قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی کراچی میں میڈیا سے گفتگو
12 جون 2019
﷽
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سب سے پہلے میں برادر مکرم جناب شاہ اویس نورانی صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کا بے حد ممنون ہوں۔
کہ انہوں نے آج اس عید ملن پارٹی کا اہتمام کر کے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع فراہم کئے۔
صحافی برادری ، مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اس وقت سب یہاں مل بیٹھے ہیں اور عید ملن کی نسبت سے عید کی خوشیاں آپس میں بانٹ رہے ہیں۔
آپ تمام حضرات کو گزشتہ عید مبارک
ہر چند کہ عید پوری امت کے لئے خوشیوں کا تہوار ہے۔ مسرتوں کا تہوار ہے۔
لیکن ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے۔ ہماری خوشیاں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کو ایک بحران نہیں ، ہر طرف سے بحرانوں میں گھرا دیکھتے ہیں۔
ابتداء ہی میں 25 جولائی کے الیکشن کے ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام سیاسی جماعتوں نے ایک متفقہ بیانیہ طے کیا۔
کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اور بد ترین دھاندلی ہوئی ہے۔ لفظ بدترین اس ڈیکلریشن کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات دینے میں ناکام ہو گیا۔ اس کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ دوبارا الیکشن ہونے چاہیے۔
اور تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل جو اتحاد وجود میں آیا اس کا نام ہی الائنس فار دی فری اینڈ فئیر الیکشن رکھا۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ جو موقف تمام سیاسی جماعتوں نے طے کیا۔ اسی پر پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لائے۔
اور قوم کو اعتماد میں لینا ہے۔ اپنا یہ موقف اور بیانیہ اس کے دل ودماغ میں رچانے بسانے کے لئے کچھ فوری اقدامات کی ضرورت تھی۔
لیکن بدقسمتی سے ، میں نہیں کہتا کہ خدانخواستہ کسی نے بدنیتی سے کوئی ایسی بات کی ہے۔
ہر پارٹی کی ایک اپنی سوچ ہوتی ہے۔ اور انہوں نے دیانتدارانہ طور پر ایسا سوچا۔ کہ وہ حلف اٹھانے سے لے کر حکومت سازی کے تمام مراحل میں شریک ہوئے۔
اور پھر جب آپ قوم کے دل ودماغ میں اس بیانیہ کو مستحکم نہیں کر سکے۔ تو پھر اس کا نقصان ملک کو بھی ہوا اس کا نقصان جمہوریت کو ہوا۔
اس صورتحال میں گو کہ ہم نے اس بیانیہ کے ہی اساس کو ، پورے ملک میں ہم نے ملین مارچ کئے۔
13 ملین مارچ ہم کر چکے ہیں۔ لیکن پہلی مرتبہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تاحد نظر انسانوں کا سمندر ، اور پبلک کی اتنی بڑی شرکت کے باوجود ہمارے نیشنل میڈیا نے اس کو جگہ نہیں دی۔
ظاہر ہے یہ نیشنل میڈیا کا اپنا مزاج نہیں ہو سکتا یہ اس کا جاب نہیں ہے۔
ضرور کہیں سے قدغنیں لگی ہیں اور جب میڈیا پر قدغن لگتی ہے۔
تو پھر یہ جمہوریت اس کا نام نہیں ہوتا یہ خود بتاتا ہے کہ اس کا نام آمریت ہے۔
اس نے بھی واضح طور پر میسج دے دیا کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔
کوئی جمہوری ادارے نہیں ہیں جو کچھ ہے جعلی اور خلائی ہے۔
اور اس طرح جب ملک چلے گا آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملکی معیشت بیٹھ گئی ہے۔
اور معاشی انحطاط کا تجزیہ اور اس کا ادراک اہل کراچی سے زیادہ اور کون کر سکتا ہے۔ جو ہمارا ایک تجارتی حب ہے۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔
کہ ابھی عید کے بعد جو بھی تھوڑے دنوں میں موقع ملے گا۔
اور ان شاءاللہ یہ جون کے آخری عشرے میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا جائے گا۔
تا کہ صرف ایک موقف ہی نہ طے کر دیا جائے بلکہ عملی اقدامات کا آغاز کر دیا جائے۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ آج وقت ہے کہ سیاستدان جو عوام کا نمائندہ ہونے کا دعویدار ہوتا ہے۔
وہ عوام کے اس کرب میں اس کا ترجمان بنے۔
آج اگر اس وقت ہم عام آدمی کی آواز نہیں بن سکتے۔
آج اگر ہم عام آدمی کے کرب کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔
آج اگر ہم اس کے لئے میدان عمل میں نہیں اتر سکتے۔
تو کب وہ وقت آئے گا جب ہم پبلک کی بات کرنے والے ، پبلک کے لئے کچھ بات کر سکیں گے؟
اب اس طرح کا معاشی انحطاط ، یاد رکھئے متمدن دنیا میں جغرافیائی تبدیلوں کا سبب بنتا ہے۔
خدا نہ کرے کہ ہمارا ملک ایسی صورت حال سے دوچار ہو۔
لیکن ملکی بقا کی طرف ، اور وطن عزیز کو بچانا ، ہم ریاستی اداروں کے خلاف نہیں۔
ہم ریاستی اداروں کو ریاست کی بقا و تحفظ کے لئے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔
لیکن یہ ضرور توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملکی سیاست پر نظر رکھنے کے بجائے ، سرحدات کی حفاظت پر نظر رکھیں۔
یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو ہمارے لئے اس وقت چیلنجز ہیں۔
آزمائشیں ہیں جس کا قوم سامنا کر رہی ہے۔
اور اس سے نکلنے کے لئے ہمیں کیا سبیل کرنی ہے۔
ان شاءاللہ ہم اس حوالے سے بلکل یکسو ہیں۔
سیاسی جماعتیں جب ایک پیج پر آئیں گی تو یقینا اس کے اثرات وہ قوم محسوس کرے گی۔
اور ملک کو تبھی بحرانوں سے نکالا جا سکے گا۔
اب تو حالت یہ ہو گئی کہ ان کے ہاں جو سب سے بڑی گالی ہے اپنے مخالف کو دینے کی ، وہ چور اور لٹیرے کی ہے۔
یہ ہمارے ملک کی سیاست کی اب ایک لینگویج بن گئی ہے۔
ہماری زبان پر اب شائستہ الفاظ مفقود ہو گئے ہیں۔
اور گزشتہ رات کو ، اب رات کو بھی پتا نہیں شاید کوئی بارہ بجے کے بعد تقریر ہوئی۔
رات کے بارہ بجے تقریر کرنا ، یہ ملک کا قوم کا جب وزیراعظم کہتا ہے۔
یہ کون سا ٹائم ہے اپنی قوم سے خطاب کرنے کا ؟
اور اس میں بھی اگر آپ دیکھتے ہیں اس بیچارے کو بھی اپنی تقریر پر قدرت نہیں ہے۔
اس کو بھی سنسر کر دیا۔
اس کی آواز خاموش کر دی اور زبان ہل رہی ہے اور آواز کا پتا نہیں۔
اب یہ بتانا پڑے گا کہ ان خاموش لمحوں میں اس سے کہا کیا ہے۔
اور پھر جہالت کی انتہا کہ پہلے تو اپنے سیاسی مخالف کو لٹیرا کہتے تھے۔
اب تو اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لٹیرا کہہ دیا نعوذباللہ من ذلک۔
مال غنیمت کو اکٹھا کرنا اس کو لوٹ مار سے تعبیر کیا اس جاہل اعظم نے۔
یہ ہے ہماری آکسفورڈ یونیورسٹی ، جو ایک مسلمان کی اپنے مذہب کے حوالے سے علم و عرفان کا یہ معیار رکھتا ہیں۔
یہ پتا نہیں کہ مال غنیمت اکٹھا کرنا اور لوٹ مار کرنے میں کیا فرق ہے۔
ایسے لوگ قوم پر مسلط ہو گئے ہیں۔
ہمارے پاس تو آئیڈیل صحابہ کرام ہیں کہ جو موت کو سینے سے لگاتے تھے موت کا استقبال کرتے تھے۔
جہاں دو نابالغ بچے بھی اصرار کر رہے ہیں کہ ہم نے بھی (جہاد پر) جانا ہے۔ ہم کیوں محروم رہیں۔
اور جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔
انہوں نے کتنا اصرار کیا اس بات پر ، کہ غزوہ احد میں وہاں میدان میں جا کر ہم نے لڑنا ہے۔
ہم بدر میں بھی شہادت سے محروم ہو گئے اب پھر آپ ہمیں شہر کے اندر سے لڑا کے شہادت سے محروم کر رہے ہیں۔
یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جذبہ تھا۔
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے ان کے اس جذبے کا احترام کیا۔
اور پھر احد کے محاذ پر لشکر جرار کو لے کر گئے۔ شہادتیں ہوئی۔
ان کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ جو لوگ نہیں گئے وہ ڈرتے تھے
جنہوں نے غزوہ احد میں میدان میں لڑنے کو اس لئے ترجیح دی کہ پھر وہ کہیں شہادت سے محروم نہ ہو جائیں۔
اس جذبے کے لوگوں کو تعبیر کرتے کہ وہ ڈرتے تھے۔
اور پھر جس کو فتح کہلایا جاتا ہے۔ اتنے بڑے لشکر کو ، انہوں نے اسلحہ پھینکنا ، مال غنیمت پھینکنا اور اب وہ اس کو جمع کر رہے ہیں تو اس کو لوٹ مار سے تعبیر کر رہا ہے۔
خدا کا خوف کرو ، جب تمہیں دین نہیں آتا مذہب نہیں آتا تو مت بولا کرو نہ ، بونگی نہ مارا کرو۔
مغرب کے لٹریچر کو پڑھ کر تم اسلام کی تاریخ بیان کرتے ہو۔
یہ وہ چیزیں ہیں جو اس وقت ملک کے اندر قابل برداشت نہیں ہے۔
یہ ہمارے ملک کی نظریاتی شناخت کے لئے بھی تباہ کن ہیں۔ہمارے ملک کی معیشت کے لئے بھی تباہ کن ہیں۔
سیاست کے اپنے اخلاقی معیار ہوا کرتے ہیں یہ لوگ تو اخلاقی معیارات سے بھی فارغ ہیں۔
اخلاقی حوالے سے کوئی کردار ہی نہیں ہے۔
اس حوالے سے ضروری ہے کہ قوم ایک پیج پر آئے۔
اور ان شاءاللہ قوم ایک پیج پر ہے بس صرف سیاستدانوں کا مسئلہ ہے وہ آگے بڑھیں اور قوم کی آواز بنیں۔
قوم کے دلوں کی ترجمان بنیں اور اس حوالے سے آگے بڑھیں۔
مجھے یقین ہے ان شاءاللہ العزیز آپ کی اس محفل سے بھی ہمیں قوم کو ایک پیغام دینے کا موقع ملا ہے۔
میں ایک بار پھر شاہ اویس نورانی صاحب کا اور آپ تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں۔
کہ اور اس حوالے سے جو گرفتاریاں ورفتاریاں ہو رہی ہیں۔
مجھے یہ پتا نہیں ہے کہ بجٹ کے عین موقع پر اس گرفتاریوں کا کیا معنی ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چیرمین نیب کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
کہ پکڑو ان لوگوں کو ورنہ ہم آپ کے خلاف یہ کر سکتے ہیں وہ کر سکتے ہیں۔
یہ تاثر مناسب نہیں ہے میں اس حوالے سے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتا ہوں۔
یہ گرفتاریاں سیاسی گرفتاریاں ہیں چاہے ہزار آپ اس کو کہیں۔
کہ یہ تو مالیاتی غبن کے حوالے سے ہیں مالیاتی غبن کے حوالے سے بھی یکسانیت ہونی چاہیے۔
اگر ساڑھے چار سو لوگوں کے خلاف تم نے خود کیس کئے تھے۔
تو وہ کیس صرف ایک آدمی کے خلاف عدالتوں میں کیوں استعمال ہو رہے ہیں؟
اور باقیوں کے بارے میں کیوں خاموشی ہو رہی ہے؟
سوال :- اچھا مولانا صاحب آپ کو بھی 20 تاریخ کو نیب نے طلب کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں مجھے کوئی طلب بھی نہیں کر سکتا خدا کا فضل ہے۔
سوال :- کہا جا رہا ہے کہ آپ پر بھی آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر ریفرنس تیار کیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ہزار کرے ، بھاڑ میں جائے ان کا ریفرنس ، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
میں وہ آدمی نہیں ہوں جو اس قسم کے ریفرنسوں کے سامنے جھکوں گا۔
میں ان کے ریفرنسوں کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔
یہ ہوتے ہوں ہیں کہ ملک میں کوئی شرافت کی سیاست کرے تو اس کو شرافت سے سیاست نہ کرنے دیں۔
یہ انصاف کے بانی ٹھہرے ، انصاف کا قتل کرنے والوں سے میں انصاف کی توقع نہیں رکھ سکتا۔
میں ان کو انصاف کے ادارے نہیں تسلیم کرتا ، یہ انتقامی سیاست کی بات کرنے والے ہیں۔
میں ان کی فائلوں کو ان کے سامنے پھینک دوں گا اگر انہوں نے ایسی جرات بھی کی۔
میں چھٹی کا دودھ ان کو یاد دلا دوں گا۔
اس طرح کی سیاست ، بے غیرت سیاست فضل الرحمن نے ، نہ اپنے باپ دادا سے سیکھی ہے۔ اور نہ خود اس کا درس کہیں سے لیا ہے۔
ہمیں جمیعت علماء ہند کی اور پورے ہندوستان کی تاریخی تربیت ہے۔
اور آزادی کی جنگ ہم نے لڑی ہے۔ آج آپ ہمیں پھر غلام بنانا چاہتے ہیں۔؟
کس کا غلام ہم بنے ؟ نہ ہم پاکستان میں کسی ادارے کے غلام ہیں نہ ہم امریکہ و مغرب کے غلام ہیں۔
ان شاءاللہ یہ جہدوجہد جاری رہے گی کوئی نیا درس نہیں ، یہ کوئی نئی راہ نہیں ہے۔
میرے آباؤ اجداد اور اسلاف کی پوری تاریخ کے قدموں کے نشان مجھے وہاں ملتے ہیں۔
مجھے وہاں فخر ہوتا ہے۔ مجھے وہاں کبھی۔۔۔۔
سوال :- مولانا صاحب میرا سوال ہے دوسری بات یہ کہ ملکی سیاست میں امپائر کی بات کی جاتی ہے امپائر اس وقت کہاں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن :- یہ تو ابھی میں کہوں گا اسلام آباد اور وہاں پر سب دوستوں سے رابطے کے بعد تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔
میں نے اتنا کہہ دیا ہے کہ یہ اسی جون کے آخری عشرے میں ان شاءاللہ ممکن ہو سکے گا۔
اور امپائر کوئی نہیں ہے امپائر عوام ہے امپائر ہم ہیں۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ کسی ریفرنس نے نہیں کرنا۔
سوال :- یہ حکومت میں آپ سیاستدانوں کو پریشان کر کے رکھا ہے اس کے پیچھے کون ہے کون سی مخلوق ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- وہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں۔
پھر خوامخواہ نکے دے ابا دی گل نہ کریں نہ۔ قہقہے
سوال :- مولانا صاحب ! گزشتہ دس مہینوں کے دوران آپ آصف علی زرداری کو اور میاں نواز شریف کو ایک جگہ جمع کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
آپ کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی ، اب یہ دونوں اندر ہیں تو یہ وہ آپ کے دونوں بیل جو ہیں اب راضی ہو گئے ایک جگہ بیٹھنے کے لئے ؟
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیے جب افطار پارٹی میں سب نے اتفاق کیا تھا اور ابھی بھی ان کے رابطے ہمارے ساتھ بدستور موجود ہیں۔
اور کل بھی آصف علی زرداری نے کورٹ سے میرے ساتھ فون پر بات کی تھی۔
یہ ساری چیزیں اس وقت تو بلکل سموتھ جا رہی ہیں۔
اور ان شاءاللہ آئندہ کے لئے طے ہے اور اس حوالے سے کوئی دوسری راہ موجود نہیں ہے۔
سوال :- مولانا صاحب ! لندن میں جو گرفتاری ہوئی ہے الطاف حسین کی اس حوالے سے آپ کیا کہے گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن :- ابھی آپ پوچھ رہے ہیں جب رہا بھی ہو گیا ہے۔
سوال :- آپ کیا کہے گے اس حوالے سے
مولانا فضل الرحمٰن:- مجھے کیا پتا وہاں کے قانون کا ، وہاں کی سیاست کا
سوال :- کوئی ایم آر ڈی کی طرز کا اتحاد بنایا جائے گا ؟ دوسری بات یہ کہ اسلام آباد میں آل پارٹیز اتحاد دھرنہ دے گا ؟
مولانا فضل الرحمٰن :- یہ تو سب مل کر بیٹھے گے دیکھیں گے۔
ان شاءاللہ ہماری طرف سے تو طے ہے کہ ہم نے اسلام آباد جانا ہے۔
اور اگر تمام سیاسی جماعتیں بھی آنے کا فیصلہ کریں گی تو خوش آمدید کہے گے۔
سوال :- حمزہ شہباز کی گرفتاری پر آپ کیا دیکھتے ہیں کیا آپ اپنا تجزیہ دیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ جو سیاستدانوں کی گرفتاریاں ہیں۔
ان دنوں میں چاہے وہ نیب کے نام سے ہو چاہے وہ جس نام سے بھی ہو۔
سیاسی گرفتاریاں ہیں اور عین بجٹ کے موقع پر ، ایک ناکام بجٹ جو لوگوں کی کمر توڑ رہا ہے۔
اس موقع پر لوگوں کی فکر کو دوسری طرف پھیرنے کی کوشش ہے۔
سوال :- عمران خان نے سیاستدانوں کے دس سال کے قرضوں پر جو کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم ان کے خلاف کمیشن بنائے گے کہ اس نے ملک کا کیوں بیڑہ غرق کیا ہے۔
سوال :- آپ حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں بہت سی اپوزیشن جماعتیں کہتی ہیں کہ نہیں ان کو پورے پانچ سال کرنے چاہیے۔ تو یہ تضاد کب ختم ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن :- میرے خیال تو اب اس پہ تضاد نہیں رہا ہے تقریباً کچھ عرصے تک۔
سوال :- مولانا صاحب ! جسٹس فائز عیسی پر ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ کیا کہے گے آپ ، کیا یہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی سازش ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن :- مجھے چونکہ اس کیس کے بارے زیادہ سٹڈی نہیں ہے۔
وکیل حضرات مجھے ملے گے اور وہ مجھے صورتحال بتائیں گے جو اصول کی بات ہو گی ان شاءاللہ ہم اس کے ساتھ ہو گے۔
سوال :- مولانا صاحب ! اللّٰہ تعالیٰ نے اگر عمران خان کو وزیراعظم بنایا ہے تو آپ اس کو کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں پانچ سال پورے کرنے دیں۔
مولانا فضل الرحمٰن :- اللّٰہ نے نہیں بنایا ہے کسی اور نے بنایا ہے۔ قہقہے
سوال :- 14 جون کو وکلاء ملک بھر میں ہڑتال کر رہے ہیں جسٹس فائز عیسی پر ریفرنس دائر کر دیا ہے اس حوالے سے آپ کیا کہے گے
مولانا فضل الرحمٰن :- میں عرض کر رہا ہوں نہ جی ، کہ مجھے اس وقت تک اس ساری صورتحال سے زیادہ واقفیت نہیں ہے۔
اور اگر وکلاء حضرات یا کوئی نمائندہ یا کوئی وفد ہمیں تفصیلات بتائے گا۔
تو جو بھی اصولی موقف ہو گا ان شاءاللہ ہم اس پر سامنے آئے گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں