قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو
4 نومبر 2024
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس 2 اور 3 نومبر کو یہاں اسلام آباد میں منعقد ہوا، اور آئین میں 26 ویں ترمیم کے حوالے سے یہاں پر جو مذاکرات ہوئے اور جو حتمی بل پر اتفاق رائے ہوا مرکزی مجلس شوریٰ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا، آئین میں سود کے خاتمے کے لیے تاریخ کا تعین، فیڈرل شریعت کورٹ کو مضبوط بنانا، ان کی اختیارات میں اضافہ کرنا اور اس کو حقیقی معنوں میں ایک عدالت تسلیم کرانا، اس کے ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پیش ہو جانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرنا آئینی طور پر لازم قرار دیا گیا ہے، جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اس پر خراج تحسین پیش کیا ہے اور قوم کو مبارکباد دی ہے۔
دینی مدارس کے حوالے سے ان کی رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس کا جو ایکٹ پاس کیا گیا ہے اسے بھی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک مستحسن اقدام قرار دیا اور پورے ملک میں دینی مدارس نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے فلسطین پر اور غزہ کے عوام پر وحشیانہ بمباری کر کے جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے جمعیۃ علماء اسلام اس کو انسانیت کش اقدام قرار دیتی ہے، اقوام متحدہ کی ہدایات کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے باوجود اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، اس حوالے سے عالمی قوتیں وہ ایک ظلم اور انسانی قتل کی حمایت کر رہے ہیں، امریکہ ہو یا مغربی دنیا اسرائیل کی ان مظالم کی حمایت کے بعد انہیں انسانی حقوق کی بات کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ ہم اپنے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی ان کی مدد نہ کر سکیں لیکن ان کی مالی معاونت کے لیے آگے بڑھے تاکہ وہاں پر یتیم بچے رہ گئے ہیں بے خانماں لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، غذائی قلت ہے، دوائیں موجود نہیں، علاج کی تمام سہولتیں تباہ و برباد کر دی گئی ہیں، یہ انسانیت کا فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ ان مظلوم انسانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔
حکومت ایک نئی قانون سازی کی طرف جا رہی ہے اور اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، ایک بار پھر ہمارے دفاعی ادارے کو وہ اختیار دیے جا رہے ہیں کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، پہلے نیب سے شکایت تھی اس کے اختیارات کم از کم کیے گئے لیکن آج دفاعی ادارے کو بے تحاشا اختیارات دے دینا کہ کسی کو بھی شک کی بنیاد پر 90 دن تک اپنی تحویل میں رکھ سکتا ہے اور تحویل کی اس مدت میں مزید اضافہ بھی کر سکتے ہیں، میرے خیال میں یہ ایک سول مارشل لاء ملک میں قائم کرنے کے مترادف ہوگا، یہ جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ ہوگا، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن جو جمہوریت کے علمبردار ووٹ کو عزت دینے کے علمبردار آج وہ ایک ایسا ایکٹ پاس کر رہے ہیں کہ جو اپنے ہی ہاتھوں سے جمہوریت کے چہرے پر کالک پلٹ رہے ہیں، ان کو اس بات سے احتراز کرنا چاہیے، جمہوری ادارے اس قسم کے قوانین کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ 26 ویں ترمیم میں حکومت بیٹھے حکومت سوچیں کہ 26 ویں ترمیم میں کن کن شقوں کو واپس لینے پر وہ آمادہ ہوئی اور 26 ویں ترمیم کے اصل مسودے میں جن شقوں کو واپس لینے پر وہ آمادہ ہوئی ہے کیا یہ آج کا ترمیمی ایکٹ یہ اس 26 ویں ترمیم میں حکومت کی اپنی آمادگیوں کی نفی نہیں کر رہی! کیا یہ نیا ایکٹ 26 ویں ترمیم کی روح کے منافی نہیں ہے! کیا یہ آئین کا تقاضا ہوگا کہ کل آپ نے 26 ویں ترمیم میں وہ سارے کردار واپس لے لیے کہ جس سے ہمارے آرمڈ فورسز کو سول کے اندر اختیارات میں اضافہ مل رہا تھا آج دوسری طرف سے آپ ایکٹ پاس کر کے اپنے ہی اس عمل کی نفی کی ہے، یہ آئین کی توہین ہے، آئین کے 26 ویں ترمیم کی توہین ہے، پارلیمنٹ کی توہین ہے جس میں کہ یہ دو چار روز میں پاس کیا اور آج ہم اس کی نفی کر رہے ہیں۔
جمعیۃ علماء اسلام اس سے پہلے بھی اسلام آباد کی حدود تک پاس کیے گئے ایکٹ جس کا تعلق وقف املاک کے ساتھ ہے اس کو غیر شرعی قرار دے چکی ہے اور یہ صرف جمعیۃ علماء اسلام کی رائے نہیں بلکہ یہ امت کا اجتماعی رائے ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل اس ایکٹ کے خلاف اپنی رائے دے چکی ہے، آج اسی ایکٹ کے قریب قریب اس کے مماثل ایک ایکٹ ہندوستان میں پاس کیا جا رہا ہے، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اگر آج وہاں کی گورنمنٹ وہاں کے مسلمانوں کی اربوں ایکڑ پر مشتمل مسلم اوقاف کے خلاف ایک قانون پاس کرنے جا رہی ہے، ہندوستان مسلمان کے جائیدادوں کو جس طرح ہڑپ کرنا چاہتا ہے ان کے وقف املاک کو جس طرح ہڑپ کرنا چاہتا ہے پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے اندر رہ کر مسلمانوں کے املاک کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ضمیر ہے کہ اس ضمیر کو ایک دفعہ جھنجھوڑا جائے کہ ہم پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی احکامات کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، اللہ کے دین کے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہیں، مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلے دیے بالآخر سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں کی اصلاح کرنی پڑی، اسی طریقے سے شادی بیاہ کے معاملات دوسری نکاح کے معاملات پر جو سپریم کورٹ کے فیصلے آئے ہیں وہ قطعی طور پر قرآن و سنت کے احکامات کے خلاف ہیں، میں نے اپنی عائلی زندگی میں نہ سپریم کورٹ سے پوچھنا ہے نہ میں نے حکومت سے پوچھنا ہے میں نے اللہ کے حکم کی اطاعت کرنا ہے، میں نے اللہ سے پوچھنا ہے اور اللہ ہی کے سامنے جواب دہ ہوں، میں اعلان کرتا ہوں کہ میں کسی سپریم کورٹ کے ایسے غیر شرعی فیصلے اور حکومت کی طرف سے پاس کیے گئے غیر اسلامی قانون کا پابند نہیں ہوں گا! آئین کہتا ہے کہ ہر قانون قرآن و سنت کے مطابق ہوگا، کورٹ پابند ہے کہ وہ قرآن و سنت کے تابع فیصلے دے گی، ایسے فیصلوں کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے، ہم اس کے خلاف جائیں گے دوبارہ کورٹ میں اپنا مقدمہ لے کر ہم جائیں گے، ہم جمہوری لوگ ہیں آئین اور قانون کے دائرے میں لڑیں گے اور یہاں پر اسلامی اقدار کو سر بلند کریں گے، اسلامی اقدار و احکامات کو انسانی حقوق کے منافی قرار دینا کسی ملحد کا کردار ہو سکتا ہے کسی اللہ کے سچے بندے کا کردار نہیں ہو سکتا! ہم کبھی بھی دفاعی پوزیشن پر آکر اسلام کی جنگ نہیں لڑیں گے، ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک میں جارحانہ انداز کے ساتھ اللہ کے دین کی جنگ لڑیں گے، ہم آگے بڑھیں گے ان شاءاللہ اور اس حوالے سے ہم عوام میں بھی جائیں گے، ہم عوام میں بیداری پیدا کریں گے، ہم عوام کے اندر ایک شعور بیدار کریں گے کہ آپ کے ملک کے اندر اللہ کے دین کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ کر سکے چاہے وہ ہماری اسمبلیاں ہوں چاہے وہ ہمارے حکمران ہوں یا چاہے وہ ہمارے عدالتیں ہو۔
اس کے ساتھ ہی ہم ان شاءاللہ العزیز 28 نومبر کو سکھر میں باب الاسلام کانفرنس کریں گے یہ ایک عوامی اسمبلی ہوگی، ہم 8 دسمبر کو پشاور میں ان شاءاللہ اسرائیل مردہ باد کانفرنس کریں گے وہ بھی عوام کی اسمبلی ہوگی اور ہم ملک کے اندر اس قسم کے جو اقدامات ہو رہے ہیں ان کو ان اجتماعات میں اٹھائیں گے اور ایک پوری تحریک کے طور پر ان شاءاللہ ہم اگے اپنا قدم بڑھائیں گے۔
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
سوال و جواب
سوال: مولانا صاحب آپ نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں اگر آپ حکومت کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو انہوں نے جو 11 لوگ خریدے ہوئے تھے ان کے ذریعے ہی پاس کرانا تھا، اب وہ 27 ویں آئینی ترمیم لے کے آرہے ہیں اور۔۔۔۔۔
جواب: ابھی تک تو تردید آرہی ہے کہ کوئی 27 ویں ترمیم نہیں آرہی، جس وقت یہ طے ہو جائے گا کہ واقعی آرہی ہے تو پھر ہم تبصرہ کریں گے آپ بھی ہوں گے ہم بھی ہوں گے ان شاءاللہ۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ اگر آج پارلیمان سے یہ دہشت گردی ایکٹ پاس ہوتا ہے تو آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا اس کے خلاف جائیں گے روکیں گے؟
جواب؛: ظاہر ہے جی کہ ہم تو خلاف بات کریں گے اور برملا کریں گے اور پبلک میں جائیں گے جی، اس طریقے سے تو مارشل لاء کو قبول کیوں نہ کریں پھر ہم!
سوال: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ آپ نے یقیناً مجلس شوری کو آپ کے جو جس سے جماعت کے ساتھ آج کل ہم آہنگی ہے آپ سے ملاقاتیں بھی آپ کی جا رہی ہیں میری مراد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کی قیادت ہے، اس سے ملاقاتوں کے اور مستقبل کا جو لائحہ عمل ہے اس کے بارے میں مجلس شوریٰ کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک سوشل میڈیا پہ چونکہ ایک پراپیگنڈا ہو رہا تھا تو فوری طور پر عمران خان نے آپ سے رابطہ کیا عمران خان نے آپ کو پیغام بھیجا پی ٹی آئی کے دو اعلیٰ شخصیات کے ذریعے اور آپ سے رابطہ کیا گیا تو کیا عمران خان کے لیے رابطے اور آپ کے ساتھ قربت کیا وہ آپ کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل بنانا چاہتے ہیں مستقبل میں اور کیا آپ کی بھی اسی طرح پیغام رسانی ہوتی ہے عمران خان کے ساتھ شکریہ۔
جواب: آپ کے سوال کو ذرا تھوڑا سا نظر انداز کر کے معافی چاہتا ہوں، آپ کے سوال کو نظر انداز کر کے میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ یقیناً ہم اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام جب اپوزیشن کی جماعت ہے اور پاکستان تحریک انصاف بھی اپوزیشن کی جماعت ہے تو کوئی پارٹی اسمبلی کے اندر رہتے ہوئے دو اپوزیشن نہیں کیا کرتی، اب اگر اس ماحول سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں تعلقات کے اندر جو تلخی تھی اس تلخیوں کو ہم دور کر سکتے ہیں ایک بہتر ماحول ہم پیدا کر سکتے ہیں تو ہم اس سے وہ فائدہ کیوں نہیں اٹھائیں گے، اختلاف پیپلز پارٹی سے بھی ہے، اختلاف مسلم لیگ سی بھی ہے، اختلاف ایم کیو ایم سے بھی ہے، اختلاف نیشنل پارٹی سے بھی ہے لیکن تعلقات بھی ہیں تلخیاں نہیں ہیں، ہم تحریک انصاف کے ساتھ اختلاف کے باوجود اگر تلخیوں کا خاتمہ کر کے ایک نارمل قسم کا جو تعلق سیاسی جماعتوں کا آپس میں ہوتا ہے وہاں پر لے آتے ہیں تو یہ میرا خیال میں پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت تبدیلی کہلائے گی۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ یہ جو ایکٹ ہے انسدادِ دہشت گردی والا پاس ہونے جا رہا ہے کیا یہ اس پہلے مسودے میں تھا جس کو ختم کیا گیا؟
جواب: اس کا مفہوم وہاں تھا، اب اگر مفہوم وہاں سے نکال دیا اور خود انہوں نے آمادگی ظاہر کی تو کیا اس اپنے آمادگی کی نفی نہیں کر رہے!
سوال: مولانا فضل الرحمان صاحب یہ بتائیے گا کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے واضح اشارہ نہیں ملا 27 ویں آئینی ترمیم کا لیکن اس پہ کام بھی ہورہا ہے اگر ایسی نوبت آئی اگر ایسی نوبت آئی تو کیا آپ پھر بھی حکومت کی مخالفت کرینگے اس ترمیم میں یا دوبارہ پھر ساتھ دے سکتے ہیں؟ کیا آپ کسی بھی سٹیج پہ اس حکومت کے ساتھ جا سکتے ہیں؟
جواب: دیکھیے اگر تو ایک احتمال کی بات ہے، جب آپ اگر لگاتے ہیں اپنے سوال میں تو وہ ایک احتمال کی بات ہوتی ہے تو احتمال کا تو جوابات نہیں دیے جاتے ذرا تھوڑا سا حقائق کی طرف آجائیں۔
سوال: یہ بتائیں کہ جو ترمیم پہلے لائی جا رہی تھی اس میں تو بڑی خوفناک قسم کی شقیں تھی جس پہ ہم آپ کو اپریشیٹ بھی کرتے ہیں کہ آپ نے اس کا راستہ روکا ہے لیکن سر ایک جو ابھی اس ترمیم کے اندر ایک بات جو ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ججز کے تقرر کے وقت تو انہیں جو ہے انتہائی جو اعلیٰ معیار کی کسوٹی اس پہ پرکھنا چاہیے لیکن جج کی کرسی پہ بیٹھنے کے بعد کسی کے اوپر نہ تو خوف کا سایہ ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی لالچ ہونا چاہیے تو اب جو سینیئر تین ججز کی تعیناتی کا اختیار چیف کا اختیار حکومت کے پاس ہے تو کیا سینیئر ججز حکومت کی طرف نہیں دیکھیں گے فیصلے کرتے ہوئے کیونکہ متفق کیسز میں حکومت یا تو فریق ہوتی ہے یا اس میں مجرم کے طور پہ کھڑی ہوتی ہے۔
جواب: میرے خیال میں دیکھیے یہ تو ایک خود بنا بنایا ہوا ایک ماحول ہے، کیا آرمی چیف کا تعین پرائم منسٹر نہیں کرتا؟ تو پھر وہ پرائم منسٹر کو دیکھتا رہتا ہے جی، وہ جس پرائم منسٹر نے جس کو آرمی چیف بنایا اسی کو انہوں نے تیا پانچہ کیا جی، تو میرے خیال میں ایک سسٹم ہونا چاہیے جس سسٹم کے تحت ماضی میں عدلیہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئی تھی کہ جس سے باقاعدہ پارلیمان کی جو خود مختاری تھی اور اس کی جو بالادستی ہوتی ہے وہ سپرمیسی تھی وہ جو بری طرح متاثر ہو رہی تھی تو کہیں نہ کہیں تو وہ راستہ نکالنا ہوگا اب جو راستے بھی آپ نکالیں گے کوئی نہ کوئی ایک پہلو سے اس پر ایک سوال تو بنتا ہو سکتا ہے تو اس میں مجموعی طور پر اصول دیکھنا چاہیے کوئی بھی حکومت آئے گی تو ہر حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ یہ صرف موجودہ حکومت کا اختیار تو نہیں۔
سوال: ایک مہینے مسلسل آپ کے ہاں اور 26 ویں ترمیم ہے آپ نے کہا کہ زہر تھا سانپ کا اور دانت بھی نکال دیے یقیناً وہ پی ٹی آئی کا بھی انہوں نے شکریہ بھی ادا کیا ہر فورم پہ دوسری طرف علی امین گنڈا پور کہہ رہے ہیں کہ آپ نے چمک سے متاثر ہو کر سودے بازی کرلی تو آپ اس پہ کیا کمنٹ کرینگے؟
جواب: میرے خیال میں ان کی پارٹی سے پوچھا جائے مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں آپ اس بارے میں، ان کی اپنی پارٹی سے اگر پوچھ لیا جائے ان کے بیان کے بارے میں تو زیادہ بہتر ہوگا بجائے اس کے کہ آپ مجھ سے اس کا سوال کریں میں پارٹی سے ریلیٹڈ ہوں افراد سے نہیں ہوں جی، تو پارٹی نے جو بات میرے ساتھ یہ کی ہیں تو وہ میرے خیال میں مطمئن ہیں اور وہ بڑے اچھے ماحول میں ہوئی ہیں اگر ان کی پارٹی کا کوئی فرد اپنی پارٹی ہی کے خلاف کوئی ایسی بات کرتا ہے تو ان کی پارٹی سے سوال کرے وہ ان سے پوچھے میں تو اس پر تبصرہ نہیں کروں گا جی۔
سوال: حکومت پی آئی اے کو بیچ رہی ہے، پہلے بھی پی ٹی سی ایل کو بیچی ہے پیسے نہیں ملے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: وہ تو اگر بس میں چلے پورا ملک ہی بیچ دیں جی، کیونکہ لوگوں کو کیا کھلائیں گے پلائیں گے آپ جی تو یہ جو نجکاری کا نظام ہے حضرت، نجکاری کا نظام بھی ایک دنیا بھر میں ایک پالیسی ہے تو یہ نہیں ہے کہ صرف پاکستان میں ایسا کر رہے ہیں پوری دنیا میں اس کا نظام چلتا ہے، ادارے نیشنلائزڈ بھی ہوتے ہیں ادارے پرائیویٹائزڈ بھی ہوتے ہیں اور یہ دو الگ الگ تصورات ہیں کسی زمانے میں جو بھٹو صاحب تحریک چلا رہے تھے ایوب خان کے زمانے میں تو نیشنلائزیشن جو ہے اس کا پرچار ہو رہا تھا اور جب ان کی حکومت آئی تو انہوں نے تمام اداروں کو نیشنلائزڈ کر بھی دیا لیکن پھر انہی کی پارٹی تھی کہ سن 88 میں پرائیویٹائزڈ کر رہی تھی تو دنیا میں سارے نظام جو ہیں وہ چلتے رہتے ہیں حالات کے ضرورت کے تحت۔
سوال: مولانا صاحب پورے ملک میں اور خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات آپ کے سامنے ہے جو سیکیورٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے یہ جو آرمی چیف اور سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہے 3 سالہ سے 5 سالہ کیا آپ پرامید ہے کہ یہ جو حالات ہیں جس طرح کی دہشتگردی ہے یہ سب کچھ اس کے بعد ٹھیک ہو جائے گا اور دوسرا بشری بی بی جو کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی وائف ہے وہ آج عدالت میں روئی ہے تو اس نے یہ بھی کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کو نا انصافی پر مبنی سزا دی گئی ہے، اس پر آپ کا موقف کیا ہے اور کیا عمران خان کو جلد از جلد رہا کر دینا چاہیے آپ کے مطالبہ کریں گے؟
جواب: دیکھیے جہاں تک آپ کا سوال ہے آرمی چیف کے حوالے سے میں اس کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا پہلی بات یہ ہے کہ آرمی چیف کے مدت ملازمت میں اضافہ کرنا ایکسٹینشن دینا یہ انتظامی معاملات ہوتے ہیں یہ ہر حکومت میں دیے گئے ہیں گو کہ میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں لیکن پھر بھی ایک انتظامی معاملہ ہے ہر حکومت اپنے اختیار کے تحت یہ فیصلہ کر سکتی ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے ایک نہیں ہوگا تو دوسرا آئے گا دوسرا تیسرا آئے گا ہمارے لیے تو وہ بھی جرنیل وہ بھی جرنیل وہ بھی جرنیل لیکن بات بنیادی یہ ہے کہ اپنے اختیارات میں اس قدر اضافہ کرنا اور اس کے لیے حکومت کو پریشرائز کرنا کہ آپ یہ قانون پاس کریں یہاں تک کہ نظر آئے کہ جیسے ملک میں مارشل لاء لگ رہا ہے تو جس پر شک ہو جائے اس کو تو آپ فوراً گرفتار کریں وہ تو گھر میں بیٹھا ہوا ہے وہ تو اپنے بیٹھک میں بیٹھا ہوا ہے آپ نے اس کو اٹھا لیا 90 دن آپ کی گرفت میں رہے گا، جو روڈوں پہ دندنا رہے ہیں جہاں سڑکیں ان کے قبضے میں ہیں جہاں دیہاتیں ان کے قبضے میں ہیں جہاں مسجدوں میں وہ رہ رہے ہیں جہاں لوگوں کے بیٹھکوں میں وہ رہ رہے ہیں جہاں گلی کوچے ان کے قبضے میں ہیں وہاں کیا تیر مارا ہے کہ اب اس کے اوپر اختیارات میں بھی اضافہ مانگ کر آپ عام لوگوں کو سویلین لوگوں کو شک کی بنیاد پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، میرے خیال میں جتنا آپ کے پاس اختیارات ہیں وہ کافی ہیں دہشت گردی کی خلاف اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں اس میں آپ کے اختیارات میں پہلے سے کوئی کمی نہیں ہے مزید حالات کا سہارا لے کر اس پر اپنے اختیارات میں اضافہ کرنے کے لیے بطور جواز حالات کو استعمال کرنا یہ ظلم ہے، حالات خراب ہے اس کا معنی ہے کہ میرے اختیار میں اضافہ کرو اور اضافہ کرو اور اضافہ کرو تاکہ سیول اداروں کی کوئی حیثیت ہی نہ رہے تو میرے خیال میں ہمیں پاکستان کو ایک سویلین سٹیٹ کے طور پر دنیا میں متعارف کرانا ہے ورنہ آپ کے کسی قسم کی پارلیمانی فیصلے کو اور آپ کی حکومتوں کو باہر کی دنیا میں ایک جمہوری ملک کا پروٹوکول نہیں ملے گا۔ح
سوال: بشری بی بی جو آج عدالت میں رو پڑی ہے کہ ان کو اور بانی پی ٹی آئی کو نا انصافی پر مبنی سزا دی گئی ہے اس کے حوالے سے کیا کہیں گے اور عمران خان کو۔۔۔
جواب: میرے نوٹس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے باقی میں اس پر بیانات دے چکا ہوں ان کے خلاف جو ظالمانہ رویے ہیں میں پارلیمنٹ میں اس پر بات کر چکا ہوں اور آئندہ بھی اگر ان کی پارٹی نے کوئی رابطہ ایسا کیا تو میرا جواب اچھا ہی ہوگا ان شاءاللہ جی
سوال: مولانا صاحب یہ بات مسلسل تسلسل کے ساتھ یہ سامنے آرہی ہے کہ آپ عام انتخابات کا مطالبہ تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں تو عام انتخابات کے لیے کیا آپ لوگ جو ہے اپوزیشن جماعتیں میں کسی خاص جماعت کا نام نہیں لی اپوزیشن جماعتیں بھی احتجاجی تحریک کی طرف جا سکتی ہے عام انتخابات کے متعلق؟
جواب: تو ظاہر ہے جی کہ اس طرح کے سوالات آپ کریں گے تو رفتہ رفتہ ماحول بنتا جائے گا پھر۔
سوال: مولانا صاحب یہ جو امریکہ کا الیکشن ہے یہ کیا اثرانداز ہوسکتی ہے پاکستان کی سیاست کے اوپر؟ الیکشن ہوتی ہیں وہاں پر اور خوشیاں یہاں منائی جاتی ہے۔۔۔
جواب: دیکھیے امریکہ جو ہے اس کی جس کی بھی حکومت ہو خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا کرتا ان کے لیے، چاہے ریپبلیکن کی گورنمنٹ آئے چاہے وہاں پر ڈیموکریٹس کی حکومت آئے باہر دنیا کے لیے ایک ہی ہیں، ملک کے اندر کی پالیسی میں کچھ تفاوت فرق نظر آتا ہے ان کے رویوں میں ایک فرق ہوتا ہے لیکن اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ دیں گے جو بھی حکومت آئے گی وہ اسرائیل کا ساتھ دیں گے، وہ قتل و غارتگری کا ساتھ دیں گے، وہ انسان انسانیت کا خون بہانے کا ساتھ دیں گے، وہ انصاف کا ساتھ کہیں نہیں دیں گے اور اپنے ظلم کو ہمیشہ دونوں انصاف کہتے رہیں گے۔
بہت شکریہ آپ حضرات کا جی، بڑی نوازش
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
Maulana Fazl ur Rehman Complete Press Conference in Islamabad 04-Nov-2024Maulana Fazl ur Rehman Complete Press Conference in Islamabad 04-Nov-2024
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, November 4, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں