آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی میڈیا سے گفتگو ، اعلامیہ اور سوالات کے جوابات 26 جون 2019

 آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی میڈیا سے گفتگو ، اعلامیہ اور سوالات کے جوابات

26 جون 2019
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میں آپ حضرات کی وساطت سے پوری قوم کے سامنے ان تمام اکابرین کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جنہوں نے ہماری دعوت پر آج یہاں کل جماعتی کانفرس میں شرکت کی اور ہمیں میزبانی کا شرف عطا کیا۔
کوئی آٹھ گھنٹے یا نو گھنٹے اجلاس جاری رہا۔
اور ملک کو جو درپیش صورتحال ہے اس صورتحال پر ہمہ جہت گفتگو ہوئی ہے۔
مباحثہ ہوا ہے ہر پارٹی نے غیر مبہم انداز کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔
اور طویل بحث و تمحیص کے بعد جن امور پر اتفاق ہوا ہے اب ہم آپ کے حوالے کر رہے ہیں۔
اور آپ کی وساطت سے پوری قوم کے سامنے اپنے متفقہ فیصلے رکھ رہے ہیں۔

آج بتاریخ 26 جون 2019 اسلام آباد میں پاکستان کی حزب اختلاف سے وابستہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا ایک کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس کی صدارت فضل الرحمن نے کی۔
اجلاس کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سینئر راہنماؤں نے شرکت کی۔ جس کی تفصیل منسلک ہے۔
اجلاس کو تقریبا سات گھنٹے تک جاری رہا لیکن اب میں کہہ سکتا ہوں کہ آٹھ گھنٹے تک جاری رہا۔
متفقہ طور پر مندرجہ ذیل فیصلے اور قراردادیں منظور کی گئی۔
🔹
اجلاس نے بجٹ 2019 کو عوام دشمن ، تاجر دشمن ، صنعت دشمن، صحت و تعلیم دشمن اور کسان دشمن قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا ہے
اور اعلان کیا ہے کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس کے خلاف پارلیمان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج جاری رکھیں گی۔
عوام کو جعلی مینڈیٹ ، دھاندلی زدہ اور نا اہل حکومت کی پیدا کردہ اذیت ناک مہنگائی اور معاشی مشکلات کے کرب سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔
اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم شروع کریں گی۔
تا کہ رائے عامہ کو عوام دشمن ایجنڈے کے خلاف منظم کیا جا سکے۔
اجلاس نے دھاندلی زدہ حکومت کا دھاندلی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔹
اجلاس نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دو ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کئے جائیں۔
تا کہ وہ اپنے عوام کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کر سکیں۔
🔹
اجلاس نے پارلیمانی، آئینی اور سول حکمرانی کی بالادستی پر زور دیا ہے۔
🔹
ججوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ریفرنسز کو عدلیہ پر حملہ قرار دیا۔
اور مطالبہ کیا کہ ان ریفرنسز کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
🔹
اجلاس نے عدلیہ میں اصلاحات ، ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر نظر ثانی اور سوموٹو اختیارات کے استعمال سے متعلق قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
🔹
 اجلاس نے عوام کے جمہوری حقوق کے لئے جہدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
🔹
 اجلاس نے واضح کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قانون سازی کی جائے۔
وہ لوگ جو سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں اور کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کئے گئے۔
ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
تشدد کے استعمال کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
🔹
 سابقہ قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے 20 جولائی 2019 کو صوبائی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کے حالیہ نوٹیفکیشن جس کے تحت فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کرنے اور سمری ٹرائل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس کی مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ یہ نوٹیفکیشن فی الفور واپس لیا جائے۔
🔹
 اجلاس نے مطالبہ کیا کہ سابقہ قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا میں گزشتہ کئی سالوں سے قائم حراستی مراکز کو عام جیلوں میں تبدیل کر کے ان میں قید لوگوں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
🔹
 اجلاس نے میڈیا پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں اور سنسر شپ کی مذمت کی۔
اور پابندیوں کو فورا ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
🔹
اجلاس نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ان کے لئے فوری قانون سازی پر زور دیا ہے۔
🔹
اجلاس نے پارلیمانی نظام حکومت اور اٹھارویں ترمیم کے خلاف اعلانیہ اور پس پردہ کوششوں کی مذمت کی۔
اور اعلان کیا کہ ہر ایسے اقدام کی بھرپور مذمت کی جائے گی۔
جس کا مقصد پارلیمانی نظام حکومت کو کمزور کرنا ہے۔
🔹
 اجلاس کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احتساب پر زور دیا۔
اور جاری یکطرفہ اور انتقامی احتساب کو مسترد کیا ہے۔
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ احتساب کا ایک نیا موثر قانون بنایا جائے۔
جس کے تحت محض چند مخصوص طبقوں کا نہیں بلکہ تمام افراد کا ایک ہی قانون اور ایک ہی ادارے کے تحت احتساب کیا جا سکے جو قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔
🔹
 اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اداروں کو ملکی سیاست میں ہرگز مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
🔹
اجلاس نے مجوزہ قرض انکوائری کمیشن کو مسترد کیا۔ پارلیمان پر حملہ قرار دیا۔ غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔
🔹
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ تمام حقائق کو عوام کے سامنے لانے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔
جس میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کی تعداد برابر ہو۔
اور 2000 سے لے کر اب تک تمام گرانٹس اور قرضہ جات کے حصول اور اس کے استعمال کی تحقیقات کی جائے۔
🔹
اجلاس نے قرار دیا کہ مجوزہ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل ، این ڈی سی ایک غیر ضروری ادارہ ہے۔
جس کی آئینی ادارے نیشنل اکنامک کونسل کی موجودگی میں کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
🔹
 اجلاس نے اپوزیشن کے تمام ممبران ، الیکشن 2018 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی سے فی الفور مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
کیونکہ جان بوجھ کر اس کمیٹی کو غیر فعال بنا دیا ہے۔
🔹
اجلاس نے فیصلہ کیا کہ 25 جولائی 2019 کو دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف یوم سیاہ منایا جائے۔
🔹
اجلاس نے فیصلہ کیا کہ ایک کل جماعتی رہبر کمیٹی بنائی جائے گی۔
جو آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی اور اس اعلامیے کے نکات پر یقینی بنائے گی۔
🔹
اجلاس نے فیصلہ کیا کہ سینیٹ کے موجودہ چیرمین کو آئینی و قانونی طریقے سے عہدے سے ہٹایا جائے گا۔
رہبر کمیٹی سینیٹ کے نئے چیرمین کے لئے متفقہ نام تجویز کرے گی۔
🔹
 اجلاس نے مطالبہ کیا کہ وزیرستان میں حالیہ واقعات کے بارے میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
تا کہ تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔
🔹
 اجلاس نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات پر پابندی اور ان کے ذاتی معالج کو ان تک رسائی نہ دینے کی مذمت کی۔
اور مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ملاقات اور ان کے ذاتی معالج کو فی الفور رسائی دی جائے۔
اور مطالبہ کیا کہ میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری اور دیگر اسیران کی زندگی کے بنیادی، دستوری ، قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
🔹
 اجلاس نے موجودہ حکومت کے آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کے خلاف گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سوال:- آج سے ایک سال پہلے بھی آپ نے کانفرس کی تھی اس کے کچھ حوصلہ افزاء نتائج نہیں نکلے۔ کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ آپ متحد ہو کر چلے گے۔
اور دوسرا آپ سے مسلسل مطالبہ ہو رہا ہے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا ، کیا اس کے اوپر بھی کچھ بات ہوئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- جب ہم نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ ایک رہبر کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو آئندہ حکمت عملی وضع کرے گی۔
اور ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ چاروں صوبوں میں عوام کی بیداری کے لئے رابطہ عوام مہم شروع کی جائے۔
یہ متفقہ فیصلے ہو گے مشترکہ فیصلے ہو گے اور اس حوالے سے پوری عوام کے سامنے ہم مل کر جائیں گے۔
ان کے سامنے ہم موقف رکھیں گے۔
صحافی:- آپ نے فیصلہ کیا تھا کہ اے پی سی ہم بلائیں گے احتجاجی تحریک کے لئے، یہ فیصلہ ہوا تھا
لیکن آپ فیصلے کچھ اور سنا رہے ہیں تو اے پی سی ناکام ہوئی اتفاق نہیں ہو سکا وجہ کیا بنی
مولانا فضل الرحمٰن:- میں پھر وضاحت کر دیتا ہوں۔
ہم نے باقاعدہ رابطہ عوام مہم کا فیصلہ کیا ہے۔
اور اس حوالے سے 25 جولائی جو آنے والا ہے یہ ہمارا ابتدائی ایونٹ ہو گا یوم سیاہ منایا جائے گا۔
اور اس کے بعد چاروں صوبوں میں مختلف مقامات پر مشترکہ بڑے جلسے کریں گے۔
تا کہ عوام کے ساتھ بھرپور رابطے کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔
صحافی:- آپ نے کہا کہ احتجاجی تحریک اور جہدوجہد آگے بڑھائے گے۔ کیا اسمبلی سے استعفوں کا آخری حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- ظاہر ہے جب رہبر کمیٹی ایسی سفارشات دے گی تو ہم اس پر عملدرآمد بھی کریں گے۔
صحافی:- اپوزیشن کی تمام مشاورت اور یہ جو آپ نے اعلانات کئے ہیں کیا یہ تمام جہدوجہد اور نکات بالآخر حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات پر منتج ہو گی یا اس پر کچھ تحفظات سامنے آئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیں بنیادی طور تو ہم لوگ اس تصور پر مطمئن ہیں اور متفق ہیں۔
کہ یہ اکثریت جعلی ہے اور دھاندلی زدہ ہے اب اس حوالے سے ظاہر ہے مختلف جماعتوں کے مختلف خیالات ہو سکتے ہیں۔
لیکن ان کو منظم کرنا اس کے لیے مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ اسی لئے رہبر کمیٹی بنائی گئی ہے۔
تاکہ اس حوالے سے اگر تھوڑا بہت آراء میں فرق ہے ان کو ایک پیج پر لایا جا سکے۔
صحافی:- سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اپوزیشن نے میثاق معیشت کی پیشکش کی ہے اس پر کوئی بات ہوئی ہے
مولانا فضل الرحمٰن:- جی بلکل اس پر ہماری بات ہوئی ہے اور اس پر ہماری پوزیشن بڑی صاف ہے۔
کہ یہ ایک تجویز ہے اس کا مخاطب حکومت نہیں ہے اس کا مخاطب ریاست ہے۔
وہ تو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں جو ذمہ دار ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر ہم ایک میثاق بنائے گے ؟
لہذا تصور صحیح ہے پاکستان کو اگر بچانا ہے آنے والے مستقبل کو اگر محفوظ بنانا ہے۔
تو معیشت کو ٹھیک کرنا ہو گا اور معیشت اس وقت اس حد تک ڈوب رہی ہے۔
کہ ہچکولے کھا رہی ہے غرقاب ہو رہی ہے ایسے ماحول میں ایک تجویز ہے ایک نئے فلسفے کی ، کہ جہاں پہلے میثاق نیشنل ایکشن پلان تھا اب کیوں نہ نیشنل اکنامک پلان معرض وجود میں لایا جائے۔
صحافی:- آپ نے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانا تھا لیکن آپ نے چیرمین سینیٹ کو ہٹانے کا آسان ہدف چنا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- یہ ابتدا ہے آغاز تو کریں گے نہ، یہ تو کبھی نہیں ہوتا کہ آج آپ نے اے پی سی کی اور کل حکومت گر گئی۔ آج آپ نے پلاننگ کرنی ہے آگے بڑھنا ہے۔
صحافی:- آپ کو بھی پتا ہے کہ بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں حکومت کی مرضی نہیں چلتی تو یہ مطالبات حکومت سے ہیں یا حکومت لانے والوں سے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھیں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو حکومت کے بس میں نہیں ہیں۔
اس پر ہمارا احتجاج ، ہمارے مطالبات ایک قرارداد کی صورت میں سامنے آتے ہیں عوام کے سامنے ایک چیز آ جاتی ہے۔

 

0/Post a Comment/Comments