سکھر میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو
8 جولائی 2019
الحمدللہ رب العالمین ، والصلواۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین۔ و علی صحبہ و من تبعھم باحسان الی یوم العظیم۔
حضرات علمائے کرام, تمام مہمانان گرامی, میرے بزرگوں, دوستوں اور بھائیوں میں جناب راشد سومرو صاحب کا اور انکے بھائیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا دوستوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ ہمیں ملاقات اور ان کی زیارت کرنے کا ہمیں موقع عنایت فرمایا جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام کی ازسرنو تنظیم سازی کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور رکن سازی سے لے کر مرکزی انتخاب تک دس سے گیارہ مہینے گزرے ہیں کارکنوں نے جس محنت اور مشقت کے ساتھ عوام تک کارکنوں تک رسائی کی ہے۔ جمیعت کے پیغام کو پھیلایا اور لوگوں نے جس طرح اس پر اپنے مثبت رد عمل کا اظہار کیا اور ملک بھر میں 30 لاکھ کی جمیعت کی رکن سازی یقینی ہوئی میں مرکزی ناظم انتخاب جناب راشد سومرو صاحب اور ان کی پوری ٹیم ، صوبائی نظم انتخاب کو ان کے معاونین کو مرکزی نظم انتخاب کو اور ان کے معاونین کو سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پورے ملک میں انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ انتخابات بھی ہوئے اور بڑے کٹھن مرحلے بھی آئے میں اس بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہتا ہوں ہو کہ اس پورے سال میں ہم نے دوہرا کام کیا ہے۔ ایک طرف ہمارے کارکن رکن سازی میں مصروف تھے گلی گلی لوگوں کو جمیعت علمائے اسلام میں شمولیت کی دعوت دے رہے تھے دوسری طرف موجودہ حکومت کے خلاف اسلام اور آئین کی اسلامی دفعات کے خلاف اقدام پر اور ملک کے اوپر ایک جعلی حکومت مسلط ہونے پر بطور احتجاج ملین مارچ بھی کرتے رہے ہیں اور ملک کے دور دراز علاقوں میں 12 یا 13 ملین مارچ ہم نے کیے یے اور بڑے کامیاب ملین مارچ جس میں عوام کی بھرپور شرکت نے ثابت کیا کہ ہم جو کہہ رہے ہیں یہ عام آدمی کے دل کی آواز ہے۔
اب ان شاءاللہ ایک مرحلہ تو مکمل ہو گیا کامیابی کے ساتھ ، انشاللہ دوسرا ہدف بھی پوری کامیابی کے ساتھ ہم حاصل کریں گے۔
میرے محترم دوستوں دنیا کا اصول یہ ہے کہ کسی ریاست کی جغرافیائی حدود کا تحفظ ملک کی دفاعی قوت کرتی ہے لیکن ملک کی نظریاتی حدود کا تحفظ سیاستدان کرتے ہیں سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔
آپ بھی جانتے ہیں ہمارے معاشرے کے لوگ بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر کسی قبیلے کی کوئی لڑائی چھڑتی ہے۔ تو میدان جنگ میں لڑنے والے نوجوان اور ہوتے ہیں لیکن جرگہ ،مصالحت ،معاملات کو سنبھالنا یہ ان قبیلوں کے ذہین لوگ اور بڑے لوگ، تجربہ کار لوگ وہی معاملات کو سنبھالتے ہیں دونوں کام جنگجو نہیں کر سکتے۔
ہمارا ملک ہے کہ ہمارے ملک کا سیاسی نظام بھی ہماری دفاعی قوت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک ہمیشہ سے سیاسی بحرانوں کا شکار ہوتا ہے معاملات سنبھلے سنبھالے نہیں جاتے خفیہ ایجنسیاں اس میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
اور وہ یہ سمجھتی ہیں اور حتمی طور پر سمجھتے ہیں کہ ملک ہمارا ہے سیاست ہماری ہے ہم نے پارلیمنٹ اپنی مرضی سے بنانی ہے اور سیاستدانوں کو تھوڑا سا شریک کرنا ہے کتنا حصہ دینا ہے یہ ان پر منحصر ہے ہم اس سیاسی طرز عمل کو جو ملک میں رواج پا رہا ہے یا پا چکا ہے ہم اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
یہ ان کا کام نہیں ہے یہ ملک آئین کی بنیاد پر چل رہا ہے اور آئین میں ہر ایک کی اپنی ذمہ داریاں متعین ہے اگر ہم آئین میں دی گئی اپنی ذمہ داریوں سے تجاوز کرتے ہیں تو پھر شکوے شکایتیں ہو گی۔ پھر اختلافات ہوں گے اگر ایک فوجی کمیشن ہونے کے بعد حلف اٹھاتا ہے کہ میں نے کبھی بھی سیاست میں مداخلت نہیں کرنی آپ بتائیں کہ کیا یہ لوگ ملکی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے۔ سیاست میں پنگا پھر ایسی صورتحال میں یہی لوگ ملک کے اندر عدم مفاہمت کے ذمہ دار ہیں۔
ایک ایسی حکومت کہ جس کو بچہ بچہ گلی کوچے میں جانتا ہے کہ یہ عوام کی منتخب کردہ نہیں ہے کس طریقے سے اس کو کون لایا ہے۔ اور کبھی بھی ہم ایسے حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتے یہ کٹھ پتلی حکومت ہے یہ ناراض ہوتے ہیں کہ ہم آپ کو سلیکٹڈ کیوں کہتے ہیں ہم تو اس سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں ہم تو آپ کو ریجیکٹڈ کہتے ہیں۔ تم اس ملک کے حکمران ہی نہیں ہو تم قابض ہو
ہم انگریز کے جبر کے خلاف بھی لڑ رہے تھے اور اس ملک کے اندر بھی اگر کوئی طبقہ چاہے ہزار مرتبہ وہ مسلمان ہوں لیکن جبراً مسلط ہوتا ہے تو ہم اس کو تسلیم نہیں کرسکتے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
ستة لعنتهم ولعنهم الله وكل نبي مجاب
چھ لوگ ہیں کہ جن پر میں بھی لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس میں پہلے آدمی کا ذکر کیا ہے۔
المتسلط بالجبروت
جو جبری طور پر قوم پر مسلط ہوتا ہے لہذا جبری متسلط یہ اللہ کی نظر میں بھی ایک ملعون نظام ہے۔ جبری تسلط حضرت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھی ایک ملعون نظام ہے جس پر پیغمبر نے لعنت بھیجی ہے تو پھر اس کے بعد آپ بتائیں ہمارے لئے کیا راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم ایسے نظام کے خلاف بغاوت کریں۔
کہ ہم ایسے نظام کے خلاف میدان میں اتریں۔اور نالائقی اور نااہلی کا عالم یہ ہے بعض دفعہ ہوتے ہیں ڈکٹیٹر بھی ، آمر بھی ، آمرانہ مزاج رکھنے والے بھی کچھ معاملہ فہم ہوتے ہیں۔
کچھ تھوڑی بڑی اللہ نے انہیں عقل دی ہوتی ہے معاملات کو سمجھتے ہیں مسائل کو سمجھتے ہیں یہاں تو عالم یہ ہے کہ آج سال پورا نہیں ہوا لیکن ملک کا غریب آدمی کراہ رہا ہے۔
تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیئے گئے جتنا انہوں نے دس مہینوں میں لیے ہیں۔ ہمارے روپے کی کیا حیثیت رہ گئی کسی زمانے میں ہم کم از کم ایک بے وقعت چیز کو کہتے تھے یہ کوڑی کا مال ہے ہمارے روپے کو اب کوڑی بنا دیا گیا ہے۔
اور تیس ہزار ماہانہ کمانے والا آج بازار سے راشن لینے کے قابل نہیں رہا ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں ابھی لگتا ہے کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس لگایا جائے گا شادی کرنے پر بھی ٹیکس ، بچے پیدا کرنے پر بھی ٹیکس ، آپ جو کوئی چیز خریدتے ہیں یا کوئی چیز بیچتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس، ان کی بھی ڈاکومنٹیشن ہونی چاہیے چیک کے ذریعے آپ خرید و فروخت کرتے ہیں زندگی آپ نے تنگ کر دی ہے آج پیسے کی گردش رک گئی ہے۔
اور جب پیسے کی گردش رکتی ہے مارکیٹ میں پیسہ نہیں آتا تو پھر بڑھوتری نہیں ہوتی۔ پھر پیسہ نہیں بڑھتا پیسہ اس صورت میں بڑھتا ہے جب پیسہ بازار میں گردش کر رہا ہوتا ہے۔
یہ لوگ تو معیشت کو بہتر بنانے کی بنیادی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں ایسی صورتحال میں پھر قوم نے ایک صف ہوکر ایک محاذ پر کھڑا ہونا ہے خوش آئند ہے یہ بات کہ آج ملک کی سیاست اور سیاست کے قائدین تمام جماعتوں کے ایک پیج پر آگئے ہیں اور پوری قوم ایک صف میں کھڑی ہے۔
اس بات کا وقت ہے کہ ہم پوری قوت کے ساتھ اس رجیم کا مقابلہ کریں ہم پر رجیم مسلط ہے یہ منتخب لوگ نہیں ہیں۔ اور ان کے خلاف ہماری تحریک آگے بڑھے گی قوت کے ساتھ آگے بڑھے گی حوصلے کے ساتھ آگے بڑھے گی جہاد کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھے گی بھی اور انشاءاللہ ہم فتح و کامرانی حاصل کریں گے اپنے موقف پر اور اپنے اصول پر کوئی سودا نہیں کریں گے اللہ رب العزت جمیعت علماء اسلام کو کو ہر محاذ پر اور ہر آزمائش میں کامیابی کے ساتھ ہم کنار کرے اور سرخروئی کے ساتھ اسے آنے والے مستقبل میں کامیابیاں نصیب فرمائے۔
میں ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ ریاستی قوتیں ہمارے سامنے کھڑی نہ ہو ہو ہم ریاست سے اور ریاستی قوتوں سے مزاحمت نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر سیاسی میدان میں ایک غلط قوت ہم پر مسلط ہے تو ان کی ہمنوائی کرنا بھی اتنا ہی جرم ہے جتنا کے ان لوگوں کا ملک پر حکومت کرنا جرم ہے اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین۔
صحافیوں کے سوالات کے جوابات
صحافی :- وفاقی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ مولانا صاحب بلاول بھٹو اور مریم نواز کو بچانا چاہتے ہیں اور کرپشن پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن :- میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہم قوم کو آزاد کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں عوام کو آزاد کرانے کی جنگ لڑ رہے ہیں اس وقت عوام قید ہیں اور اس مجبور عوام کو رہا کرنا۔
اور سیاستدان جیل جانے کے عادی ہوتے ہیں جو سیاسی کارکن جیل جانے سے گھبرائے اسے سیاست نہیں کرنی چاہیے لیکن عوام کے لیے ہمیں لڑنا ہے یہ بچگانہ قسم کی باتیں ہیں حکومت بھی بچگانہ الزامات بھی بچگانہ ، یہ نہیں چلے گا ان شاء اللہ العزیز ہم بتائیں گے ہم نے دفاع کیا ہے جب انہوں نے مدارس پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔
ہم نے حکومت کو پیچھے دھکیلا ہے جب انہوں نے ختم نبوت کے قانون پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہم نے ان کو پیچھے دھکیلا ہے جب انہوں نے ناموس رسالت کے قانون پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہم نے حکومت کو پیچھے دھکیلا ہے لیکن آج ہمارے ملک کے بجٹ کو آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے اور ہمارے ملک کے سٹیٹ بنک پر اور ایف بی آر کے اوپر جن شخصیات کو مسلط کیا گیا ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملکی معیشت کو گروی رکھنے کی ایک کوشش ہے جو کی گئی ہے لیکن ہم آزادی کی جنگ لڑیں گے۔
صحافی :- جس طرح مریم نواز نے پریس کانفرنس کی ہے اور عدلیہ کے اوپر سوال اٹھائے ہیں اس کے اوپر آپ کا موقف کیا ہے اس ویڈیو نے تو آزاد عدلیہ کی نفی کی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- میرے خیال سے ایک چیز میدان میں آگئی ہے اور پتہ چل گیا ہے کہ عدالت کس طرح دباؤ میں آکر فیصلہ کرتی ہیں اسی طرح ریاستی ادارے جب جانبدار ہو کر فیصلے کریں گے۔ اور کچھ قوتوں کے آلہ کار بن کر فیصلے کریں گے یہ ردعمل آئے گا یہ حقائق سامنے آئیں گے۔ اور وہ تردید نہیں کر سکیں گے۔
صحافی :- ابھی اس سال جو الیکشن ہو رہے ہیں اس میں آپ حکومتی جماعتوں کا ساتھ دیں گے یا اپوزیشن کی جماعتوں کا ساتھ دے گے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- ہماری جماعت کا اصول یہ ہے کہ الیکشن کے فیصلے وہاں کی ضلعی جماعت ہی کرتی ہے ہمارے پاس ان کے قائدین آئے ہیں ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہئے انہیں ایک صف باندھ کر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے تاہم حتمی فیصلہ ہماری مقامی جماعت ہی کرے گی۔
صحافی :- مولانا صاحب آپ نے لاک ٹاؤن کی بات کی ہے پہلے خادم حسین صاحب نے بھی فیض آباد میں دھرنا دیا تھا ان کو طلباء کو تحائف گئے تھے آپ کیا توقع رکھتے ہیں آپ کو کیا دیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- میرے خیال سے ہمیں تو جیلیں دیں گے ان کو بھی جیلیں ملی ہیں۔
صحافی :- کیا مستقبل میں حکومت چل پائے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن :- نہیں حکومت تو ہے ہی نہیں ملک کے اندر ، یہ تو کچھ کٹ پتلی لوگ ہیں جن کو نام دیے گئے ہیں کہ یہ وزیراعظم ہیں اور یہ فلاں ہیں اور یہ فلاں ہیں اصل حکومت جو ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہے سیاستدانوں کی نہیں ہے۔
عوام کے متخب لوگوں کی نہیں ہیں جس طرح مقامی سطح پر لوگوں کو کھینچ کھانچ کے پکڑ دھکڑ کر کے جبری طور پر ایک ہی پارٹی کو ووٹ ڈالنے کے لیے مجبور کیا گیا۔
پھر جو رہا سہا تھا اس کے اندر نتیجے تبدیل کیے گئے بکسے تبدیل کیے گئے یہ ساری چیزیں جو ہیں آج ہم کیسے کہیں کہ یہ ملک کے حقیقی حکمران ہیں۔
صحافی :- مولانا صاحب آپ نے کہا کہ آپ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے اور آپ کی پارٹی جو ہے وہ اسلام کے نظام کے پر قائم ہیں کیا آپ اپنی تحریک کے لئے جو سیاسی تحریک ہے اس کے لئے مذہب کو استعمال نہیں کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- مذہب کو استعمال کرنے کا لفظ لبرل لوگوں کا لفظ ہے۔ہم مذہبی لوگ ہیں ہم مذہب کو سیاست کہتے ہیں لہذا نظریہ میں فرق ہے آپ جو الفاظ استعمال کر رہے ہیں یہ سیکولر ذہن اور لبرل لوگوں کی باتیں ہیں ان اصلاحات سے ہمیں اتفاق نہیں ہیں ہم مذہب کو سیاست سمجھتے ہیں۔
یہ انبیاء کی وراثت ہے اگر دین انبیاء کی وراثت ہے تو سیاست بھی انبیاء کی وراثت ہے نبی پاک صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے اور اب آخری پیغمبر میں ہوں میرے بعد کوئی نہیں آئے گا تو لفظ سیاست استعمال کیا ہے۔
یعنی انتظام و انصرام ،مملکتی زندگی کا ،لہذا ہمارا ملک کہتا ہے ہمارا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا اگر آپ مذہب سے واقف نہیں ہے مذہب کا نہیں علم ہے تبھی تو ایوان میں آج تک اسلامی قانون سازی نہیں ہو پا رہی۔ یہ استعمال کرنے کا لفظ جو ہے یہ کچھ لوگوں کا گھڑا ہوا ہے۔
صحافی :- رہبر کمیٹی کو نام دیا گیا ہے کہ یہ رہزن کمیٹی ہے یہ جو گالم گلوچ کے نام آپ کے خلاف آ رہے ہیں اس پر آپ کیا کہیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- یہ تو کلچر ہے ان لوگوں کا ، گالم گلوچ ان کی سیاست ہے۔ اور ہلکی زبان استعمال کرنا گالیاں دینا، بدزبانیاں کرنا یہ جو چیز ہے ان سے انہی کی توقع کی جاسکتی ہے کوئی با وقار انداز گفتگو ، با وقار کردار کی ان سے توقع نہیں کی جاسکتی۔
صحافی :- اگر آپ کے پریشر کے باوجود یہ حکومت پانچ سال چلتی ہے تو آپ ملک کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن :- ملک کا مستقبل بہت خطرناک ہو گا میں تو ابھی ایک سال کی بات کر رہا ہوں کہ ملک آپ کا اتنا گر چکا ہے کہ اگر ایک سال میں ہم حکومت کو گرا دیں تو آنے والا حکمران ملک کو دوبارہ اٹھانے میں دقت محسوس کرے گا۔ پانچ سال کے بعد کیا ہوگا۔
صحافی :- آپ مزید اہم گرفتاریاں مستقبل میں دیکھ رہے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن :- میں گرفتاریوں کا حساب کتاب کرتا ہی نہیں ہوں میں سیاسی کارکن ہوں میرے لئے باہر اور جیل میں کوئی فرق نہیں ہے
ایک تبصرہ شائع کریں