پرائم ٹائم ود طارق محمود نیوز ون پروگرام میں قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا انٹرویو
1 مئی 2019
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ السلام علیکم ناظرین!
آپ دیکھ رہے ہیں پرائم ٹائم ود ٹی ایم اور میں ہوں طارق محمود,
آج جو شخصیت ہماری مہمان ہیں آپ ان سے لاکھ اختلاف رکھے، نظریاتی ہو یا سیاسی اختلاف، مگر بد سے بدترین مخالف بھی وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کی ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے حالیہ دنوں بھی وہ خاصے سرگرم ہیں اور مستقبل کا سیاسی منظرنامہ بھی ان کے اردگرد گھومتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہمارے مہمان ہیں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب۔ مولانا صاحب بہت شکریہ آپ کا
مولانا فضل الرحمن :- بڑی مہربانی
طارق محمود :- گذشتہ روز جو پریس کانفرنس ہوئی اور اس کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی مدارس کے حوالے سے، آپ کا ردعمل بھی اس میں سامنے آیا، یہ ہر تھوڑی عرصے بعد مدارس کا معاملہ چھڑ کیوں جاتا ہے اور پھر اس کے بعد یہ ایک دفعہ میں سیٹل کیوں نہیں ہوجاتے چیزیں، آپ کے یا جو بھی ادارے ہیں یا جو انسٹی ٹیوشنز ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کے، یہ ونس فار آل یہ معاملہ ختم کیوں نہیں ہوتا۔
مولانا فضل الرحمن :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللھم صل علےسیدنا محمد و بارک و سلم علیہ۔
دیکھیں ایک بات آپ مدنظر رکھے کہ پاکستان میں ہو یا پاکستان سے باہر، جو ایجنڈا کبھی بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اور کسی جگہ پر جا کر اس کی تان نہ ٹوٹے، سمجھ لو کہ یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے اور وہ اپنے انداز سے سفر کررہا ہے۔
ہماری جو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے یا ہماری جو بیوروکریسی ہوتی ہے اس کا وظیفہ صرف اس حد تک ہوتا ہے کہ وہ اس بین الاقوامی ایجنڈے کو کس طرح ایمپلیمنٹ کرسکتے ہیں اس کے لئے کیا ماحول وہ بنا کر دے سکتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ دینی مدرسہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے بھی برطانوی سامراج کے نصاب تعلیم کے مقابلے میں ایک ردعمل کے طور پر ابھرا تھا اور قران، حدیث، فقہ، فارسی کے علوم، ان کے تحفظ کے لئے پرائیوٹ سیکٹر میں مدارس قائم ہوئے،
اب مجھے آپ بتائے آج ستر سال کے بعد بہاولپور کا وہ جامعہ عباسیہ، جس کو سرکار نے اپنی تحویل میں لیا اور پاکستان کے جید علماء کرام جس میں مولانا شمس الحق افغانی جیسا نام، جس میں مولانا سعید احمد کاظمی جیسا نام، مختلف مکاتب فکر کے چوٹی کے علمائے کرام اس میں مدرس بنائے گئے جی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟
کہ آج ملتان کے یونیورسٹی اور کالج اور عباسیہ کالج اور اس کے نصاب میں کوئی فرق نہیں۔
جن اداروں کو جو کہ ہمارے دینی مدارس کہلاتے تھے اور سرکار نے کہا کہ یہ ہمارے تحویل میں آجائے، ہم ان کا نظام چلاتے ہیں اور ابتدا میں علمائے کرام کو وہاں رکھا بھی انہوں نے۔ چوٹی کے علماءکو۔ لیکن آج نتیجہ کیا نکلا؟
جس سے کہ ان کے نیتیں صاف ظاہر ہیں کہ مدارس اگر ان کے تحویل میں آ بھی جائے تب بھی ان کا نتیجہ یہ ہوگا جو اس سے پہلے انفرادی طور پر کچھ جامعات کا اور کالجز کا ہوا ہے جی۔ تو آج ہم ان پر کیسے اعتماد کرے ؟ کہ وہ خود اپنے طرف سے کوئی بات کررہے ہیں
مین اسٹریمینگ کا مین اسٹریمینگ کا مطلب تو گالی دینا ہے یعنی آپ ایک اتنے بڑے نیٹ ورک کو جو پاکستان میں تعلیمی نیٹ ورک ہے، دن رات ایک کرکے میڈیا پر کہہ رہے ہیں انتہا پسندی اور شدت پسند اور دہشت گردی اور مدرسہ اور مسجد ۔ یہ مسلمان کلچر ہے؟
یہ کسی اسلامی ملک کے شایان شان ہے ؟ اور کیا یہ عناصر جن کو آپ انتہا پسند اور دہشت گرد کہتے ہیں کیا یہ صرف کسی دینی مدرسہ تک محدود ہے؟ اکا دکا یہاں ہے لیکن اکا دکا تو کالجوں میں بھی ہے، یونیورسٹیوں میں بھی ہے، کتنے لوگ آپ کے ہاسٹلوں سے پکڑے گئے، وہاں پر آپ ادارے کا نام کیوں نہیں لے رہے ؟
طارق محمود :- مولانا صاحب یہ بتائیں کہ مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے کیا؟ آخر آپ کو اعتراض کیوں ہے کہ جی مدارس کی رجسٹریشن جو ہے کہ اگر ہو تواس میں حرج کی کیابات ہے ؟ رجسٹریشن تو ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن:- 1994 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں دینی مدارس کی رجسٹریشن بند کر دی گئی تھی، یہ میں آپ کو ذرا پس منظر بتادوں آپ کو جی، اور یہ رجسٹریشن 2004 تک رکی رہی۔
اس دوران مسلسل حکومت اور مدارس کے درمیان بات چیت چلتی رہی اور 2005 میں جاکر مشرف کے حکومت میں مدارس اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا بنیادی بات یہ تھی کہ مدارس کی رجسٹریشن کیسے دوبارہ بحال کی جائے۔
اب دوبارہ بحال کرنے کیلئے جب مذاکرات ہوئی تو تین چیزیں مد نظر رکھی گئیں، مدرسہ کا نصاب کیا ہوگا؟ اب ایسا نہ ہو کہ مدرسے کے نصاب میں واقعی کوئی فرقہ واریت ہے کوئی انتہا پسندی ہے کوئی نفرت کے مضامین ہیں جی اس پرایک اتفاق رائے باقاعدہ کیا گیا ان کے ماہرین اور علماء بیٹھے تو نصاب پر اتفاق ہوا کہ اب یہ نصاب ایسا ہے کہ جس نصاب کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نصاب کو پڑھانے میں اپ کسی فرقہ واریت یا کسی نفرت کی طرف جا رہے ہیں۔
دوسری چیز کہ مدارس کا مالیاتی نظام کیا ہوگا آپ کی فنڈنگ کہاں سے ہوگی اور اس کا کیا طریقہ کار ہوگا اس پر مکمل اتفاق رائے کرکے اس کی شرائط طے کر کے رجسٹریشن کی شرائط میں ڈال دیا گیا
تیسری چیز کہ مدارس کی انتظامیہ کیا ہوگا اس کا سسٹم کیا ہوگا یہ ساری چیزیں طے ہوئی اور اس پر ایک معاہدے کے تحت دونوں طرف سے دستخط ہوئی.
پھر کچھ چیزیں اس کے فالو اپ میں اتی رہی پھر ایک معاہدہ 2010 میں ہواہے تو یہ سارا پراسس ہمارا اس دور کے اندر ہوتا رہا اور آج مذاکرات اب بھی چل رہی ہے ہم نے تو کبھی انکار نہیں کیا مدارس کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔
لیکن ان مدارس کے اندر ایک نقطہ آیا ہے ابھی تازہ کہ مدارس کی جو رجسٹریشن ہوتی ہے وہ 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہوتی ہے انڈسٹریز کی جو ہے جی کیا اس کو اسی نظام کے ساتھ انڈسٹریز کی جو جہاں پر ہوتی ہے رجسٹریشن انہی کے ساتھ منسلک رکھا جائے یا اس کو ہم وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک کردے تو رجسٹریشن بوساطت محکمہ تعلیم پر ہمارے ساتھیوں نے اتفاق کیا تھا کہ ہم اس کیلئے تیار ہیں.
طارق محمود:- چھا اس پہ بات ہوچکی ہے تھی؟
مولانا فضل الرحمٰن :- ہوچکی ہے لیکن جس انداز کے ساتھ انہوں نے اس گفتگو کو کیا ہے کہ مدارس کو محکمہ تعلیم کے تحت لایا جائے گا، یہ تحت لانی والی بات کس نے کی آپ کے ساتھ ؟
اس کا تو معنی یہ ہیں کہ پھر نصاب بھی آپ تیار کریں گے جس طرح انہوں نے کہا کہ نصاب بھی بنائیں گے پھر تو آپ گریجویشن کی سند جو ہو گی وہ بھی ہمیں آپ دیں گے۔
تو یہ مدارس تو ختم ہو گئے پھر ،لہٰذا یہ مذاکرات سرے سے ہمارے ان کے اندر ہوئے ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی چیز طے ہوئی ہے.
طارق محمود :- کہا جاتا ہے کہ آپ کو قومی دھارے میں لانا ہے مدارس کو قومی دھارے میں لے کے آنا ہے یہ معاملہ کیا ہے قومی دھارے میں لانے سے مراد کیا ہے...؟
مولانا فضل الرحمٰن :- یہ جو مدارس کے کردار کو ختم کرنے کی ان کی ایک خواہش ہے اس کیلئے وہ معصومانہ الفاظ اور مین سٹریم میں لانا اور فلانہ اور قومی دھارے میں لانا،
بھئی آپ کو فکر ہے ہمیں قومی دھارے میں لانے کیلئے ہم آپ سے زیادہ قومی دھارے کے لوگ ہیں
ہم ہی تو ہے کہ جس میں معاشرے کی ایک مجلس اور بیٹھک ہمارے بغیر مکمل نہیں، آپ کی کوئی پنچایت، آپ کا کوئی جرگہ، آپ کا کوئی جنازہ، آپ کی کوئی مسجد کی امامت ، یہ سارا جو ایک معاشرتی ماحول ہے مسلمان سوسائٹی کا ایک جزو لاینفک ہے کیا وہ کسی مولوی کے بغیر ممکن ہے؟
ان کے بغیر ادھورا نہیں ہوگا؟ ہمارے تو جرگوں کی دعا بھی مولوی صاحب کراتا ہے جب شروع کرتے ہیں وہ بھی مولوی صاحب کراتا ہے۔
ہماری تو ہر ماحول میں مین سٹریم پہ بات کرنا اس کا مقصد کیا ہے چاہتے کیا ہے آپ جی ؟
انہوں نے تجویز کی کہ اگر تین مضامین مزید جو ہم تجویز کریں پاس کرلے اور جو پاس کرلے تو وہ نتیجہ ہمارے پاس لے آئے اس کے بعد ہم آپ کے شہادت عالمیہ کے بنیاد پر ہر محکمے میں اس کو ایڈجسٹ کریں گے ہم یہ بھی مان چکے ہیں ان کے ساتھ جی.
ہم نے اپنے اپنے سکولوں کے ساتھ اٹیچ کر دیا ہے پرائمری سکول بھی اور مڈل سکول بھی اور ہائی سکول بھی اور یہاں تک کہ ایف اے تک۔
اب یہ سارا کچھ جو آج تک ہم پریکٹس کررہے ہیں پھر یہ باتیں کیوں کی جاتی ہیں؟ کہ ہم تمہیں مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں مین سٹریم میں تم نہیں ہوں ، ہم ہیں
اور میں آپ سے اگر ،
اگر یہ ہے کہ یہ ہمیں قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں تو پھر بے ادبی نہ ہو نہ، میں بھی کہوں گا کہ آپ اسلامی دھارے میں آئیں ، ایک اسلامی ملک کے اندر آپ کو بھی نظر آنا چاہیے کہ ہم اسلامی لوگ ہیں تو یہ جو خواہشات دونوں کی طرف سے کی جاسکتی ہیں ہم بھی آپ کیلئے خواہش رکھتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں اور پھر اس کے باوجود آپ اسلامی دھارے میں نظر کیوں نہیں آرہے۔
تو میں اگر اس قوم کا فرد ہو اور آپ کی نظر میں، میں قوم کے دھارے میں نظر نہیں آرہا ہوں تو مجھے بھی تو بحیثیت مسلمان کے آپ اسلامی دھارے میں نظر نہیں آرہے تو اس سب کی محنت کو اکٹھا کرنا ہے اور تب جا کر پھر معاملات طے ہوجائے گی یک طرفہ نہیں ہونگے
طارق محمود :- مولانا صاحب! آپ زرا غصے میں زیادہ ہوئے جو ردعمل میں آپ نے کہا کہ ایسے لڑیں گے جیسا انگریز سامراج کے ساتھ لڑے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- اگر رویہ انگریز کا رکھیں گے تو پھر ردعمل انگریز والا ہوگا نا ،تو پھر اس طرح تو نہیں ہوسکتا کہ ہم اس کو نظر انداز کر کے بات کریں گے جی.
طارق محمود:- ٹائم فیکٹر کوئی خاص ہے پاکستان عالمی دنیا کے پریشر میں تھا تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہاں سے فائدہ اٹھایا اور یہ کہا گیا ہو...؟
مولانا فضل الرحمٰن :- ہم نے 2001 کے نائن الیون کے بعد ایسا سرنڈر کیا ہے کہ پاکستان کو اس کے بعد پھر ایک آزاد ریاست نہیں کہا جا سکتا۔
اور کہتے ہیں ہم نے ملک کو بچا یا ہے ہم نے ملک کو بچانا ہے ملک کو بچانا اور ملک کے حوالے سے ایسا تصور اور تصویر قوم کے سامنے رکھنا کہ اگر میں یہ نہ کرتا تو ملک جل جاتا ملک تباہ ہو جاتا۔
یہ قوم کو بلیک میل کرنے والی باتیں ہوتی ہیں تو روز روز قوم کو بزدل بنا کر اور ان پر خوف طاری کر کے ان سے اپنے مطلب کے فیصلے لینا اور بین الاقوامی ایجنڈے کی ایمپلی میٹیشن کرنا یہ تو پھر قیامت تک تو نہیں چل سکتا آخر ایکسپوز ہوجائے گے آپ لوگ اور رفتہ رفتہ ایکسپوز ہو رہے ہیں جی.
طارق محمود :- مولانا صاحب ایک بریک لے لیتے ہیں بریک کے بعد جو ملک کی داخلی سیاست ہے اس کے حوالے سے گفتگو کریں گے مولانا فضل الرحمان صاحب ہمارے ساتھ موجود ہے وقفے کے بعد گفتگو کریں گے ن لیگ کی سیاست، پیپلزپارٹی کی سیاست اور پھر مولانا صاحب مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا دیکھ رہے ہیں مختصر سا وقفہ اور اس کے بعد پھر ملاقات....
طارق محمود :-ویلکم بیک ناظرین ! مولانا فضل الرحمان صاحب ہمارے ساتھ موجود ہے مولانا صاحب یہ جو آپ نے پچھلے دنوں جلسہ عام میں کہا کہ ہم مقتدر اداروں کو کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ سے لڑنا نہیں چاہتے ہیں اس کا کیا پس منظر ہے؟ ایسی صورتحال ،کیا آپ کو لگ رہا ہے کہ کوئی ایسا..؟
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیے بات یہ ہے کہ ہمیں مقتدر اداروں سے کچھ گلے شکوے ہیں اور وہ ہمارا حق ہے یہ کوئی ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں ہے نا، یہ کوئی امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں ہے، ہمارے ہی بھائی ہیں ہمارا ہی ملک ہے ہم نے اپنا خون پسینہ ان کے حوالے کیا ہے اور ان کو طاقتور ادارہ بنایا ہے اب ایسے ادارے اگر طاقتور بن جاتے ہیں تو پھر ان کو احترام کرنا ہو گا اس حیثیت میں آئین کا،
اور ہمیں شکایت یہ ہے کہ اس وقت جو ملک کے اندر حکومت برپا ہے یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے اور اس پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتفاق ہوچکا ہیں اور دستخط ہوچکے ہیں اور صرف یہ اناونس ہی نہیں کیا گیا بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس بنیاد پر ایک الائنس پر اتفاق کیا، ایک اتحاد پہ اتفاق ہوا کہ اس اتحاد کا نام ہونا چاہیے الائنس فار دی پری اینڈ فئیر الیکشن....
وہ جماعتیں جو آج حکومت کے اندر ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
خود ایم کیو ایم کے جلسے میں یہ نوٹ کیا ہو گا اس نے بھی کہا کہ سندھ میں ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔
اب حکومت کے اندر ہوتے ہوئے ، ان کا یہ ذہن ہو کہ بہرحال الیکشن جو ہیں وہ صحیح نہیں ہوئے ہیں۔
کس کو آپ نے حکومت دی ہے ؟ کیسی حکومتیں بنی ہیں ؟
پیپلز پارٹی سندھ میں جیتی ہے پھر بھی کہتی ہے دھاندلی ہوئی ہے
مسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی ہے پھر بھی کہتی ہے دھاندلی ہوئی ہے۔
باقی پارٹیاں تو ظاہر ہیں وہ تو کہہ ہی رہی ہیں۔
تو ایسی صورتحال میں ایسی حکومت قوم پر مسلط کرنا ، اور پھر جب اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔
تو اس آواز کو دبانا ، ہم بارہ ملین مارچ کر چکے ہیں ملک کے اندر ، اور آپ کے میڈیا نے کس طرح سے ہمارے اوپر پابندی لگائی ہے۔
اکا دکا چینل کبھی دکھا دیتا ہے ، جزوی طور پر دکھا دیتا ہے۔ کبھی مطلب کے جو جملے ہیں وہ دکھا دیتا ہے۔
لیکن ایک عوامی سیلاب جو اس وقت ملک کے اندر اس حکومت کے خلاف موجود ہے۔ اور اس کی شکایتیں ہیں۔
اس کی پشت پر اگر اسٹیبلشمنٹ آتی ہے اور اس کا تحفظ کرتی ہے۔
تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمارے احتجاج کو اہمیت نہیں دیتی ، اور اس احتجاج کے سامنے وہ آ کر رکاوٹ بن رہے ہیں۔
تو جب رکاوٹ بنے گے تو گلہ شکوہ تو ہو گا۔
طارق محمود:- گلہ شکوہ دور کرنے کے لئے بات چیت ہونا
مولانا فضل الرحمٰن:- یہ تو حکومت کا کام ہے ان کا کام ہے وہ جب کوئی رابطہ کریں گے تو ہم رابطے کا جواب مثبت انداز سے دے سکتے ہیں۔
بات کرنے کو تیار ہیں لیکن اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں یہ ہم واضح کر چکے ہیں۔
طارق محمود:- بلاول صاحب نے بھی یہ بات کہی کہ جو حکومتی بیانیہ ہے۔
یا سیاسی بیانیہ ہے وہ اداروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بیان کریں آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن:- فوجی ادارہ اس کا مدارس کے حوالے سے پریس کانفرنس کرنا یہ اس کو کون سا آئین اجازت دیتا ہے؟
کون سا قانون اجازت دیتا ہے ؟ کون سی ہماری سیاسی روایات اس بات کی اجازت دیتی ہیں؟
سوائے اس بات کہ آپ میسج دے رہے ہیں دنیا کو،
کہ ملک جو ہے ہم چلا رہے ہیں یہ ڈمی قسم کی حکومت ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
طارق محمود:- اسی ڈمی حکومت کے خلاف آپ نے بڑے بھرپور قسم کے عوامی اجتماعات کئے ہیں۔
ہر جگہ پر چاروں صوبوں کے اندر اور فاٹا میں بھی،
لوگ اب صرف انتظار میں ہیں۔
عمران خان خود بھی لگتا ہے وہ پریشر میں ہیں وہ جلسوں میں بھی کہتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن صاحب نہ خود کھیلتے ہیں نہ ہمیں کھیلنے دیتے ہیں۔
تو وہ پریشر آپ کو حکومت پر محسوس ہو رہا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- میں حضرت ان کو کھلاڑی ہی تسلیم نہیں کرتا، پھر وہ کس طرح کھیل کے میدان پر قابض ہیں؟
اس کھیل میں وہ فریق ہی نہیں ہیں میری نظر میں ، تو میدان پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
جو اصل کھلاڑی ہیں انہیں آنے نہیں دے رہے۔
تو یہ باتیں کہنا کہ ہم تو کھیلنا چاہتے ہیں اور یہ کھیلنے نہیں دیتا ، تم تو کھلاڑی ہی نہیں ہو اس میدان کے،
تم سٹیک ہولڈر ہی نہیں ہو، تو آپ جس ذریعے سے آئے ہیں جس طریقے سے آئے ہیں
حضرت میں آپ کو ، ناراض نہ ہونا ایک بے ادبی ایک گستاخی کر رہا ہوں
کیا ہم وہ قوم ہیں کہ کبھی معین قریشی آ کر ہم پر حکومت کر جائے ؟
نہ ذات کا پتا نہ پات کا پتا ، نہ یہ پتا کہ وہ پاکستانی بھی تھا یا نہیں تھا۔
ہم پر شوکت عزیز آ کر حکومت کرے اور چلا جائے اور آج تک اس کا پتا نہیں، وہ کون تھا ،کہاں سے آیا، کیسے حکومت کی اس نے ؟
کس قبیلے سے اس کا تعلق تھا ؟ اس کے ووٹ کا بھی پتا نہیں ہے۔
اس نے اپنا ووٹ وزیراعظم ہونے کے باوجود کاسٹ نہیں کیا۔ پاکستان کے اندر،
یہ اسی کیٹیگری کا آدمی ہے جی ، یہ اسی کیٹیگری کا آدمی ہے۔
طارق محمود:- عمران خان کو بھی آپ معین قریشی اور شوکت عزیز کی صف میں رکھتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ظاہر ہے اس سے کم نہیں ہے۔
اس کیٹیگری کے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر ، عوام کے ووٹوں کو ایک طرف کر کے،
اپنی مرضی کے نتائج اعلان کر کے کسی کو ہم پر مسلط کر دینا۔
اور پھر ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ آپ جائیں پشاور میں ،کہتا ہے کہ 1 ارب ہم نے بوٹے لگائے ہیں
1 ارب، میں تو سمجھتا ہوں 20 کروڑ بھی بہت بڑی بات ہے 10 کروڑ بھی آپ نہیں دکھا سکیں گے کہیں پر،
اور آج جب ہم نے اس مسئلے کو وہاں اٹھایا ہے تو رات کی تاریکی میں ٹرکیں بھر بھر کر ان علاقوں میں لے کر جا رہے ہیں جو ہم نے نامی نیٹ کئے تھے کہ وہاں پر کوئی درخت نہیں ہے۔
طارق محمود:- دوبارا لگائے جا رہے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن:- راتوں رات ٹرکیں لے جا رہے ہیں۔
اور آپ کے صحافی پیچھا کرتے ہیں اس کا ، صبح نماز وہ بھی پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔ ہاہاہا
یہ ڈرامے ہیں ملک کے اندر ، بی آر ٹی کا کیا حشر کر دیا؟
یہاں جو میٹرو بس بن رہی ہے یہ غلط ہے لاہور والی غلط ہے۔
ملتان والی غلط ہے یہ پیسے کھانے کے لئے ہیں یہ فلاں کے لئے ہیں۔
وہ تو چل رہی ہیں لوگ ان کو انجوائے کر رہے ہیں
اور وہاں جو پاکستان کے امانت داروں نے بنائی ہے وہ کھڈے ہیں سیلاب ہیں۔
میرے خیال میں 25 ارب سے ایک منصوبہ شروع ہوا اور آج شاید 1 کھرب 25 ارب تک پہنچ گیا ہے۔
اس طرح ملک کا پیسہ ضائع کرنا، قوم کا پیسہ ضائع کرنا۔
درختوں کو لگانے کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر جانا۔
اور 24 ارب روپے جو سی پیک کے ہیڈ میں تھے اس ہیڈ سے اٹھا کر ترقیاتی سکیموں کے نام پر اپنے ممبران کو عطا کر دینا۔
کیا چیزیں ہیں؟
طارق محمود:- خاقان عباسی صاحب نے کہا گزشتہ انٹرویو میں ، انہوں نے کہا کہ واحد حل یہی ہے کہ ملک میں فوری طور پر نئے الیکشن کروائے جائیں۔
کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے یہ معاملہ تبھی جا کر نبٹے گا ورنہ نقصان۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ہمارا یہی مطالبہ ہے ، دیکھیں ملک معاشی لحاظ سے بیٹھ گیا ہے۔
اور اس حد تک جب ملک بیٹھ جائے گا آپ مجھے بتائیں دوبارا آنے والا حکمران اس کو اٹھائے گا کیسے ؟
اس ملک کو اٹھانا بھی تو ہے نہ، اور اس ملک کو اس نتیجے پر لانا، اگر کوئی یہ کہے کہ صرف عمران خان اور اس کی ٹیم کی نا اہلی ہے
میں کہتا ہوں کہ ان نااہل لوگوں کو حکمران بنانے کے لئے مقتدر قوتیں بھی تو ذمہ دار ہیں اس کی ؟
یہ ملک ہم نے اس لئے حاصل کیا تھا؟
یہ اس مقصد کے لئے ان کے حوالے کیا ہے ؟
بھئی آپ کا کام دفاع ہے اور دفاع کے لئے تگڑے ہیں۔
آپ نے ہندوستان کو ڈٹ کر جواب دیا ہم نے ایک ایک ضلع میں جا کر مظاہرے کئے اور آپ کو ہم نے سپورٹ کیا۔
لیکن سیاست تو مت کرو نہ، معیشت بھی آپ کے کنڑول میں ہے سیاست بھی ،
پھر ذمہ داری بھی قبول کرو نہ،
ذمہ داری سیاست دان پہ ڈال دیتے ہیں۔
طارق محمود:- آپ گئے نواز شریف صاحب کے پاس بھی ، زرداری صاحب کے پاس بھی ، کیا لگا آپ کو یہ ، وہ جو آپ کی کال ہے اس میں کتنا آپ کا ساتھ دیں گے کتنا مددگار ہو گے۔
یا وہ ساتھ دیں یا نہ دیں آپ اپنے فیصلے پر اٹل ہیں آپ اسلام آباد آئے گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اس وقت مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ہو ہمارے موقف سے انہیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
پاکستان کی خود مختاری کا مسئلہ ہو ، توہین رسالت کا مسئلہ ہو ، عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ ہو ، اسلامی قانون سازی کا مسئلہ ہو۔
یہ ساری وہ چیزیں ہیں جس پر وہ شاید اعلانیہ تو شاید عوام کے سامنے نہ آنا چاہیں۔
لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ اس سے اختلاف کر سکیں۔
ایسی صورتحال میں وہ حمایت بھی کر رہے ہیں اور عملی طور پر میدان میں بھی نہیں اتر رہے۔
لیکن ہم نے اس کا انتظار تو نہیں کیا، اور ایسا بھی نہیں کہ اگر ہم تنہا ہیں تو پبلک کا رسپانس کمزور ہے۔
پبلک کا رسپانس بہت زیادہ ہے۔
آپ بتائے اب آگے تیرہواں ملین مارچ ہے تاحد نظر انسانیت کا سمندر ہوتا ہے کچھ پتا نہیں ہوتا ،کہاں سے لوگ آ گئے۔
طارق محمود:- وہ ان کی سیاسی مجبوری ہے عملی طور پر حمایت نہ کرنا ؟ جیسے شریف فیملی اپنے کیسز میں پھنس گئی ہے۔
آصف زردای بھی اپنے کیسز میں پھنس گئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اس پہلو کو ہم عام تبصروں میں نظر انداز تو نہیں کر سکتے۔
لیکن بہرحال اس پر تو حتمی جواب وہ خود ہی دے سکیں گے۔
طارق محمود:- لیکن آصف زرداری صاحب تو کہتے ہیں کہ میں تو ساتھ دوں گا اور میں آؤں گا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- جی وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم ساتھ دیں گے۔ ان کا مسئلہ اس بارے میں واضح ہے۔
طارق محمود:- تو یہ آپ نے اسلام آباد ملین مارچ کی ٹائمنگ طے کی ہے یا نہیں
مولانا فضل الرحمٰن:- جی اسلام آباد ملین مارچ کی بات یہ ہے کہ ابھی ہمارے سامنے رمضان شریف آ رہا ہے۔
ہماری اپنی پارٹی کے جماعتی انتخابات ضلع لیول پر تو مکمل ہو چکے ہیں۔ چند دنوں میں ہو جائیں گے۔
لیکن پھر رمضان شریف کے بعد صوبوں کے اور مرکز کے ہونے ہیں۔
اس پر تمام ہماری جو دوسری مذہبی جماعتیں ہیں ان کی بھی رائے یہی ہے۔
اور پھر جا کر ہم عید کے بعد اسلام آباد کو ٹارگٹ بنائیں کہ بیچ میں حج وغیرہ آ جاتے ہیں۔
طارق محمود:- بقر عید کے بعد؟
مولانا فضل الرحمٰن:- بقر عید کے بعد ، یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ ٹائمنگ کی وجہ سے کچھ مشکلات آ رہی ہیں۔
ورنہ ہم پر تو لوگوں کا اتنا پریشر ہے
کہ ابھی ادھر ادھر کے ملین مارچ نہ کریں ہمیں سیدھا اسلام آباد کے لئے کہیں۔
اور پتا نہیں پھر ملک میں کوئی ٹرین ایسی ہو گی کہ جس میں اس احتجاج کے علاوہ اور لوگ ہو گے۔
کوئی بس ایسی ہو گی کوئی ایسے ذرائع جو وہاں تک پہنچنے کے ہو گے۔
پورا ملک اسلام آباد پر اتنا امڈنے کو تیار بیٹھا ہوا ہے۔
طارق محمود:- یعنی بقرعید کے بعد آپ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے
اور یہ حکومت کے خاتمے تک ہو گا ؟ آپ واپس نہیں جائیں گے اس وقت تک ؟
مولانا فضل الرحمٰن:- میرا تو خیال ہے پہلے ہی خاتمہ ہو جائے گا۔
وہاں تک یہ ٹھہر نہیں سکیں گے ۔ یہ اتنا بڑا ہجوم ہو گا کہ اسلام آباد آپ کا مکمل لاک اپ ہو جائے گا۔
اور اگر آپ روکیں گے اس کو تو پورے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔
اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا تیرہواں ملین مارچ، لاکھوں انسانوں کا اجتماع ، چڑیا بھی اس میں زخمی نہیں ہوئی ، شیشہ بھی نہیں ٹوٹا۔ اور بڑے آرام کے ساتھ سب کچھ جا رہا ہے۔
طارق محمود:- اور باقی اپوزیشن پارٹیز کو بھی آپ شریک کریں گے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- اگر کل کلاں ہم اسلام آباد کی کال دیتے ہیں
یا کسی جگہ پر ہمارے لئے کچھ دشواریاں پیدا کی جاتی ہیں تو پھر صاف ظاہر ہے۔
کہ پھر انارکی پیدا کرنا یہ پھر انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہو گا۔
ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم پر امن ہیں۔
اور ہمارے ان تمام پرامن اجتماعات کو بھی آپ ٹی وی پر نہیں دکھا رہے ہیں۔
آپ لوگوں کو روک دیا جاتا ہے یہ کون سی جمہوریت ہے؟
یاد رکھیں جس ماحول میں آپ کی آواز دبا دی جائے
اور تمام میڈیا کے ذرائع اور ذرائع ابلاغ روک دئیے جائیں یہ آمریت کی علامت ہوتی ہے۔
تو آپ سمجھ لیں جو پریس کانفرس ہوئی ہے
اصل حکمرانی ان کی ہے۔ اور ڈیفیکٹو نظام چل رہا ہے۔
یہاں پر پرائم منسٹر بھی ڈیفیکٹو ہے۔
اور یہاں پر میں آپ کے سامنے عرض کر دوں۔
آرمی چیف جو ہے۔ وہ بھی ایک (۔۔۔۔۔۔۔۔آواز سنسر کر دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
جو باضابطہ طور پر اعلان نہیں کر رہا۔ لیکن مکمل اس کا ، سول امور، ترقیاتی کام ، مدارس کے معاملات ، سب چیزیں جو ہیں ، سیاسی امور ، سیاسی پارٹیوں کے خلاف ردعمل دینا ،
یہ کون سا ان کا جاب ہے ؟
اس طرح تب ہی ہوتا ہے جب امراً مارشل لاء ہوگا .اگر مارشل لاء نہیں ہے تو اس طرح کی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوتی۔
طارق محمود:- نیب جو کام کر رہی ہے اس پہ اپوزیشن کہتی ہے یہ سیاسی انتقام ہے لیکن ملک میں کرپشن تو ہوئی ہے, سیاستدانوں نے رقم بھی لوٹی ہے اور بیڈ گورننس (Bad Governance) بھی ہوئی ہے تو ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر کام برا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر چیز پولیٹیکل وکٹمائیزیشن (political victimization) ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیں ہمارے ہاں خرابیاں پیدا کی جاتی ہیں. اور ان خرابیوں کو پیدا کرنے میں ہمارے زیر زمین ادارے جو ہیں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے اور ایک ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد پھر اس پر اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔
نیب نے بہرحال جنرل مشرف کی آمریت میں اس نے وجود پایا اور اس وقت بھی جس نے پیپلز پارٹی سے یا بینظیر بھٹو سے غداری کی. جس نےنواز شریف سے غداری کی وہ پاک صاف ٹھرے. اور جنہوں نے اس کے ساتھ وفاداری کی وہ سب چور غدار. آج بھی جو چور وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجاتا ہے وہ پاک وصاف اور اس کے خلاف ان کا رویہ اور, اور جب وہ اپوزیشن کا ساتھ دیتا ہے تو ان کے خلاف پھر اور۔
تو یوں نظر آنا چاہیے کہ اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو پھر آپ کا ادارہ واقعتاً غیر جانبدار نظر آئے اور اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ کتنی دنیا ہے پاکستان کی جو پانامہ اور آفشور کمپنیوں کے لوگ ہیں اور خود آپ کا وزیراعظم بھی. لیکن کسی کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ایک بندے کو ٹارگٹ بنا لیا ہے۔
اسی طریقے سے کرپشن کے جتنے کیسز ہیں بس ایک دو بندوں کا آپ روزانہ جو ہے پورے میڈیا میں دنیا کو دکھا رہے ہیں. تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ پھر اس کو کوئی انصاف کا عمل نہیں کہے گا. انصاف کے عمل پر سوالیہ نشان آئے گا۔
تو اس اعتبار سے اس کی بنیاد بھی آمریت میں پڑی ہے. ایک انتقامی سیاست کی داغ بیل اسی ادارے سے ڈالی گئی ہے. اور جس ادارے کی داغ بیل جس تصور کے ساتھ ڈالی جائے وہ آخر وقت تک اس کے ساتھ پیوستہ رہتی ہے وہ تصور.
لہذا اس ادارے کے حوالے سے ہم پر تو کوئی پریشر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اتنا ضرور ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو ایک انتقامی ادارے ہی کے طور پر باقی رکھا گیا ہے. اور اس میں غلطی کچھ پیپلز پارٹی اور نواز شریف دونوں کی خود بھی ہیں کہ اٹھارویں ترمیم میں وہ اس کو ختم کرسکتے تھے اور ہم نے بھی کہا کہ آج وقت ہے آپ اس کو ختم کریں لیکن انہوں نے کہا نہیں پھر لوگ کہیں گے شاید یہ احتساب سے فرار۔
احتساب کا اور ادارہ ہونا چاہیے یہ ضروری ہے؟ یہ پھر مشرف کے زمانے میں ان سارے حالات سے گزر چکے ہیں. آٹھ سال زرداری آپکا جیل میں رہا ہے. تمام مقدمات سے گزر چکے ہیں. بینظیر بھٹو مقدمات سے گزری، نواز شریف گزرا۔
اب دوبارہ نئی حکومت آگئی آپ نے اس کے ساتھ این آر او کیا. ان کے ساتھ معاملات ختم کردیے. دس سال کے بعد پھر ایک اور حکومت کہتی ہے کہ کوئی چیز نہیں ہے دوبارہ شروع کرو ان کے خلاف. تو یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا. اور کب تک عوام اس پر اعتماد کرتے رہیں گے۔
لہذا ایسی بات کرو کہ ان سے اچھی کارکردگی لے کر آؤ. سی پیک کو آپ نے روک دیا بڑے بڑے میگا پراجیکٹ ایک بھی نہیں لاسکے آج تک ایک ڈیم تو نہیں بنا سکے. ساڑھے تین سو ڈیموں کی بات کرتے ہو.
پتہ نہیں چوری کرتے ہو پھر کہتے ہو زبان پھسل گئی. ایک ارب تم نے لگائے نہیں ہیں ادھر کہتے ہو پانچ ارب لگا دئیے . تو ابھی آپ کہتے ہیں کہ، ایران میں چلا گیا تو ایران میں کہتا ہ کہ پاکستان کی سرزمین سے بھی یہاں پر دہشتگردی ہوتی ہے ہمیں اس کا اعتراف ہے. لیکن ہمیں روکنے کی کوشش کرنی ہوگی. اس کی عدالت میں آپ نے اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کردیا. اور آپ نے پاکستان کو مجروح کیا ہے. کبھی آپ کہتے ہیں بلاول صاحبہ. ہر جگہ پر اس کی زبان پھسلتی ہے. اب یہ زبان ہے یا ہوائی چپل ہے. ؟ جو ہر جگہ پھسلتی ہے۔
طارق محمود:- مولانا صاحب! یہ پی ٹی ایم والا معاملہ کیا ہےکیونکہ خود عمران خان صاحب نے تقریر میں کہا ہے کہ جی ان کی باتیں درست ہیں طریقہ کار غلط ہے.
مولانا فضل الرحمٰن:- لہجہ غلط ہے. لفظ جو ہے نا اخبارات میں رپورٹ ہوا تھا کہ جی بات ٹھیک ہے لیکن لہجہ غلط ہے
طارق محمود:- تو آپ کس طرف ہیں.؟
مولانا فضل الرحمٰن:- یعنی غصے سے کہو "یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے" یہ غلط ہے پیار سے کہو تو پھر ٹھیک ہے. ھھھھ
یہی معنی ہوا نا . ایسی احمقانہ قسم کی باتیں کرنا کہ وہ فوج کے خلاف. اب دیکھیے ہر جگہ پرکوئی نہ کوئی ردعمل تو ہوتا ہے. دیکھیے قوم پرست ہر جگہ ہوتے ہیں اور وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرے اور پھر وہ ردعمل دے سکے. یہ ایک وقتی ایشوز کی بنیاد پر کھڑی کی گئی تحریک ہے نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے.
طارق محمود:- پی ٹی ایم؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ہاں. نظریات کی بنیاد پر تو اے این پی ہے. نظریات کی بنیاد پر تو ملی عوامی پارٹی ہے. اسٹیبلش جماعتیں ہیں باقاعدہ پبلک کو منشور دیتے ہیں اور اس حوالے سے ان کا ایک تعارف ہے.
اگر جمعیت علماء اسلام ہے تو وہ مذہبی حوالے سے ایک نظریے کا نام ہے. لیکن ادھر ادھر فرقہ پرست تنظیمیں کبھی کبھی شیعہ سنی اٹھا لیتے ہیں اب یہ ہمارا تو منہج نہیں ہے نا۔
اور وہ پھر کہتے ہیں کہ، تو جذباتی ماحول میں جب کوئی تحریکیں اٹھتی ہیں. جیسے ہمارے صوفی محمد صاحب اٹھے شریعت کے نعرے کے ساتھ تو وہ ایک جذباتی ماحول پیدا کرلیتے ہیں. جس وقت ایک جذباتی ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو پھر اس ماحول میں معقول بات کرنا جرم ہوجاتا ہے.
طارق محمود:- فاٹا الیکشن میں ان کے ساتھ کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا ان کی سپورٹ جے یو آئی؟
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں نہیں ہماری کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات نہیں ہے. اور ہم نے اپنے طور پر وہاں فاٹا کی جو جماعت ہے ان کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ اس کی اسٹریٹیجی خود بنائے اور اس حوالے سے وہ اپنی شناخت کے ساتھ فاٹا میں الیکشن لڑیں گے ان شاءاللہ.
طارق محمود :- ملک میں جو صدارتی نظام کی جو باتیں ہیں اس کی بو آپ کو آرہی ہے یا نہیں صرف توجہ ہٹانے کے لیے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- یہ بعض دفعہ ایسے ہی ایک بحث چھیڑ دیتے ہیں کچھ لوگوں کو سوٹ کرتا ہے تو یہ پاکستان کوئی روز روز کا تجربہ گاہ ہے؟
یعنی یہی صدارتی نظام تھا سکندر مرزا صدر مملکت تھا, ایوب خان صدر مملکت تھا, یحیی خان صدر مملکت تھا, بھٹو صاحب چند دن کے لیے صدر مملکت بنے عبوری آئین کے تحت, ضیاء الحق صدر مملکت تھا, جنرل مشرف صدر مملکت تھا, اس ساری تفصیل کو دیکھتے ہوئے تو یہ ایک آمرانہ دور کا آمرانہ تسلسل کی ایک علامت ہے۔
پارلیمانی طرز حکومت کو جو آئین میں حیثیت حاصل ہے وہ آئیں کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت میں حاصل ہے. اور آئین کا جب بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو گا تو پھر آپکا آئیں نہیں رہے گا.
طارق محمود:- مولانا صاحب! حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آتی آپکو یا اسمبلیاں چلتی ہوئی نظر نہیں آتیں آپکو ؟
کوئی ان ہاؤس چینج دیکھ رہے ہیں آپ کا سیاسی وژن کیا؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ان ہاؤس کیا ہوگا ان ہاؤس میں تو اکثریت جعلی ہے نا وہاں کی، تو اس پر کیا اعتماد کیا جاسکتا ہے. بنیادی بات یہ ہے نہ کہ ایک قانون سازی نہیں ہورہی آج تک. روزانہ اسمبلی میں ہنگامے ہورہے ہیں. صدارتی محل سے جناب ایوان صدر سے روز روز جو ہے نا وہ آرہے ہیں، فرامین آرہے ہیں کہ ملک چل رہا ہے قانون سازی ہے نہیں،
نہ ان میں صلاحیت ہے قانون سازی کرنے کی. نہ یہ وہ ماحول دینے میں کامیاب ہوسکے ہیں کہ ملک میں کوئی قانون سازی دے سکیں. نہ کوئی میگا پراجیکٹس سے سکے ہیں. مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے. پیسہ کم ہوگیا ہے. آپ کا اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے پیسہ ہمارے پاس نہیں ہے. آپ کا ایشین بینک کہہ رہا ہے آپ کا ورلڈ بینک کہہ رہا ہے کہ پاکستان آئندہ دو سالوں میں بھی کوئی بہتری دکھانے کے قابل نہیں ہے۔
اور اب جب آپ نے ترلے کیے آئی ایم ایف کے جس کو آپ کہہ رہے تھے اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تو خودکشی کریں گے وغیرہ وغیرہ. وہ اسی کے پاس جائیں. آج وہ جب آپ کے پاس مذاکرات کے لیے آرہے ہیں پاکستان، تو ظاہر ہے آپ کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ اب وہ اپنے شرائط کی بنیاد پر آپ کا بجٹ بنائیں گے.
اور اس کے لیے آج آپ یہ بیانات دے رہے ہیں کہ جی مدرسہ اور فلاں فلاں تاکہ ہم ایک ماحول بین الاقوامی ادارے کے سامنے بنا سکیں کہ پیسہ آپ کا پاکستان میں آئے گا تو وہ مدرسے کے لئے استعمال ہوگا.
مدرسہ کب آپ کا پیسہ لیتا ہے ؟ مدرسوں کا تو اصول ہی یہ ہے کہ ہم سرکاری پیسہ نہیں لیں گے. ایک پیسہ بتاؤ جو آپ دے رہے ہیں؟
دو دو روپے ایک ایک روپے اکھٹا کرتے ہیں وہ بھی میڈیا میں، فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے. فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے ؟چندے اس دنیا میں ہوتے ہیں.
طارق محمود:- آخری بات مولانا صاحب یہ کہ کیا کہیں گے اب اس صورتحال میں کہ جو ارباب اقتدار ہیں, مقتدر قوتیں ہیں, حو اپوزیشن پارٹیز ہیں ان کے لیے آپکا سیاسی پیغام کیا ہوگا.
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیں جی میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے ملک کو چلانا ہے تو پھر وہ ماحول پیدا کرو جب 1973 کا آئین بن رہا تھا اور پاس ہورہا تھا.
تو اس وقت ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسا ماحول ملک کے اندر آنا چاہیے کہ جس کے اندر کوئی ردعمل میں ریاست کے خلاف کوئی آوازیں نہ کھڑی ہوں. اگر خدانخواستہ پشتون قوم پرستوں میں, بلوچ قوم پرستوں میں, سندھی قوم پرستوں میں اس قسم کے رجحانات اگر اٹھتے ہیں تو ایک وقت تو یہی چیزیں بنگلہ دیش بنا چکے ہیں۔
اگر بنگلہ دیش کے لیے وہاں پر ایک لاوا پھٹ سکتا ہے تو ہم نے روز روز اس قسم کے حالات پیدا کرنے ہیں؟ اور پھر یہی کہنا ہے کہ یہ ریاست کے دشمن ہیں ریاست کے دشمن ہیں. اس پہ گزارہ کرتے رہیں گے؟.
لہذا ہم تو اس ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں. ہم ریاست کے ساتھ نہ تصادم چاہتے ہیں نہ جنگ چاہتے ہیں لیکن سیاسی ماحول کے اندر ہم جمہوریت کے وہ سارے تقاضے پورے کریں جو ہمارا آئین کہتا ہے لیکن ہمارے تقاضے اگر اس کے برعکس آتے ہیں تو اس پر تو ہمیں اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے.
اینکر: مولانا صاحب بہت شکریہ آپ کا. اللہ حافظ
ایک تبصرہ شائع کریں