قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا گلشن شہید اسلام جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں صحافیوں سے گفتگو
27 نومبر 2024
سوال: پی ٹی آئی کا دھرنا بغیر نتیجے کے ختم ہوا گنڈاپور صاحب جو اعلان کر رہے تھے بشریٰ بی بی جو حاصل نہ کر سکے اس پہ آپ کیا کہیں گے؟
جواب: دیکھیے میں کسی پارٹی کے اندرونی معاملات کو زیر بحث نہیں لاتا، ان کے معاملات ہیں وہ بہتر جانتے ہیں لیکن بہرحال یہ جو کچھ آج ہو رہا ہے ملک کے اندر جو بے اطمینانی ہے اس کے اصل بنیاد 2024 کے فروری کے الیکشن میں ووٹ کی چوری ہے اور اس نے حالات میں شدت پیدا کر دی، جمعیۃ علماء اسلام پرتشدد سیاست کی ہمیشہ مخالف رہی ہے، ہم نے ہمیشہ ایک اعتدال پر مبنی سیاست متعارف کرائی ہے اور ایک بات طے کرنی ہوگی کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ کو ہمارے اداروں کو انتخابی عمل سے لا تعلق ہونا ہوگا تبھی ملک کے اندر ایک اطمینان آئے گا پبلک میں ایک اطمینان آئے گا، عوام کی سوچ اور نتائج کچھ اور یہ عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے، کوئی شخص اگر گھر سے نہیں نکلا تب بھی میں سوچتا ہوں کہ وہ گھر کے اندر بھی مضطرب ہے اور اضطراب کا شکار ہے، تو ایسی صورتحال میں ہمیں سارے صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا جو پرتشدد واقعات ہوئے ہیں اسلام آباد میں میں اس کی مذمت کرتا ہوں شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور میں نے پہلے بھی پی ٹی آئی کو ہو یا کوئی دوسری سیاسی جماعت ہو جو حق میں اپنے لیے ایک قانونی حق تصور کرتا ہوں وہی میں دوسرے کے لیے بھی اس کو قانون حق تصور کروں گا اور ان کو بھی جلسے کی اجازت ہوگی، سوال یہ ہے کہ ان کا ڈی چوک پہ آنے کا اصرار تھا اتنے بڑے انتظامات کے باوجود پھر یہ ڈی چوک تک پہنچے کیسے ان کو راستہ دیا گیا یا کیا اسی وقوعے کے لیے ان کو راستہ دیا گیا تاکہ اس طرح کی خونریزی ہو اور جنگ و جدل ہو، اگر ہمارے اداروں کے نوجوان شہید ہوئے ہیں وہ بھی پاکستان کا خون ہے اگر کوئی سیاسی کارکن شہید ہوا ہے زخمی ہوا ہے وہ بھی پاکستان کا خون ہے، خون ریزی کی سیاست وہ نہیں چل سکتی پاکستان میں اور ان شاءاللہ العزیز کل یہاں سکھر میں تاریخ کا ایک بڑا جلسہ ہوگا، ان شاءاللہ وہ عوام کا سمندر جو ملکی سیاست پر بین الاقوامی سیاست پر عوام کی رہنمائی کرے گا ملک کے رہنمائی کرے گا تو جو سنجیدہ اقدامات ہیں ہمیں اس طرح لینے چاہیے اور اس طریقے سے جو پرامن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حقائق پر مبنی جو اقدامات ہیں اور گفتگو ہے اگر اس کو طاقتور قوتوں نے سنجیدگی سے نہ لیا اور اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو ظاہر ہے کہ پھر ملک میں اسی طرح کے حالات پیدا ہوں گے، انارکی کے حالات پیدا ہوں گے، مشکلات کے حالات پیدا ہوں گے، شدت کے حالات پیدا ہوں گے، اس طرح کے حالات کو اس مقام پر لے جانا یہ ہمارے اداروں کی بھی اس پہ ایک ذمہ داری پڑتی ہے جی۔
سوال: میرا سوال ہے سر آپ سے کہ آپ تو ہمیشہ مذاکرات کے دروازے ہر ایک کے لیے چاہتے ہیں کھلے رہیں پی ٹی آئی کے لیے بھی کھلے رہیں تو آپ وہ اہم شخصیت ہیں کہ عمران خان حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مذاکرات کے لیے آپ کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں یا ممکن نہیں ہے؟
جواب: دیکھیے 26 ویں ترمیم جس پر حکمران سائڈ سے اس بات کی کوشش تھی کہ 9 گھنٹے کے اندر معاملہ طے ہو جائے لیکن ہم نے کہا اس طرح نہیں ہوگا ہمیں ڈرافٹ تفصیل سے اس کا معائنہ کرنا ہوگا اس پر رائے قائم کرنی ہوگی اور ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک ہم لے گئے اس کو جی، اس پہ ہر طرف سے لوگ ہمارے پاس آئے مذاکرات ہی کے ذریعے اتنا بڑا معرکہ جو ہے وہ سر ہوا اور اس میں پی ٹی آئی کے ساتھ بھی مشاورت رہی ان کو بھی آخری لمحے تک ہم نے اعتماد میں لیا اور حکومتی سائیڈ بھی وہ آتی رہی اور ان کے ساتھ ہماری بات چیت چلتی رہی، تو اگر ہم بات چیت کے ذریعے سے 26ویں ترمیم پر ایک حل پہ پہنچ سکتے ہیں تو باقی معاملات پر بھی ہم بالکل پہنچ سکتے ہیں، اب ظاہر ہے جی کہ ہم یہ تو ان سے کہہ سکتے ہیں کہ معاملات بات چیت سے ہونے چاہیے لیکن ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس حوالے سے اگر ہماری مدد چاہتے ہیں اگر ہمارا تعاون چاہتے ہیں تو ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔
سوال: اچھا سر ملکی حالات جو ہیں وہ ٹھیک نظر نہیں آرہے بلوچستان کی حالت ابھی یہ ہے کے پی میں ابھی جو پاڑا چنار جو حادثہ ہوا اسلام آباد میں ہوئی تو معیشت بھی بیٹھ گئی ہے مہنگائی بھی ان سے بڑھ گئی ہے امن و امان بھی نہیں ہے آپ نے تحفظ کا بھی اظہار کیا کہ جو الیکشن جو ہوئے ہیں شفاف نہیں ہوئے تو کیسے سمجھتے ہیں کہ ملک اس میں آگے بڑھے گا۔
جواب: میں تو یہی کہتا ہوں کہ آئین کے تحت ملک کو چلائیں، الیکشن آئین کے تحت ہوں عوام کی رائے حقیقی رائے سامنے آئے، چاہے کوئی کامیاب ہوتا ہے کوئی ناکام ہوتا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ منیج کرے کہ ہماری مرضی کی حکومت آئے تو اس اعتبار سے جو خیبرپختونخوا میں صورتحال ہے یعنی مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ وہاں پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں کسی سطح کی حکومت نہیں جو ان فسادات کی طرف متوجہ ہو، ہم نے جمعیۃ علماء اسلام کے تحت ایک محنت کا آغاز کیا لیکن اس کے دوسرے روز ہی اتنے پر تشدد واقعات ہو گئے کہ ابھی اس میں ہاتھ ڈالنا شاید دشوار ہو، بلوچستان کی صورتحال یہی ہے کہ کوئی حکومت نہیں ہے، حکومتیں ہوتی اس لیے ہے کہ وہ اس قسم کے صورتحال سے نمٹنے کے لیے صلاحیتیں رکھیں، اب وہاں خون ریزیاں ہوں بلوچستان میں خون ریزیاں ہوں اور حکومتیں اس پہ غیر سنجیدہ ہوں اس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوں تو کس طرح معاملات حل ہوں گے، تو سنجیدہ حکومتوں کا ہونا ضروری ہے جی۔
