قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا بدین ملین مارچ سے خطاب
24 فروری 2019
جناب صدر محترم، اکابر علماء امت، زعماء قوم، بزرگان ملت, شمع رسالت کے پروانوں, ناموس رسالت پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں آج یہاں ضلع بدین ٹنڈو غلام علی کے صحراوں میں اہلیان سندھ نے اور اس دھرتی کے عوام نے صحراوں کے وسعتوں کو تنگ کردیا ہے۔
اور تاحد نظر انسانوں کا اور اس سرزمین کے مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع اس بات کا عہد کررہا ہے کہ جب بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو اور جب بھی آپ کی ناموس رسالت کو ضرورت پڑے گی تو پھر یہ مجاہدین اور یہ مجاہد قوم اپنے جان کی قربانی دینے کیلئے میدان میں اتریں گے
میرے محترم دوستوں! گزشتہ عام انتحابات میں اور اس سے پہلے بھی ہمارے مینڈیٹ کو ہمیشہ چرایا گیا ہے۔ عوام کی تائید دنیا کو دکھائی گئی کہ پاکستان میں مذہب کا کردار ختم ہوچکا ہے مذہبی سیاست ختم ہوچکی ہے۔
پاکستان کے عوام نے علماء کے کردار کو ختم کردیا ہے تم نے گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کی بدترین دھاندلی کی جو ووٹ جیت چکے ہیں وہ بھی کہتے ہیں دھاندلی ہوئی۔
اور تم اور پیغام دے رہے ہو اور ہم نے پورے ملک میں ملین مارچ کرکے لاکھوں انسانوں کو ایک ایک اجتماع میں اکٹھا کرکے دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان میں اگر سیاست ہے تو مذہب کی سیاست ہے اگر کردار ہے تو مذہبی قوتوں کا ہے اگر سیاست ہوگی تو ہماری چلے گی ورنہ یاد رکھو پاکستان میں ہم کسی دوسرے کے بھی چلنے نہیں دیں گے ۔۔۔۔۔
ایک سنجیدہ پیغام ہے ہم پوری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں اسلام سے اور اسلام کے مجاہدوں سے مت الجھو ورنہ انجام وہی ہوگا جو آج افغانستان میں تمھارا ہوا ہے۔
اگر امریکہ زندہ باد کہلوانا ہے تو اسلام کے سامنے جھک جاو اگر امریکہ زندہ باد کہلوانا ہے تو یہ اجتماع امریکہ کو بھی پیغام دے رہا ہے کہ امت مسلمہ کے سامنے جھک جاو۔
ہم پاکستان کے وفادار ہیں اور پاکستان کی وفاداری کے ساتھ یہ بات شرط ہے اگر پاکستان میں اسلام کی حاکمیت کے ساتھ ہم سنجیدہ ہے تو پھر ہم پاکستان کی وفاداری کے معیار پر پورا اترتے ہیں اور اگر اسلام سے ہماری دلچسپی نہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ آپ کی وفاداریاں مشکوک ہے۔
آج اس ملک کی نظریاتی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا دس لاکھ مسلمانوں نے قربانیاں دی لاالہ اللہ کے نعرے ، ہزاروں خواتین قربان ہوئی انکی عزتیں نیلام ہوئی اسلام کیلئے ہوئی تھی اسٹیبلشمنٹ کی عیاشیوں اور ان کے اقتدار کیلئے نہیں ہوئی تھی تم نے ستر سال عیاشیاں کی ہے تم نے جبر کی بنیاد پر اس ملک پر حکومتیں کی ہیں اور آج بھی اس ملک پر جبر کا نظام مسلط کیا ہے ۔۔۔
جو لوگ جابرانہ حکومت کرتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستة لعنھم اللہ ستة لعنتھم ولنعھم اللہ وکل نبی مجاب۔
چھ لوگ ہیں جن کے اوپر اللہ لعنت بیجھتا ہے میں نے بھی ان پر لعنت بیجھی ہے ہر پیغمبر کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس میں پہلے آدمی کا ذکر کیا المتسلط بالجبروط جو جبر کی بنیاد پر قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اور یہ وہ آدمی ہوتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں اللہ نے جس کو ذلیل قرار دیا اسکو وہ عزت دیتے ہیں اور اللہ نے جن کو عزت والا قرار دیا انکو وہ ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
آج جو لوگ ہم پر مسلط ہے یا جو قوتیں جبراً ہم پر اپنے اقتدار کو مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سن لیں کہ اللہ کی بھی ان پر لعنت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی بھی ان پر لعنت ہے۔
یہاں پر باتیں کی جاتی ہے کہ اب پاکستان میں اسلام کی ضرورت نہیں ہے یہاں مدارس پر حملے کیے جاتے ہیں۔
مساجد کی تعمیرات روکی جاتی ہے ختم نبوت کے قانون کو تبدیل کرنے کی باتیں ہوتی ہے ناموس رسالت کے مرتکب لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے پاکستان میں،
ایسی صورتحال میں یاد رکھو ہم ایسی جماعت کی حکمرانی تسلیم نہیں کرتے کہ جس کی حکمرانی صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت ہے اور جس میں عوام کا کوئی دخل نہیں۔
جب تک عوام کو حق نہیں دیا جاتا کہ تبدیلی لائے تو عوام لائے، پبلک لائے گی، ووٹ لائے گا جمہوریت لائے گی۔
کیا وجہ ہے کہ آج جو جماعتیں جمہوریت کی بات کرتی ہے وہ بھی علی الاعلان یہ بات کررہی ہیں کہ اس الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔
کس کے لیے تم نے دھاندلی کی؟ نااہلوں کو قوم کے اوہر مسلط کرنے کیلئے؟ ریاست مدینہ بنا رہے ہیں شراب کی بوتل پر زم زم لکھ دو تو شراب زم زم بن جاتا ہے؟ ان کے ہاں تو شراب کی بوتل کو شہد کا بوتل کہا جاتا ہے
اتنی نہ بڑھا پاکی ئے دامان کی حکایت
ہم آپ کو جانتے ہیں ہم آپ کے حقائق کو جانتے ہیں تم نے ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش کی ہم نے ناکام بنا دیا۔
میں آپ کے سامنے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں سپریم کورٹ نے فیصلے دئے، کس دلیل کے بنیاد پر دیے۔ آئین اور قانون کے کس شق کا سہارا لے کر دیے ہمیں اس سے سروکار نہیں۔
ہمارا دعوی یہ ہے کہ فیصلہ جو بھی ہے جن الفاظ میں ہے جس حوالے سے ہے لیکن بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں ہے ہم بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ پھر آزاد پاکستان نہیں۔
تو اس اعتبار سے آج میرے دوستوں پوری قوم پر ایک کڑا وقت آ گیا یے کہ ہم پاکستان کی نظریاتی شناحت کا تحفظ کر سکے۔
اور ان شاءاللہ ہم نے کرنا ہے اللہ کی مدد سے کرنا ہے ان شاءاللہ، اور ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ جو جلسے اس وقت ہورہے ہیں ملین مارچ ہورہے ہیں ایک سے ایک بڑھ کر ہورہے ہیں۔
عوام ہے جو امڈتی آ رہی ہیں عوام کی آواز کو سن لو اور سمجھ لو اور اگر آپ ہماری اس شریفانہ آواز کو نہیں سمجھتے آئین کے دائرے میں اگر ہماری گفتگو کو آپ نہیں سمجھتے۔
تو پھر یاد رکھو ختم نبوت کا دشمن اور ناموس رسالت کا دشمن وہ پاکستان میں محفوظ نہیں رہ سکے گا ہم خود جا کر ان کے گریبان پکڑیں گے ان کا باپ بھی ہمارے عقائد پر جارحانہ حملے نہیں کر سکے گا۔
میں آج پھر کہنا چاہتا ہوں ہم ان کے نیٹ ورک روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہم ان کے مراکز کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن ہم آپ سے کہتے ہیں آپ کی اتھارٹی کو کہتے ہیں انہیں روک دو ورنہ ہمیں پھر روکنا آتا ہے۔
خدا کا واسطہ ہے پاکستان کو افغانستان مت بناؤ تم نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے پاکستان کی معیشت تباہ کر دی ہے آج تم بھیک مانگ رہے ہو اور بھیک مانگ کر تم چند دن گزارنا چاہتے ہو۔
مجھے پورا احساس ہے کہ کس کو وزیراعظم بنایا، کس کو. وزیر اعظم ہے نہیں ملک میں اور جو اصل حکمران ہے اسکا نام نہیں لے سکتے ہاں نکے دا ابا۔
دنیا میں مذاق بنا دیا ہے ایسے لوگوں کو ملک کے اقتدار کی کرسی پر بٹھانا یہ عوام کی اس کرسی کو بے توقیر کرنا ہے۔
سیاسی عہدوں کو بے توقیر کرنا ہے جی نہیں چاہتا کہ ان کو آدمی حکمران تسلیم کرے انگوٹھے لگانے کیلئے لے آئے ہیں تو یہ انگوٹھا چھاپ گورنمنٹ ہم پر مسلط ہے۔
مجھے کسی نے کہا کہ اتنی سادگی اختیار کر رہا ہے کہ وزیر اعظم ہاوس میں نہیں رہتا ایم ایس کے گھر میں رہتا ہے میں نے کہا اس کا لیول ایم ایس کے گھر کا ہے۔
ایسے حالات میں ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں انارکی پیدا ہو عوام کی تائید کے ساتھ ہم اس ملک کے نظام کے اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکمران ہو ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ اپنے عزائم سے واپس آ جاؤ ورنہ ہم گریبان پکڑ کر تمہیں واپس کریں گے ۔۔۔
میرے محترم دوستوں! بھیک کی بنیاد پر ملک نہیں چلتے اور نہ انڈے سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے انڈے رکھو اپنے گھر میں،
مذاق بنا دیا ہے تم نے قوم کو، ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جتنے دن تم نے حکومت کی ہے یومیہ پندرہ ارب روپے کے قرض لیے ہیں۔
روپے کی قیمت تاریخ میں اتنی نہیں گری جتنی آج گری ہے۔
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں باہر ملک سے جو درآمدات ہوتی ہے یعنی باہر سے جو چیزیں ہمارے ملک میں آتی ہے اس کے بدلے میں ہمارا ڈالر باہر جاتا ہے اس میں جہاں حلال اور حرام کا مسئلہ ہو گا کھانے پینے کی اشیاء ہو گی۔
اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم جن ممالک سے یہ چیزیں منگوائیں گے وہاں کا لائینسس ہونا چاہیے اور وہاں کا حلال سرٹیفیکیٹ ہونا چاہیے۔ آپ بتائے کہ اگر باہر کی دنیا کے کسی ملک مشینی ذبح حلال ہو تو وہ پاکستان میں آج نئے قانون کے تحت لانا جائز ہو جائے گا۔
پاکستان میں بلکہ برصغیر میں ہمارے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں، فقہ کی روشنی میں حلال اور حرام پر جتنا کام کیا ہے یہی ہمارے علماء کی اپنی تحقیق اور اپنا قانون اتھارٹی ہے۔
ہم اپنے ملک کے حرام و حلال کے فیصلے کی بنیاد پر باہر سے چیزیں منگوانا چاہتے ہیں باہر سے باہر کا لائینسس اور انکے سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر چیزیں منگوانا یہ پاکستانی قوم کو حرام چیزیں کھلانے کے مترادف ہیں
جب ہم اسمبلی میں تھے اس وقت بھی یہ قانون لایا تھا لیکن جب ہم نے دلائل دیئے پارلیمنٹ کے اندر، تو قانون روک دیا پھر سارا معاملہ حل ہو گیا آج پھر وہ ایک حکم کے تحت اس قسم کی چیزوں کی درآمد کے لئے فیصلے کر رہے ہیں۔
آپ کی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے اور آپ کی خارجہ پالیسی، آج اتنی شاندار خارجہ پالیسی ہے کہ ہندوستان تو ہے ہمارا دشمن، وہ بھی آج پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے سی پیک کے مسئلے پر چائنہ بھی ہم سے ناراض ہو رہا ہے۔
جس نے چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پاکستان میں اسکا پیسہ آیا لیکن آج ہم نے چھیالیس ارب ڈالر کو روک دیا ہم شکر گزار ہے سعودی عرب کے کہ انہوں نے ایک مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہمارا ایک دیرینہ دوست، عقیدے کا دوست ،حرمین کے رشتے سے وابستہ دوست ہماری مشکل کو دور کر رہا ہے۔
لیکن اب تک جو خبریں آئی ہیں باقاعدہ امداد کی شکل نہیں ہے یہ ایک ایم او یو ہے باہمی سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس کے سرمایہ کاری کے مواقع کا ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔
آیا ہوا پیسہ ہم نے روک دیا اور باہر کا پیسہ پتہ نہیں کب آئے گا کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک، ہم نے ملک کو کہاں کھڑا کر دیا۔ حیثیت ان کی یہ ہے کہ جب مہمان گاڑی میں بیٹھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ ڈرائیور کدھر ہے
افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کس سے مخفی ہیں ایران بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے تو ہمارے لئے قریب میں سمندر ہی رہ جاتا ہے۔
ایک بھی پڑوسی اس وقت پاکستان کا دوست نہیں۔ پاکستان کے خلاف ان کے رویے جارحانہ ہوچکے ہیں بس امریکہ بہادر کو خوش رکھنا ہے۔
امریکہ نے آج تک کسی کو کیا دیا؟ عراق اسکے ہاتھوں تباہ ہوا اور عراق پر جب حملے کئے گئے اور عراق کو برباد کیا گیا اس زمانے کا برطانوی ایک سفیر آج اعتراف کررہا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر وہاں حملے کیے ہم نے انسانیت کا قتل کیا اور آج میں شرمندہ ہوں کہ میں برطانیہ کا شہری ہوں۔
اپنے جرم کا اعتراف کیا انسانی جرائم کی مرتکب یہ قوتیں صرف انسانیت کا قتل کرنا جانتی ہے اور ہم ان سے آبادی کی توقع کرتے ہیں پیسے اور معیشت کی توقع رکھتے ہیں۔
گزشتہ ایک دو عشروں سے حساب لگا لے کہ دنیا کو انہوں نے پیسہ کتنا دیا ہے اور کتنی انسانیت کا قتل کیا ہے ملکوں کو برباد کرکے رکھ دیا اور بربادی کو آبادی کا نام دیتے ہیں۔
جنگ مسلط کی جاتی ہیں جنگ کو امن کا نام دیا جاتا ہے اور میڈیا کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ہم انہی کی اصلاحات کو مان لیں اور اس کو حقیقت تسلیم کریں۔
پوری انسانیت کو ،قوموں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے
خارجہ پالیسی آپ کی ناکام ہے آپ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں پرویز مشرف بھی کہتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بڑے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
یہ ہے جو ہمارا کل کا آرمی چیف ،اب اگر میں آج کے آرمی چیف کے بارے میں بات کروں تو ناراضگی ہو گی لیکن کل کا آرمی چیف پاکستان و اسرائیل کے وزراء کی ملاقاتوں کا اعتراف کررہا ہے۔ کہ یہ میں نے ملاقاتیں کروائی ہیں۔
آج حکومت نے جس شخصیت کو کشمیر کمیٹی کیلئے چیئرمین تجویز کیا ہے مقرر نہیں کیا تجویز کیا ہے اس کی اپنی اہلیہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھی تو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے اسی نے اسرائیل کے ساتھ رابطے کیے تھے۔ایسے لوگوں کو آج ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد کشمیر کو حوالے کیا جا رہا ہے۔
آج کی حکومت نے کشمیر کا مسئلہ خاموش کر دیا ہے گلگت بلتستان اور کشمیر کو تقسیم کیا جارہا ہے اپنے کشمیر کو ہم بھول رہے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں ایسے عقل و خرد پر تھو ہے۔
مسئلہ اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہونگے وہ نہیں ہے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اگر فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو آج ہم تسلیم کریں گے تو پھر سری نگر پر انڈیا کے قبضے کو آپ کیسے رد کہیں گے اور ناجائز کہیں گے کشمیر پر آپ کا موقف خود بخود تحلیل ہو جائے گا۔
قیام پاکستان سے پہلے جب قرارداد مقاصد پاس ہوئی تو قائداعظم نے ان قراردادوں میں کہا کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلیوں کے آبادیاں، بستیاں آباد کرنا یہ غلط ہے اور ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے اس وقت اسرائیل بنا نہیں تھا اگلے سال بنا۔۔۔
آپ بتائیں کہ آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باتیں کیا یہ قائد اعظم کے پاکستان کی گفتگو ہے؟ یہ قائد اعظم کے وارث ہیں؟ اور یہ اس کے پاکستان کی بات کرتے ہیں کہاں چلا گیا قائد اعظم کا پاکستان؟
آپ کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے کشمیر کو شہ رگ کہا لیکن آپ تو آج اس شہ رگ کو کاٹ رہے ہیں آپ تو تین دریائیں بیچ چکے ہیں اور جو آپ کی پاس ایک دو دریائیں رہ گئی ہیں ان دریاؤں پر ہندوستان نے 62 ڈیم بنا لئے ہیں۔ تم نے تو ایک ڈیم کا راستہ بھی نہیں روکا۔
اور اگر پاکستان میں بھی ایک آدھ ڈیم بن جائے تو سندھ والے پھر آرام سے بیٹھے رہے۔ یہ ہے قائد اعظم کی بات کرنے والے ؟
کشمیر پر ان کا موقف یہ ،کہتے ہیں سود کا نظام برقرار رکھنا یہ ناگزیر ہے ہمارے لیے، متبادل نہیں ،71سال گزر گئے ہیں جب پاکستان بنا اور قیام پاکستان کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تشکیل کی گئی۔
تو اس کے پہلے جلسے میں اور اس کے افتتاحی اجلاس میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم نے ملک کے نظام کو قرآن اور شریعت کے مطابق چلانا ہے مغرب کے سودی نظام میں ہمارے لیے سوائے جنگوں کے اور تباہیوں کے کچھ نہیں ہے۔
مغرب ہمیں جنگیں دے سکتا ہے مغرب ہمارے ملکوں میں آگ لگا سکتا ہے فساد برپا کر سکتا ہے ہماری معیشت کو بہتر نہیں کر سکتا ہم نے 70 سالوں میں پاکستان کے وسائل کو استعمال نہیں کیا ہم نے قرضوں پر پاکستان کو چلایا۔
آج بجائے اس کے ہم تبدیلی لائی اور کچھ بہتری کی طرف جائے ہم قرضوں سے آگے چلے گئے بھیک مانگنے کی طرف، اب آپ بتائیں بجائے اس کہ ہم اپنے ملک کے وسائل کی طرف جائے اور ملکی وسائل کو بروئے کار لا کر اپنے ملک کی معیشت کو بیرونی انحصار سے آزاد کر دیں۔
ہم قرضوں سے بھی نیچے آ گئے اور قرضے کے بجائے ہم بھیک مانگنے پر آج پاکستان کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کل تک آپ کیا کہتے رہے اور آج کیا کر رہے ہیں اس طرح ملک چلایا جاتا ہے؟
تو میرے محترم دوستوں! یہ بات بڑی واضح ہے آج ہم نے غریب پاکستانی کی آواز بننا ہے مہنگائی کے پہاڑ توڑ دئے گئے ہیں اس غریب قوم کے اوپر۔
عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے کون آواز اٹھائے؟ ہماری جو بڑی پارٹیاں کہلاتی ہیں وہ تو مصلحتوں کا شکار ہیں۔
قوم کے سامنے اصول اور اصولوں کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن رکاوٹ ان کی اپنی ذاتی مشکلات ہوا کرتی ہیں ہم نے ضروری سمجھا کہ ہم اپنی ذاتی ضرورتوں اور مفادات اور مصلحتوں سے بالاتر ہو کر میدان میں اتریں اور اس غریب اور پسماندہ قوم کے آواز بن جائیں اس مظلوم قوم کے آواز بن جائیں۔
میرے سندھ کے دوستوں! آپ نے سکھر کے ملین مارچ میں ہمیں تائید بخشی آج آپ نے ضلع بدین میں اتنے بڑے اجتماع سے آپ نے ہمارے موقف کو تائید بخشی ہے ہم یہ سفر جاری رکھیں گے۔
ان کا خیال یہ تھا کہ ایک دو ملین مارچ ہو جائیں گے ان کے پاس نہ پیسہ ہے نہ ان کے پاس کوئی طاقت ہے مایوس ہوجائیں گے اور چھوڑ جائیں گے یہ کام ، لیکن آج ساتواں ملین مارچ ہے اور إن شاء الله العزيز آپ کے اس ملین مارچ کے بعد 28 فروری کو نصیر آباد ڈویژن میں ملین مارچ ہو گا إن شاء الله شاید تین دن کے بعد۔
بڑے دور دراز کے علاقے ،جہاں لوگ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو اتنے دور دراز علاقوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے ہم نے کہا ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جلسے بڑے بڑے شہروں کی بنیاد پر آباد نہیں ہوتے ہم نے صحراؤں کے دامن کو تنگ کر دینا ہے۔
ہم بلوچستان کے ریگزاروں کی طرف جانا چاہتے ہیں اس کے بعد إن شاء الله العزيز 24 مارچ کو ہم فاٹا میں ملین مارچ کریں گے إن شاء الله ،میران شاہ میں ہم ملین مارچ کریں گے انشاءاللہ اور 31مارچ کو ہم پاکستان کے شاہینوں کے شہر سرگودھا میں ملین مارچ کریں گے ان شاء اللہ، باقی اعلانات بعد میں کیے جائے گے انشاءاللہ بعد میں ہوں گے یہ سفر اب رکنے والا نہیں یہ سیلاب اب تھمنے والا نہیں یہ حکمرانوں کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
اور یہ بات یاد رکھو، دو باتیں آپ سے لینا چاہتا ہوں اگر ہندوستان نے حملہ کیا تو بارڈر پہ جاؤ گے یا نہیں۔
إن شاء الله
انشاءاللہ ہم اپنے وطن عزیز کا دفاع اپنی قربانیوں سے کر سکتے ہیں ہندوستان نے کہا ہم سیالکوٹ میں ناشتہ کریں گے تو ہمارے ایک ساتھی نے آج جواب دیا ہے کہ ہمیں بھی دیوبند میں چائے پینے کا شوق ہے۔
میرے محترم دوستوں! دوسری بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اگر ہم نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا تو پھر آپ کیا کریں گے. پھر انشاء اللہ تعالی اسلام آباد کی سڑکیں اور گلی کوچے وہ تھم جائیں گے پھر وہ آپ کے کنٹرول میں ہوگا ان کے کنٹرول میں نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔
میرے محترم دوستوں! تو یہ وہ حالات ہے جس کے تحت ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور میں آپ کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ دور دراز علاقے اور صحراؤں کو آپ نے اپنے وجود سے آباد کیا انسانوں کا سمندر یہاں پر آیا اور آپ نے ہم پر اعتماد کیا اعتماد کا یہ سفر إن شاء الله جاری رہے گا۔
میرے محترم دوستوں! میں آپ سے اجازت چاہوں گا اس امید کے ساتھ کہ إن شاء الله کہ یہ سفر مل کر کریں گے اکٹھے کریں گے منزل کے حصول تک کریں گے اور پاکستان سے یہودی ایجنٹوں کو بھگا کر دم لیں گے۔
ان کے پاکستان میں رہنے کی جگہ نہیں ہو گی ہم ختم نبوت کے لیے اور ناموس رسالت کے لیے اور مدارس کے لیے پاکستان کی اسلامی شناخت کیلئے اور ملکی معاشی استحکام کے لیے اور قیام امن کیلئے اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور ساتھ سفر کریں گے اللہ رب العزت ہمارا حامی و ناصر ہو
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
ایک تبصرہ شائع کریں