پروگرام فیصلہ آپ کا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی انٹرویو

 پروگرام فیصلہ آپ کا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی انٹرویو

1 مئی 2019
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ناظرین، میں ہو عاصمہ شیرازی پروگرام ہے فیصلہ آپ کا ،حال ہی میں پشتون تحفظ تحریک کے حوالے سے پریس کانفرنس ڈی جی ایس پی آر نے کی۔ اور ظاہر ہے جو ریاست کے خدشات ہے تحفظات ہے پی ٹی ایم کے حوالے سے اس کی اوپر انہوں نے ایک بہت تفصیلی پریس کانفرنس بھی کی۔
مختلف لوگوں کا اس کے اوپر ردعمل آیا ہے کہ ان کو کرنی چاہیے تھے یا نہیں کرنی چاہیے تھی۔
لیکن جو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل لگا وہ تھا مولانا فضل الرحمن صاحب کا رد عمل جس پر انہوں نے کہا ریاست کے اس معاملے کے اوپر وہ ریاست کے ساتھ ہے البتہ مدارس کو جو اب سرکار کی تحویل میں دیاجانے کا عندیہ دیا گیا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ وہ مخالفت کرتے ہیں۔
بہت سارے موضوعات ہیں سیاسی بھی ہے اور اس کے، اس سے متعلق جو پشتون تحفظ ہےاس کے حوالے سے بھی، افغانستان کی مسئلے پر بھی ،
اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے زیادہ زیرک سیاستدان پاکستان میں شاید ہی ملے میرے ساتھ اس وقت موجود ہے مولانا اور ان سے بہت سے سوالات پوچھیں گے سر بہت بہت شکریہ اسلام علیکم

مولانا فضل الرحمٰن:- وعلیکم السلام
عاصمہ شیرازی:- مولانا یہ جو ہوا پی ٹی ایم کے اوپر ریاست نے ایک واضح اور بین اظہار پہلی بار کیا ہے۔
ان کے خدشات ہیں انہوں نے ثبوتوں کی بھی بات کی ہے آپ کا جو ری ایکشن اس پردیکھنے کو ملا وہ لوگوں کو بہت زیادہ غیر متوقع لگا۔
آپ کیوں کہتے ہیں کہ ریاست جو ہے پی ٹی ایم کے خلاف اگر ہوتی ہے تو آپ ریاست کے ساتھ ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ریاست پی ٹی ایم کے خلاف نہیں اگر پی ٹی ایم ریاست کے خلاف ہوتی ہے۔۔
فرق ہے دونوں میں
عاصمہ شیرازی ۔جی
دیکھیے ہم جو اس ملک میں سیاست کرتے ہیں ہماری جو حدود ہے ہماری جو لمٹس ہیں وہ بالکل واضح ہے اور معلوم ہے۔
ہم آئین سے ماورا اور قانونی دائرے سے باہر کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں ہم اگر آج تحریک میں ہے یا ہم نے اس سے پہلے مختلف مہم جوئیاں ملک کے اندر کی ہے بالکل قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کی ہیں۔
نظریات بھی جو ہم نے قوم کے سامنے رکھے ہیں کسی مسئلہ پر کوئی اگر موقف بھی رکھا ہے تو قانون کو سامنے رکھتے ہوئے اور آئین کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔
اس پر جو ہمارے رویے مرتب ہوئے ہے وہ روئے بھی قانون اور آئین کے دائرے میں ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں اس وقت ہم نے تقریبا بارہ یا تیرہ ملین مارچ کئے ہیں۔ ملین مارچ ہوتے ہیں کوئی چھوٹے موٹے جلسے نہیں تھے تا حد نظر انسانوں کا سمندر ہوتا ہے۔
لیکن مجال ہے کہ کہیں پر کوئی دوکان کا شیشہ ٹوٹا ہو کہیں پر کسی کو خراش آئے ہو ،پرامن طریقے سے اور ہمارے سب پارٹی کے کارکنوں کی تربیت ہی ایسے ہے کہ وہ اپنے پارٹی کے منہج کو ،اس کے رویے کو سمجھتے ہیں اور اتنا کنٹرول کرتے ہیں کہ کسی تخریب کار کو بھی اپنے صفوں میں آنے نہیں دیتے اور اب تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے ورنہ بہت سے تخریب کار بھی آکر سبوتاژ کر سکتے ہیں۔
نہیں ہوئی، جہاں تک ہے ان تحریکات کی بات، دیکھئے ہمارے ملک میں ملاکنڈ کی تحریک ،تحریک شریعت جو صوفی محمد کی سامنے آئی وہ غیر مسلح تھے لیکن اس کے کچھ مطالبات ایسے تھے کہ جیسے وہ اپنے ایک جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو ریاست کے ساتھ مینجمنٹ کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔
اور ہم نے اس کے ساتھ مزاحمتی انداز اختیار نہیں کیا کوشش کی کہ ہم ان کو سمجھائیں۔ ان کو ایک ایسے راستے پر لائے۔
لیکن ان کو ہمارے بجائے ایجنسیوں نے خود ہینڈل کیا اس کو ڈیل کیا اور ایسے معاہدات خود انہوں نے اس کے ساتھ کئے جس کو میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ وہ ہمارے آئین کی زمرے میں نہیں آتے۔
تو وہ بھی ہمارے سامنے سے گزرے اور چلے گئے۔
طالبان تحریک آئی، طالبان کیسے نکلے؟ کیسے بنے؟ کیسے ابھرے۔۔۔۔؟
کیا عوامل تھے بین الاقوامی؟ پڑوس کے ممالک کے داخلی حوالے سے,
لیکن بہرحال اسلام ایک مقدس نعرہ ہے جو ہمارا نعرہ ہے جس کے لئے ہم ، ہمارا وجود اس کے لئے ہے۔
لیکن اگر اس کے اندر ایسے رویے شامل کر دئیے جائیں۔ اس کا منہج ایسا تیز کردیا جائے کہ بجائے اس کہ ہم، اس سے ہمارے تحریک آگے بڑھے اور ہم اس سے آگے مستقبل میں انتظار کر کے نتائج حاصل کرے ہم اس پورے نظریے کو ہی ملیامیٹ کر دیں۔ تو اس روش سے بھی ہم نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔
اور تمام علماء کرام اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ بیانیہ دیا اور وہ یہ کہ پاکستان میں ہم کسی مسلح جنگ کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔
ازروئے شریعت بھی جائز نہیں سمجھتے یہاں تک سب نے اتفاق رائے کیا۔
لیکن اس کے باوجود اب جب مظالم ہوئے ہیں، ان مظالم کے تذکرے میں نے کئے ہیں، آپ دس دس سال، بارہ بارہ سال پہلے کی، پندرہ پندرہ سال پہلے کی میرے تقریریں اٹھائیں، میزان چوک کی اٹھائیں، پارلیمنٹ کی اٹھائیں، مختلف جگہوں پہ، یہی لاپتہ لوگوں کی باتیں ہم نے کی ہے، یہی جو انہوں نے جگہ جگہ پر ناکے کئے ہیں اور ناکوں پر جو ان کے لوگ کھڑے ہیں اور جس طرح عام شہریوں کی وہاں پر تذلیل و توہین ہوتی ہے،جس طرح وہ دیہاتوں میں گھستے ہیں اور دیہاتوں میں جا کر جس طرح وہ اس ماحول پر قبضہ کرتے ہیں، پھر وہاں پر جو کچھ وہ کرسکتے ہیں انسانیت کے خلاف ہوتی ہیں، یہ سب قبائل میں ہمارے ہوتا رہا ہے۔
آپ ہزار میڈیا کے زور پر شور مچائے کہ بہت قبائل خوش ہیں اور بہت انہوں نے قربانی دی اور بہت سکون ہے اور ہم نے ان کے لئے وہ کیا وہ کیا ، ایک قبائلی آدمی وہ آج آپ کے ریاست سے مطمئن نہیں ہے اور جن فورسز نے وہاں پر جو کچھ کیا ہے گذشتہ دس پندرہ سالوں میں، یہ شائد کئی نسلوں تک ان کے زخم مندمل نہ ہوسکیں۔
عاصمہ شیرازی :-تو مولانا آپ پشتون تحفظ تحریک کے مطالبات سے سہمت ہیں آپ کہتے ہیں مطالبات ٹھیک ہیں
مولانا فضل الرحمن :- میں گزارش کرتا ہوں جی، اب رہی بات اگر مطالبات ہیں تو مطالبات تو ٹھیک ہوسکتے ہیں، مظالم ہوئے ہیں وہ انہیں کا ،
لیکن ہم نے بھی ان سے باتیں کی ہیں،اور ہم نے ان سے یہ کہا ہے کہ جب یہ باتیں ہم کررہے تھے تو اس وقت تو آپ ہماری مخالفت میں کھڑے تھے اب جب،
آج کیا مسئلہ ہوگیا ہے کہ آج آپ انہی ایشوز کو لے کر میدان میں اتر آئے ہیں تو اس پر وہ سوائے مسکرانے کے اور کوئی جواب ہمیں نہیں دے سکتے۔
لیکن پھر بھی ایک طبقہ ہے جو نکل آیا ہے، پھر نوجوان ہیں اس کے اندر اور نوجوان پرجوش ہیں اس حوالے سے، تو جو کل آئی ایس پی آر نے اتنا ببانگ دہل اس کا نام لے کر اس کا تذکرہ کیا ہے جس انداز کے ساتھ، یہ کسی تحریک کو ختم کرنے کی علامت نہیں ہے یہ اس کو مزید پروجیکٹ کرنے اور عالمی سطح پر اور قومی سطح پر اہمیت دینے کی علامت ہے، لہذا علامتی اہمیت دینے کے بھی کئی کئی طریقے ہوتے ہیں، جس انداز سے انہوں نے لیا، انہوں نےاس کا نام لے کر بالکل ساتھ ہی مدارس ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(آواز سنسر کر دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)...….۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ریاست غلط ہینڈل کررہی ہے، جب آپ طالبان کو غلط ہینڈل کریں گے جب آپ صوفی محمد کو غلط ہینڈل کریں گے، جب آپ سپاہ صحابہ کو غلط ہینڈل کریں گے، جب آپ ایم کیو ایم کو غلط ہینڈل کریں گے تو پھر یہ نتیجے آئیں گے۔
جو آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ لڑ بھی رہے ہیں لیکن اس سے ان کی پروجیکشن بھی ہوتی ہے اور اس کو پاکستان میں سوائے اس کے کہ جو قانون اور آئین کے مطابق ایک نظریاتی قوتیں جماعتوں کے صورت میں موجود ہیں، صرف آپ ان کو کاونٹر کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سوائے ان کو کاونٹر کرنے کے آپ کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
عاصمہ شیرازی : مولانا یہ نوجوان آئین کے حق میں ہیں، ریاست کے مطلب حق میں ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اپنی بات کررہے ہیں، ان کو کیسے وہ پھر لے کر آئے،وہ کیسے، وہ بھی ان کے اوپر غداری کا فتوی لگ گیا، وہ کیسے اپنے آپ کو
مولانا فضل الرحمن :- تو غداری کا فتوی تو ہماری ملک کے روایات ہیں، جب بھی آپ ہمارے حقوق ماریں گے ، اور جب ہم اپنے حقوق کے لئے اٹھیں گے، آپ ہمارے بچوں کو قتل کریں گے، آپ ہمارے خواتین کی بے حرمتی کریں گے، آپ ہمارے گھروں کو گرائیں گے، آپ ہمارے وسائل پر قبضے کریں گے
اور پھر جب اس کے لئے کوئی قوم، کوئی علاقہ، کوئی برادری اٹھ کے کھڑی ہوگی تو اس ردعمل کے نتیجے میں پھر آپ نے ان کو یہی خطاب دینا ہے کہ آپ تو را کے ایجنٹ ہیں، آپ کو فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہیں، یہ فنڈنگ، فنڈنگ، فنڈنگ، فنڈنگ کی باتیں،یہ دس سال آپ نے تو گزار دئے مدارس کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں،کہاں سے آتے ہیں اور سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود آپ ایسا سوال پیش کرتے ہیں جیسا کہ ابھی تک اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے،
تو سب کچھ گراونڈ پر ہیں، میں نے آپ سے معاہدے کئے ہیں اس میں میرا نصاب آپ کے مشورے سے طے ہوا ہے، میرا مالیاتی نظام مدرسے کا آپ کے مشورے سے طے ہوا ہے، میرے مدرسے کا جو انتظامی ڈھانچہ ہے وہ آپ کے مشورے سے طے ہوا ہے، اس کو طے کرنے کے بعد معاہدہ 2005 میں ہوا ہے، اسی کے بنیاد پر رجسٹریشن کے مسائل طے ہوئے ہیں، کچھ اور اضافی باتیں آئیں تو 2010 میں بھی معاہدہ ہوا ہے اور یہ سوال مدرسوں کا فنڈ کہاں سے آتا ہے اور کہاں سے آتا ہے ؟بابا آپ نے ہم سے معاہدے کرلئے ہیں پھر یہ سوالات کیوں ؟
تو یہ چیزیں جو ہیں یہ ہمارے ملک میں ایک روایتی چیزیں بن گئیں ہیں اور یہی وہ طریقہ کار ہوتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر صوبے میں چاہے وہ بلوچ ہیں، چاہے وہ سندھی ہیں، چاہے وہ پشتون ہیں، چاہے پنجاب میں کوئی ایسے عناصر ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لوگ ہیں آپ ان کے ردعمل کو اعتدال پر لانے کے لئے اقدامات کرے۔ نہ یہ کہ آپ ان کو ایک سیاسی فورس کے مقابلے میں کاونٹر کرنے کے لئے استعمال کرے۔
عاصمہ شیرازی:- تو آپ کے خیال میں پی ٹی ایم کا حل کیا ہوسکتا ہے یعنی وہ کہتے ہیں ہم قانونی کارروائی کریں گے ابھی تک کسی آپریشن کی بات تو نہیں ہوئی لیکن حل کیا ہوسکتا ہے، قانونی کاروائی کیسے ہوسکتی ہے ؟
مولانا فضل الرحمن :- یہ تو وہ جانتے ہوں گے کیونکہ کل انہوں نے کیا سوچا ہے ان کے اس حوالے سے
عاصمہ شیرازی:- آپ کے نزدیک حل کیا ہے، مولانا صاحب آپ تو اس علاقے کو جانتے ہیں
مولانا فضل الرحمن:- ہماری نزدیک تو سیاسی حل ہونا چاہیے، ہر مسئلے کا، میں نے تو جب طالبان کا مسئلہ تھا اس وقت بھی میں پیٹتا رہا کئی سال تک پیٹتا رہا اور جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے جناب ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرادیا کہ شاید آپ کوئی ہمدردی رکھتے ہیں، شاید آپ ان کے ساتھ
تو اس قسم کی پوزیشن میں لا کر ہمیں تھوڑا پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی کہ ٹھیک ہےجی ہم کسی کے اسپورٹر نہیں ہیں لیکن ملک میں اس طرح کے ردعمل جب دنیا میں آتے ہیں۔
آپ مجھے بتائیں کہ مسلح طریقے سے شریعت کا مطالبہ تو ناجائز، جرم، دہشت گردی، ریاست سے جنگ، آپ کے پاکستان کے اپنے پارلیمانی، جمہوری سسٹم میں آج تک کون سی قانون سازی ہوئی ہے شریعت کے مطابق، ایک قانون سازی بتادے۔ جب آپ کا پارلیمانی سسٹم اپنی قانون سازی کی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گا تو کسی گوشے سے تو کوئی انتہا پسندی آئیگی تو وہ تو جرم، لیکن اپنا جو آپ کا قانون اور آئین کی مطابق آپ کا فریضہ اور ذمہ داری بنتی ہے وہ کہاں گیا ہمارا ؟
عاصمہ شیرازی:- نہیں تو آئین ، 73 کا آئین تو اسلامی آئین ہے سر، اسلام کے خلاف تو کوئی قانون سازی پاکستان میں ہوہی نہیں سکتی۔
مولانا فضل الرحمن:- ہورہی ہیں۔ ابھی پرسوں ہوئی ہے۔ آپ کے سینیٹ میں ہوئی ہے تو اب جب آپ کے ملک میں ایسے قانون سازیاں کہ جو شریعت کے خلاف ہوتی ہیں اور شریعت کے مطابق ایک قانون سازی نہیں آرہی ہے۔
1973 کے آئین کے آنے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہوئی کیونکہ قرار دیا گیا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی ہوگی اس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی۔
اب یہ کہ یہاں پر تو مختلف مکاتب فکر ہیں، کس مکتبہ فکر کے تابع قانون سازی۔ تو اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی جس میں تمام مکاتب فکر اور ان کے جید علمائے کرام اور آئینی ماہرین اور قانونی ماہرین سب کا ایک مجموعہ۔ 
آج 1973 سے لیکر 2019 تک وہ ادارہ بیٹھا ہوا ہے تمام قوانین کنگال دئے تمام قوانین پر انہوں نے اپنی سفارشات مکمل کر لئے ہیں، جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مکمل کر لیں تھی،
اور آج تک اس پر کوئی قانون سازی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہورہی ہے تو پھر آپ کے اپنے پارلیمانی ادارے، جمہوری ادارے، آئینی ادارے جب اپنی فرض منصبی سے کوتاہی کریں گے تو اس کے رد عمل میں، ردعمل جب آئے گا وہ تو جرم کہلائے گا لیکن آپ اپنا کردار ،اس پر کیا کوئی نظرثانی نہیں کرنی ہم نے ؟۔
عاصمہ شیرازی:- مولانا آپ نے مدرسوں کے مسئلے کے اوپر کہا کہ مزاحمت ہم کریں گے۔ سر بہت سارے مدرسے ایسے ہیں جن کے اندر فرقہ واریت ہوتی ہے، پڑھائی جاتی ہے نفرت اور انسٹگیٹ کیا جاتا ہے، نفرت کے اوپر ان کو ابھارا جاتا ہے کیا آپ ان سے انکاری ہیں کہ ایسے مدرسے موجود نہیں ہیں ؟
مولانا فضل الرحمن صاحب:- 30 ہزار مدارس کا ذکر خود انہوں نے کیا ہے۔
عاصمہ شیرازی :- جی ہاں
مولانا فضل الرحمٰن:- 100 سے کم مدارس میں اس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔
یہ ان کی بات ہے میں نہیں کہہ رہا جی،
100 سے کم مدارس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہاں انتہا پسندی سکھائی جاتی ہے۔ وہاں نفرت کا درس دیا جاتا ہے۔ وہاں تعصبات پھیلائے جاتے ہیں۔
ان 100 سے کم مدارس کو مبہم رکھ کر 30 ہزار مدارس کو کیوں مشکوک بنایا گیا؟
اور اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں کہ 100 مدارس میں یہ حرکت ہو رہی ہے۔ اس کے خلاف اقدام کرنے سے تمہیں کس نے روکا ہے؟
تو نہ تو جمیعت علماء اسلام نے روکا ہے نہ کسی اور مکتب فکر نے روکا ہے نہ کسی تنظیم نے روکا ہے۔
اور اب مبہم لفظ استعمال کر کے 30 ہزار مدارس کو مشکوک بنا رہے ہیں تو آپ خود سوچیں ! یہ آپ کے جو روئے ہیں ان رویوں کے پیچھے کچھ عزائم ہو سکتے ہیں۔
بلا وجہ یہ نہیں ہو سکتے۔
عاصمہ شیرازی:- لیکن مولانا صاحب! اس میں حرج کیا ہے اگر وزارت تعلیم ایک ماڈرن ایجوکیشن ، وہ اس کو اپنی تحویل میں لے رہی ہے وہ اپنے اندر ان کے سسٹم کو بہتر بنا سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ان کے پاس دینی مدرسیہ چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ صلاحیت ہی نہیں ہے۔
مدرسہ بورڈ بنایا مشرف نے ، کہاں ہے کدھر ہے مدرسہ بورڈ ؟ کیا حیثیت ہے اس کی ؟
جب میری گورنمنٹ کے پاس تربیت ہی نہیں ہے یہ سوچ ہی نہیں ہے یہ سنجیدگی ہی نہیں ہے یہ اس کی ترجیحات ہی نہیں ہے۔
میں کیسے ایک اسٹیبلشد ادارے کو جو امتحانات کے حوالے سے ، تعلیم و تدریس کے حوالے سے ہزار درجے آپ کے مدارس (اسکولز) کے معیار سے بہتر ہیں۔
عاصمہ شیرازی:- لیکن مولانا یہ تو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا آپ اس پر متفق تھے جب یہ کہا گیا کہ مدرسہ اصلاحات کی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نیشنل ایکشن پلان کو میں نے اسی دن مسترد کیا جب پیش کیا گیا۔
میں نے ہی جھگڑا ڈالا اس میں کہ نیشنل ایکشن پلان یہ امتیازی قانون ہے مدارس کے خلاف استعمال کرنے کا۔
اور میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہو اور میں آج بھی کہتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان وہ مذہبی طبقے ، وہ مذہبی ادارے ، تعلیمی ادارے ، مدارس اور ان ہی کے خلاف بنایا گیا ایک امتیازی قانون ہے۔
ایک قانون ہے جس کو ہم قبول اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
عاصمہ شیرازی:- تو اب آپ کیا کریں گے مزاحمت میں ؟ کیا کر سکتے ہیں آپ ؟ آپ ملین مارچ کر رہے ہیں کیا کسی کو فرق پڑ رہا ہے اس سے ؟ اور کیا کر سکتے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن:- اب وہ کر تو دکھائیں ، کچھ کر تو دکھائیں ذرا۔
اتنا آسان نہیں ہے ہم بلاوجہ سڑکوں پر نہیں ہیں ہم کسی مقصد کے تحفظ کے لئے ہیں۔
ہم ملک میں فریق ہیں ہم سٹیک ہولڈرز ہیں ہمارے بغیر اگر یکطرفہ فیصلے ہو گے تو لوگ اس کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔
بہت سے قوانین ایسے ہیں آج تک آئے ہیں لیکن معاشرے میں غیر مؤثر ہوئے ہیں۔ آپ کرتے رہے معاشرہ اس کو لفٹ ہی نہیں کروائے گا۔
عاصمہ شیرازی:- مولانا آپ کے غصے کی وجہ کیا ہے ؟ کیونکہ آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔ باہر غصے میں ہیں آپ حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ تبدیلی سرکار گرانا چاہتے ہیں کیسے گرائے گے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- اگر آپ ہماری اتنی سنجیدہ تحریک کو اتنا سطحی لیں گے
پھر کیسے ملک کے مسائل حل ہو گے ،
"آپ اسمبلی میں نہیں ہیں" میں تو پہلے بھی اسمبلی میں نہیں رہا ہوں
میں 90 میں بھی اسمبلی میں نہیں تھا میں 97 میں بھی اسمبلی میں نہیں تھا۔ اس وقت میں نے تو کوئی تحریک نہیں اٹھائی۔
تو شکایتیں ہر الیکشن میں بھی ہمیں رہی ہیں بعض دفعہ ایسا تھا کہ ہم قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن بوجوہ برداشت کیا ہے۔ چلو گاڑی چل رہی ہے تو چلنے دو۔
اور کہ آج جو صورتحال ہے وہ اس سے مختلف ہے آج کی صورتحال نہ قبول کرنے کے لائق ہے نہ برداشت کرنے کے لائق ہے۔
اور اس حوالے سے 25 کو الیکشن ہوئے اور 26 کی رات کو ہی جب نتائج تک گئے تھے سیاستدانوں کے باہمی رابطے بھی ہوئے
26 کو انہوں نے آپس میں ملنے کا فیصلہ کیا۔ 27,28,29,30 یہاں اسلام آباد میں سب لوگ پہنچے ہوئے تھے اور آل پارٹیز کر رہے تھے۔
اور سب نے با الاتفاق کہا کہ تاریخ کی بد ترین دھاندلی ، اور اسٹیبلشمنٹ نے ننگے انداز کے ساتھ وہ وہ دھاندلی کی۔
اور اپنی مرضی کے نتائج ، ہفتہ ہفتہ دس دس دن تک نتائج بدلتے رہے۔ ایک پاس ہو رہا ہے اب وہ فیل ہو گیا اب اس کی جگہ اور آ گیا۔ کیا کیا چیزیں کس کس چیز کی مثال ہم آپ کو پیش کریں۔
تو پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہاں پر بیٹھ کر اعلانیہ کہہ رہی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔
مسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری لیکن اس کے باوجود اس نے اعلانیہ کہا کہ یہ دھاندلی ہوئی ہے بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔
اور اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے ،
آج حکومت میں بیٹھی ہوئی جماعتیں بھی کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے حکومت میں بیٹھی ہوئی جماعتیں،
تو آپ ایسی صورتحال میں بتائے
کہ پھر ہماری پیش گوئی صحیح تھی نہ ؟ کہ جن لوگوں کے لئے آپ اتنی بڑی دھاندلی کر رہے ہیں وہ پرلے درجے کے نااہل بھی ہیں پھر گاڑی بھی تو چلا سکیں نہ ،
تو گاڑی آپ کی ڈوب رہی ہے معیشت آپ کی تباہ ہو گئی ہے۔
عام آدمی جو 30 ہزار ماہانہ کماتا ہے وہ بھی آج راشن خریدنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔
تو اس صورتحال میں جب آپ کا پیسہ گر گیا ہے 100 سے لے کر 150 پر چلا گیا ہے۔اور شاید کہہ رہے ہیں کہ اگر کئی سال مسلسل رہتے ہیں تو شاید 200 تک بھی چلا جائے۔
پیسہ اتنا گر جانا اور بین الاقوامی مارکیٹ میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
آپ کا اپنا سٹیٹ بینک ، آپ کا اپنا جو ایشین بینک جس سے آپ پیسے لیتے ہیں جس ورلڈ بینک سے آپ مدد لیتے ہیں۔ جس آئی ایم ایف سے آپ مدد لیتے ہیں جس بین الاقوامی اداروں سے آپ مدد لیتے ہیں۔ ان کی رپورٹیں آپ کے بارے میں کتنی مایوس کن ہیں اس کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔
عاصمہ شیرازی:- جو لائے ہیں تبدیلی ، کیا ان کو نہیں پتا تھا کہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے یہ سسٹم بھی گر سکتا ہے۔ یا یہ طے شدہ ہو رہا ہے کہ سسٹم کو گرایا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- اصل چیز اور ہے بات بنیادی یہ ہے کہ ان پر کافی عرصے سے باہر کا پریشر تھا کہ ان کو لانا ہے یہ ہمارا فیورٹ ہے۔
اس کے اوپر کئی لوگ لکھ بھی چکے ہیں بہت سے لوگ لکھ چکے ہیں اب مرحومین ہیں ان کی ساری گفتگو ، تحریرات ریکارڈ پر ہیں۔
ہم اس حوالے سے بولنے والے سب سے آخر کے لوگ ہیں کہ کس طرح ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت یہ شخص پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔
پھر آپ کو پتا ہے کہ جب بین الاقوامی گیم میں ایک چیز سیٹ ہو جاتی ہے تو پھر ہمارے جیسے ممالک جو ہیں ان کی اسٹیبلشمنٹ امپلیمنٹیشن کے لئے ہوتی ہے۔
ہاں اتنی طاقت ضرور رکھتی ہے کہ پھر اپنا کوئی مفاد اس میں شریک کر لیتے ہیں اور اس شراکت کے ساتھ۔
آج آپ دیکھیں کہ اتنی بڑی تبدیلی جو آپ چل رہے تھے۔ میں چونکہ فارن افئیر کمیٹی کا چیئرمین رہا ہوں 1994 سے 1996 میں چائنہ کے ساتھ جو اشتراک کیا تھا ہم نے جس کو آج آپ سی پیک کہہ رہے ہیں۔
اس دور سے لے کر آج تک پاکستان کی اکانومی کے ایک نئے رخ کا تعین کیا جا رہا تھا۔ دونوں ممالک رابطے میں تھے مشرف کی حکومت بھی رابطے میں رہی پھر زرداری کی حکومت بھی رابطے میں رہی۔
پھر نواز شریف کی حکومت رابطے میں رہی ایم اے یوز تک پہنچی۔ گراؤنڈ تک ساری صورتحال لے آئے۔ اور آپ کے پاس 60 ، 65 ارب ڈالر انہوں نے یہاں پر سرمایہ کاری کی۔
اب ظاہر ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو امریکہ جانتا ہے کہ وہ کتنا کمزور ہے اس کے پاس ، اس کی پسلی میں کتنا زور ہے۔
وہ پریشر آیا اپنے بندے کو لے آئے اور آپ کے سارے منصوبے خراب کروا دئیے۔
تو اس طریقے سے پورے ملک کی بین الاقوامی گیم کے تحت، یہ چیزیں اس ملک میں لائی جاتی ہیں چھوٹے چھوٹے سوالات آپ ضرور اٹھا سکتے ہیں وہ اپنی جگہ پر،
کوئی سوال جواب دہ ہو سکے گا کوئی نہیں ہو سکے گا۔
مجموعی طور پر یہ چیزیں اس ملک پر زبردستی مسلط کی گئی ہیں۔
اور یہ ناکام تجربہ ہے آپ عوام کے ووٹ کو ایک طرف پھینک کر بین الاقوامی قوتوں کی خواہش اور اپنے کسی ایجنڈے کی بنیاد پر ایک فرد کو لے آتے ہیں کہ یہ میرے اشارے پر چلے گا۔
جو ان کی تقریریں ہیں جو ان کا کردار ہے کتنا تضاد ہے ان کے اندر؟ وہ آپ خود روزانہ دیکھتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی:- لیکن آپ پھر کیا کر سکتے ہیں۔ اب تو ریاست کو نقصان پہنچے گا اگر معیشت خراب ہے تو ریاست خراب ہو رہی ہے نہ ، اب تو ریاست کو نقصان پہنچ رہا ہے تو کیا کر سکتے ہیں نہ آپ قائل کر سکے ہیں زرداری صاحب کو نہ نواز شریف صاحب کو ، پھر آپ کیا کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- جو چیز بگڑ جائے اس کو یا ٹھیک ہو جانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ ٹھیک ہونے کے قابل نہیں رہے ہیں اب مٹ جانا چاہیے۔
مٹے گے تو ملک کی معیشت بہتر ہوگی۔
تو بہرحال لیکن یہ ایک امتحان اور چیلنج ہوگا ہر آنے والی حکومت کیلئے ، اس ڈوبتی ہوئی معیشت کو دوبارہ کیسے اٹھائیں گے سمندر سے اس کو دوبارہ بچا کے ساحل پہ لا سکیں گے؟ بڑے امتحان کی طرف ریاست چلی گئی ہے
عاصمہ شیرازی:- اسی لیے شہباز شریف اور زرداری صاحب جو ہے یا نواز شریف وہ یہ کہہ رہے کہ ہم کو حکومت سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، چاہیں تو ان ہاوس چینج تو آ سکتا ہے
مولانا فضل الرحمٰن:- یہ انکی سوچ ہے لیکن ہم ان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک ہے کہ آپ گروانڈ پر صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اسکو کیسے ہینڈل کرنا ہے یہ جزئیات ہے ایک ہے اصول .
جس اصول پر ہم سب کا اتفاق ہوا ہیں اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے آج جب عوام کراہ رہی ہے غریب آدمی، چھاپڑی والا مزدور، آج یوم مزدور ہے ہمیں اس مزدور کا بھی تذکرہ کرنا چاہیے کہ جو مزدور آج کے دور میں جس کرب کی طرف جارہا ہے اور سر پیٹ رہا ہے
کہ میں کس طرح گھر میں جاکر کس طرح بچوں کو منہ دکھاؤ، کیا میں ان کو دے سکتا ہوں پریشان حال ہے لوگوں نے خود کشیاں کرلی ہے لوگوں نے اپنے قتل کردئے ہیں کہ ہم پال نہیں سکتے اس طرح پالیسیاں جو ہیں یہ ساری صورتحال آج اس وقت
عاصمہ شیرازی:- تو مولانا اگر یہ آپ کہہ رہے ہیں مٹ جانا چاہیے تو مٹ نہیں رہے تو
مولانا فضل الرحمٰن:- مٹ جائیں گے. مٹ جائیں گے
عاصمہ شیرازی:- تو پھر کوئی اور سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو پھر کون ،کوئی تیسری قوت بھی آ سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں. دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔ فریش الیکشن کرائے۔
آپ کو پتہ ہے تمام سیاستدانوں نے جو الائنس بنایا ہے اس الائنس کا نام ہی الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن ہے۔
تو تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں لیکن سب کو حرکت میں ہونا چاہیے سب کے خلاف نیب کو استعمال کیا جارہا ہے نیب پورے ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کا ادارہ ہے لیکن اس وقت بدعنوان ہمارے ملک میں صرف ایک یا دو بندے نظر آرہے ہیں اسی کو میڈیا اٹھارہا ہے
سوداگریاں ہورہی ہیں جس طرح پہلے ہمارے کچہریوں میں دلال بیٹے ہوتے تھے اور وہ باہر سودے کرتے تھے اور اندر فیصلے سامنے آتے تھے آج اسی طرح کیا کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے سمجھ میں نہیں آرہی ہیں بات، تبصرہ آدمی نہیں کرسکتا ایسی صورتحال ہے۔
عاصمہ شیرازی :- یہ بڑا سحت جملہ تھا جو آپ نے بولا لیکن میں ایک چھوٹی سی بریک لیتی ہوں پھر ضرور پوچھیں گے کہ کرنا کیا ہوگا سیاستدانوں کو ہی اس کشتی کو نکالنا ہیں اگر خدانخواستہ ملک کو نقصان ہوا تو الزام پھر سیاستدانوں کے اوپر ہی آئے گا
ویلکم بیک ناظرین، ہم مولانا فضل الرحمن سے بہت اہم بات کررہے ہے ہم تو نہیں کررہے، وہ اہم باتیں ہم سے کررہے ہیں مولانا آپ نے ابھی کہا کہ ان کو جانا چاہیے، نہیں جا پارہے، جس طرح بھی ہے خدا نخواستہ صورتحال معیشت کی جو خراب ہے بیرونی قوتوں کا دباؤ ہے اگر یہ سب کامیاب ہوجاتے ہیں دباؤ اور کچھ نقصان اللہ نہ کرے پہنچتا ہے تو ذمہ دار تو سیاستدان ہونگے
مولانا فضل الرحمٰن:- کیوں ذمہ دار سیاستدان ہونگے وہ قوتیں کیوں نہیں ہونگی جو دھاندلی کرکے اس کو لائے ہیں۔
عاصمہ شیرازی:- ہمیشہ سے سیاستدانوں پہ نزلہ گرایا جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- تو یہی کہہ رہا ہوں نہ، ملک کو خراب کرنے کیلئے منصوبے کہاں بنتے ہیں اور پھر تھوپے جاتے ہیں سیاستدانوں پر، حالات ایسے بنا دئیے جاتے ہیں۔
تو اگر آج بھی یہ اس لیے خراب کیا جارہا ہے کہ پھر ہم ہی ناگزیر ہے ہمارے بغیر کچھ نہیں چلتا تو میں سمجھتا ہوں ان کو بھی لانے کے ذمہ دار آپ ہے اس معیشت کی ناکامی کی ذمہ داری مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ پر آرہی ہے ۔تو یہ ان کیلئے کم از کم مارشل لاء لگانے کا جواز ہے۔
ہاں ویسے امر مارشل لاء تو اب بھی ہے آپ میرے انٹرویو جو ہے میرے جلسے نہیں دکھا سکتے جس دور میں آپ جلسے جو پبلک کی آواز ہوتی ہے ذرائع ابلاغ پر اس کی بندش آتی ہے یہ منی مارشل لاء کی علامت ہے۔
جی اب مارشل لاء دو طرح کے ہوتے ہیں ایک یہ کہ باقاعدہ اسکو ایک اعلانیہ طور پر نافذ کیا جائے ایک یہ ہے کہ ایک ڈیفیکٹیو سائز سسٹم بنا لیا جائے اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ پوری حکومت آپ کی مشیروں پر چل رہی ہیں وزیر آپ کے سارے ناکام ہو گئے ہیں۔
عاصمہ شیرازی :- ٹیکنوکریٹس
مولانا فضل الرحمٰن:- ٹیکنوکریٹس پر چل رہی ہے بہت لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔ تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو ہم کہتے تھے نتائج سب اس کے مطابق ہی آرہے ہیں لہذا خدا کیلئے. حقائق کو تسلیم کیا جائے اور اس پر ضد نہ کی جائے. جتنا آپ ضد کرتے جائیں گے تباہ ریاست ہی ہوتی جائی گی اور آپ ذمہ دار ہونگے اس کے ،یہ نہیں کہ کل آپ آئیں گے اور مارشل لاء لگا کر کہیں گے کہ اب ہم ملک کو ٹھیک کررہے ہیں ،نہیں، آپ اس کے ذمہ دار ہونگے برابر برابر کے آپ ذمہ دار ہونگے اس کے، لہذا اگر آپ نگرانی کرنا چاہتے ہیں ریاست کو بچانا چاہتے ہیں اس کے مستقبل کو بچانا چاہتے ہیں پبلک پہ چھوڑ دو جو نتیجہ آتا ہے عوام کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے
عاصمہ شیرازی:- تو سر جو نئی حکومت آئے گی وہ کیسے چلائے گی معیشت کو. کیا معیشت اس قابل رہ گیا ہے کہ کوئی چلائے
مولانا فضل الرحمٰن:- ہمیشہ پاکستان کی معیشت ہمیشہ ہمیشہ سے ضعیف رہی ہے یہ نہیں کہ آج ہے لیکن سنجیدہ لوگ، سیاستدان وہ چلاتے رہے۔
اور آپ دیکھیں پچاس کی دہائی دیکھ لے تو ساٹھ کی دیکھ لے اس وقت قرضوں کی ریشو کتنی تھی؟ اسکی ادائیگی کی ریشو کتنی تھی؟ کس وقت ہمارے اندر یہ کمزوریاں آئی ؟کہ ہم ادائیگیاں جو ہے وہ نہیں کرسکے مدت کے اندر اندر، اور پھر دباؤ ہم پر بڑھتا چلا گیا۔
اور آج صورتحال کیا ہے کہ ہم تو ادائیگی وقت کے اندر تو کیا سرے سے ادائیگی سے محروم ہوگئے ہیں تو اس طریقے سے انتہائی مشکل مرحلے سے آپ کی معیشت جا رہی ہے اور عام آدمی پر دیکھیئے ملکی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر جب کوئی بڑے معاشی فیصلے ہوتے ہیں اور پالیسی لیول. کے فیصلے ہوتے ہیں عوام پر جو اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس میں تین سال لگ جاتے ہیں کہ پانچ سال کے بعد اس کے اثرات آتے ہیں
یہاں تو آپ کی حکومت آئی اور ایک سو چار یا ایک سو آپ کے روپے کی قدر تھی وہ یک دم سے اڑ کر چلی گئی اور پانچ مہینے کے اندر اندر عام آدمی کراہنے لگے پانچ مہینے کے اندر اندر آپ کی گیس، آپ کی بجلی ،پٹرول آپ کی ڈیزل، دال، چنے کی قیمتوں پر آپ ٹیکسیز لگا رہے ہیں تین بجٹ آپ نے پیش کردئے خدا کا خوف کرو ، کبھی سال میں بجٹ ہوتا ہے۔ آیوب خان کے زمانے میں پنج سالہ منصوبے کا تصور تھا کہ سب کچھ بناؤ اور پانچ سال۔۔۔۔۔۔۔
عاصمہ شیرازی:- آپ بھی ایوب خان کے زمانے کو آئیڈئیل کررہے ہیں جیسے عمران خان صاحب کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- میں آئیڈئیل نہیں سمجھتا لیکن کچھ چیزیں کے حوالے سے، یعنی کبھی تو ہمارے حکمرانوں کا تصور یہ ہوتا تھا کہ ہم پانچ سال کا منصوبہ بنائے اور پھر سال میں ہم صرف اس کو دیکھتے رہے بجٹ پیش کرتے رہے اور لیکن وہ لائن ہماری کٹے نہیں، وہ قصے ختم ہوگئے سال میں ایک بجٹ آئے گا تو سال تک تو مستحکم رہے نا، ہم نے بیچ میں دو مہینے میں بجٹ پیش کردئیے
عاصمہ شیرازی:- تو آپ سمجھتے ہیں کہ انتحابات ناگزیر ہوگئے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ناگریز ہو گئے ہیں
عاصمہ شیرازی:- کب؟
مولانا فضل الرحمٰن:- فوراً. فوراً میرے اور آپ کے لوگوں کے انٹرویو سننے سے پہلے پہلے . . ہاہااہاہا
عاصمہ شیرازی:- کہیں کچھ اور نہ ہوجائے مولانا. .
مولانا فضل الرحمٰن:- نہیں ہوسکتا جی, نہیں ہوسکتا جی
عاصمہ شیرازی:- پارلیمانی جمہوریت آپ کے نزدیک بقاء اس کی ہے صدارتی نظام کی جو بات ہو رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھئے ہم ایک اسٹیبلشڈ جو ہمارا سسٹم ہوتا ہے پہلے ہم اس کے سٹیٹس کو دیکھیں۔
اگر وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے تو پھر جب آپ اس کو متاثر کریں گے تو آئین گرے گا۔
چنانچہ آپ کو میں بتاؤں کہ پارلیمانی طرز حکومت کے ہوتے ہوئے بھی آئین میں ایسی تبدیلیاں لائی گئی کہ اس کے بعد اگر جنرل ضیاء الحق صاحب صدر پاکستان تھے اور نام پارلیمانی طرز حکومت کا تھا لیکن محمد خان جونیجو پرائم منسٹر ہوتے ہوئے، دنیا نے اس کو پرائم منسٹر کا پروٹوکول نہیں دیا
اور جو بڑا پروٹوکول دیا جاتا تھا وہ صدر مملکت کو دیا جاتا پورے دنیا میں ، تو یہ ہوا کہ دنیا نے کہا کہ پاکستان میں صدارتی طرز حکومت ہے
یہ ڈمی قسم کی ایک جمہوریت اور پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہوتا ہے۔
بالاخر ایک حکومت آئی زرداری صاحب نے کہا کہ بس نہیں آئینی اصلاحات کرو اور اٹھارویں ترمیم کے زریعے سے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کردیے۔
اب جناب ملک کے اندر کہیں اگر کوئی کمزوری ہے تو اس کمزوری کو دور کریں ، نہ یہ کہ آپ سرے سے نظام ہی کو اکھاڑ دیں۔ اور اس نظام کو لے آئیں جس کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے جو ملک میں جمہوریت کی نفی کی علامت ہے جمہوریت کے استحکام کی علامت نہیں ہے لہذا ہماری پارلیمانی جمہوریت کو جب بھی کمزور کیا ہے اسٹیبلشمنٹ اور مارشل لاؤں نے کمزور کیا ہے وہی اس کی کمزوری کی ذمہ دار ہے سیاستدان نہیں ہے. .
عاصمہ شیرازی:- بہت بہت شکریہ ,سر تھینک یو سو مچ مولانا فضل الرحمن جو بات کررہے ہیں یہی سردار اختر مینگل کرتے ہیں یہی زرداری صاحب کرتے ہیں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن تمام جو جماعتیں ہیں پاکستان کی وہ یہی باتیں کررہی ہے سوال یہ ہے کہ ان آوازوں کو سننا چاہیے دانشوری لینی چاہیے نہ کہ ان آوازوں کو دبانا چاہیے . سسٹم کے اندر رہ کے جمہوریت کو ایک موقع ملا ہے اس کو مزید آگے جانا چاہیے نہ کہ اس کے اوپر کوئی نقصان ہو.۔


0/Post a Comment/Comments