ریشمی رومال کے قائد شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدمدنیؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مفتی اعظم پختونخوا مفتی عبدالرحیم پوپلزئیؒ، مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی ؒکی جہد مسلسل اور اس کے نتیجہ میں قیدوبند کی صعوبتوں کی گواہی دینے کے لئے کالاپانی اور مالٹا کے علاوہ برصغیر پاک وہند کا ہر جیل اور اس کے درودیوار آج بھی تیارہیں، قیام پاکستان کے بعد امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوریؒ، مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مفکراسلام مولانا مفتی محمودؒ، شیخ الاسلام مولانا عبداللہ درخواستی ؒ، خطیب اسلام مولانا اجمل خانؒ، مولانا عبیداللہ انورؒ اور ان کے رفقاء کی ان تھک جدوجہد مولانا فضل الرحمن کی وہ روحانی قوت وطاقت ہے جس کامقابلہ وقت کا بڑے سے بڑا جابر، ظالم اور سفاک حکمران بھی نہیں کرسکتا، کسی بھی قائد و رہنما کی اصل قوت اس کے افکار ونظریات اور ان کی پختگی ہوتی ہے، عددی لحاظ کوئی کتنا ہی بڑا طاقتور کیوں نہ ہو لیکن جب اس کے افکار ونظریات میں کمزوری اور ضعف ہو تو وہ کبھی بھی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا، اگر کسی شخص کی مقبولیت چار سو گلی کوچے میں ہرطرف پھیلی ہوئی ہو مگر اس کا موقف کمزور اور لاغر ہو تو بھی وہ سیاست کی راہ داریوں میں اپنا مقام پیدانہیں کرسکتا، کسی کے پاس کارکنوں کا بہت بڑا لاؤ لشکر ہو مگر اس کا مشن سچائی کی دولت سے خالی ہو تو وہ بھی توجہ کا مرکز نہیں بن سکتا نہ وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی لاسکتا ہے، مولانا فضل الرحمن عددی لحاظ سے 13 سیٹیوں کے مالک ہیں لیکن مذکورہ بالا اوصاف کے ساتھ اپنی ذاتی فہم وفراست، معاملہ فہمی، ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے پاکستانی سیاست کے ضروری عنصر اور فولادی چٹان ثابت ہوئے ہیں، ان کا گھر قومی اور بین الاقوامی شخصیات کی توجہات کا مرکز ہے، ان کے گھر میں موافق مخالف سبھی تشریف آوری اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں، ان سے ملاقات، مصافحہ اور معانقہ کو سب اپنے لئے دلی سکون واطمینان کا ذریعہ سمجھتے ہیں، خصوصاً پچھلے بیس پچیس دنوں سے تو جی سکس فور میں واقع مولانا صاحب کا مکان سیاست کی وہ یونیورسٹی، خانقاہ، مدرسہ اور مرکز بنا ہوا ہے جہاں بلاتفریق جماعت وپارٹی ہر رہنما اپنی حاضری ضروری سمجھتا رہاہے، ستمبر کے وسط میں دو تین دن تو حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان بڑا سخت مقابلہ تھا کہ کون پہلے مولانا صاحب کے دربار میں پہنچے گا اور دیدار و گفتگو کا شرف حاصل کرے گا، حزب اقتدار اور اختلاف کے رہنماؤں کے علاوہ ملک کے نامور سینئر صحافیوں اور اینکروں کی ایک بڑی تعداد بھی گزشتہ دونوں ان کی خانقاہ میں مراقبہ ومزاکرہ کرنے کے لئے حاضر ہوئی تھی، یقیناً انہوں نے خانقاہ سیاست کے پیرو مرشد مولانا فضل الرحمن کی مجلس میں جو مراقبہ ومزاکرہ کیا تھا اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور محسوس کیا ہوگا بلکہ کچھ نامور صحافیوں نے ان احساسات کا تذکرہ اپنے مضامین میں کیا بھی ہے، یکم اکتوبر کو عالم اسلام کے مشہور سکالر اور عظیم مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بھی اپنی سب سے پہلی حاضری دربارِ رحمانی کے سجادہ نشین پیرومرشد حضرت مولانا فضل الرحمن کے ہاں ضروری سمجھی ”ڈاکٹر ذاکر نائیک“ وہ بین الاقوامی شہرت کے مالک عظیم مبلغ اسلام ہیں جنہوں نے 2000ء میں ایک امریکی نامی گرامی عیسائی عالم کے ساتھ ”قرآن اور بائیبل، سائنس کی روشنی میں“ کے موضوع پر کئی گھنٹے طویل مناظرہ کیا تھا یہ مناظرہ ایک امریکی ٹی وی چینل نے براہ راست دکھایا تھا اس کے بعد کم ازکم ”34 ہزار غیر مسلموں“ نے فوراً اسلام قبول کیا تھا، ڈاکٹر صاحب کا دعوتی سلسلہ ان کے قائم کردہ پیس ٹی وی، وڈیو ریکارڈنگ، تحریروں، انٹرنیٹ اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رہتا ہے، پیس ٹی وی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ناظرین کی تعداد ”10 کروڑ“ سے متجاوز ہے ”پیس ٹی وی انگلش“ مسلم دنیا کا سب سے بڑا چینل ہے جو دنیا کے 200 ممالک میں دیکھا جاتا ہے، جس کے 25 فیصد ناظرین غیر مسلم ہیں، 2010 میں بھارتی نشریاتی ادارے انڈین ایکسپریس“ نے انہیں ملک کی 90 ویں با اثر شخصیت قرار دیا تھا، 2011ء میں ان کا درجہ 89 واں تھا، اس سے قبل 2009 میں انہیں بھارت کے مختلف مذاہب کے 10 بڑے مبلغین میں تیسرے درجے پر رکھا گیا تھا، 2011 سے 2014 تک انہیں امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے دنیا کی 500 با اثر ترین شخصیات میں مسلسل برقرار رکھا، ان کو ان کی خدمات کے اعزاز میں 29 جولائی 2013 ء میں عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمدبن راشد المکتوم کی جانب سے 2013ء کی بہترین شخصیت قرار دے کر ”بین الاقوامی قرآن ایوارڈ“ سے نوزا گیا اور انہیں انعام کے طور پر ساڑھے سات لاکھ درہم کی رقم بھی دی گئی،اسی سال انہیں ملائشیا کے بادشاہ نے ملک کاسب بڑا ایوارڈ دیا، 16 جنوری 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے اسلام کے لئے خدمات پر انہیں شارجہ ایوارڈ سے نوازا، 25 اکتوبر 2014ء کو انہیں گھبیا کے یوم آزادی کے موقع پر واحد مہمان خصوصی بناکر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی،یکم مارچ 2015ء کو سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مسلم دنیا کا سب بڑاتمغہ ”شاہ فیصل ایوارڈ“ سے نوازا، اور ساڑھے سات لاکھ ریال انعامی رقم بھی دی، اس وقت فیس بک پر ان کا پیج مسلم دنیا کی تمام شخصیات میں سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ تیزی سے پسندیدگی حاصل کرنے کا اعزاز رکھتا ہے، جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد (لائکس) لے چکا ہے، اب تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انٹرنیٹ پر تمام ویب سائٹس کی تعداد 62 لاکھ ہے یہ دنیا کے واحد مسلم شخصیت ہیں جن کی اس قدر ویب سائٹس موجود ہیں، 2020ء میں الجزیرہ نیوز کے مطابق 2016ء سے 2020ء تک انہوں نے”11 لاکھ غیر مسلموں“ کو مسلمان بنایا، اس قدر و عظمت، دولت، شہرت، عزت، مقبولیت اور مصروفیت رکھنے والے عالمی رہنما بھی مولانا فضل الرحمن صاحب کے گرویدہ نکلے اور انہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے مولانا ہی سے ملاقات کو ضروری سمجھا، انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے گھر آکر بتایا کہ ”میری ایک تمنا تھی کہ مولانا سے ملاقات ہوجائے آج میری وہ تمنا پوری ہوگئی، انہوں نے کہا کل کچھ اور لوگ بھی آئے تھے مگر میں نے کہا کہ سب سے پہلے ملاقات مولانا فضل الرحمن سے ہوگی“ اس سے ملکی رہنماؤں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پربھی مولانا صاحب کی عظمت اور مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، مولانا فضل الرحمن صاحب 29 ستمبر 2024 کو مسلسل ساتویں مرتبہ جمعیت علماء اسلام کے بلامقابلہ امیر منتخب ہوئے، ان کے ساتھ مولانا عبدالغفور حیدری صاحب مسلسل ساتویں دفعہ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر برقرار رہے، جو جمعیت علماء کی تاریخ میں منفرد اعزاز اور بہت بڑا ریکارڈ ہے، جس کی وجہ سے آج کل مولانا صاحب کے در پر ہجوم عاشقاں کی کیفیت ہے، ہم نے بھی اس موقع پر اپنی حاضری ضروری سمجھی 3 اکتوبر بروز جمعرات راقم الحروف، جے یو آئی تحصیل کے جنرل سیکرٹری حاجی عبدالرزاق گل، مفتی امان اللہ شاذلی، محمد لقمان اور شاد محمد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ملاقات کے لئے ان کے گھر پہنچے، مغرب کی نماز ان کی اقتداء میں اداکی اس کے بعد پون گھنٹے تک ملاقات رہی جس میں قائد جمعیت نے اپنے خاندان اور سلسلہ تصوف کے اکابرین کے کئی تاریخی واقعات سنائے، ملکی سیاست اور جماعتی معاملات کے مختلف پہلووں پر گفتگو ہوئی، ملاقات میں جے یوآئی کے مرکزی ترجمان جناب اسلم غوری اور مفتی ابرار احمد بھی موجود رہے، آخر میں راقم الحروف نے اپنی دو کتابیں ”شیخ الاسلام مولانا اخونددریزہ حیات وخدمات“ اور ”اخوند سالاک بابا اور ان کے جہادی کارنامے“ مولانا صاحب کی خدمت میں پیش کیں، جس پر قائد جمعیت نے مفتی محمو درحمہ اللہ کے دور کے صوابی کے رہنے والے ایک اخوند خیل بابا کی داستان بھی سنائی، بہرحال قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا آستانہ آج کل جماعتی اور غیر جماعتی سیاسی مریدوں اور کارکنوں کی آمد سے خوب آباد ہے۔




0/Post a Comment/Comments