قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو
17 جون 2019
﷽
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میں جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب چیرمین پیپلز پارٹی کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔
اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے۔ اور ہمیں انہوں نے عزت بخشی ہے۔
جو باتیں انہوں نے کی ہیں میں بلکل ان کی تائید کرتا ہوں اور یہی ایشوز ہمارے درمیان ڈسکس ہوئے ہیں۔
اس وقت جو صورتحال ہے۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جو الیکشن کے فورا بعد تمام سیاسی پارٹیوں نے اس الیکشن کے حوالے سے اور ایک دھاندلی شدہ الیکشن ، ایک جعلی الیکشن کے حوالے سے جو ہمارا پہلے دن موقف تھا آج بھی ہم اس موقف پر متفق اور متحد ہیں۔
ظاہر ہے کہ جو اس دوران میں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ آج جب غریب قوم ، غریب انسان کرب میں ہے۔
اور وہ آج بازار میں راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا ہے وہ اب اس بجٹ کے بعد شاید بجلی و گیس کے بل بھی ادا نہیں کر سکے گا۔
تو اس وقت ہم عام آدمی کی ساتھ کھڑے ہونے کے لئے متفق ہیں۔ اور اس کے لئے میدان میں اترنے کے لئے بھی ہمارا اتفاق رائے ہے۔
اس وقت جو بجٹ پیش ہوا ہے یہ ملک دشمن اور غریب دشمن بجٹ ہے جس سے مہنگائی بڑھے گی۔
اور یہ پاکستان کا بجٹ ہی نہیں ہے براہ راست آئی ایم ایف کے نمائندے نے یہاں آ کر ہمارا بجٹ بنایا ہے۔
یہ ایک غلامانہ دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ معاشی طور پر ہمیں غلام بنا دیا ہے۔
اور پھر انحطاط یہ کہ آج ڈالر کی قیمت 157 روپے سے بھی تجاوز کر رہی ہے۔ آپ بتائیں کہ اس ملک کا غریب کدھر جائے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں اتنے قرضے کسی دور حکومت میں نہیں لادے گئے جو انہوں نے گزشتہ پانچ چھہ مہینوں میں اس قوم پر لاد دئے ہیں۔
اب ایسی صورت حال میں اس حکومت کا خاتمہ یہی قوم کی نجات کا راستہ ہے۔
اس حکومت کا خاتمہ یہی ملک کی نجات کا راستہ ہے۔ اور اسی کے لئے ہم نے اس پر اتفاق کیا ہے۔
اگلے جو ہمارا جون کا آخری عشرہ ہے اس میں ہم آل پارٹیز کانفرنس کریں گے۔ تمام اپوزیشن کی جماعتیں اس میں شریک ہو گی۔
اور ہم سب تمام جماعتوں کا جو متفقہ موقف بنے گا اس کی ہم سب ان شاءاللہ پیروی کریں گے۔
اور ان شاءاللہ العزیز میدان میں اتریں گے۔ یہ لوگ ملک پر حکومت کا کوئی جواز نہیں رکھتے۔
دھاندلی یہ الیکشن نہیں کہلایا کرتا اور نہ پاکستان اس لئے بنا ہے۔
یہاں جمہوریت ہو اور عوام کا حق ہو کہ وہ ووٹ دے کر اپنی مرضی کی حکومت بنائے۔ اور یہاں عوام کی مرضی کے خلاف قوم پر ایک باہر سے ایجنڈے کے تحت لایا گیا آدمی ہم پر مسلط کر دیا جائے۔
وہ پارٹی ہم پر مسلط کر دی جائے۔
تو ان شاءاللہ العزیز ہم اس حوالے سے متفق ہیں اور تمام پارٹیاں ان شاءاللہ العزیز ایک موقف لے کر میدان میں آئیں گی۔
جو اے پی سی کا فیصلہ ہو گا وہ سب کا فیصلہ ہو گا۔
ایک بات ذرا واضح ہونی چاہیے اور یہ سوال بلکل بجا ہے جب ہم ایسے فورم پر آتے ہیں تو صحافی لوگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں۔ ( ان ہاؤس چینج ہو گا یا الیکشن نئے ہو گے)
لیکن اس نکتے کو مد نظر رکھیں دونوں کو اس پر متفق ہیں کہ جو لوگ اے پی سی طے کرے گی ہم اسی کی پیروی کریں گے۔
سوال:- یہ ساری صورتحال میں پی ٹی ایم کا ایک عجیب کردار رہا ہے۔ اے پی سی میں پی ٹی ایم کے بھی کچھ راہنما شامل ہو سکیں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن:- میں فی الحال اس پر جواب نہیں دے سکتا لیکن اتنی بات کہنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی ایم کے ہوں یا پیپلز پارٹی کے لوگ ہوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں۔
اور حکومت اس پر پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر رہی ہے وہ اس لئے جاری نہیں کر رہی ہے۔ کہ وہ بجٹ پاس نہیں کر سکتے اور اس طریقے سے وہ اپوزیشن کی سیٹیں کم کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ ووٹ نہ استعمال کر سکیں۔
تو یہ جو وہ پروڈکشن آرڈر نہیں ہو رہے ہیں پیپلز پارٹی کے مزید لوگوں اور مسلم لیگ کے مزید لوگوں کے بھی گرفتار ہونے کے امکانات ہیں
وہ صرف اس بنیاد پر کر رہے ہیں تا کہ بجٹ میں اپوزیشن کا ووٹ کم ہو جائے اور کسی طریقے سے وہ بجٹ ، جبری بجٹ جو ہے وہ قوم پر مسلط کر سکیں۔
چیرمین سینیٹ کو ہٹانے کا اپنا مطالبہ اے این پی والے اے پی سی میں لائیں گے جب وہ سب کے سامنے لائیں گے بات ہو جائے گی تو مسئلہ ان شاءاللہ حل ہو جائے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں