جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں حامد میر کے ساتھ قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی گفتگو
2 جولائی 2019بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
کیپٹل ٹاک میں خوش آمدید آج ہم بات کریں گے آل پارٹیز کانفرنس کے کنوینر
جناب حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے جوکہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ بھی ہے بہت شکریہ
مولانا صاحب کچھ دن پہلے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی اس میں آپ نے کچھ اعلانات کے تھے ایک اعلان یہ تھا کہ آپ 25 جولائی کو یوم سیاہ منائیں گے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اعلان یہ تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے اب کافی دن گزر چکے ہیں ابھی تک اپوزیشن جماعتیں ان کا کوئی متفقہ امیدوار فور چیرمیئن سینٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا
مولانا فضل الرحمٰن:- بسم الله الرحمن الرحيم
نحمده ونصلي على رسوله الكريم
آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد جو گذشتہ آٹھ دس مہینوں سے ممکن نہیں تھا کہ وہ منعقد ہو سکے آج ان حالات میں بہرحال سیاسی جماعتوں کا اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر مشتمل ہونا یہ ایک بڑی خبر ہے قوم کے لئے،
اور پھر اس کے اندر جو فیصلے ہوئے ہے تمام فیصلے متفقہ ہوئے ہے اور ظاہر ہے کہ جی مختلف الخیال جماعتیں جب کسی تحریک کی لیے اکٹھی ہوتی ہیں تو وہ کم از کم پروگرام پر اتفاق رائے کرتی ہیں ہر پارٹی اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوۓ وہ اپنے کچھ مشترک اقدار مشترک مقاصد کے لئے ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں۔
اور اس اعتبار سے سینٹ کے چیرمین کی تبدیلی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس پر سب کا ایک اتفاق رائے تھا اور ظاہر ہے جی کہ اس حوالے سے جو سب سے بڑا بنیادی اور اساسی کردار جس پر کہ اس کو منصب سے ہٹانا اور نئے کو لانے کا دارومدار ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اوپر ہے یہ بات آپ کی اپنی جگہ پر بجا ہےکہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی بڑی خبر سامنے نہیں آئی
لیکن مجھے یقین ہے کہ ان بڑی پارٹیوں کی اس بات پر ضرور نظر ہوگی کہ کس طریقے سے اس کا آغاز کیا جائے کیونکہ میں اس وقت ایک بات دیکھ رہا ہوں کہ چیئرمین سینیٹ اور اس کی جو لابی ہے وہ مختلف شکلوں میں لوگوں سے مل رہے ہیں۔
تاکہ وہ کسی طریقے سے وہ اس آزمائش سے ان کو بچا سکے جی تو جو اس طرح کا اضطراب اور بےچینی سامنے آئی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ قوم اس فیصلے کو ایک سنجیدہ سمجھتی ہے اور ہاوس کی اندر جو اراکین ہے وہ اس پر سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔
لیکن یہ ہے کہ میں اس وقت آپ کی سامنے با اضبط یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج میں یا کل میں ہم عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتے ہیں ظاہر ہے اس کی لیے بھی اراکین کو منظم ہونا پڑے گا۔
حامد میر:- لیکن جو نام ہے چیرمیئن سینٹ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار کا نام اس کا حتمی فیصلہ رہبر کمیٹی نے کرنا ہے۔
رہبر کمیٹی ابھی تک تشکیل نہیں پاسکی یہ غیر سنجیدگی نہیں ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- رہبر کمیٹی کہ حوالے سے میں عرض کروں گا آپ سے کہ میں دو چار روز کیلئے ذرا اسلام آباد سے باہر تھا میں نے میاں شہباز شریف صاحب کو اور آصف علی زرداری صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ باقی اراکین جو آل پاکستان کانفرنس کے تھے۔
انہوں نے اپنے اپنے نمائندے بھیج دیں ہے تو اس وقت پیپلز پارٹی نے بھی اپنے نمائندے کا نام بھیج دیا ہے اور مسلم لیگ ن نے بھی بھیج دیا ہے رہبر کمیٹی کے ارکان تو اب مکمل ہے صرف یہ تھا کہ جی کہ اسکی سربراہی کون کرے گا ؟ تو اس وقت مسلم لیگ ن کی رائے یہ آ رہی ہیں کہ جو اے پی سی کمیٹی کی سربراہی کر رہا تھا وہی اس رہبر کمیٹی کی بھی سربراہی کریں شاید اب پیپلز پارٹی کی یہ خواہش ہو کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کرے
میں نے کہا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمارے لئے قابل احترام بھی ہیں۔ اور اگر وہ سربراہی کرتے ہیں تو ہمارے لئے عزت کی بات ہو گی۔
لیکن چونکہ اس پر فیصلہ کن رائے اس وقت مسلم لیگ ن کی ہو گی۔اور مسلم لیگ ن ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے جونہی ان کا ایک آدھ دن میں معاملہ طے ہوتا ہے تو ہم فورا اس کی میٹنگ کا اعلان کر دیں گے ان شاءاللہ۔
حامد میر:- اچھا آپ اس میں ابھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی رہبر کمیٹی کی جو سربراہی ہے وہ ایک مسئلہ ہے۔ تو آپ خود کیوں نہیں اس کی سربراہی کر لیتے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- مسئلہ تو تب ہو گا جب میں کہتا کہ میں ہوں اور دوسرا کہتا کہ میں ہوں۔ میں نے تو قبول کر لیا ہے مجھے تو کوئی ایسا اعتراض نہیں ہے۔
اور ان چیزوں پر ہمیں ایک ادارے کو یا ایک کمیٹی کو قائم کرنا اس میں تاخیر مناسب بھی نہیں لگتی پبلک میں ایک پذیرائی نہیں ملتی۔
حامد میر:- ٹھیک ہے اچھا اب یہ بتائیں جو آل پارٹیز کانفرنس کا جو اجلاس ہوا تھا کچھ میڈیا میں یہ اطلاعات آئی کہ اس اجلاس میں آپ کے اور بلاول بھٹو کے درمیان بہت شدید نظریاتی اختلافات آئے۔
وہ اس کی کیا حقیقت ہے اور اتنے نظریاتی اختلافات اگر موجود ہیں تو پھر آپ آگے کس طرح چلیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- بس کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو بڑھا چڑھا کر پیش کر دی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں کانفرنس کا جو ایجنڈا تھا وہ تو صرف الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور دوبارا الیکشن کرائے جائیں اس حوالے سے ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پھر رہبر کمیٹی اور وہ پھر آگے حکمت عملی بنائے گی۔
اب چونکہ جمیعت علماء اسلام اس آل پارٹیز کانفرنس کا حصہ تھی۔ اور اس نے 12 ملین مارچ کئے ہیں اس حکومت کے خلاف کئے ہیں۔ تو اس اعتبار سے ہم نے ہاؤس کے سامنے یہ بات رکھی کہ ہمارے جو بھی مطالبات ہیں وہ آئین سے متعلق ہیں۔
یعنی اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کی نظریاتی شناخت کی بات کرتے ہیں تو وہ آئین کہتا ہے۔ اگر ہم ختم نبوت کی بات کرتے ہیں تو یہ آئین کہتا ہے اگر ہم ناموس رسالت کی بات کرتے ہیں تو یہ آئین کہتا ہے۔ تو اس اعتبار سے جو آئین کی اسلامی دفعات کو موجودہ حکومت نے اس کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کو بھی کسی حوالے سے یہاں پر شامل کیا جائے۔
چنانچہ اس کو شامل کیا گیا چونکہ وہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا اب آپ ظاہر ہے کہ اگر کسانوں کے لئے اجلاس بلائیں گے تو کسانوں کا ایجنڈا اپنی کاشتکاری اس حوالے سے ہو گا نہ ، اس میں آپ ساری دنیا کے مسائل تو نہیں نہ لا سکتے۔ نہ خارجہ پالیسی لا سکتے ہیں نہ اس میں کوئی مذہب لا سکتے ہیں۔
مزدوروں کا کوئی مسئلہ ہو گا تو پھر اسی حوالے سے کارخانے میں اس کے حقوق اور مزدوری وغیرہ ، تو اس میں آپ دنیا بھر کی چیز تو نہیں لا سکتے نہ، تو یہ ایجنڈا جو ہے جو بھی محدود ایجنڈا تھا اس ایجنڈے کی بات ہو رہی تھی۔
ہاں ہم نے یہ خواہش کہ اجلاس اس پر رائے دے چنانچہ اجلاس نے اس پر متفقہ طور پر رائے دی کہ اس موجودہ حکومت نے جو آئین کی اسلامی دفعات کے خلاف اقدامات کئے ہیں پورا اجلاس اس پر تشویش ہی نہیں ، گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
مسئلہ ختم ہو گیا اب بحث تو اداروں میں چلتی رہتی ہے کسی مسئلے پر میں نے کوئی تقریر کی ہو گی پھر آپ نے کی ہو گی کسی دوسرے نے کی ہو گی۔ ان کو باہر لا کر پھر ان کی کہانیاں دنیا کو سنانا یہ ذرا مناسب نہیں لگتا۔
حامد میر:- ہمارے جو ناظرین ہیں ان کو ذرا بتائیں گے کہ دراصل آپ کا یعنی آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد کیا ہے آپ کرنا کیا چاہتے ہیں آپ پارلیمنٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں آپ وزیراعظم کو ہٹانا چاہتے ہیں
کیونکہ بلاول اور آپ جب اکٹھے میڈیا پر آتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کے موقف اور آپ کے موقف میں کچھ فرق ہے۔ آپ نہ مانے ، بھلے آپ نہ مانے ، لیکن فرق تو ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- حامد میر صاحب اگر فرق ہے تو میں کیوں نہیں مانوں گا یا آپ سے کیوں چھپاؤں گا۔ 25 جولائی 2018 کے بعد ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام اپوزیشن جماعتوں نے جن باتوں کے اتفاق کیا اس میں نمبر ایک الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے صرف دھاندلی کا لفظ نہیں ہے بدترین دھاندلی ،
الیکشن کمیشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔
الیکشن دوبارا ہونے چاہیے۔
جب ان تمام چیزوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے اور یہاں تک کہ اس اتحاد کا نام رکھا گیا الائنس فار دی فری اینڈ فیئر الیکشن۔
آپ مجھے بتائیں کہ جب ایک بیانیہ طے ہو گیا ہے۔ میری کو شکایت ہے اور میں پہلے بھی مختلف فورم پر اظہار کر چکا ہوں۔ کہ آپ جب ایک موقف طے کر لیتے ہیں ایک بیانیہ طے کر لیتے ہیں۔ تو پھر تمام اقدامات آپ کو اس کے مطابق اٹھانے ہو گے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اٹھانے ہو گے۔
چنانچہ پہلے دن بھی میں نے یہ کہا تھا کہ اب آپ حلف نہ اٹھائیں کیونکہ آپ نے اس اسمبلی و اس اکثریت کو جعلی کہہ دیا ہے۔ لیکن ان حضرات کو ۔۔۔ کہ نہیں اس حد تک ہمیں نہیں جانا چاہیے اور نہیں جانا چاہیے پھر اسمبلی کے اندر انہوں نے مقابلہ کیا سارا واقعہ آپ کو معلوم ہے۔
آج میں نے ان سے کہا کہ جب آپ اس موقف پر عوام کو آمادہ کرنے کے بجائے حکومت سازی کے مراحل میں شامل ہو گئے تو عام آدمی کا دل و دماغ جو ہے وہ پھر ادھر متوجہ ہو گیا۔ کیونکہ وہ تو روزانہ کے میڈیا کو دیکھ رہا ہے ٹی وی چینلز کو دیکھ رہا ہے۔ آپ کے عمل کو دیکھ رہا ہے آپ کے حلف اٹھانے کو دیکھ رہا ہے۔ آپ کی حکومت سازی کو دیکھ رہا ہے۔
تو وہ اس موقف کے ساتھ عوام کو آمادہ کر کے چلانا اس کا وقت آپ نے گزار دیا۔ آج آپ کو ایک دوسرے بیانیہ کا انتظار ہو گا کہ اب وہ مہنگائی اور ملکی معیشت تباہ ہو گئی جی ، تو معیشت بھی گر گئی مہنگائی بھی بڑھ گئی ، غریب آدمی ۔۔۔۔۔
جب آپ معاشی پالیسی بناتے ہیں اگر صحیح پالیسی ہو تو اثرات کئی سالوں کے بعد عام آدمی کے سامنے آتے ہیں۔ اگر آپ غلط پالیسی بناتے ہیں تو کئی سالوں کے بعد عام آدمی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
لیکن یہاں تو رات پالیسی آئی اور صبح عوام متاثر۔۔۔ اس قدر ناکام پالیسی ۔۔۔۔ لہذا آپ کو ایک نئی پالیسی کا انتظار کرنا پڑا۔ اب اس پہلے موقف کو اور آج کے بیانیہ میں امتزاج کیسے پیدا کریں گے۔ تا کہ ان دونوں کو لے کر اب آپ آگے بڑھ سکیں۔
چنانچہ اس حوالے سے جو فرق تھا وہ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کا یہ موقف سامنے آیا کہ ہم پارلیمنٹ کو 5 سال دینا چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کو 5 سال دینا چاہتے ہیں تو ہم نے کہا کہ یہ پھر ہمارے موقف سے تضاد ہے پھر یہ نہیں چلے گا تو اتفاق اس پر ہوا کہ رہبر کمیٹی بنائی جائے اور رہبر کمیٹی جو بھی حکمت عملی طے کرے گی سب اس پر چلیں گے۔
حامد میر:- رہبر کمیٹی میں تو اکثریت بڑی پارٹیوں کی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں ، اس میں یہ طے ہوا ہے کہ ہر ووٹ برابر ہو گا۔
حامد میر:- اچھا اور ہر پارٹی کا ایک ممبر ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اگر ممبر دو بھی ہوں تو ووٹ ایک ہو گا۔
حامد میر:- تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کو 5 سال دئیے جائیں۔ اور آپ کا خیال ہے کہ اس پارلیمنٹ کو ۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن:- جب ایک دفعہ سب نے متفقہ طور پر جعلی کہہ دیا ہے تو پھر وقت دینے کا کیا مطلب ہے۔
حامد میر:- لیکن مولانا صاحب ، بیچ میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے بھی تو اسی پارلیمنٹ کے تحت جو صدارتی الیکشن منعقد ہوا آپ اس میں صدارتی امیدوار تھے مسلم لیگ ن آپ کی حمایت کر رہی تھی تو آپ نے بھی تو نتائج قبول کر لئے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اس میں کوئی شک نہیں ہے ، نتائج تسلیم نہیں کیے لیکن ایک ساری اپوزیشن میں سے ہم اگر تنہا باہر آتے تو اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
حامد میر:- اتنی آپ کے موقف میں اتنی سختی کیوں ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا بہت غصے میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیے میں غصے کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جس کے بارے میں کہا کہ یہ غلط آدمی ہے اس نے سب سے پہلے حملہ کیا دینی مدارس پر ، ہمیں میدان میں نکلنا پڑا اگر وہ کوئی اقدام نہیں کر سکا تو بے بسی ہے۔
تو مذہبی حوالے سے بھی ان کا چہرہ سامنے آ گیا۔ کہ یہ ریاست مدینہ کا لفظ کس نیت سے استعمال کر رہے ہیں۔ پھر تہذیبی لحاظ سے جس قسم کی پراگندگی انہوں نے معاشرے میں پیدا کی۔ اگر ہم اس کا دفاع نہ کرتے اور ہم کھل کر میدان میں نہ آتے اور اس ملک کے عمومی جو ہمارا قومی مزاج ہے اس کا جو کلچر ہے اس کی جو تہذیب ہے اس کے تحفظ کے لیے اتنی توانائی صرف نہ کرتے۔ تو پھر خدا جانے آپ کے ملک کا کیا حشر ہوتا اور اس پر کیا۔۔۔۔۔
لیکن آپ بتائیں جی کہ ملکی معیشت آپ کی کہاں چلی گئی ؟ جب ہم نے کہا کہ یہ نااہل ہیں نہیں کریں گے یہ ۔۔۔۔ انہوں نے پہلے ایک اقتصادی کونسل بنائی اقتصادی کونسل میں جتنے لوگ بھرتی کئے گئے سب کے سب وہ لوگ تھے جو فکری اور نظریاتی لحاظ سے مغربی خواہشات کے تابع تھے۔ چنانچہ ان کے مد نظر مغرب کے مفادات اول تھے۔
اور ان کی صلاحیت و توانائی کو یہ کہہ کر کہ یہ بڑے توانا اور اہل لوگ ہیں ہم پاکستان میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ سب کے سب ، اب جب اس میں سے دو تین آدمی نکل گئے آج آپ بتائیں وہ کونسل اس کی اہمیت کیوں ختم ہو گئی۔ اس لئے کہ وہ جو مغرب کو سپورٹ کرنا تھا اور اپنی معیشت کو ان کی گروی رکھنا تھا۔ اس کونسل کی اب مزید ضرورت نہیں پڑی۔
چنانچہ مزید انہوں نے کیا کیا کہ آئی ایم ایف کا بندہ لا کر آپ کے سٹیٹ بینک پر بٹھا دیا۔ پتا نہیں باہر کا کوئی بندہ لا کر انہوں نے ایف بی آر پر بٹھا دیا۔
اس وقت مغربی دنیا کا اور جس سے آپ قرضے لیتے ہیں۔ اور جو آپ کی معیشت پر آپ کو راہنمائی دیتے ہیں۔ ان کے اشارے پر آپ ملکی معیشت کو آپ چلاتے ہیں۔ اس کو لا کر معیشت حوالے کر کے گروی کر دی۔
تو یہ جو مہنگائی آئی ہے اور ملک میں اس وقت افراتفری کا عالم ہے۔ غریب کراہ رہا ہے آج آپ کے کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ سڑکوں پر روزانہ جو ہے کوئی سیاسی پارٹی نہیں نکل رہی لیکن عوام خود براہ راست نکل رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں آپ عوام کے کرب کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس صورتحال میں ہم نے جو کہا تھا کیا وہ غلط کہا تھا ؟
جس انداز سے انہوں نے مغرب کے مفادات کا تحفظ ملک میں کیا ہے تو میں تو نہیں سمجھتا کہ ماضی میں کوئی بات ہم نے کہی ہو میں تفصیل میں تو نہیں جا سکتا کیونکہ اس کا تو پھر وقت ہی نہیں ہو گا۔ لیکن یہ ہے کہ جو ہم نے عوام کو کہا تھا کہ ان لوگوں کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے قدم قدم پر وہ سچی ثابت ہو رہی ہے۔
حامد میر:- لیکن آپ معیشت کی بات کر رہے ہیں اقتصادی صورتحال کی بات کر رہے ہیں آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اس وقت پاکستان میں معیشت واقعی ایک شدید بحران کا شکار ہے۔
اور کوئی حکومت اکیلے اس صورتحال کو بہتر نہیں بنا سکتی اور کم از کم اس مقصد کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہونے چاہیں مل جل کر کام کرنا چاہیے جس کی طرف بہت سے اہم ذمہ دار لوگ اشارہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ذمہ دار لوگ کون اشارہ کر رہے ہیں میرے خیال میں پرسوں ترسوں ہمارے آرمی چیف نے جو خطاب کیا ہے۔ میں اس کی اصولی گفتگو کی حمایت کرتا ہوں کہ ملک پہ ایک اقتصادی بحران ہے اور ایک مستحکم معیشت کی ملک کو ضرورت ہے۔
تو انہوں نے اس کے لئے ایک ہم آہنگی اور یکجہتی کی طرف متوجہ کیا ہے۔
دیکھئے مستحکم معیشت کے لئے بھی ایک سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس وقت جو ایک سیاسی افراتفری ملک کے اندر موجود ہے۔ اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس کی نااہلیوں کی ذمہ داری اپنے اوپر ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان کی ناکامیوں کی ذمہ داری کوئی بھی اپنے اوپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایسے وقت میں ۔۔۔۔۔ تصور صحیح ہے لیکن اس تصور کے لئے آپ جو عملی اقدامات کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس کے لئے ماحول موجود نہیں ہے۔ لہذا اصول کو تسلیم کرو کہ یہ حکومت غلط ہے غلط لائی گئی ہے۔
ایک نئے مستحکم جس کو عوام کی حقیقی پشتی بانی حاصل ہو اس طرح کا ایک سیاسی استحکام ملک کے اندر آئے۔ ہم قبول کریں گے۔
حامد میر:- لیکن آپ جو کرنے جا رہے ہیں۔ ابھی آپ کہتے ہیں کہ 25 جولائی کو تو آپ یوم سیاہ بنانے جا رہے ہیں لیکن اس کے بعد ایک نے ایک تحریک چلانی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اور نئے انتخابات ہونے چاہیے تو آپ تو وہی کر رہے ہیں جو عمران خان نے 2014 میں کیا آپ تو عمران خان کے راستے پر چل رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں عمران خان تو دیکھئے اس نے تو 4 حلقوں سے شروع کیا اور چلتے چلتے کہاں تک چلا گیا۔ اور پھر تنہا تھا اکیلا تھا پوری اپوزیشن جو ہے وہ حکومت کے ساتھ آ کر بیٹھی تھی۔
حامد میر:- نہیں ایک کزن اس کے ساتھ تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- وہ اسمبلی سے باہر تھا۔ تو وہ تو ہمارا بھی بھائی ہے ایسا ان کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔۔
حامد میر:- طاہر القادری آپ کا بھائی ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم اس سے کیوں جھگڑا کریں جی ؟
حامد میر:- آپ مانتے ہیں وہ آپ کا بھائی ہے عمران خان کا کزن ہے آپ کا بھائی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- عمران خان بھی اب کزن نہیں رہا وہ ان کی بات ختم ہو گئی۔
تو میں تو ظاہر ہے کہ جو لوگ اگر اس وقت ان کا دھرنے میں حصہ تھا تو میں اس پر اختلاف کرتا تھا اور بڑا ڈٹ کر کیا۔ اور بڑے کھلے انداز سے کیا۔ لیکن ان کی بھی سمجھ میں آ گئی کہ یہ بات کیا تھی۔
اور پھر پارلیمنٹ کے اندر تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف ، اپوزیشن بھی کہہ رہی تھی کہ یہ غلط کر رہا ہے۔ پھر استعفیٰ دے کر دوبارا تھوکا چاٹنا۔ پھر اسی پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر دوبارا وہاں بیٹھ جانا۔ یہ سیاست ہے اس کو سیاست کہتے ہیں۔
تو بات بنیادی یہ ہے کہ وہ صورتحال بلکل اور تھی۔ جو قوتیں اس وقت ان کی پشت پر تھی شاید وہ ہمارے اسلام آباد آنے کی سامنے رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے۔
حامد میر:- مولانا صاحب یہ بتائیں کہ چلیں عمران خان نے 2014 میں دھرنہ کیا یا کروایا گیا تو وہ تو غلط ہے لیکن آپ اسلام آباد میں آ کر دھرنہ دیں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے آ کر بیٹھ جائیں آپ کہے میں نے لاک ڈاؤن کرنا ہے وہ ٹھیک ہے کھلا تضاد ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم نے اس وقت تک 12 ملین مارچ مکمل کر لئے ہیں۔ اور پورے ملک میں پر امن۔۔۔۔ یعنی جہاں تا حد نظر انسانیت موجود ہوتی ہے۔ اور پورے علاقوں سے لوگ ہر طرف سے کھچ کھچ کر اس میں آتے ہیں۔ اور پر امن طور پر آ کر اپنا احتجاج نوٹ کرا کر پرامن طور پر گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔
ان کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ ملک کے یا سٹیٹ کے خلاف کوئی بات کریں گے۔ یا یہاں کوئی نقصان دہ قسم کا کام کریں گے میرا خیال ہے کہ ہم اسی طرح پر امن رہنا چاہتے ہیں جس طرح ہم 12 ملین مارچ میں ملک کے مختلف علاقوں میں پرامن رہے ہیں۔
البتہ اسلام آباد آنا دنیا کو پیغام دینا ہے کہ قوم یہ ہے اور حکومت وہ ہے۔ ہم بتائیں گے کہ کتنی قوم یہاں پر آتی ہے۔ یہاں تو آپ سے بھی احتجاج ہے کہ آپ نے کہا کہ اگر 15 ہزار لوگ بھی لے آیا ۔۔۔۔ تو 15 ہزار لوگ کی بات کرتے ہیں 15 ہزار تو میں ایک چٹکی لگا کر چند گھنٹوں میں جمع کر دوں گا۔ ہم 15 لاکھ سے زیادہ لوگ یہاں لائیں گے۔
حامد میر:- 15 لاکھ آپ دیکھ لیں اب پھر 15 لاکھ کی بات ۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن:- 15 لاکھ سے زائد لوگ لائیں گے آپ نے مجھے ایک دفعہ پہلے بھی کراچی کے بارے میں چیلنج کیا تھا تو میں آپ کے چیلنج پر پورا اترا تھا۔ اور ان شاءاللہ العزیز اب ہم بھی آپ کے چیلنج پر پورا اتریں گے۔ 15 لاکھ محتاط بات کر رہا ہوں یہ محتاط بات ہے بہت محتاط بات ہے۔
حامد میر:- تو یہ آپ 15 لاکھ کی بات کر رہے ہیں چلیں اگر ایک لاکھ بھی لے آئیں ، ایک لاکھ لوگ جب اسلام آباد میں آ جائیں گے تو پھر اسلام آباد میں امن و امان کیسے برقرار رہے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- جس طرح پورے ملک میں امن و امان برقرار تھا یہاں بھی برقرار رہے گا۔
حامد میر:- ایک لاکھ لوگ ، مولانا صاحب جس جگہ ہم بیٹھے ہیں یہ ایمبیسی روڈ ہے میرے خیال سے پارلیمنٹ یہاں سے آدھے کلومیٹر پر ہے۔ یہیں پہ آپ آئے گے یہاں پہ اگر اتنی خلقت اکٹھی ہو جائے گی تو یہ ریاست کا کاروبار کیسے چلے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- تو میرے خیال میں پھر ان کو مستعفی ہو جانا چاہیے قبل اس کہ ہم یہاں پر آئیں۔ ان کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیے۔
حامد میر:- مقصد کیا ہے؟ آپ نے لاک ڈاؤن کرنا ہے کیا کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- مقصد یہ ہے ہم نے یہاں پر ایک اتنا بڑا مظاہرہ کرنا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو جائے یہ ہے پاکستان کا نظریہ ، یہ ہے پاکستان کا مذہب ، یہ ہے پاکستان کا اسلام ، یہ ہے پاکستان کی جمہوریت ، یہ ہے پاکستان کی عوام کی حقیقی نمائندگی ، اور جس کی پشت پناہی تم کر رہے ہو وہ نہ مذہب ہے نہ ملک کا کلچر ہے نہ پاکستان کی عوام کے نمائندے ہیں۔
حامد میر:- تو یہ جو آپ بات کر رہے ہیں اس پر آپ کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ، مریم نواز ، بلاول بھٹو زرداری ، حاصل بزنجو سب ایک پیج پر اکٹھے ہو جائیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اس سلسلے میں ایک بات کی ذرا وضاحت کر دوں ہم ایک اتفاق تو اس بات پر کر چکے ہیں کہ ہم نے مشترکہ تحریک چلانی ہے اور اس کی شکل کیا ہو گی۔
دوسرا ہے جو متحدہ مجلس عمل کی تائید کے ساتھ جمیعت علماء اسلام یہاں اسلام آباد میں آ رہی ہے۔ اس میں اگر ان جماعتوں نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی تو ہم خیر مقدم کریں گے۔
حامد میر:- یعنی کہ اس کا مطلب میں یہ لوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آپ کے دھرنے میں آئے یا نہ آئے آپ نے تو دھرنہ دینا ہی دینا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- آپ سمجھ گئے۔
حامد میر:- آپ نے ابھی متحدہ مجلس عمل کا نام لیا تو اس میں تو ایک جماعت اسلامی بھی ہے۔ وہ کہاں ہے آج کل
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم نے جب ملین مارچ مشترکہ مشاورت کے ساتھ شروع کئے تو ہم اکٹھے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ سٹیج سے اترتے گئے۔ اور اب انہوں نے اپنا سٹیج سجا لیا ہے۔ تو ان کی پارٹی ہے ان کی ایک سوچ ہو سکتی ہے۔
حامد میر:- آپ آج یہ تسلیم کریں گے کہ متحدہ مجلس عمل عملی طور پر ٹوٹ چکی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- متحدہ مجلس عمل کی اکثریت ابھی بھی اکٹھی ہے۔ اور جماعت اسلامی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ ہم مجلس عمل کا حصہ نہیں ہیں۔
21 جون کو یہاں ہماری میٹینگ ہوئی تھی اور ایک گھنٹہ ہم اکٹھے رہے۔ جناب سراج الحق صاحب ، لیاقت بلوچ صاحب ، میاں اسلم صاحب ، اسلم صاحب کے گھر میں ایک گھنٹہ کی میٹنگ میں انہوں نے مجھے اشاراتا کنایتا بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ وہ اے پی سی نہیں آئیں گے۔ لیکن اس میٹنگ کے اگلے روز انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں جائیں گے۔ اب سمجھ نہیں آیا کہ کیوں نہیں آپ آئیں گے۔
افطار پارٹی میں آپ موجود تھے۔ آپ کی شراکت کے ساتھ اے پی سی بلانے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ پریس کانفرنس میں جاتے وقت آپ نے مجھے کہا جہاں فضل الرحمن ہو گا وہاں ہم ہیں وہ ہماری نمائندگی کر رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد نہ آنے کا مجھے تو اس کا کوئی فلسفہ سمجھ نہیں آیا۔
حامد میر:- تو آپ نے بھی پھر ان سے رابطہ نہیں کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں میں نے بھی پھر ان سے رابطہ نہیں کیا ہے کیونکہ میں تو 21 تاریخ کو ان سے مل کر گیا تھا۔
ہاں رابطہ پھر میں نے بعد کیا ہے اور میں نے ان سے یہ کہا کہ اصل چیز ایجنڈے کی ہے۔
ایجنڈا جو ہے وہی ہے جو ہم نے الیکشن کے بعد پہلے ہفتے کے اندر اندر طے کیا تھا اس میں یہ حضرات موجود تھے اور پھر اس کے میزبان آپ کے ایم ایم اے کا سربراہ ہے۔
تو اس منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو شرکت کرنی چاہیے پھر انہوں نے کہا کہ اب ہمیں موقع دیا مشاورت کرتے ہیں اس کے باوجود بھی خاموشی کا جواب تھا انہوں نے ہمیں کوئی بات نہیں کہی۔
حامد میر:- اب یہ بتائیں کہ 25جولائی کو جو یوم سیاہ منانا ہے وہ کیسے منائیں گے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے جلسے کر رہی ہے اور مسلم لیگ نون اپنے جلسے کر رہی ہے
اگر وہ اپنے اپنے جلسے کر رہی ہے کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں ہے تو 25جولائی کو کیا کریں گے آپ؟
بقیہ حصہ کیپیٹل ٹاک
مولانا فضل الرحمٰن:- 25 جولائی ہی کو ،ایک تو میں آپ سے عرض کر دوں آپ کی اطلاع کے لئے کہ 25جولائی کو جو ہمارا ملین مارچ ہے وہ منتقل ہو گیا ہے 25 جولائی پشاور میں
حامد میر:- جی اچھا
مولانا فضل الرحمٰن:- جی ہاں تو 25 جولائی کو ہمارے پورے صوبے کا یا ہمارے پورے پشاور ڈویژن کا ملین مارچ ہے تو ملین مارچ پشاور ہی میں ہوگا 25 جولائی کو ہو گا اور تمام جماعتوں کی شراکت کے ساتھ ہر ضلع میں ہم ان کے ساتھ شریک رہیں گے۔
اور میرے خیال میں اگر پیپلز پارٹی پبلک میں جاتی ہے تو اپنی جماعت اور نظریاتی کارکنوں کو یکجا کرنا اور ان کو منظم کرنا یہ ہر پارٹی کا حق بنتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک بڑی تحریک کے لیے پلیٹ فارم پر اپنے ورکر کو آمادہ کرنا اور متحرک کرنا اس کے لیے کچھ محنت کی ضرورت پڑتی ہے ہر پارٹی اپنے پلیٹ فارم سے کوئی کام کرتی ہے آنے والی تحریک کے لئے اس کا فائدہ ہو گا۔
حامد میر:- مولانا صاحب 25 جولائی کو آپ پشاور میں ملین مارچ کریں گے کیا اس میں آپ نے بلاول صاحب کو یا شہباز شریف صاحب کو یا باقی جو اے پی سی میں پارٹیاں ہیں ان کی قیادت کو شرکت کی دعوت دی ہے
مولانا فضل الرحمٰن:- سردست تو کوئی دعوت نہیں دی یہ ہمارے اس پرانے تسلسل کا حصہ ہے اگر آپ نے متوجہ کیا ہے تو یہ بھی ہم کر سکتے ہیں لیکن یہ ہے کہ چونکہ ملین مارچ کا جو ایجنڈا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف مجلس عمل یا جمیعت علماء اسلام کا ایجنڈا ہے۔
تو باقی اس کے علاوہ اگر پچیس جولائی کو یوم سیاہ ہوتا ہے کالی پٹیاں باندھتے ہیں ورکر سڑکوں پر آتے ہیں تو اس میں ہماری شراکت ہوگی کوئی مسئلہ نہیں ہے
حامد میر:- تو اس کا مطلب یہ ہے مولانا صاحب کہ اے پی سی کو کئی دن گزر گئے ہیں ابھی تک اے پی سی شامل جماعتوں نے 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں بنائی
مولانا فضل الرحمٰن :- مشترکہ حکمت عملی میں کوئی زیادہ وقت تو لگے گا نہیں۔
اور میرے خیال میں ایک میٹنگ سے فوری طور ساری مجلس آ جائے گی ایک دو دن میں انشااللہ میرا خیال ہے ہم رہبر کمیٹی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
حامد میر:- کوئی اس بات کا امکان ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف صاحبہ ایک ہی اسٹیج پر نظر آئیں گے اور ایک ہی جلسہ سے خطاب کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم ایک ہی اسٹیج پر ہیں اور ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو چکے ہیں نظر کیا آئیں گے ہم لوگ نظر آئے ہوئے ہیں
حامد میر:- وہ تو آپ ایک بند کمرے میں نظر آئے تھے نہ، جلسے میں کب نظر آئیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- وہ اوپن تھا جلسے میں بھی نظر آئیں گے انشاءاللہ اب رہبر کمیٹی کو تھوڑا ٹائم تو دے اللہ خیر کرے گا۔
حامد میر:- میں نے آپ سے یہ پوچھنا تھا حکومت نے بجٹ تو پاس کروا لیا ہے بجٹ پاس ہو گیا ہے اب تو اپوزیشن کے بہت سے رہنما بجٹ سے پہلے بھی گرفتار ہوئے اور بجٹ کے بعد بھی گرفتار ہو رہے ہیں۔
آپ کو لگتا نہیں ہے کہ آپ جو ایک تحریک چلانے کی تیاری کر رہے ہیں یہ شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوگئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- گرفتاریوں سے تحریکوں کو جلا ملتی ہے گرفتاری سے تحریک ختم نہیں ہوتی اور ناکام نہیں ہوتی۔
اور یہ جتنا بھی کہہ دیں اب یہ ایک مضحکہ خیز قسم کی باتیں ہیں آپ خود اندازہ لگائیں کہ مسلم لیگ کے رانا ثناءاللہ صاحب کو گرفتار کر کے جو ڈرامہ رچایا گیا ہے ایک ہنسی مذاق ہے۔
ایک اتنے ذمہ دار آدمی کو جس نے آپ سے خود کہا ہے میں آپ کا ایک کلپ سن رہا تھا کل رات میں، کہ جی مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے اب جس آدمی کو یہ پتہ ہو کہ میں گرفتار ہو رہا ہوں اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایسی چیز رکھے۔
یہ بھی چیزیں ہو رہی ہیں پھر آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت جس طرح ہمارے پرانے کمانڈر تھے کسی زمانے میں افغانستان میں جہاد میں حصہ لیا تھا اور آج کل بالکل خاموش زندگی گزار رہے ہیں اگر اس کا کوئی کردار رہا بھی تو کشمیر میں رہا ہوگا کمانڈر عبدالجبار کا ، کس طرح اس کی لاش کو پولیس مقابلے کا نام لے کر اس کو گرایا گیا۔
یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ ملک میں بہت زیادہ خطرناک قسم کی فضا کو پیدا کر رہی ہیں اور اتنا آسان نہیں کہ ان گرفتاریوں سے آپ کسی کو کہیں کہ آپ تو چور ہیں آپ تو ڈاکو ہیں اور آپ تو یہ ہیں آپ تو وہ ہیں۔
چور اور ڈاکو وہ جب تک کوئی شخص عدالت سے ڈکلیئر نہیں ہوتا وہ الزامات سے یا اتہامات سے نہ کوئی شخص ڈاکو بنتا ہے اور نہ چور بنتا ہے۔
تو اس اعتبار سے مقدمے لاؤ صحیح مقدمے لاؤ میڈیا کو استعمال کرنا بند کر دو میڈیا کو استعمال پہلے کر رہے ہو پھر اس کو صفائی دیتے دیتے پتا نہیں کب۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد کوئی کیس نہیں۔
کتنی مثالیں ہیں کہ لوگوں کو پکڑا گیا ہے نواز شریف کو پکڑا گیا ہے کیسز بنائے گئے ہیں زرداری کو پکڑا گیا ہے کیسز بنائے گئے ہیں پھر ایک وقت آیا ہے۔
کہ جب وہ 62 63 پر پورا اترتے ہیں اور امین اور صدق ٹھہرتے ہیں پھر ملک کے سربراہ بنتے ہیں پھر ملک پر حکومت کرتے ہیں پھر چور ہو جاتے ہیں پھر اس کے بعد ان کو مقدموں میں پھنسایا جاتا ہے یہ سیاسی کھیل ہے۔
کوئی نیب نہیں ہے نہ نیب کی کوئی حیثیت ہے ، نہ وہ احتساب کر رہا ہے ایک ڈمی ادارہ ہے جو مشرف کے زمانے سے اب تک استعمال ہو رہا ہے اسی سیاسی مقصد کے لیے کہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف حکومت کے لئے ہاتھ ڈالتے ہیں تو یہ چیزیں جو ہیں اس ملک میں نہیں چل سکتی۔
حامد میر:- آج ذرا قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے کہا تھا کہ آپ اتنی بڑی بڑی آئینی ترامیم کر رہے ہیں یہ نیب جو ہے اس کو بھی ختم کر دیں تو انہوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- تب ہی تو بھگت رہے ہیں میں نے کہا تھا کہ حلف مت اٹھاؤ اب بھگت رہے ہیں میں اب بھی کہتا ہوں اجتماعی استعفے دو آج آپ اجتماعی طور پر استعفے دے اسمبلی سے پارلیمنٹ سے کل دیکھو آپ کو الیکشن ملتا ہے یا نہیں ملتا۔
حامد میر:- میں نے سوال نیب کا کیا ہے آپ نے استعفوں کی بات کر دی۔
مولانا فضل الرحمٰن:- میری ایک رائے ہے جو میں آپ کے ذریعے پبلک تک پہنچا رہا ہوں۔
حامد میر:- کیا یہ بات میں صحیح کہہ رہا ہوں کہ آپ نے ان دونوں پارٹیوں سے کہا تھا کہ نیب کو ختم دو۔
مولانا فضل الرحمٰن:- بلکل میں نے کہا تھا۔
حامد میر :- یہ کرسکتے تھے
مولانا فضل الرحمٰن:- کر سکتے تھے
حامد میر:- کیوں نہیں کیا
مولانا فضل الرحمٰن :- اٹھارویں ترمیم میں
حامد میر:- جب اٹھارویں ترمیم میں آپ نے ان کو کہہ رہے تھے تو انہوں نے آپ کو کیا کہا۔
مولانا فضل الرحمٰن:- بس ایک مفروضہ ہے لوگ کہیں گے کہ احتساب سے ڈرتے ہیں پی ٹی آئی نے اپنے صوبے میں خود اپنا بنایا احتساب کمپٹیشن ختم کردیا انہیں کوئی نہیں کہہ رہا آپ کو کس نے کہنا تھا۔
پھر مشرف کے زمانے کا ایسا ادارہ جس کی بنیاد ہی انتقام سے اور سیاسی مخالفین کو دبانے سے اور ذلیل کرنے سے شروع ہوئی تھی جو ادارہ جس ذہنیت کے ساتھ بنتا ہے وہ ذہنیت اس کے ساتھ آخر وقت تک برقرار رہتی ہے۔
حامد میر:- آپ کو کبھی خطرہ محسوس ہوا کہ یہ نیب جو ہے کہیں آپ کی طرف نہ بڑھے کہیں آپ کے گریبان پہ ہاتھ نہ ڈال دے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- عین ممکن ہے کہ ان کو میرے خلاف استعمال کریں کوئی ایسی تہمتیں مجھ پر لگا دیں کہ صفائی دیتے دیتے پتہ نہیں کتنا عرصہ مجھے گزر جائے۔
حامد میر:- اور تہمتیں تو آپ پر لگتی رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- لگتی رہی ہیں اور میں نکلتا رہا ہوں خیر خیریت ہے۔
حامد میر :- اچھا وہ جو تہمت کافی عرصہ پہلے انہوں نے آپ پر لگائی تھی کہ مشرف کے دور میں ڈی آئی خان میں زمینیں الاٹ کی تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن:- تو کدھر ہے زمینیں ، زمین لاؤ نہ ، میں ایک بات کہتا ہوں جب آپ کہتے ہیں پرمٹ لیا ہے تو پرمٹ ایک سرکاری دستاویز ہوتا ہے اگر میں نے ڈیزل پرمٹ لئے ہوں تو پھر اس کی دستاویز ہونی چاہیے نہ، پرمٹ ہے نہ ، بغیر دستاویز کے تو ممکن نہیں ہے نہ، تو لاو نہ ، دستاویز کدھر ہے ؟
اگر میں نے کوئی زمینیں لی ہیں لیز پر لی ہے لیز تو دستاویز ہے۔
حامد میر:- وہ جو پرمٹ کی آپ بات کر رہے ہیں وہ بات تو ختم ہو گئی نہ اور وہ تو ڈیزل کے پرمٹ تھے نہ۔
مولانا فضل الرحمٰن:- وہی عرض کر رہا ہوں نہ ، میں زمینوں کی بات کر رہا ہوں وہ تو لیز پر ہیں۔
حامد میر:- وہ تو ہمارے جس محترم کالم نگار نے لکھا تھا انہوں نے بھی کہا کہ یہ میں نے غلط لکھا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- حضرت مجھ سے کئی بڑوں نے معافیاں مانگی ہیں جس جس شخص نے بنیادی شخص بن کر میرے خلاف پروپیگنڈے میں کردار ادا کیا ہے ایک ایک نے آ کر کہا ہے کہ ہم معافی مانگتے ہیں ہم سے غلطی ہو گئی ہے۔
حامد میر:- اچھا معافی مانگ لی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اب ظاہر ہے جی ، میں تو ایک شریف آدمی ہوں کوئی گھر آجائے اور یہ کہہ دے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔
اب حضرت یہ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں میں ایسے آدمی کو بھی جانتا ہوں جس نے مجھ سے معافی مانگی اور آج پھر جب ان کو ضرورت پڑی تو انہوں نے میرے خلاف بہتان تراشی کرنے کے لئے پرانے الزامات کو بھی ٹی وی پر دہرایا ہے۔
حامد میر :- پہلے معافی مانگی پھر پرانا الزام لگا دیا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- ہاں کیا کر سکتے ہیں ان کے ساتھ ، پہلے ترلے کرتے ہیں پھر ترلے کے بعد۔۔۔۔۔۔،
کوئی چیز تو لاؤ یار ایک اپنی کہانی گھڑ کر تم پبلک کے سامنے رکھ رہے ہو جبکہ اس کا فریق آخر پھر میں ہوں نہ،
حامد میر :- اچھا پچھلے دنوں آپ نے اسلام آباد میں ایک مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ وظیفہ کر رہے تھے ایک شخص آپ کے پاس آ گیا اس نے آ کر آپ سے بڑی اچھی اچھی باتیں کہی اور کہا کہ ہم آپ کا بڑا احترام کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن :- آپ کو کس نے بتایا ہے یہ،
حامد میر :- مجھے آپ کے ارد گرد جو کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ تو اس بندے کا نام بتائیں گے کہ وہ کون تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- میں نے بھی پہچانا تو نہیں اس وقت ، آپ کے ذریعے ان کو شاید یہ اطلاع ملے گی کہ میں نہیں پہچان سکا تھا میرا پہلے سے کوئی براہ راست تعارف نہیں تھا ان کے ساتھ فیس ٹو فیس،
نام سے تو واقف تھا جب وہ چلا گیا تو مجھے اپنے ساتھیوں نے کہا کہ آپ نے مہمان کو پہچانا ؟ میں نے کہا پہچانا تو نہیں ہے لیکن با عزت آدمی لگ رہا تھا اندر آیا اور میں نے جس طرح ایک محترم آدمی کا حق ہوتا ہے اس طرح اس کو ڈیل کرنے کی کوشش کی ہے گو کہ میں جان نہیں سکا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو چیئرمین نیب تھے۔
حامد میر: - جسٹس جاوید اقبال
مولانا فضل الرحمٰن: - جسٹس جاوید اقبال نماز یہاں پہ پڑھتے ہیں تو آپ کا سنا تو آپ کے پاس آ گئے ملنے کے لیے...
تو میں نے کہا یار کم از کم مجھے بتاتے تو سہی میں نے تو کم از کم ایک....
حامد میر: - انہوں نے گفتگو تو آپ کے ساتھ کافی کی کیونکہ جو لوگ پیچھے کھڑے سن رہے تھے انہوں نے تو مجھے کافی کچھ بتایا ہے....؟
مولانا فضل الرحمٰن: - بس احترامات کی حد تک تھا۔
حامد میر: - کہ ہم آپ کا بہت عزت کرتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن: - بس اس حد تک تھا جی احترامات کی حد تک اچھی گفتگو انہوں نے کی اچھے جملے....
حامد میر: - وہ خود آپ کے پاس آئے؟
مولانا فضل الرحمٰن : - میں تو آپ سے عرض کر رہا ہوں نہ جی کے میں تو جانے کے بعد بھی نہیں پہچان سکا مجھے تو کسی نے بتایا بعد میں ، اور مجھے ابھی بھی احساس ہے کہ شاید میں ان کے احترام کا وہ حق نہیں ادا کر سکتا جو ایک مہمان تھا اس وقت ہونا چاہیے۔
حامد میر: - چلیں یہ تو اچھی بات ہے نا کہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال خود آپ کے پاس آئے آپ سے ملاقات کی اچھی اچھی باتیں کی اور پھر تشریف لے گئے تو میں بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا بات یہی پہ میں بھی ختم کرتا ہوں حالانکہ انہوں نے کچھ اور بھی بات کی تھی میں اس میں نہیں جاتا.
مولانا فضل الرحمٰن : - نہیں نہیں کچھ نہیں کہا...
حامد میر: - اچھا... ہاہاہاہا تو آپ کو لگ رہا ہے کہ نیب آپ کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گی.
مولانا فضل الرحمٰن: - نہیں اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا ہے جی اگر ایک ادارہ ڈیوٹی پر ہوتا ہے تو پھر اس نے تو پھر ڈیوٹی دینی ہوتی ہے.
حامد میر: - اچھا ایک بات میں سمجھنا چاہ رہا ہوں آپ کے خلاف فی الحال نیب میں کوئی کیس نہیں ہے فی الحال ابھی تک تو ہم یہی سمجھتے ہیں آپ کے کسی خاندان کے فرد کے خلاف بھی نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں
حامد میر:- صرف اکرم درانی کے خلاف کوئی ایک تحقیق چل رہی ہے ان کو بھی گرفتار تو نہیں کیا..
مولانا فضل الرحمٰن : - نہیں وہ تحقیق کیا ہے یہاں پر اسلام آباد میں کوئی چھ پلاٹ انہوں نے دیے تھے مسجدوں کے لیے، پھر اس کے خلاف کسی نے کیس کر دیا تو وہ عدالت نے میرے خیال میں منسوخ کر دیا اور اللہ اللہ خیر صلا
اب یہ کہتے ہیں کہ تم نے یہ غلط آڈر کیے تھے تمہاری انتظامی غلطی تھی یہ کوئی کرپشن کے عنوان کے حوالے سے نہیں ہے ایک انتظامی حکم کے حوالے سے آپ نے غلط احکامات کیے تھے۔
تو پھر جب غلط احکامات میں نے کیے تو میں منسٹر تھا میری ایک کمیٹی بنتی ہے وہ کمیٹی جو ہے اس میں بیوروکریٹس ہوتے ہیں اس میں مختلف محکموں کے لوگ ہوتے ہیں انہوں نے سفارشات کی بنیاد پر الاٹ کی پہلے آؤ پہلے پاؤں کی بنیاد پر اور اگر عدالت نے کہہ دیا کہ غلط ہے تو معاملہ ختم ہو گیا نہ۔
اب اس کے بعد اس کو کیس بنانا یعنی ایک آدمی اس کے خلاف کوئی کچھ نہیں مل رہا تو چلو یہی سہی.
حامد میر: - تو اس میں میں پوچھنا یہ چاہ رہا تھا کہ آپ کے خلاف کوئی کیس بھی نہیں ہے آپ کے پارٹی کے لوگ کوئی گرفتار بھی نہیں ہے...
مولانا فضل الرحمٰن :- الحمدللہ..
حامد میر... پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں میں ملین مارچ کروں گا ن لیگ اور پیپلزپارٹی آپ سے کہہ رہی ہے کہ اے پی سی 26 جون کو نہ کریں تھوڑا آگے لے جائے آپ کہتے ہیں نہیں 26 جون کو ہو گی۔
وہ کہتے کہ صرف عمران خان کے خلاف تحریک چلائیں آپ کہتے ہیں نہیں اس پارلیمنٹ کو ختم کرنا ہے۔
آپ کے موقف میں بہت سختی ہیں نہ آپ پہ کیس ہے نہ آپ گرفتار ہے نہ آپ کی پارٹی کے لوگ گرفتار ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن: - میرا ردعمل کسی کیس کی بنیاد پر نہیں ہے میرا ردعمل اصول کی بنیاد پر ہے میں ملک کے اندر ایک جمہوری اور آئینی حق رکھتا ہوں میرے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے میرے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو.....
حامد میر: - اس کا کیا مطلب ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن: - اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کا جو اصل مینڈیٹ ہیں اس پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو اکثریتیں اب آئی ہے یہ بالکل جعلی قسم کے اکثریتیں ہیں اس اکثریت کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔
ہم اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اسمبلی کا خاتمہ ہم چاہیں گے از سر نو الیکشن کی بات ہم کریں گے چاہے کوئی خوش ہو چاہے کوئی ناراض ہو چاہے کوئی ساتھ دے چاہے ہم اکیلے اس قافلے کو آگے لے جائیں.
حامد میر: -فرض کریں مفروضے کی بنیاد پر اگر آپ اس حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو پھر کیا کریں گے پھر کیا ہوگا؟
مولانا فضل الرحمٰن : - الیکشن ہوجائے گا صحیح مینڈیٹ آئے گا جس کو مل جائے گا وہ حکومت کرے گا.
حامد میر: - کیا اس وقت جو اکانومی کی صورتحال ہے تو کیا آپ اکیلے اس ملک کے اکانومی کو سنبھال سکتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن : - حامد میر صاحب یہ سوال آپ نہ کریں مجھ سے، میں خود کرتا ہوں اپنے آپ سے اتنا ملک کو یہ برباد کر دے گا کہ کل کسی کو حکومت ہاتھ میں آئے گی اس ملک کی معیشت اٹھائے گا کیسے.
حامد میر: - کیا یہ درست ہے کہ یہی بات آپ نے نواز شریف کو بہت پہلے سمجھائی تھی؟
مولانا فضل الرحمٰن : - میں نے کہی ہے ان سے....
حامد میر: - جب آپ کہتے ہیں کہ اس کو نکالنا ہے وہ کہتے ہیں اس کی حکومت چلنے دو
مولانا فضل الرحمٰن: - وہ کہتے کہ ان کو ایکسپوز ہونے دو میں نے کہا ایکسپوز ہوتے ہوتے ملک بیٹھ جائے گا تو اب ملک یہاں تک بیٹھ گیا ہے کہ اگر نواز شریف جیسا آدمی جس نے اس ملک کی اکانومی کو ٹھیک کیا تھا اور مستحکم تھی ملک کی معیشت، وہ بھی اس کو دوبارہ اٹھانے میں دقت محسوس کرے گا.
حامد میر: - تو میں آپ سے پوچھ یہی رہا ہوں کہ جن عوام کو آپ کہتے ہیں کہ آپ سڑکوں پہ آئے آپ ملین مارچ کریں عمران خان کی حکومت ہٹائے۔
کیا آپ کے پاس کوئی پلان ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت ہٹ جاتی ہے تو آپ اس ملک کی اکانومی کو کس طرح سنبھالیں گے؟
مولانا فضل الرحمٰن : - یہ تو پھر ایک لمبی بحث ہے اس پہ تو ماہرین بھی چاہیے تو میں اپنے آپ کو اس حوالے سے ماہر معیشت تو نہیں کہتا میں سیاست کا ایک طالب العلم ہو۔
لیکن اس میں ملک کے اندر ہر آدمی اس وقت پریشان ہے ماہرین اس وقت جو معیشت کے ہے وہ بھی بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔
یہ جو ملک کی معیشت کی تباہی ہو رہی ہے صرف نااہلی ہی نہیں بلکہ شعوری طور پر بھی پاکستان کو معاشی طور پر کنگال کیا جارہا ہے۔
اور ہمارے ملک کے ذخائر کو ہمارے ملک کے خزانے کو ہمارے پیسے کو ہمارے کردار کو کسی اور کے لیے شاید استعمال ہو رہے ہیں ہم، یہ ملک اس وقت ہمیں ہمارا لگتا نہیں ہے اس کو اپنا ملک بنانا ہے.
حامد میر: - تو لیکن آخر میں مجھے یہ بتائے کہ کچھ ڈیویلپمنٹ ایسے بھی تو ہو رہی ہے کہ جن کی آپ پہلے بات کرتے رہے تو عمران خان وہ کام کر رہے ہیں۔
مثلا آپ ہمیشہ سے یہ کہتے رہے کہ افغانستان کا مسئلہ جو ہے اس کو پرامن مذاکرات کے ذریعے سے حل کیا جائے تو عمران خان صاحب نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو پاکستان بلایا ان کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی ہے آپ کے خیال میں یہ اچھا کام نہیں کر رہے ہیں وہ..؟
مولانا فضل الرحمٰن: - دیکھیے ہماری جو خارجہ پالیسی ہے بین الاقوامی تعلقات ہیں اگرچہ ہم بظاہر یہ سمجھتے ہوں گے کہ چلو یار ایک گورنمنٹ ہوتی ہے ہمارے ہاں یہ سارا نظام جو ہے یہ اسبلشمنٹ کے گرفت میں ہوتا ہے
وہی ان تمام حالات پر معاملات طے کرتے ہیں وہی معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں اس وقت پاکستان کی مشکلات ہے افغانستان کی مشکلات اپنی جگہ پر ہے ایران کی مشکل جیسے منتظر ہو ہندوستان کی مشکل مستقل ہے چائنہ سے تعلقات متاثر ہے۔
اس کا سی پیک جو ہے بہت ہم نے اس کا بیڑا غرق کر دیا ہے اب کچھ قوتیں ہے جو سنبھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ کس حد تک ہم اس کو سنبھال سکیں گے اور جو اس وقت سی پیک میں ہمارے اپنے ادارے کام کرتے ہیں کنسٹرکشن کمپنیاں کام کرتی ہے۔
وہ جس دیوالیہ پن کا رو رہی ہیں جس مشکلات کو رو رہی ہے آپ حیران ہوں گے کہ اس ملک کی معیشت کو ہم کدھر لے جارہے ہیں۔
لیکن اب یہ ہے کہ جو صورتحال اس وقت ہے اس پہ اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے افغانستان تو آپ سے بات بھی کر لے گا افغانستان کو بھی ایک پرامن ماحول کی ضرورت ہے۔
آپ کے پاس جس کی بھی حکومت ہو اسے تو پاکستان سے بات کرنی ہے اس کا معنی یہ نہیں کہ حامد میر ہیں یا عمران خان یا فضل الرحمان ہے یا فلان ہے یا فلاں ہے
ان کو بھی ضرورت ہے ایک پرامن ماحول کی بھی ، ہم اس پر کیا مدد مہیا کر سکتے ہیں ظاہر ہے کہ اس کی تلاش میں وہ ہر جگہ پھرے گے جس کی حکومت ہوگی اسی سے بات کریں گے لیکن میں افغانستان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی جس حکومت سے آپ کچھ توقعات وابستہ رکھتے ہیں ناامید رہیں ان میں یہ اہلیت نہیں.
حامد میر: - ان میں اہلیت نہیں ہے...
مولانا فضل الرحمان صاحب : - نہیں.
حامد میر: -چلو یہ آپ کا ایک موقف ہے بہت بہت شکریہ۔
ایک تبصرہ شائع کریں