سوال: پی ٹی آئی والوں کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو فوری اور غیر مشروط طور پہ رہا کیا جائے، کیا سر اس سے 190 ملین ڈالر والا کیس ہے اس کی کیا صورتحال ہوگی، دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کی جماعت نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اہم ترین اس میں کردار بھی ادا کیا، کیا پی ٹی آئی کی جانب سے اس ترمیم کی منسوب کرنے کا مطالبہ اس پہ آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب: پی ٹی آئی کو میں نے کہا تھا آپ ووٹ نہیں کریں گے، آپ احتجاج کریں گے اور میرے کہنے پر انہوں نے احتجاجاً ووٹ نہیں کیا اور باقی جو رہائی قانون وغیرہ وہ بھی اگر کوئی مذاکرات ہوں کوئی بات چیت ہو تو راستے نکل آتے ہیں لیکن زبردستی یہ کہنا کہ وہ کہیں کہ ہم تو ہر قیمت پر جیل میں رکھیں گے آپ کہیں گے ہم ہر قیمت پر نکالیں گے تو اس کا نتیجہ سوائے انارکی کچھ نہیں ہوگا جی۔
سوال: سر پاڑہ چنار کا جو واقعہ ہوا ہے ابھی ابھی پچھلے ہفتے جو ہوا ہے اس میں کے پی حکومت خاموش ہے کوئی رد عمل سامنے نہیں ہے، ان شہداء کے بارے میں جے یو آئی کا کیا موقف ہے اور ان کے جو لواحقین ہے ان کو انصاف دلانے کے لیے جے یو آئی کیا کردار ادا کررہی ہے؟
جواب: ہم تو وہ قبائلی علاقہ ہے جرگے ہی کا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صوبائی حکومت کو شاید پتہ ہی نہ ہو کہ وہاں کچھ ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔
سوال: ۔۔۔۔۔ تو جب اگر یہ کینال بنے تو سندھ کی زمین بنجر ہو جائے گی وہ سندھ جو ہے سارا زرعی معاش پہ ہوتی ہیں۔
جواب: دیکھیے ہم سب ایک قوم ہے ایک ملک ہیں اور یہ سارے معاملات جو ہیں اتفاق رائے سے ہونی چاہیے یکطرفہ طور پر کسی بھی صوبے کو احتجاج پہ مجبور نہ کیا جائے۔
سوال: سر میرا سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی آپ کے ساتھ مذاکرات کرے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو جو حکومت سپیس نہیں دے رہی اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: اس پہ اگر وہ میرے ساتھ رابطے میں رہیں تو میں کچھ حاصل بھی کر سکوں گا اور مجھے اندازہ بھی لگ سکے گا اور میں کوئی کردار بھی ادا کر سکوں گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کارکن جو ہیں وہ یقیناً مخلص ہوا کرتا ہے وہ اپنے کاز کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے قیادت کے ساتھ اس کی وابستگی ہوتی ہے تو اس کے جذبات مخلصانہ ہوتے ہیں لیکن کارکن کے مخلصانہ جذبات کو آپ ایک اعتدال کے دھارے پہ لائیں ان کو ایک صحیح لائن دیں یہ ہوتی ہے لیڈرشپ کی کوالٹی، آپ نے جمعیۃ کو بھی دیکھا پورے ملک میں ہم نے ملین مارچ کیے اور پھر پی ڈی ایم کے مظاہرے اور جلسے ہوتے رہے اور پھر آزادی مارچ جو تقریباً 15 لاکھ سے زیادہ لوگ اسلام آباد میں جمع ہوئے تھے، تو یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں کہ آپ منیج کیسے کر سکتے ہیں آپ اپنے کارکن کو صحیح راستہ کیا دے سکتے ہیں ایسا راستہ کہ وہ جدوجہد کا بھی راستہ ہو اور وہ تشدد سے بھی محفوظ ہو۔
سوال: باہر سے جو مطالبات رہے ہیں خاص طور پر یو ایس سے کبھی برطانیہ سے کبھی کہیں سے سنائی دے رہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کیا جائے کہ اس کے ان کو باہر نکالا اس کا کیا۔۔۔
جواب: میرے خیال میں اس کو پزیرائی نہیں مل رہی ہے اور اس کا خود پی ٹی آئی کو نقصان پہنچ رہا ہے اس کو باہر کے مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اچھی بات نہیں ہے۔
سوال: مدارس کے حوالے سے جو بل پیش کیا گیا ہے اس پہ ابھی تک صدر آصف زرداری صاحب نے دستخط نہیں کیا ہے، کیا اس میں۔۔۔۔۔
جواب: اگر کل تک دستخط نہیں کیے تو ان شاءاللہ کانفرنس میں اس پر بات ہوگی۔
سوال: سر میرا ایک سوال ہے کہ سندھ کی عوام کا بہت پریشر ہے یہ چھ کینال جو بن رہے ہیں تو جے یو آئی صوبائی قیادت ہمیشہ تاریخی جلسے کرتی ہے آپ کا 28 تاریخ کو جلسہ ہے تو اس کی بریفنگ لے کے کیا سندھ کے حوالے سے اپ کوئی۔۔۔۔۔
جواب: میری جماعت نے آل پارٹیز کانفرنس کی ہے تمام پارٹیوں کو ان بورڈ لیا ہے اور ان شاءاللہ وہ متفقہ اعلامیہ بھی دے دیا ہے انہوں نے لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ ہماری جماعت جو ہے وہ صوبائی خود مختاری کے قائل ہیں اور صوبے کے مفادات کے لیے صوبے کے وسائل پر صوبے کے عوام کا حق وہ ہمارے منشور کا حصہ ہے اور اس حوالے سے جو بات یہاں کی گئی ہے اس پر میں نے کہا ہے کہ اس پہ قومی اتفاق رائے کی طرف ہمیں جانا چاہیے۔
سوال: 26 ویں آئینی ترمیم ہوئی اس کے بعد اس وقت کچھ پارٹی ناراض نظر آرہی ہے آپ لوگوں کے ساتھ بھی معاہدات ہوئے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں سودی نظام کے حوالے سے اس کے علاوہ دیگر بھی ہو سکتے ہیں ان کی وہ حکومت پوری کرے گی؟
جواب: دیکھیے حکومت نے تو اپنا کام اپنا نیت دکھا دی کہ جو چیز انہوں نے 26ویں ترمیم میں ان چیزوں سے وہ دستبردار ہوئی اور 56 کلازز میں سے وہ صرف 22 کلازز پہ متفق ہوئی پانچ تو پھر ہم نے بڑھا دی اس پہ جی تو اب اس کے بعد پھر قانون سازی کرنا اور ایکٹ کے ذریعے ایسے قوانین پاس کرنا جو آئین کی روح کے اور اسی 26ویں ترمیم کے روح کے منافی ہیں ان قوانین پر تو آصف زرداری دستخط کریں اور دینی مدارس کا وہ جو ڈرافٹ ہے جو الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت میں پیپلز پارٹی کی موجودگی میں رابطہ ہوا تھا اور اتفاق رائے ہوا تھا، پانچ گھنٹے بلاول ہاؤس میٹنگ کر کے اس کا اتفاق رائے ہوا، پانچ گھنٹے ہم نے لاہور میں میاں نواز شریف کے گھر میں میٹنگ کر کے اس پہ اتفاق کیا آج اس پہ اعتراضات اٹھا رہے ہیں! تو یہ چیزیں جو ہیں یہ ان کے لیے وبال بن سکتی ہیں اتنا بھی آسان نہیں ہے لیکن میں نے کہا میں کل اس پر تفصیلی بات کرونگا۔ بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں