قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا لاہور ملین مارچ سے خطاب 15 نومبر 2018

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا لاہور ملین مارچ سے خطاب

15 نومبر 2018

الحمداللہ رب العلمین. . جناب صدر محترم، علماء کرام، بزرگان ملت ،میرے نوجوانوں اور شمع رسالت کے پروانوں آج لاہور میں اس عظیم الشان مظاہرے میں آپ کی بے مثال شرکت کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں
میرے محترم دوستوں! یہ اتنا بڑا ہجوم جو آج لاہور کے مال روڈ پر جمع ہے یہ درحقیقت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے تحفظ کیلئے جمع ہے اور حکمران لاکھ کوشش کریں عالمی استعمار لاکھ کوشش کرے مسلمانوں کے دلوں سے. . سرکار دو عالم ﷺ کی محبت کبھی نہیں نکال سکتے
میرے محترم دوستوں! یہ امت جیسی بھی ہے گناہ گار صحیح ،لیکن ناموس رسالتؐ پر اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرینگے میرے محترم دوستوں! آج ہماری سپریم کورٹ آسیہ کیس کے حوالے سے قانونی و شرعی پہلو پر بحث میں الجھ رہی ہے . ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے ہم کہتے ہیں قانون کے الفاظ میں آپ فیصلے کیلئے جو بھی جواز تلاش کرے لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے. . کہ آپ نے بین الاقوامی دباؤ میں کیا ہے اور رسالت مآب ﷺ کی توہین کے حوالے سے ہم کسی بین لاقوامی دباؤ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں
ہم جانتے ہیں اس فیصلے پر یورپ میں کیا خوشی منائی گئی اور ہم جانتے ہیں کہ جنوری میں یورپی یونین کا وفد آیا تھا اور پاکستان کو اپنے مالیاتی نیٹ ورک میں شامل کرنے کیلئے اور پاکستان کو امداد مہیا کرنے کیلئے اس نے آسیہ کی رہائی کیساتھ مشروط کیا تھا . آج پاکستان چند سکوں کیلئے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا کوئی حکمران تیار نہیں تھا پھر اس کیلئے ایسا حکمران لایا گیا وہ بیرونی ایجنڈے کی بنیاد پر پاکستان کے اداروں کی راہنمائی نہ کر سکے اور ان کے فیصلوں پر انگوٹھا لگا سکے۔
میرے محترم دوستوں! آج امریکی ادارے اور وہاں کی تنظیمیں آج چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں آج کینیڈا کا وزیر اعظم ہمارے چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں آج یورپی یونین ہمارے چیف جسٹس کے اس فیصلے کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں
آج برطانیہ کا پارلیمنٹ اتفاق رائے کیساتھ چیف جسٹس کا نام لے کر اس کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں
آج وہ لوگ جو رسول اللہ ؐ کے خاکے بنا کر انکی توہین کی تھی۔ وہ آج اس فیصلے پر جوشی و اطمینان کا اظہار کررہے ہیں . میں سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایسا فیصلہ جس سے عالم کفر تو اطمینان کا اظہار کر رہا ہے اور امت مسلمہ مضطرب ہے تو پھر ایسے ماحول میں ہمارے ملک کا جعلی حکمران وہ آج یہودیوں کے ساتھ کھڑا ہے آج یورپ کی ساتھ کھڑا ہے چیف جسٹس آج ان کی صف میں ہمیں نظر آ رہا ہے۔
اور امت مسلمہ کے قلب میں ایک قوت نظر آ رہی ہے۔ ان شاءاللہ یہ تمام دینی جماعتیں ،انکی قیادت میدان عمل میں اتر کر امت مسملہ کی ترجمانی کررہے ہیں اور پاکستانی قوم ، 22 کروڑ مسلمانوں کی ترجمانی کررہی ہے
میرے محترم دوستوں ! میں جو سولہ سالوں سے آپ کو پکار رہا ہوں کہ یہ لوگ ایک مخصوص ایجنڈے پر یورپ کی تربیت حاصل کرکے آپ کے حکمران بننے جارہے ہیں لیکن آپ میری باتوں پر یقین نہی کررہے تھے آج نئی نسل کو گمراہ کیا گیا ہماری نئی نسل کو سبز باغ دکھائے گئے ہماری نئی نسل کو اپنی تہذیب کا باغی بنایا گیا ہماری نئی نسل کو مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے لئے ترغیب دی گئی اور اسی طرح آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پاکستان کی نظریاتی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے
میرے محترم دوستوں! آپ نے خود اس کا مشاہدہ کیا کہ جب عمران خان کو حکمران بنایا گیا تو سب سے پہلے پوری دنیا میں اور پاکستان کے اندر قادیانی نیٹ ورک متحرک ہوا، آپ نے دیکھا کہ یہاں پر حلف اٹھانے کے بعد ، ایک ہفتہ کے بعد برطانیہ میں قادیانیوں کا اجتماع ہوا. جس سے قادیانیوں کے سربراہ نے اسکی صدارت کی اور وہاں کے ایک وزیر نے عمران حان کا نام لے کر اسے اپنے وعدے یاد دلائے جو اس نے ان لوگوں کیساتھ کیے تھے
میرے محترم دوستوں! میں نے کہا تھا کہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے آج آپ نے دیکھا کہ انکے پارلیمنٹ کے اندر آج اسرائیل تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں
آج قوم سے کہا گیا کہ ریاست مدینہ بنائے گے اور ریاست مدینہ تو بڑا خوبصورت تصور ہے مجھے آپ بتائیں میرے دوستوں! کیا ریاست مدینہ کی بنیاد بے حیائی اور فحاشی ہوسکتی ہے ؟کیا ریاست مدینہ کی بنیاد کو رقص و سرور سے کیا جاتا ہے؟ نوجوانوں کو مخلوط ماحول دے کر سر بازار ان کا رقص و سرور اور بے حیائی کے مناظر کیا ریاست مدینہ کی بنیاد بن سکتے ہیں؟ بےشرمی اور ریاست مدینہ بڑی دور کی بات ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں یہ لوگ بے نقاب ہوگئے ہیں جب انہوں نے ریاست مدینہ کا مصداق میثاق مدینہ کو بنایا کہ وہاں یہودیوں سے معاہدہ کیا گیا تھا لہٰذا آج بھی یہودیوں سے دوستی کرنی چاہیے اور بیت المقدس کو یہودیوں کے حوالے کرنی چاہیے۔ اور کعبہ مسلمانوں کے حوالے ، یہ بڑے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جہالت آمیز تصورات اور جہالت آمیز دلائل پر مبنی باتیں آج تحریک انصاف کے پارلیمنٹرین پارلیمنٹ میں کر رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔
میرے محترم دوستوں! یہاں پر تحریک انصاف کی تعریفوں میں رطب اللسان ریٹائرڈ لیفٹینٹ جنرل وہ ٹی وی پر آکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور قوم کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ امن و حوشحالی اور اقتصادی ترقی کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے
اگر اقتصادی ترقی کی بات ہے تو پھر کل آپ یہ بھی کہو گے کہ پاکستان کو کشمیر سے دستربردار ہونا چاہیے تا کہ انڈیا کے ساتھ جھگڑا ختم ہو اور ہم یہ ساری تلافی کر سکیں۔
لیکن میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اگر پاکستان نے، عربوں کی بات نہیں کررہا . عربوں کی حکومتوں میں ،چند حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا . لیکن وہاں کے عوام نے نہی کیا
آپ بتائے اگر نائن الیون کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جنرل مشرف نے خود کو یا پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بنایا تو کیا پاکستان کی عوام نے تسلیم کیا تھا
جس طرح اس وقت پاکستان کی عوام نے اس تصور کو تسلیم نہیں کیا . آج کی عوام بھی اپنے ان حکمرانوں کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم میں پاکستان کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت ہی بڑا نازک قسم کا مسئلہ ہے . اگر آج پاکستان فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی قبضے کو تسلیم کرتا ہے تو پھر اسکا معنی یہ ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر ہندوستان کے قبضے کو بھی تسلیم کرتا ہے
اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا ریاستی موقف تحلیل ہوجائے گا لہذا پاکستان کو وہی موقف لینا ہوگا جو سن 1940 کی قراداد میں جب پاکستان کی قیام کی تحریک پاس ہورہی تھی ابھی مملکت اسرائیل وجود میں بھی نہیں آئی تھی تو قائد اعظم نے ان قرادادوں میں کہا تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا یہ ظلم ہیں ہم فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کو تسلیم نہیں کرتے اور ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں .
اگر آج ریاست پاکستان کی بات کرتے ہیں تو قائد اعظم نے کبھی بھی اسرائیل کو فلسطین کی سرزمین پر تسلیم نہیں کیا تھا اور آج بھی پاکستان کسی قیمت پر فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم نہیں کر سکتا۔
انہوں نے توہین رسالت کے قانون میں، جب لاہور ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کو کہا کہ آپ سائبر کرائم کی قانون کی مزید وضاحت کریں۔ توہین رسالت کے حوالے سے، ختم نبوت کے حوالے سے آپ اس قانون کی دوبارا وضاحت کرکے پاس کریں۔ تو آج پی ٹی آئی کی حکومت نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم پیش کی
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اپنے بھائی عبدالغفور حیدری کو وہ کمیٹی کے رکن تھے انہوں نے وہاں جاکر سد سکندری بن کر ان کو روکا. اور جب ترمیم سے روکا تو اگلے دن پی ٹی آئی کی حکومت اس ترمیم سے ہی دستربردار ہوگئی .
ہم نے انکی چوریاں پکڑی ہیں انہوں نے ختم نبوت کے قانون پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی . انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی انہوں نے توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی انہوں نے توہین رسالت کے مرتکب لوگوں کو تحفظ فراہم کیا
بین الاقوامی دباؤ میں آکر ایک بار پھر پاکستان کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنایا جارہا ہیں. ہم واضح کرنا چاہتے ہیں ہماری تاریخ آزادی کی جہدوجہد سے عبارت ہے ہمارے اسلاف و اکابر نے اس سرزمین کی آزادی کے لئے خون کی قربانیاں دی۔ مجھے کہتے ہیں کہ آپ پاکستان کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے . میں نے کہا کہ جب جنرل مشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے صدر مملکت تھے تمام اختیارات اس کے ہاتھ میں تھے۔ اور وہ مجھ سے براہ راست کہتا ہے بحیثیت آرمی چیف کہتا ہے بحیثیت صدر مملکت بھی کہتا ہے . کہ ہم غلام ہے مولانا آپ غلامی کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کس نے آپ کو کہا یے کہ ہم آزاد ہیں اور آپ بار بار آزادی کی بات کرتے ہیں۔
جب تمہارے بڑوں نے اور تمہارے فوج کے سربراہ نے ہمارے سامنے یہ مطالبہ بیان کیا ہے۔ ہم کیسے نہیں کہیں گے کہ ہم اپنی آزادی کی جنگ لڑیں گے۔
میرے محترم دوستوں ! میں نے اسکو یہی جواب دیا تھا کہ آپکو غلامی کا تصور آپکے اباواجداد نے دیا ہے . لیکن مجھے آزادی کا تصور میرے آباؤ اجداد نے دیا ہیں تجھے اپنے آباؤ اجداد مبارک. مجھے اپنے آباؤ اجداد مبارک ۔
تم اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلو میں اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلوں گا۔
یہاں پر مدارس پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اس کی رجسٹریشن ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور اس کو وزارت داخلہ کے دہشت گردی کے مخالف کردار کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کے دینی ادارے ہوں پاکستان کی اسلامی ریاست کی شناخت مذہب ہو اس کا تحفظ کیا جائے گا اور پوری قوم ایک صف ہو گی اور تمہیں اپنے ایجنڈے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا تمہیں اپنے فیصلے واپس لینے ہونگے . اگر آپ نے اپنے فیصلے واپس نہیں لیے تو یہ تحریک چلتی رہے گی۔
اور ہم آئے دن ملک کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر اور ضلعی سطح پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہ جو آج آپ نے لاہور میں پڑاؤ ڈالا ہے ان شاءاللہ اگلا پڑاؤ 25 نومبر کو سکھر میں ہو گا۔ پھر نئے پڑاؤ کا اعلان کیا جائے گا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
یہ قومی سفر ہے جہاد کا سفر ہے ناموسِ رسالت کے تحفظ کا سفر ہے ختم نبوت کا سفر ہے اور اس حوالے سے پوری قوم ایک آواز ہے ہم اپنی سرزمین وطن کو نہ امریکہ کے حوالے کر سکتے ہیں نہ ہی یورپ کے حوالے کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسرائیل کے حوالے کر سکتے ہیں۔
یہ آزاد وطن آزادی کی اساس پر ان شاءاللہ قائم و دائم رہے گا اور اس کی اسلامی شناخت کے لئے کے تحفظ کے لئے قربانی کے لئے قوم کا ہر فرد تیار رہے گا۔


 

0/Post a Comment/Comments