اختر جان مینگل سے ملاقات کے بعد قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی میڈیا سے گفتگو
18 جون 2019
بسم اللہ الرحمن الرحیم.
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جناب سردار اختر مینگل صاحب کا اور ان کے رفقاء کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے ہمیں عزت بخشی اور تشریف لائے۔
جیسے کہ کل سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی قومی قیادت کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے مشاورت کا آغاز ہو چکا ہے۔
اور ان شاء اللہ العزیز امید یہی ہے کہ اگلے ہفتے میں اس کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔
لیکن ظاہر ہے جی کے ہر پارٹی کی قیادت نے اپنے پارٹی کے ساتھ اپنی ایگزیکٹیو ٹیم کے ساتھ مشاورت بھی کرنی ہے
سردار اختر جان صاحب کو میں نے دعوت دی اس میں شرکت کی اور میں ان کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس پر انتہائی مثبت ردعمل دیا ہے اور مثبت جواب سے ہمیں نوازا ہے
مزید کچھ چیزیں طے کرنے کے لیے اپنی جماعت کو اعتماد میں لینا یہ ظاہر ہے جی کے ہر پارٹی میں ہوتا ہے اس حوالے سے جو انہوں نے ہمیں امید دلائی ہے میں کم از کم ذاتی طور پر مطمئن ہوں اور اس کے لئے ان کا شکر گزار بھی ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ ان شاءاللہ ملک کے اندر حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اور آئینی طور پر ایک پارلیمنٹ وجود میں لانے، ملکی نظامی حکومت کو آئین کے سانچے میں ڈھالنے، اس کے لئے جو سوچ پیدا ہورہی ہے ملکی سیاست میں وہ آنے والے مستقبل پر انشاء اللہ بڑے دور رس اثرات مرتب کرے گی۔
اور اس کے لیے ہم پوری قوم کو، سمجھتے ہیں کہ اس کو ایک صف پہ آنا ہوگا پوری قوم کو ایک صف پہ آئے بغیر ہم اتنے بڑے اہداف حاصل نہ کر سکیں۔
اس کے لئے جو ابتدائی محنت ہو رہی ہے وہ ان شاء اللہ بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور باقی حضرات کے ساتھ بھی انشاءاللہ مشاورت کا عمل جاری رہے گا...
سوال :- مولانا صاحب قبائلی اضلاع پاکستان کے اہم حصے میں آتے ہیں اس کے انتخابات اب اس بہانے پر ملتوی کرائے گئے کہ وہاں پر حالات ٹھیک نہیں ہے حالانکہ موجودہ صورتحال میں وہاں پر جلسے بھی ہو رہے ہیں کیا آپ یہ اے پی سی میں شامل کریں گے......
دوسرا سوال میرا اختر مینگل صاحب سے ہے کہ مسنگ پرسنز بلوچستان کے بھی ہیں اور پی ٹی ایم بھی یہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اٹھا رہی ہے اگر آپ اے پی سی میں بیٹھتے ہیں تو یہ سارے مسنگ پرسنز اکٹھے کریں گے یا صرف بلوچستان کے مسنگ پرسنز پر بات ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کیونکہ وہ اس وقت پارلیمنٹ کا حصہ مسئلہ ہے قومی اسمبلی سے اس وقت سیٹوں کے اضافے کے حوالے سے ایک بل پاس ہوچکا ہے۔
اور آئینی ترمیم پاس ہو چکی ہیں اور ابھی سینٹ میں اسے پیش ہونا ہے تو یہ اے پی سی کا ایجنڈا نہیں بنتا بلکہ پارلیمنٹ کا اپنا ایجنڈا ہے اس وقت جو چل رہا ہے رہی بات جو آپ نے ان کی طرف متوجہ کیا ہے سوال اس پر بھی میں ذرا اپنی گفتگو عرض کرنا چاہتا ہوں۔
میرے خیال میں تشویش تو ہر زمانے میں ہر پارٹی کو ہر تنظیم کو رہی ہے اور یہاں اسلام آباد میں ہم نے بہت دھرنے دیکھیں کہ جہاں مسنگ پرسنز کے جو لواحقین تھے ان کے پیارے تھے بار بار یہاں پر دھرنے بھی انہوں نے دئے ہیں۔
خواتین بوڑھے اور مجھے یاد ہے کے کوئٹہ کے میزان چوک پر بہت بڑا جلسہ جمعیت علماء کررہی تھی تو ہم نے بڑے ببانگ دہل اس مسئلے کو اٹھایا تھا اور پھر پارلیمنٹ میں بھی ہم نے اٹھایا تھا۔
تو یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے یہ خالصتاً انسانی مسئلہ ہے انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور کوئی بھی پارٹی اس حوالے سے دو رائے نہیں رکھ سکتی ہم پورے ملک کے اندر جہاں پر بھی ایسے لوگ جو کہ اٹھائے گئے ہیں اور اس وقت لاپتا ہے کسی عدالت میں پیش نہیں کیے جا رہے کوئی ان کے بارے میں ان کی زندگی موت تک کے بارے پتہ نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں ہے ایسے لوگ کم از کم انسانی حق رکھتے ہیں اور انسانی حق کی بنیاد پر ان کے خاندانوں کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں