قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتھم العالیہ کا چناب نگر 21 روزہ ختم نبوت کورس سے خطاب
27 اپریل 2019
حضرات علماء کرام ، عالمی مجلس ختم نبوت کے زعماء، میرے نوجوان ساتھیوں اور ختم نبوت اور شمع رسالت کے پروانوں۔
میں اپنے لئے باعث سعادت بھی سمجھتا ہوں باعث اعزاز بھی سمجھتا ہوں کہ اس مبارک محفل میں آپ کے ساتھ شریک ہو رہا ہوں۔
دن بھر کے طویل سفر کے بعد آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ظاہر ہے کہ میں اس مجلس اور اس مجلس کے موضوع کے حوالے سے شاید لمبی بات نہ کر سکوں۔
لیکن ایک بات کی طرف آپ حضرات کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
کہ ہماری جو ذمہ داری جناب رسول اللہ ﷺ نے متعین کی ہے۔ اور امت کے سپرد کی ہے وہ اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
اللہ کی بات کو سر بلند ہونا چاہیے۔ بڑی سے بڑی طاغوتی قوت ، اگر وہ اس آواز کو دبانا چاہے ، اس کلمہ کو کمزور کرنا چاہے، اس کو اپنے ماتحت کرنا چاہے
تو امت پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی بلندی اور اعلاء کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور اس مقصد کو اپنے لئے اس طرح فرض سمجھے جس طرح اپنے لئے وہ پانچ نمازوں کو فرض سمجھتا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ ہماری پوری اسلامی تاریخ میں کشمکش اسی بات پر رہی اور یہ کشمکش آج بھی ہے اور آنے والے حالات میں رہے گی
لیکن ہم نے بھی اپنا فرض نبھانا ہو گا ہم آزمائشوں ہو دعوت نہیں دیتے۔ اور جناب رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات بھی یہی ہے کہ آزمائشوں کو دعوت نہ دیا کرو لیکن اگر مقدر ہو آ جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو۔ پھر بزدلی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللّٰہ کا ایک چھوٹا سا مقولہ ہے کہ اسلام اور بزدلی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
اب اس حوالے سے ہم اپنے پس منظر کو سمجھتے ہیں ، جس برصغیر میں ہم رہتے ہیں اس برصغیر کی تاریخ پر ہم نظر رکھتے ہیں۔ ہماری تاریخ کا سب سے اہم مسئلہ وہ ہماری آزادی کا تھا۔
اور ہمارے اکابر تھے کہ جنہوں نے انگریز کی غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ، حضرت امام ولی اللہ رحمہ اللہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا۔
ہم پر غلامی کو مسلط رکھنے کے لئے انگریز نے کون کون سے طریقے اختیار کئے ، انہوں نے ہندوستان کے عمومی مزاج کا مطالعہ کیا۔ اور انہوں نے تمام تر مطالعے کا خلاصہ یہ نکالا کہ جب تک مسلمان کے سینے میں قرآن ہے اور جب تک ان کے اندر ان کا دین موجود ہے۔
ہم یہاں پر اپنا قبضہ مستحکم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ سب سے پہلا حملہ جو انہوں نے کیا وہ ہماری تعلیم پر کیا۔
اور انگریز حکمران نے ہمارے ہی مسلمانوں کی خدمات حاصل کر کے جو پہلا تعلیمی ادارہ قائم کیا اور جس کو ایک نیا نصاب تعلیم عطا کیا۔ اس سے قرآن کو ، حدیث کو ، فقہ کو ، فارسی کے علوم کو خارج کیا۔
تا کہ آنے والی نسلوں کے اندر سے قرآن کی اور اپنے دین کی معرفت ختم ہو جائے۔
اور دین اسلام کی قیامت تک بقا ظاہر ہے کہ اس کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے۔ چنانچہ حقیقی دین کو منسوخ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اور ایک شخص کی خدمات حاصل کی گئی اور اس نے دعوہ نبوت کیا اور کہا کہ اب میں نئے سرے سے آپ کو شریعت دے رہا ہوں۔
یہ دو فتنے اس وقت یہاں پیدا کر دئیے گئے اب ایک بات یہاں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور یہ معاملہ آج بھی آپ کے سامنے ہے۔
کہ مقصد تو دین کا خاتمہ ہے مقصد تو دین کو مغلوب کرنا ہے۔ اور انسان کی اجتماعی زندگی سے مذہب اسلام کو نکالنا ہے۔ تا کہ نہ یہ اسلام ہماری خاندانی زندگی میں ہماری راہنمائی کے قابل ہو۔ نہ یہ ہماری معاشرتی زندگی میں ، نہ یہ ہماری اقتصادی زندگی میں ، نہ یہ ہماری عدالتی زندگی میں ، نہ یہ ہماری مملکتی زندگی میں ہماری راہنمائی کے قابل ہو۔ ہدف تو یہی تھا۔
باقی تو راستے ہیں ذرائع ہیں آپ کی تعلیم پر حملہ کرنا ، آپ کے تعلیمی نصاب کو ختم کرنا ، کیا آج وہ ادارے جن کو ہم دینی مدارس کہتے ہیں جامعات دینیہ کہتے ہیں کیا ان اداروں کے کردار کو ختم کرنے کے لئے بین الاقوامی قوتیں کام نہیں کر رہی؟
کیا ہمارے ملک میں ہمارے اپنے ریاستی ادارے ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ان کے منصوبوں پر عملدرآمد نہیں کر رہے؟
اب اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے لیکن انداز خیر خواہی کا اختیار کرنا۔۔۔
ہم چاہتے ہیں قومی دھارے میں شامل ہو جائیں ، مدارس کے فضلاء کو بھی روزگار چاہیے ، وہ بھی مختلف محکموں میں جائیں اور ملک کے لئے کردار ادا کر سکیں۔
ہم کہتے ہیں بات تو آپ کی اچھی ہے مدارس کے نوجوانوں کے لئے بھی ملک میں روزگار چاہیے۔
لیکن آپ کو آج ستر سال کے بعد یہ خیال کیسے آ گیا؟ جب پاکستان بنا، پاکستان کی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور اس وقت کی بیوروکریسی نے کیوں یہاں علماء اور مدارس سے رابطہ نہیں کیا؟
کہ اب تو انگریز بھی نہیں ہے اب تو ہندو بھی نہیں ہے۔
اب تو ہم صرف مسلمان ہیں اور مسلمانوں کی مملکت بن گئی ہے۔ یہ جو ہمارا تعلیمی نصاب تقسیم ہو گیا تھا۔ اور دو متوازی تعلیمی نصاب برصغیر میں کام کر رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے وہ متصادم تصور کئے جاتے تھے۔
آؤ اب ان کو قریب کر دیں۔ آؤ نصاب میں یکسانیت پیدا کر لیں۔
آپ لوگوں نے بجائے اس کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک متفقہ تعلیمی نصاب بنانے پر اپنی محنتیں صرف کرتے۔ آپ نے ہمارے ساتھ 70 سال تک وہی رویہ رکھا ہے جو رویہ 1857 کے بعد انگریز نے ہمارے ساتھ رکھا تھا۔
کیسے ہم آپ پر اعتماد کریں ؟ اور آج بھی آپ ہم سے ایسی حالت میں رابطے کر رہے ہیں۔ جب ہمیں بھی پتا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ اب امریکہ بہادر کا آپ کے اوپر دباؤ ہے۔
جب آپ اس دباؤ کے تحت میرے ساتھ رابطہ کریں گے پھر میں کیا سوچوں گا ؟ کہ اس کا ایجنڈا میرے لئے کیا ہے؟
تو اس اعتبار سے جب آپ کے اندر سے عقیدہ ختم ہو جائے گا۔ ایمانیات نہیں رہے گی تو پھر اس کے بعد آپ کی آزادی آپ سے چھین لی جائے گی۔
اب ختم نبوت کے حوالے سے انہوں نے ہمارے عقیدے پر براہ راست حملہ کیا۔ اور جب ختم نبوت کا انکار ہو۔ اور اس عقیدہ ختم نبوت کا جو بنیادی ایجنڈا ہے یعنی عقیدہ ختم نبوت کے انکار کا جو بنیادی ایجنڈا ہے وہ جہاد کا انکار ہے۔ تا کہ مسلمان کے اندر اپنے دین کی بقا کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ اور اس کو گھر بٹھا دیا جائے سلا دیا جائے۔
تو ظاہر ہے کہ اسلام کی آواز کو ختم کرنا ، اس کے کردار کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے ادارے بنائے۔
اپنی طرف سے ادارے بنائے اور ہمارے اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
اب ایسی صورت حال میں اگر ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم تو انہیں یہی کہتے ہیں کہ میرے مدارس سے جو نوجوان ہر سال فارغ ہوتے ہیں کوئی ایک لاکھ کے قریب تو فارغ ہوتے ہو گے لگ بھگ ،
اب یہ نوجوان جو ہمارے جامعات کے فارغ التحصیل ہیں ایک بھی ایسا نہیں جو سرکار کے دروازے پر کھڑا ان سے روزگار کی بھیک مانگ رہا ہو۔
ایک بھی نہیں۔ اور ان کی اپنی یونیورسٹیوں سے اور کالجوں سے گریجویشن کرنے والے نوجوان ، وہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔
انہیں تو روزگار دے نہیں سکتے۔ میرے اور آپ کے روزگار کی فکر ان کو ہو گئی ہے۔
مجلس میں قہقہے
بڑی ہمدردی ہے؟ لیکن اس ہمدردی کے پیچھے ہم جانتے ہیں کچھ عزائم ہیں۔ اور ان کو بھی وقت کا انتظار ہوتا ہے۔
20 سال تک انہوں نے کام کیا۔ این جی اوز کے ذریعے کیا ہم نے 20 سال پہلے این جی اوز کے خلاف قوم کو بیدار کرنے کی ایک تحریک چلائی تھی۔
ان کے ناپاک عزائم سے ہم نے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بہرحال اس کے پیچھے بین الاقوامی وسائل ، ہم غریب اپنے وسائل نہ ہونے کے برابر، انہوں نے ایک فضا بنائی 20 سال سے ایک بندے کو انہوں نے تیار کیا " یہ آنے والے مستقبل میں خوشحالیوں کی علامت ہے"۔
آنے والے مستقبل میں نوجوانوں کے روزگار کی علامت ہو گا۔ اور بڑے خوش نما قسم کے تصورات میرے ملک کے نوجوان کو دئیے گئے۔
اور تہذیبی لحاظ سے اس کو ننگ و ڈھرنگ کر دیا۔ وہ نظریہ بھی آپ کے سامنے آ گیا کہ نوجوان نسل کی نوجوان بیٹی وہ اب سرعام کہتی ہے میرا جسم میری مرضی ، میں ننگی رہو یا لباس میں رہو۔
خاوند سے کہنے لگی ہیں کہ آپ اپنے بستر کے لئے کسی اور کو تلاش کرو۔
یہاں تک ہم بے حیا ہو گئے ؟ بخدا میری شرافت اجازت نہیں دیتی کہ وہ مناظر آپ کے سامنے رکھ سکوں ، اس کی تعبیر کن الفاظ سے کروں، جو یہاں بازاروں میں سر عام کی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک میں اگر کرایہ کی گاڑیاں اپنا اشتہار دیتی ہیں تو کہتی ہیں کہ اگر تمہیں اپنے شوہر کے گھر نہیں جانا اور فرار کا راستہ اختیار کرنا ہے تو اب یہ گاڑیاں آپ کو فرار کروا سکتی ہیں۔
یہ تصور میرے نوجوان کو دیا جا رہا ہے؟
اس طرح میری بیٹی تشکیل دی جا رہی ہے ؟ اس طرح اس کو مستقبل بتایا جا رہا ہے؟
یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ تو ظاہر ہو گیا۔بہت کچھ تو ان کی زبانوں پر آ گیا ہے۔
اس ایجنڈے پر آپ لوگوں کی ذرا نظر ہونی چاہیے۔
مدارس پر حملے کئے گئے ، مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ، مدارس مشکوک ہیں ، مدارس کے اندر پڑھنے والے مشکوک ہیں، ان کے استاد مشکوک ہیں۔
اور پھر میرے ہی علماء کرام کو بٹھایا جاتا ، اور میرے ہی علماء کرام کے دستخطوں سے ایک پیغام مرتب کیا جاتا ہے جس کو فتوی کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ میرے ہی علماء کرام کے دستخطوں سے،
"کہ پاکستان مقدم ہے پاکستان کی وفاداری کا یہ مقام ہے ، پاکستان کی ریاست کا تقدس یہ ہے۔ کسی کو اپنے تئیں کوئی فتویٰ جاری کرنا، کوئی جہاد کی بات کرنا۔"
تو غلطی سے مجھے بھی ایک جلسے میں بلا لیا۔ میں نے کہا ہم جب سے پاکستان بنا ہے یہ ریکارڈ ہے ہمارا ، ایک ، دو ، تین اور 47 سے لے کر آج تک ہمارا ریکارڈ ہے
وفاداری کا کوئی مرحلہ کہ جس کی آزمائش پر پورا نہ اترے ہو ، نہیں ہے۔
میں نے ریاست کا اعتماد کیا ہے۔ میں نے ریاست کو احترام دیا ہے۔ لیکن ریاست مجھ پر شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ مجھے مشکوک قرار دے کر میرے خلاف قانون سازی کرتی ہے۔
مجھے مشکوک قرار دے کر یہ جواز پیدا کرتی ہے کہ کس طرح ان مدارس پہ ہاتھ ڈالا جائے۔
کبھی نینشل ایکشن پلان کے ذریعے سے ، کبھی فوجی عدالت کے ذریعے سے ، کبھی سی ٹی ڈی کے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی فورتھ شیڈول حرکت میں آتا ہے۔ اور فوکس صرف ہمارے مذہبی لوگ ہیں۔ مدارس ہیں مدرسین ہیں طلباء ہیں علماء ہیں آئمہ ہیں مساجد کے ، یہ لوگ ان کے نشانے پر آتے ہیں۔
تو میں نے کہا میں جب پر اعتماد کرتا ہوں۔ اور آپ ہر قدم پر مجھ پر شک کرتے ہیں۔ تو یہ تعاون اور معاونت ، میں نے کہا یہ دو طرفہ ہوا کرتا ہے۔ یکطرفہ کبھی نہیں ہوا کرتا۔
میں نے تم پر اعتماد کیا ہے تم بھی مجھ پر اعتماد کرو گے تو کام چلے گا ورنہ نہیں چل سکتا۔
آج پورے ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر چونکہ اب قادیانیت کے ساتھ جنگ پاکستان کی سرزمنین تک محدود ہے۔
پاکستان کے مسلمانوں نے اس فتنے کو دبوچا، تحریک چلائی ، ان کو پارلیمنٹ میں لائے، براہ راست مباحثہ کیا اور شکست کھانے کے بعد پارلیمنٹ نے کہا یہ اب مسلمان نہیں ہیں۔
تو پاکستان نے اس کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جھگڑا ہی پاکستان کا ہے۔ اس لئے ایسی حکومت پاکستان میں چاہیے کہ جہاں اس فتنے کو رعایتیں دی جا سکیں۔
اور آپ نے دیکھا جونہی یہ حکومت آئی کراچی میں پنجاب میں ہر طرف قادیانی نیٹ ورک متحرک ہوا۔
اور بین الاقوامی سطح پر ان کی کانفرنسیں ہوئی اور سب سے بڑی کانفرنس ان کی لندن میں ہوئی جس میں ان کے سربراہ نے شرکت کی اور انگریز حکومت کے ، وہاں کے ایک منسٹر نے اس میں شرکت کی۔
ساری چیز سامنے آ گئی۔ ارادے کھل کر سامنے آ گئے۔
پھر یہاں پر جس انداز سے ناموس رسالت کے توہین کے مرتکب لوگوں کو بری کیا گیا اس کے لئے ہماری عدالتیں استعمال کی گئی اس کے لئے ہمارے ملک کا قانون استعمال کیا گیا یہ ساری چیزیں کیا ہیں؟
تو آج مدارس کی اصلاح کے نام پر درحقیقت مدارس کے کردار کو ختم کرنا ہے۔
ابتداء بڑے معصوم الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں اور ان معصوم الفاظ کے اندر زہر گھلا ہوتا ہے۔
ان کے ایجنڈے کا زہر ہمیں نظر آتا ہے۔ اور ہم آپ کے اس میدان کے خادم ہیں ہمیں پتا چلتا ہے۔
ہمارے بھائی مولوی صاحبان کو شاید پتا نہ چلے لیکن ہمیں پتا چلتا ہے تو ہم بر وقت بتا دیتے ہیں۔
لیکن ہم غریب مولوی ہیں غریب مولوی کی اذان پر کوئی کلمہ نہیں کہتا۔
جب ہم کہتے ہیں آپ کو کہ اس بادل میں طوفان آ رہا ہے تو آپ نے ہماری بات پہ اعتماد نہیں کیا۔
لیکن جب طوفان آیا اور سروں پر اولے پڑے پھر فائدہ ہی کیا تھا ؟
طوفان نے آپ کو صحرا میں دبوچ لیا آپ کے پاس پناہ کی جگہ کیا ہے؟
تو آج جس مرحلے سے ہم گزر رہے ہیں آج بھی ہم اعلائے کلمۃ اللہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اور کمال یہ ہے کہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ جی ہم تو ریاست مدینہ بنا رہے ہیں
تو یہ ریاست مدینہ ہے۔
ہر جگہ پر مذاق بن گیا۔ لیکن کامیابی اور ناکامی اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔
کوئی حکمران پاکستان کی تاریخ میں اتنے مختصر عرصے میں ناکام نہیں ہوا جتنے کہ یہ نااہل ہمارے سامنے آئے ہیں۔
ہم نے جو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے حوالے سے ملین مارچ ملک بھر میں شروع کیے۔
ان کا یہ خیال تھا کہ یہ ایک دو کر کے مولوی صاحبان تھک جائیں گے۔ یہ جمیعت والے تھک جائیں گے۔
ہم سے بھی کارکن پوچھتا تھا کہ آگے کیا ہو گا؟
ایک دو تو ہم کر لیں گے پھر آگے کیا ہو گا؟
میں نے کہا یہ تیرا کام ہے ؟ آگے کیا ہو گا؟
"جو لوگ اللّٰہ کے راستے میں جہدوجہد کرتے ہیں ہم ان کے لئے راستے کھول دیتے ہیں"
آپ نیت ٹھیک کر لیں اور میدان میں نکلیں راستے اللہ بنائے گا۔
اب تک ہم گیارہ ملین مارچ کے چکے ہیں اور ہر ملین مارچ ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب۔
عوام کی اتنی بڑی شرکت پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔
اور مجھے آپ لوگوں کی فکر ہے کہ جب یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا اللّٰہ کامیابی سے مکمل کرے تو پھر ہم بڑا جلسہ بھی کریں گے تو آپ کہیں گے مزہ نہیں آیا۔
اور ان شاءاللہ رکے گی نہیں، یہ تحریک اسلام آباد پہنچے گی اور اس سے پہلے مستعفی ہو جائے ورنہ اسلام آباد کی سڑکوں پر آخری جنگ کھیلی جائے گی۔
شرکاء کے جذباتی نعرے
میرے جوانوں بس! میری بات سنو
شرکاء کی طرف سے مسلسل نعرے بازی
میں آپ کو ایک اطمینان دلانا چاہتا ہوں ، کہ مدارس کے خلاف جو ان کا پروگرام تھا الحمدللہ رک گیا ہے اب زیادہ طاقت سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ختم نبوت کے حوالے سے جو ان کے ناپاک عزائم تھے اب صفائیاں پیش کر رہے ہیں ہمارا تو کوئی ایسا ارادہ نہیں۔
ناموس رسالت کے حوالے سے بڑا ہی مشکل ہو گا کہ اس کے بعد کوئی ایسی حرکت کر سکے یا کوئی قانون سازی کر سکے۔
کیونکہ ان کا مقصد ایک فرد نہیں ہے۔ قانون سازی ہوتی ہے۔ ایسے قوانین لانے کے لئے کوشش کہ جس سے آئندہ کے لئے تحفظ مل سکے۔
اور سب سے بڑی بات جو ان کا ایجنڈا تھا وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا تھا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا ، فلسطینیوں کی سرزمین پر صیہونی قبضے کو تسلیم کرنا ہے۔
اب عرب سر زمین پر یہود کا قبضہ اور جناب رسول اللہ ﷺ کا حکم یہ ہو کہ " جزیرہ عرب سے یہود کو نکال دو"
آپ ﷺ نے تو بھگا بھگا کر اور ان کا پیچھا کر کے جزیرہ عرب سے نکال دیا۔
اور امت کو حکم دیا کہ ان کو جزیرہ عرب سے باہر رکھو۔
اور ہم آج ان کو خود دعوت دیں کہ آئیں اور وہاں جا کر آباد ہو جائیں۔ یہ بات نہیں چلے گی۔
یہ ایجنڈا بھی اب اللّٰہ کے فضل و کرم سے ان شاءاللہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
اور اگر ہم تسلیم کرتے ہیں پھر جو مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ہے تو اس پر ہمارا موقف کیا رہ جائے گا؟ کیا حیثیت ہو گی اس کی ؟ یہ تو جیسے ہم نے کشمیر کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔
اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کی قیمت پر ہم اس کو چھوڑ رہے ہیں اس طرح کیسے چلے گا؟
تو ان شاءاللہ العزیز اسلام ایک دین زندگی ہے سربلند ہے اس کا جھنڈا سربلند ہے وہ آزادی کا متقاضی ہے آزاد معاشرے کا ، کسی بین الاقوامی دباؤ سے آزاد مملکت کا تصور ہے۔
اور جس میں ہمارے عقائد کا تحفظ ہو۔ لہذا فرنگی نے میرے مدرسے کو ختم کیا اور میرے اکابر نے اس کی بنیاد ڈالی اور آج بھی ہر محاذ پر دین کا تحفظ فراہم کر رہا ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کے انکار پر قادیانی جماعت بنائی گئی لیکن اس کے مقابلے میں علماء نے کام کیا اور آج بھی ان شاءاللہ العزیز علماء کی یہ صف زندہ ہے۔
تو ان شاءاللہ یہ جنگ لڑنی ہے یا نہیں لڑنی؟
مجمع کی طرف سے بآواز بلند " ان شاءاللہ"
پھر ایسا نہ ہو کہ موقع آئے پھر آپ کہیں کہ مجھے تو ذرا بازار سے سودا لینا ہے۔
مجمع کی طرف سے جذباتی نعرے
تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس محفل کو تروتازہ رکھے۔
تو یہاں پر جو بھی آپ کو پڑھایا جائے گا علمی اعتبار سے پوری طرح لیس ہو کر میدان میں آنا ہو گا۔
اور ان شاءاللہ العزیز اللہ کے دین کی خدمت کے لئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔
مشکلات آتی ہیں اللہ تعالیٰ اس جہدوجہد کی برکت سے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔
اور ہمیں مزید طاقتور بنائے۔ اور یہ جو ہمارے ملین مارچ ہو رہے ہیں۔ اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو دین کی قوت بنائے۔ اور دین کے غلبہ کا ذریعہ بنائے۔ اور بہت کامیاب بنائے اور اس کو محضر انسانیت بنائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں