دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی گفتگو
26 جون 2019
مجیب الرحمان شامی:- مولانا السلام علیکم
مولانا فضل الرحمن صاحب:- وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ شامی صاحب
مجیب الرحمان شامی:- حضور یہ بتائیں کہ یہ اے پی سی کے بارے میں تو یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ اس کو ملتوی کردیا جائے کیونکہ بجٹ میں کل کٹ موشنز جو ہیں وہ زیر بحث آنے ہیں۔ تو آپ نے اس سے اتفاق نہیں کیا اس کی کیا وجہ تھی۔
مولانا فضل الرحمن صاحب:- نہیں کوئی اتنی زوردار انداز سے التوا کی بات نہیں کی تھی۔ بس کوئی بات بیچ میں آگئی تھی۔ ہم دو تین لوگ آپس میں بیٹھے اور پانچ چھ منٹ کے اندر اندر یہ طے ہوا کہ نہیں 26 ہی کو ہوگی۔
مجیب الرحمان شامی: یعنی انہوں نے کوئی ڈھیلی ڈھالی بات کی آپ کے رفقاء نے
مولانا فضل الرحمن صاحب:- بس کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی نے بات کی کہ 26 کو کٹ موشنز ہوگے،ان پر ووٹنگ ہوگی۔ ہم ادھر ہوگے،ووٹنگ ادھر ہوگی تو ہم نے کہا یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے اور اس میں لیڈرشپ جو ہیں وہ اے پی سی میں موجود رہے اگر کوئی ایسی صورتحال بنتی ہے تو کچھ ارکان ووٹ ڈالنے کے لیے جاسکتے ہیں لیکن یہ 26،27،28 دو تین دن مسلسل کٹوتی کے موشنز آئیں گے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اگر ایک دفعہ اجلاس ملتوی کیا گیا تو اس سے تھوری سی زرا مایوسی بھی عام لوگوں میں پھیلی گی اور اس کی وزن میں بھی تھوڑی کمی آجائی گی۔
مجیب الرحمان شامی:- تو مولانا آپ تمام جماعتیں جو ہیں اپوزیشن کی، انہوں نے آپ کی دعوت قبول کرلی ہیں؟ یا ان میں سے کوئی ایسا ہے جس کو تردد ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب:- الحمداللہ، میرے خیال میں کوئی ایسا، ہمیں تو باضابطہ کسی نے جواب نہیں دیا ہے کہ ہم نہیں آئیں گے اور سب نے الحمداللہ یہی کہا ہے کہ ہم اس میں شریک ہوگے اور بھرپور انداز کے ساتھ ہوگے
مجیب الرحمان شامی:- ایک خبر آئی تھی کہ جماعت اسلامی شائد اس نے ابھی اتفاق نہیں کیا شرکت کے لئے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب:- حضرت جماعت اسلامی کے جناب لیاقت بلوچ صاحب سے میں نے بات کی تھی کہ اگر ایم ایم اے کی قائدین کو بلالیا جائے تاکہ میں ان کو اس ساری صورتحال کے بارے میں اعتماد میں لے سکوں تو ہفتے کے روز انہوں نے ڈیڑھ بجے بتایا کہ ہم میاں اسلم صاحب کے گھر اسلام آباد میں اکھٹے ہوگے جب میں وہاں گیا تو وہاں پر اور کوئی پارٹی نہیں تھی صرف جماعت اسلامی کی قیادت تھی اور ہم تھے۔ کوئی گھنٹہ، گھنٹہ ہم نے گزارا اور حالات، معاملات پر بات چیت ہوتی رہی۔ لیکن کسی قسم کا ایسا اشارہ کنایہ انہوں نے نہیں دیا کہ وہ شریک نہیں ہونگے۔ اب خبریں تو میں بھی دیکھ رہا ہوں لیکن اب معلوم نہیں ہے لیکن ایک بات ذہن میں رکھے شامی صاحب کہ جہاں ہم ہونگے، ہم ان کی نمائندگی پوری طرح کریں گے انشاءاللہ
مجیب الرحمان شامی:- تو کوئی حکومت کے جو اتحادی ہیں ان کو بھی آپ نے شرکت کی دعوت دی ہیں؟
صحافی:- یعنی اختر مینگل صاحب ہو، یا متحدہ کے دوست ہو
مولانا فضل الرحمن صاحب:- جہاں تک اختر مینگل صاحب کا تعلق ہے، اختر مینگل صاحب نے اپنے کچھ مطالبات کے بدلے میں ابتدا میں ووٹ دیا تھا ان کو، اور وہ کوئی باقاعدہ، باضابطہ ان کے اتحادی نہیں ہے۔ چنانچہ خود وہ تشریف لائے تھے میرے گھر پہ اور انہوں نے اس حوالے سے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ میڈیا کے سامنے بھی کہی تھی کہ جو مطالبات ہم نے حکومت بنتے وقت پیش کئے تھے ان کا تعلق حکومت سے تھا۔ آج اے پی سی جو چیزیں سامنے لارہی ہیں اس کا تعلق اپوزیشن سے ہیں اور ہمیں چونکہ اس سے اتفاق ہے تو اس میں شامل ہونے میں ہمارے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
مجیب الرحمٰن شامی:- مولانا آپ کا کل ایجنڈا کیا ہو گا کون کون سے نکات زیر بحث آئیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- حضرت یہ ظاہر ہے کہ نکات کا فیصلہ اے پی سی میں ہی ہو گا۔
اور تمام حضرات جب صورتحال پر اپنا اپنا جامع تجزیہ پیش کریں گے۔
ابتدائی طور پر تو 25 جولائی 2018 کے الیکشن کے فورا بعد تمام سیاسی جماعتوں نے ایک ہفتہ کے اندر اندر الیکشن کے حوالے سے یہ موقف اختیار کیا تھا۔
کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر ، ملک گیر پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
اور بدترین دھاندلی ہوئی ہے ہم اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔
الیکشن کمیشن کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اور ازسرنو الیکشن کرانے چاہیے۔
اور سب جماعتوں کا ایک اتحاد بھی اسی نام سے بنا کہ الائنس فار دی فری اینڈ فئیر الیکشن۔
بعد میں ایسے حالات آئے کہ وہ اکٹھ برقرار نہ رہ سکا۔
اب جب ہم دوبارا بیٹھے گے تو ایک تو ہمارے سامنے وہ موقف دوبارا سامنے آئے گا۔
اور اس پر ہم پھر اتفاق رائے برقرار رکھیں گے۔
دوسری طرف پھر کو اس حکومت کی نااہلی سے جو معیشت تباہ ہو رہی ہے۔
اور اس معیشت کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ تباہ ہو رہا ہے۔
اور ہمارے تمام ادارے متاثر ہو رہے ہیں عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
مملکت متاثر ہو رہی ہے ان تمام چیزوں کا ہمارے اکابرین احاطہ کریں گے اور اس پر ایک جامع موقف تیار کر کے قوم کے سامنے پیش کریں گے۔
مجیب الرحمٰن شامی:- گویا آپ نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- ظاہر ہے جی کہ نئے انتخاب کے بغیر تو پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
صحافی:- اچھا مولانا یہ فرمائیے گا حکومت کے خلاف کوئی تحریک بھی جنم لے سکتی ہے کل اس آل پارٹیز کانفرنس سے ، ایسا بھی کوئی ارادہ ہے۔
اور اس کی نوعیت کیا ہو گی کس قسم کے اقدامات ہو گے۔
وہ ایوان کے اندر یا ایوان سے باہر ، کیونکہ آپ نے تو اپنی جماعت کے ساتھ بڑے مارچ کئے ہیں۔
لیکن اپوزیشن باقی جماعتیں ہمیں نظر نہیں آئی۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- ظاہر ہے جو چیزیں کل آل پارٹیز کانفرنس میں زیر بحث آنی ہیں۔
اور اس کے نتیجے میں جو چیزیں ہم نے کل متعین کرنی ہیں۔
اس کا سوال آپ آج پوچھ رہے ہیں تو میرے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔
اور میں کہوں گا بھی نہیں۔ تو پھر اس کو میرا ذاتی خیال اور قبل از وقت ایک تبصرہ تصور کیا جائے گا۔
مجیب الرحمن شامی:- مولانا ایک بات تو ہو گئی نہ ہدف ایک ہو گئی حکمت عملی
تو ہدف کے طور پر نئے انتخابات آپ کے سامنے ہو گے، کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- دیکھیں اگر آپ مجھ سے بات پوچھتے ہیں تو میری بات تو بڑی واضح ہے۔
کہ اگر ہم نئے الیکشن ، فریش الیکشن ، فری اور فئیر الیکشن جب ہم نہیں مانگیں گے۔
تو ہم نے پہلے روز جب ایک واضح موقف قوم کے سامنے رکھا تھا تو ہم پھر قوم کو کیا جواب دیں گے۔
مجیب الرحمٰن شامی:- اچھا سوال یہ پیدا ہو گا جب منصفانہ الیکشن کی بات ہو گی تو گزشتہ الیکشن میں جو آپ کی شکایات ہیں
ان شکایات کو دور کرنے کا کیا میکنزم ہو گا کیا حکمت عملی ہو گی۔
اور جن عناصر سے آپ کو شکایات ہیں آپ کی شکایات دور کرنے کا کیا میکنزم ہو گا آپ کا اس حوالے سے کیا مطالبہ ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- دیکھیں کل جس وقت ہم پھر ایک موقف طے کر لیں اور اس کے لیے ایک حکمت عملی طے کر لیں۔
تو اسی میں میکنزم یہ سارا سامنے آئے گا کہ ہمیں شکایت کس سے ہے اور بات کس نے کرنی ہے۔
لیکن یہ ہے کہ ہمیں بہرحال شفاف الیکشن ، تا کہ یہ سمجھا جائے کہ جو پارلیمنٹ ہے یہ واقعی عوام کی نمائندگی کر رہی ہے۔
مجیب الرحمن شامی:- تو آپ جو حساس ادارے ہیں ان کے معاملات بھی زیر بحث لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- حضرت حساس ادارے ان سے تو ہماری کوئی جنگ نہیں ہے لیکن ہمیں شکایات اور گلے شکوے اپنی جگہ پر ہیں۔
لیکن دیکھتے ہیں کہ تمام جماعتیں پھر اسی حوالے سے کیا متفقہ موقف اختیار کرتی ہیں تا کہ پھر اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھ سکیں۔
مجیب الرحمن شامی:- ایک خبر یہ آئی تھی کہ بعض اہم راہنماؤں نے شاید آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔
تو کیا آپ آرمی چیف سے ملاقات کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ یا اس پر غور کر سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- میرے علم ابھی اس وقت ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
صحافی:- عام تاثر یہ ہے کہ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے آپ کی اس رائے کو اس وقت نہیں مانا۔
اور وہ پارلیمان میں جا بیٹھے ان الیکشن کو مان بھی لیا اعتراضات ضرور اٹھائے اب وہ پارلیمان کا حصہ بھی ہیں۔
تو یہ تاثر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی جو ہے وہ آپ کی رائے کو اس حد تک نہیں مانے گی کہ نئے انتخابات نئے سرے سے فی الفور کرائے جائیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- یہ تو کل جب ہم بیٹھے گے تو اس وقت ان کی رائے سامنے آئے گی۔ اس سے پہلے اس وقت تو میرے سامنے ایسی کوئی رائے نہیں ہے۔
مجیب الرحمن شامی:- حکومت کے بعض اتحادی اور بعض متعلقہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم آخری آپشن ہیں۔
اور اگر ہم نہ رہے تو یہ سیاسی عمل باقی نہیں رہے گا۔
تو یہ خدشہ ہے اس کو آپ کتنا حقیقی محسوس کرتے ہیں۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب:- سیاسی عمل باقی نہیں رہے گا اس سے مراد کیا ہے
یعنی یہ کہ پھر پارلیمنٹ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
اور مارشل لاء آ جائے گا۔
تو کیا ماضی بھی کوئی بھی مارشل لاء اس ملک میں سیاسی عمل کا راستہ روک سکی ہے۔
کیا ایوب خان کے زمانے میں تحریکیں نہیں اٹھی ، کیا ضیاء الحق کے زمانے میں تحریکیں نہیں اٹھی۔
کیا جنرل مشرف کے زمانے میں تحریکیں نہیں اٹھی۔
سیاستدان میدانوں میں نہیں تھے سیاستدان پھر اپنے مقاصد کے لئے تحریک چلاتا ہے جیل میں بھی جاتا ہے۔
پارلیمنٹ میں نہیں جائے تو پھر جیل اس کا دروازہ ہو جاتا ہے۔
تو یہ کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں اور دوسری بات یہ ہے
کہ ماضی میں جب بھی مارشل لاء لگا ہے تو یہ تاثر دیا کہ ہم نجات دہندہ بن کر آئے ہیں۔
لیکن آج تو ان تمام خرابیوں کا وہ ذمہ دار قرار دئیے جا رہے ہیں تو پھر کل اگر وہ ایسا اقدام کرتے ہیں۔
تو کون ان کو نجات دہندہ تسلیم کرے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں