قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز پر کیپیٹل ٹالک میں حامد میر کے ساتھ خصوصی گفتگو
20 نومبر 2024
حامد میر صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ السلام علیکم۔ کیپیٹل ٹاک میں خوش آمدید۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن میں جو سیاسی محاظرہ یہ ہے اس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کے علاوہ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ جو سیاسی جماعتیں ہیں وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کیا کردار ادا کر سکتی ہے، تو بہت سی سیاسی معاملات ہیں اس پہ گفتگو کے لیے آج ہمارے ساتھ موجود ہیں جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب، بہت بہت شکریہ مولانا صاحب۔
سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ مسلسل پاکستان کے مختلف علاقوں میں خاص طور پہ خیبر پختونخوا، بلوچستان میں حملے ہو رہے ہیں، دہشت گردی کے واقعات ہیں، آج بنوں کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا اس میں ایک درجن کے قریب فوجی جوان شہید ہو گئے، آپ کے خیال میں یہ جو معاملہ ہے کیا اس کا تعلق افغانستان سے ہے یا یہ ہمارے جو داخلی معاملات ہیں اس کی وجہ سے یہ حملے بڑھ رہے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا مسئلہ ہو مسلح گروہوں کا مسئلہ ہو ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد نائن الیون کے بعد ہی پڑی ہے، اور اس وقت سے پاکستان کے اندر اس کو پروان چڑھایا گیا ظاہر ہے جی کہ 14 سال تک افغانستان میں روس کے خلاف جو جہاد لڑا گیا اس نے ایک نیا ذہن بھی نئی نسل کو دیا اور اس میں صرف پاکستان یا افغانستان نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہم نے بلا کر اس جہاد میں شرکت کی دعوت دی اس کے مواقع فراہم کیے اور اس کے بعد ایک مستقل ذہنیت وجود میں آگئی کہ جو اسلامی انقلاب کے لیے اسلامی نظام حکومت کے لیے طاقت کے استعمال پر مبنی تھی جی۔ اب ظاہر ہے کہ مسئلہ تو صرف افغانستان کا تھا لیکن ہم نے جس طرح اس میں شرکت کی اس کے جو ذہن ہے اس کا جو فکر ہے اور صرف ذہن اور فکر ہی نہیں بلکہ اس کی عملی صورتیں پاکستان میں بھی وجود پذیر ہوئی، اور پھر ہم نے یہاں پر کسی حکمت عملی کے تحت اس کو روکنے یا اس کو تحلیل کرنے کا نہیں سوچا بلکہ ہم نے اس کو کشمیر تک پھیلانے کی کوشش کی حالانکہ کشمیر تک اس کو پھیلانا یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف تھا جی اور لیکن پھیلایا گیا شاید یہ سمجھ رہے تھے اس وقت کے حکمران کہ جو ہم لفظ جہاد سے وابستہ رہیں گے چاہے جس شکل میں بھی ہو جہاں بھی ہو تو اس پر شاید عوام میں ہمیں مقبولیت بھی حاصل رہے گی اور اس کا ایک تسلسل رہے گا لیکن یہ چیزیں ہمیشہ جو ہیں وہ اس کے منفی اثرات پھر پائیدار ہوتے ہیں اور اس کے جو مثبت اثرات ہوتے ہیں وہ ناپائدار ہو جاتے ہیں جی، اب بالکل شکل ہی بدل گئی کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اسی طرح ایک فریق بن کر افغانستان پر اترا جس طرح کے روس ایک زمانے میں اترا تھا اور پھر ہم نے یہاں پر ان کو اڈے دیے، ہم نے اپنے فضائے ان کو دی اور ہمارے ہی اڈوں سے جہاز اڑتے تھے اور افغانستان میں وہ امارت اسلامیہ یا افغان طالبان ان پر وہ بمباری کرتے تھے، تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے اندر بھی ایک ذہن موجود تھا جوانوں کا کہ جو طالبان حکومت کی حمایت کر رہا تھا اور اس کے حق میں پرجوش تھا اور جمیعۃ علماء اسلام بذات خود ان کی سیاسی حمایت کر رہی تھی ہر چند کے ہم وہاں کے کوئی مسلح جنگ میں شریک نہیں تھے نہ ہماری تنظیم کوئی مسلح تنظیم ہے بلکہ ہم تو اس سے بہت دور بھاگتے ہیں لیکن بہرحال ایک سپورٹ ضرور اس چیز کو مل رہی تھی لیکن جنرل مشرف صاحب ایک بات سننے کو تیار نہیں تھے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہی وہ ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے میں امریکہ کی نظر میں مقبول ہو جاؤں گا ورنہ وہاں پر تو ڈیموکریٹس کی گورنمنٹ ہے وہ تو یہاں مجھے آمر اور ڈکٹیٹر اگر ڈیکلیئر کر دیں گے تو پھر تو میری کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی عالمی سطح پر جی، انہوں نے اپنی مفادات کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اس میں ایسی کودے کہ آج تک ہماری جانوں سے نہیں چھوٹ رہی ہے۔ اب ظاہر ہے جی کہ 20 سال تک افغانستان میں امارت اسلامی اور امریکہ کے درمیان جنگ رہی ہے، وہ 14 سال تھی تو یہ پھر اب 20 سال تک رہی ہے، اور وہ بھی اس طرح نتیجہ خیز ہوئی کہ دنیا کو ایک تاثر ملا کے مسلح لوگ جیت گئے امریکہ کی قوت جو ہے شکست کھا گئی اور وہ بھاگ گئی وہاں سے اس سے جی، اس سے ظاہر ہے کہ دنیا میں جہاں پر بھی جہادی ذہن تھا اور جو مسلح ذہن تھا ان کے حوصلے بڑے ان کا مورال اونچا ہوا اور اب صورتحال یہ تھی کہ افغانستان میں نئی حکومت کے بعد کیونکہ پاکستان میں کہ ایک بات پر اتفاق تھا کہ واحد امارت اسلامیہ یا تحریک طالبان افغانستان ہی وہ قوت ہے جس کو افغانستان کے اندر پرو پاکستانی کہا جاتا ہے جی، باقی جتنی بھی تنظیمیں رہی ہیں وہ کچھ وقت تک تو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے لیکن بالآخر وہ انڈیا کے ساتھ انگیج ہو جاتے تھے اور وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف چلتے تھے۔ تو اب اس صورتحال میں ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا، اس میں ہمیں سفارتی ذرائع استعمال کرنی چاہیے تھے ہمیں اس میں سیاسی ذرائع استعمال کرنے چاہیے تھے اور افغانستان اس نئی امارت کی حکومت میں ایک کھلا میدان بن گیا معاشی طور پر تجارتی طور پر کاروبار کے طور پر اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن ہمارے ہاں کوئی پالیسی ساز ادارہ تو نہیں ہے۔۔۔
حامد میر صاحب: لیکن آپ تو گئے تھے افغانستان آپ کی ملاقات بھی ہوئی تھی ملا ہیبت اللہ صاحب سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: وہ ایک الگ موضوع ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان امارت اسلامیہ نے مجھے دعوت دی اور مجھے کہا کہ آپ ایک وفد کے ساتھ اگر افغانستان تشریف لے آئیں تو چونکہ ہم ان کے حامی رہے ہیں مسلسل اور میں ان کے فتح کے بعد افغانستان نہیں گیا تھا تو انہوں نے ایک دعوت بھیجا اور میں ان کی دعوت پر اپنی جماعت کے نمائندگی کرتے ہوئے اپنی کپیسٹی میں وہاں چلا گیا علماء کرام کی ایک وفد کو لے کر جی لیکن میں نے سوچا کہ جب میں افغانستان جا ہی رہا ہوں تو میں ملک کے لیے کچھ حاصل کیوں نہ کر سکوں جی، ویسے تو وہاں جاؤں گا پروٹوکول بھی ملے گا عزت بھی ملے گی کھانے بھی اچھی ملیں گے اور اچھی خوبصورت گفتگو بھی ہوتی رہے گی لیکن اس سفر کو میں اپنے ملک کے لیے مفید کیوں نہ بناؤں، چنانچہ میں نے یہاں کی وزارت خارجہ سے بھی رابطہ کیا پھر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں آگئی اور ایک جامع مشاورت کے ساتھ ہم لوگ وہاں گئے، ہم معلوم کیا کہ کیا مسائل ہیں اس وقت ان پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان جی، آپ حیران ہوں گے حامد میر صاحب جس دن ہم وہاں گئے تو ہمیں سب سے پہلے عشائیہ دیا ملا عبد الکبیر صاحب نے جو نائب وزیراعظم ہیں جی اور انہوں نے بہت عالی شان قسم کا پروٹوکول ہمیں دیا انہوں نے جی، انہوں نے اپنی گفتگو جو کی وہاں پر جو 20 منٹ 25 منٹ لگ بھگ کی تقریر تھی انہوں نے وہی نکات اٹھائے کہ جو نکات ہم اپنے ذہن میں لے کر گئے تھے جی اور میں نے ان سے کہا کہ آپ کی تقریر سے جو یہ چار یا پانچ نکات سامنے آرہے ہیں، افغانستان میں جب بھی ہم گفتگو کریں گے یہی ہمارا ایجنڈا ہوگا اور اس میں جامع دو طرف تعلقات پر بات کرنا چاہتے تھے صرف ایک ٹی ٹی پی یا اس حوالے سے کوئی ایجنڈا ہمارا نہیں تھا بلکہ وہ بھی اس کی بھی بشمول ایک جامع پروگرام اس میں ہم مہاجرین کے موضوع کو بھی سامنے رکھے ہوئے تھے، ہم سرحدات کے مسئلے کو بھی سامنے رکھے ہوئے تھے، ہم تجارت کے مسئلے کو بھی سامنے رکھے ہوئے تھے، ہم ٹی ٹی پی کے مسئلے کو بھی سامنے رکھے ہوئے تھے، تو ایک جامع قسم کا ایک نکات ہم لے کر وہاں گئے اور ایک ہفتہ ہم نے وہاں گزارا اور ان تمام چیزوں پر ہم نے بڑی تفصیلی گفتگو کی مختلف فورمز پر اور ہم نے وہاں ایک اتفاق رائے حاصل کر لیا جی، کوئی ایسا نکتہ نہیں رہا کہ جو ہمارے ذہن میں تھا ہم بطور ایجنڈا اس کو لے کر گئے اور ہم نے اس پر حاصل نہیں کیا ہو جی، واپس آکر پھر ہم نے یہاں پر ساری رپورٹ کی اور بڑی تفصیل کے ساتھ ہم نے ایک ایک نکتہ یہاں پر ان کو بتایا پھر اس کے بعد یہاں مجلس موجود تھی بڑے لوگوں کی اس میں کوئی 15 منٹ 20 منٹ کے درمیان ان کے سوالات بھی میں سنتا رہا ہوں میں اس کے جوابات بھی ان کو دیتا رہا ہوں اور بالآخر انہوں نے مجھے اپریشییٹ کیا اور کہا کہ بہت ہی کامیاب آپ کا دورہ رہا ہے اور یہ بہت سی چیزیں حل ہو گئی ہیں اس میں جی، پھر یہ بھی انہوں نے سوال کیا مجھ پر کہ اس کا میکنزم اب کیا ہوگا تو میں نے کہا کہ یہ تو سٹیٹ ٹو سٹیٹ معاملہ ہے یہ تو آپ نے بنانا ہے ہاں جہاں پر آپ کو ہماری ضرورت پڑے گی تو ہم ضرور اس میں تعاؤن کریں گے ملک مفاد کے لیے ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، ہم بہت کچھ حاصل کر کے آئے بڑی اچیومنٹس ہم نے وہاں سے لی لیکن جب اس کے بعد الیکشن ہوا تو خدا جانے کیا نظر ہمیں لگی یا کس کی نظر لگی لیکن ایسی بدترین دھاندلی ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور شاید اس میں اسٹیبلشمنٹ کہ وہ عناصر شامل تھے اسٹیبلشمنٹ کے اندر کہ وہ ذہنیت شامل تھی جو نہ تو افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی بہتری چاہتے تھے اور نہ ہی وہ پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام کی صورت میں کسی ایک سیاسی قوت کو پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتے تھے ایک قوت کے ساتھ جی، انہوں نے پھر جو کھیل کھیلا چاہے وہ بلوچستان میں کھیلا چاہے سندھ میں کھیلا چاہے خیبر پختونخواہ میں کھیلا وہ سب اپنی جگہ پر تو وہ ایک ناراضگی کا باعث بنا اور ہم ہر چند کے پی ڈی ایم میں تھے میں پی ڈی ایم کا سربراہ تھا لیکن جو کچھ ہوا اس کے بعد پھر میں ایسی حکومت میں بیٹھنے کے لیے اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھ رہا تھا۔
حامد میر صاحب: تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو طے کر کے آئے تھے ان کو یہ حکومت اگر وہیں سے دوبارہ شروع کرے تو افغانستان کے ساتھ معاملات طے ہو سکتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میں تو اب بھی سمجھتا ہوں کہ کچھ بھی ہاتھ سے نہیں کیا اگر ہم واقعی ان روٹس کو اپناتے ہیں کہ جو روٹ مسئلے کا حل ہو، مجھے آپ بتائیں جی جنگ کے ذریعے کون سا مسئلہ حل ہوا ہے؟ کہیں نہ کہیں جا کر آپ کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے اس میں ایک نظریاتی پہلو بڑا مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے لیول پر پاکستان کو عالمی سطح پر مقبول سٹیٹ بنانے کے لیے اس کو سیکولر بناتے چلے جا رہے ہیں جی تاکہ مذہب سے رشتہ جو ہے وہ پاکستان کا کمزور نظر آئے اور ہم امریکہ اور مغرب کی دنیا میں اچھے نظر آجائیں جی، اب یہاں پر اس نظریے کے تحت سوچنا میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تنگ نظری ہے اور ایک بڑا نچلی سطح کا ایک تصور ہے، کہ جس کو اتنے بڑے لیول پر مملکتی لیول پر اٹھانا سوچنا یہ چاہیے ہمیں کہ ہم اپنے ملک کی امان و امان کے لیے کیا کر سکتے ہیں اور امن و امان آپ کو زمین مہیا کرتی ہے اقتصادی ترقی کے لیے، اگر امن و امان نہیں ہے تو آپ اقتصادی طور پر اوپر نہیں جا سکتے جی چنانچہ ہم اس تذبذب میں ابھی تک مبتلا ہیں کہ ہمارا نظام معیشت مغرب سے وابستہ ہو یا ہم دوبارہ ایشیا کو دنیا کی عالمی معیشت کا مضبوط گڑ بنائیں اور معاشی قوت اپنے ہاتھ میں لیں ہر چند کی اس کی قیادت جو ہے وہ اب روس نہیں کرے گا چائنا ہی کرے گا لیکن چائنہ پاکستان کا دوست ہے ہم اپنے اس 70 ، 72 سالہ جو دوستی ہماری تھی اور جو صرف دوستی تھی اور لوہے سے مضبوط تھی اور سمندر سے گہری تھی اور کوہ ہمالیہ سے اونچی تھی اور شہد سے میٹھی تھی اس کو ہم نے ایک اقتصادی دوستی میں تبدیل کیا اور سی پیک اس کا ابتدائی مظہر تھا اور بڑا کامیاب مظہر تھا بہت بڑا اقدام تھا جی لیکن ہم وہاں پر بھی ملک کے اندر ایسے ایسے ایجنڈے لے کر آئے کہ جہاں آج چین بھی ہمارے اوپر اعتماد نہیں کر رہا، ہمارے ہاں جو سرمایہ کاری سعودی عرب نے کی تھی یا عرب امارات نے کی تھی وہ بھی مایوس ہو گئے ہیں، ہم ان دوستوں کو جو پاکستان میں شوق رکھتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کریں دوڑ کر آنا چاہتے ہیں ان کو تو ہاتھ لگائے ہوئے ہیں اور جن لوگوں سے ہمیں امید وابستہ ہے وہ ہمیں ہاتھ لگائی ہوئی ہے کہ آپ آگے نہ بڑھیں آپ آگے نہ بڑھیں جی، تو جو ہمارا تعاؤن کر رہے ہیں ان کو ہم روک رہے ہیں کہ آپ ہمارا تعاؤن نہ کریں جی اور اگر وہ کرتے بھی ہیں تو اس کا اظہار کرنا بھی ہمارے ملک کے لیے مشکل ہو رہا ہے جی اظہار بھی نہیں کر پا رہے، تو اس قسم کی چیزیں جب تضادات میں ہمارا سٹیٹ جو ہے وہ ملوس ہوگا تو یہ نتائج آپ اب دیکھ رہے ہیں کہ کیا آپریشن جو 2010 میں شروع ہوا اور زرداری صاحب کی حکومت تھی وہ بھی یہ مسئلہ پارلٹمنٹ میں لائے پارلیمنٹ میں تو گفتگو ہوئی اور ہماری صدا جو ہے وہ بصارت ثابت ہوتی رہی ہر چند کے ہمارے دلائل تھے ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن چونکہ اب حکومت وہ، اسٹیبلشمنٹ وہ، دفاعی قوت وہ، سارا ذمہ داری دستوری لحاظ سے ان پر عائد ہو رہی تھی ہم تو ایک مشورہ ہی دے سکتے تھے ہم نے کہا جی آپ جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے تحفظات اپنی جگہ پر ہوں لیکن ہمیں امن چاہیے پاکستان کے عام آدمی کو جب امن ملے گا ہم آپ کو سرائیں گے کہ آپ نے صحیح کر دیا۔
حامد میر صاحب: اب یہ جو بلوچستان میں ایک فوجی اپریشن کا فیصلہ ہوا ہے ایپکس کمیٹی نے کل فیصلہ کیا، اس کے کوئی مثبت نتائج نکلیں گے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میں تو یہ سوچ رہا ہوں نا جی کہ کیا اب تک جو ہم جنگ لڑ رہے ہیں وہ نتائج کے لحاظ سے ہمارے لیے کافی نہیں ہے کہ ہم اس بات پر سوچیں کہ 20 سال سے ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ جنگ بھی ہمارے وسائل محدود ہیں حضرت جی، ہم ملک میں طول و عرض میں پھیل کر اپنی جنگ کو اپنے فوجوں کو پھیلا کر شاید یہ جنگ اس طرح نہ جیت سکیں جی، نئے نئے قوتیں پیدا ہوتی ہوں گی نئے نئے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور جو اس ملک میں امن چاہتے ہیں یا مسلح جنگ سے گریز کر رہے ہیں یا مسلح جنگ کے خلاف بات کرتے ہیں وہ گردن زدنی ٹھہریں گے نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے جمہوریت کے حوالے سے پارلیمنٹ سے کہا کہ آپ اسلامی قانون سازی شروع کر دیں تاکہ کم از کم مذہبی دنیا جو ہے اس کو اس کی تشنگی دور ہو اس کو اطمینان حاصل ہو تو آپ کی جمہوریت بھی مستحکم ہوگی اور ملک کے اندر جو ہے وہ ہم سمجھیں گے کہ پارلیمنٹ راستہ ہے اسلامی قوانین کے نفاذ کا مملکت کو اسلامی بنانے کا ورنہ اس طریقے سے تو وہ اپنی موقف جو ہے دنیا سے منوا لیں گے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار جائے گا جی، تو اس وقت تو صورتحال یہی ہے کہ پارلیمنٹ اس ملک کے اندر اس ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی مملکت بنانے کے لیے کوئی پیشرفت نہ کر سکی ہے نہ ہمارے پارلیمنٹ میں ایسی پارٹی آتی ہیں کہ جن کو اسلامی نظام سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے، ویسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے ہمارے ایوان کو۔۔۔۔۔
حامد میر صاحب: لیکن آپ نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جو سود کا معاملہ ہے اس میں ایک شق تو شامل کروالی۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میں عرض کررہا ہوں نا جی کہ یہ کیسے ہوئی جی، یہ تو اللہ کی مرضی ہے جی ہمارا کوئی کمال نہیں ہے جی، ہمارے حجم کو تو انہوں نے پچھلی اسمبلی کی نسبت کم کرنے کی کوشش کی آدھے سے بھی کم پہ لے آئے جی لیکن وہی تھوڑی سی قوت ان کے لیے مصیبت ثابت ہوئی کیونکہ دو تہائی اکثریت ہمارے بغیر بنتی نہیں تھی نہ قومی اسمبلی میں اور نہ سینیٹ میں تو بالآخر انہوں نے پھر پارٹیوں کے اندر سے بندے جو ہیں چوری کرنے تھے اور پھر لوٹوں کے ووٹوں سے انہوں نے یہاں پر نظام بنانا تھا، ہم نے اس کتاب کے اوپر بیٹھ کر ان سے بات کی آئین پاکستان پر جی کہ یہ ہماری ملی میثاق ہیں اور اس میثاق ملی پر ہم نکتہ بہ نکتہ آپ سے بات کریں گے، کیا آپ واقعی جو ڈرافٹ لائے ہیں وہ اس آئین کا اور اس آئین کی روح کا تقاضہ پورا کرتا ہے یا نہیں پورا کرتا، اگر وہ آئین کا تقاضہ پورا کرے گا ہم قبول کریں گے اگر آئین کا تقاضا پورا نہیں کرے گا ہم رد کریں گے، چنانچہ جو پریشر اور میرے اوپر ایک مہینے تک آیا کہ یہاں تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس ایک دن نہیں ہے اور ایک دن کے اندر اندر ہم نے بل بھی لانا ہے اور آپ نے ووٹ بھی کرنا ہے لیکن دو تین دن تک تو وہ ہمیں ڈرافٹ ہی نہیں دکھا سکے اور جب ہمیں ڈرافٹ ملا ایک کالے تھیلے میں یہاں رات کے دو بجے تو اس کو جب کھولا تو وہ تو ایک کالا ناگ تھا اور اس کو جب ہم نے پڑھا یہ آئین جو ابتدا میں پاکستان کے ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت مہیا کرتا ہے اس کو ملیا میٹ کر دیا گیا تھا اس ڈرافٹ کے ذریعے سے اور جو جو استثنائیات تھی جس کا تھوڑا سا یعنی ایک دائرہ ہوتا ہے اور اس میں اگر کوئی آئین کا انکار کرے یا کوئی فوج پہ حملہ کرے یا کوئی اس طریقے سے تو کچھ استثنائیات ہیں کہ اس کے صورت میں آپ کے بنیادی انسانی حقوق معطل ہو جاتے ہیں اپنی جگہ پر ٹھیک ہے آئین کی بنیاد ہے جی، اب اس کو مکمل طور پر ختم کرنا استثنائیات کا دائرہ وسیع کر دینا اور بنیادی انسانی حقوق دارہ تنگ کر دینا یہ کون سے آئین کی رو ہے، تو اس طریقے سے عدلیہ کے معاملات پر، فوجی عدالتوں میں معاملات پر، لمبے چوڑے ہمارے ان کے ساتھ پھر مذاکرات ہوتے رہے بات چیت چلتی رہی اور تقریباً 56 کلازز تھیں اس ڈرافٹ کی جس میں بالآخر 22 رہ گئی باقی تمام پر وہ ان کو واپس لینے پر آمادہ ہو گئے جی اور یہ اچھی بات تھی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے ہو رہے تھے، بعد میں ہم نے پھر اپنے پانچ نکات اور ڈال دیے پانچ کلازز جس سے 27 ہو گئیں اس کا اتفاق بھی ہو گیا جی، پھر اس کے بعد دینی مدارس کے رجسٹریشن کا جو مسئلہ تھا اور ان کے بینک اکاؤنٹس کا جو مسئلہ تھا یہ ہم نے اٹھایا تھا جب الیکشن سے پہلے ڈیڑھ سال تک میاں شہباز شریف صاحب پرائم منسٹر بنے اور ہم ان کے کابینہ میں تھے تو ہم نے یہ موضوع ان کے سامنے چھیڑا اور ہم نے کہا جی کہ ہم کوئی زبردستی آپ سے چیز نہیں منوا رہے ہم اپنے ملک کے قانون کے تحت معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں، تو اس میں مولانا حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب چونکہ خود عالم دین بھی ہیں فقیہ بھی ہیں وکیل بھی ہیں اچھے ایڈوکیٹ ہیں وہ جج بھی رہے ہیں انہوں نے ایک تجویز ایک آرٹیکل کو اس میں بڑھانے کی تجویز پیش کی ایک شق بڑائی انہوں نے اور وہ اتفاق راہ سے قبول ہو گئی ان کی لاء منسٹری نے قبول کر لی کہ بہت مناسب چیز ہے، وہ مسودہ پر اتفاق رائے ہو گیا مسودہ پارلیمنٹ میں آیا اس کی پہلی خواندگی ہو گئی دوسری خواندگی میں رک گیا سارا معاملہ جی کسی نے روک دیا۔
حامد میر صاحب: ایک منٹ یہاں پہ میں اگر آپ کو ایک چیز یاد کروں آپ نے کہا کسی نے روک دیا تو ایک دن وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے آپ کو فون کیا اور انہوں نے ان کا نام بھی آپ کو بتایا تو میں اب ابھی بھی ان کا نام میں نہیں لے رہا کیونکہ آپ بھی نہیں لے رہے لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ جو صاحب تھے کیونکہ اب ریٹائر ہو گئے ہیں ان کی آپ سے کیا لڑائی تھی؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: مجھے نہیں پتا، سامنے تو بہت میٹھے میٹھے، خوبصورت انسان خوبصورت گفتگو لیکن مجھے تعجب ہوا جب مجھے موبائل دکھایا گیا کہ اس دوسری خواندگی کے دوران شقوار ان کے کیا کیا پیغامات آتے رہے اور کیا کہا جاتا رہا۔۔۔
حامد میر صاحب: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صاحب جو ہیں وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی میں براہ راست۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: براہ راست مداخلت کر رہا تھا براہ راست مداخلت کر رہا تھا اور جب مجھے اس کی پوری رپورٹ مل گئی تو میں خود جا کر رات کو عشاء کے ٹائم پہ میاں شہباز شریف صاحب سے ملا اور میں نے کہا یہ آپ روک دیں جی، انہوں نے کہا نہیں اسی شکل میں قبول کرو، میں نے کہا اس شکل میں قبول نہیں ہے جی آپ بل کو روک دیں ہمیں آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے اتنا ہمیں پتہ چل گیا کہ ہمیں کس غار سے ڈسا جا رہا ہے۔
حامد میر صاحب: اچھا اب چلیں یہ تو جو شہباز شریف صاحب کی پچھلی حکومت تھی اس کا مسئلہ ہو گیا، اس کے بعد پھر الیکشن ہوا پھر یہ 26 ویں آئینی ترمیم آئی مجھے وہ رات یاد ہے جب 26ویں آئینی ترمیم پر رائے شماری مکمل ہو گئی اور آخر میں وزیر قانون اعظم نظیر تارڑ صاحب نے اسپیکر صاحب کو روکا اور یہ مدارس والا بل پیش کیا وہ منظور ہو گیا اب کہاں پھنسا ہوا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: اب صدر مملکت کے پاس پھنسا ہوا ہے جی، ایک دفعہ تو یہ ہوا کہ بل پاس ہو گیا بل پاس ہونے کے بعد اسپیکر کو متوجہ کیا گیا کہ اس میں ایک لفظ ہے جو قلم سے لکھا گیا ہے اس لفظ کو سینٹ نے پاس کر لیا ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو یہ قومی اسمبلی بھی اس کو پاس کر لے تاکہ وہ لفظ جو ہے وہ ایڈ ہو جائے اس میں، وہ بھی پاس کر دیا گیا جی، اس کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک دوست میرے پاس آئے کہ ابھی نماز کے فوراً بعد سائننگ سیرمنی ہو رہی ہے پریزیڈنسی میں تو کہہ رہے ہیں کہ آپ اس میں شریک ہو جائیں اب ہم تھکے ہارے سارا دن بھی کھڑے کھڑے گزارا رات بھی کھڑے کھڑے ہم نے گزاری 27 دفعہ تو ہم نے سیٹ سٹینڈ کیا تو یہ سارا کچھ کرنے کے بعد میں ذہنی طور پر فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ میں جاؤں یا نہ جاؤں لیکن ابھی ہم ایوان بھی یہی تھے کہ جب اطلاع آئی کہ وہ فی الحال ذرا ملتوی ہو گیا جی اب ملتوی کیا ہوا تھا شاید ظہر تک چلا گیا تھا، پتہ چلا کہ تمام جو قوانین تھے وہ اس پر دستخط ہو گئے اور یہ ایک رہ گیا اس پہ نہیں ہوئے، پھر آپ نے شاید سوال بھی کرنا ہوگا کہ یہ جو بعد میں قانون سازی ہوئی پھر اور ایکٹ پاس کیے گئے ہیں ان وہ ایکٹس جو ہیں ان پر بھی دستخط ہو گئے لیکن وہ جو دونوں ایوانوں نے پاس کیا تھا دینی مدارس والا بل جو ایک معصوم بل تھا جی اس پر ابھی تک دستخط نہیں ہوئے۔
حامد میر صاحب: تو یہ تو دستخط تو صدر آصف زرداری صاحب نے کرنے ہیں تو وہ تو آپ کی ایک فون کال پہ بیٹھے ہوئے ہیں آپ فون کال کریں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: اصل میں بات یہ ہے کہ وہ چلے گئے دبئی اور جہاز سے اترتے ہوئے ان کا ٹانگ کا فرکچر ہو گیا تو پھر وہیں پر رہے یہاں پر یہ تبدیلی ضرور آئی کہ جو چیئرمین سینٹ سے وہ قائم مقام صدر بن گئے اور جو ڈپٹی چیئرمین تھے وہ چیئرمین بن گئے جی، پھر ہم نے جب اس کا پیچھا کیا تو کہا گیا کہ کوئی کلیریکل ایک اور غلطی نکل آئی پریزیڈنسی میں جی سو وہ پہلے لائی گئی ہے اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس انہوں نے اس کو ٹھیک کر کے دستخط کر دیے ہیں اور اب وہ چلی گئی ہے چیئرمین سینٹ کے پاس انہوں نے بھی جا کر اس پہ دستخط کر دیے ہیں اور دوبارہ پریزیڈنسی چلی گئی ہے جی، ہم نے کہا کہ شاید آج ہی دستخط ہو جائے اس کے اوپر اگر واقعی کوئی کلیریکل غلطی تھی لیکن مجھے لگتا یہ ہے کہ یہ سب ایک ڈیلے ٹیکٹس تھے جی کیونکہ ابھی تک دستخط نہیں ہوئی اس کے اوپر جی، اب میں ابھی تک بدنیتی کا کوئی الزام نہیں لگا رہا ان لوگوں کے اوپر ممکن ہے کوئی ایسی وجہ ہو تو ہمارے نوٹس میں لائی جائے ابھی تک جو نوٹس میں نہیں لائی جا رہی تو اس کا معنی یہ ہے کہ ملک کے اندر کوئی مشکل نہیں ہے، کوئی باہر کی مشکل ہے۔
حامد میر صاحب: مولانا صاحب آپ وقفے سے پہلے بتا رہے تھے کہ جو آپ کا مدارس کا بل تھا اس پہ ابھی تک دستخط نہیں ہوئے، تو اب جب کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چار پانچ اور بل بھی پاس ہو گئے تو یہ جو بل ہے یہ اگلے تین چار دن میں آپ کے خیال میں مسئلہ حل ہو جائے گا؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میں اس حوالے سے پرائم منسٹر صاحب سے بات کر چکا ہوں ٹیلی فون پہ اور کہا کہ میں صبح صبح کراتا ہوں جی، آج اس کی بھی تقریباً 10 دن ہو گئے ہیں جی یا 12 دن ہو گئے جی، ابھی دو تین دنوں میں میں نے بلاول بھٹو سے بات کی ہے کہ بھئی اپنے والد صاحب سے اس کا تذکرہ کرو کیونکہ اب تو پاکستان کو وہ واپس آگئے ہیں اللہ تعالی ان کو صحت دے تو انہوں نے کہا جی میرے علم بھی نہیں ہے کہ دستخط ابھی تک نہیں ہوئے یہ تو ضروری ہے پھر تو میں پیچھا کرتا ہوں اس کا بھی ابھی تک جواب نہیں آیا لیکن دو دنوں میں بات ہوئی ان سے جی۔
حامد میر صاحب: تو محسن نقوی صاحب سے بھی تو آپ نے بات کی۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: محسن نقوی صاحب سے بھی بات کی ہے اور بھی آج رات نہیں کل رات آئے تھے یہاں اور ان کے نوٹس میں لائے ساری تفصیل بتائی، میں یقیناً اس بارے میں ایک حجت پوری کرنا چاہتا ہوں تاکہ جو معاملات ایک مہینے تک شدید دباؤ کے باوجود مذاکرات کے ذریعے حل ہوئے اب بھی اگر کوئی چیز تھوڑی سی باقی ہے یا کہیں ایک جہت سے کچھ خلا ہے وہ بھی ہم باہمی اعتماد کے ساتھ ہی پورا کر سکیں۔
حامد میر صاحب: اچھا آپ نے جو ذکر کیا کہ شاید باہر سے کسی نے اس کو رکوایا ہوا ہے تو آج کل تو یہ جو حکومت ہے شہباز شریف صاحب کے جو وزرا ہیں یہ تو بڑی کھل کر امریکہ پر برطانیہ پر تنقید کر رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں جی کہ دیکھیں یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں جی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: نہیں نہیں نہیں جی، صرف اس بات پر بیرونی مداخلت ہو جاتی ہے جہاں کوئی ایسی بات آئے جو پی ٹی آئی کے حق میں جائے، تو امریکہ سے اگر کوئی یا اس کی پارلیمنٹ سے کوئی ایسی خبر آتی ہے کہ جو پی ٹی آئی کے حق میں جاتی ہے صرف وہی مداخلت ہے پاکستان کے معاملات میں باقی نہیں ہیں۔۔۔
حامد میر صاحب: لیکن یہ جو آپ کا جو مدارس کا بل ہے آپ کو یقین ہے کہ اس پہ دستخط اس لیے نہیں ہو رہے کہ کہیں باہر سے گڑبڑ ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: یہ ایک احتمال ہے بہت دور کا اہتمام ہے میں ابھی اس پر کوئی کریٹسائز نہیں کر رہا ہوں کسی کو۔
حامد میر صاحب: اچھا آپ پھر یہ بتائیں کہ یہ جو 24 نومبر کو تحریک انصاف والوں نے اسلام آباد میں ایک احتجاج کی کال دی ہوئی ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے یہ مناسب وقت ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میرے خیال میں تو مناسب نہیں ہے جی اور پھر یہ ہے کہ مسلسل ہوئے ہیں اس سے اس کے وہ امیج گر جاتا ہے اس کی وہ اہمیت گر جاتی ہے، ہاتھ ڈالو تو پکا ڈالو، دیکھیے ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت میں 14 ملین مارچ کئیں پورے ملک کے اندر جی اور ہر ملین مارچ جو ہے وہ ایک تاریخی تھا اور ساری دنیا جانتی تھی کہ واقعی اسی کو کہتے ہیں جلسہ جی اور پھر آزادی مارچ جو ہم نے کیا پورے ملک سے جس طرح قافلے اترے اور اسلام آباد تک پہنچے ہیں تو ہم ہاتھ بھی ڈالتے ہیں پکا بھی ڈالتے ہیں اور ہم جو احتمالات ہوتے ہیں کہ اس قسم کے مظاہروں سے یہ نقصان ہو سکتا ہے یہ نقصان ہو سکتا ہے یہ نقصان ہو سکتا ہے پہلے ہم ان کو دروازے بند کرتے تھے جی، نہ روڈ ہم بند کرتے تھے، نہ ٹریفک اس سے رکتا تھا، کوئی املاک کو نقصان پہنچا تھا، پتے کو بھی نقصان نہیں پہنچا، کوئی پھل اگر لٹک رہا ہے اس کو بھی نقصان نہیں پہنچا، تو کسی جگہ پر ایسی کوئی صورتحال اس کو ہم خود کنٹرول کرتے تھے اور چونکہ ہم 14 ملین مارچ کر چکے تھے اور سٹیٹ کو بھی اس کا اندازہ لگ گیا تھا کہ ان کو اپنے اجتماعات پر پورا کنٹرول ہوتا ہے اور وہ اپنا احتجاج ضرور نوٹ کرا رہے ہیں لیکن اسٹیٹ کو نقصان نہیں پہنچاتے ان کے املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے تو یہاں مظاہر ہمارا اسلام آباد میں بھی ہوا، یہاں اس قسم کی سٹریٹیجیز بنانے والے لوگ نہیں ہیں جی، میں دیکھ رہا ہوں ان کو ان کی چیزوں کو اگر چہ میں اس میں شامل نہیں ہوں نہ میں اس میں شریک ہوں لیکن میں ان کو حق دیتا ہوں اس بات کا کہ وہ جلسہ بھی کریں وہ احتجاج بھی کریں وہ مظاہرہ بھی کریں لیکن جس انداز کے ساتھ ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں وہ اچھی بات نہیں ہے، اس کا میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کی حکمت عملی مکمل نہیں ہے۔
حامد میر صاحب: بہت سے تحریک انصاف کے رہنما جو ہیں وہ آپ کے پاس مستقل آتے جاتے ہیں بلکہ تو ان کی تو نیازمندی جو ہے اس کو دیکھ کر تو میں کبھی کبھی پریشان بھی ہو جاتا ہوں کہ اتنی زیادہ وہ آپ کے ساتھ نیازمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں آپ ان کو یہ سمجھاتے نہیں جو بات آپ مجھے بتا رہے ہیں ابھی۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میرے خیال میں اس حوالے سے تو کوئی مشاورت ابھی تک نہیں کیا گیا مشاورت کر لے۔۔۔۔۔
حامد میر صاحب: لیکن ہمیں تو وہ کہتے ہیں کہ عنقریب مولانا فضل الرحمن صاحب اور ہمارے معاملات طے ہونے والے ہیں ہمارا اتحاد ہونے والا ہے ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: نہیں اختلاف دیکھیے پیپلز پارٹی ہے تو اس سے بھی ہمارا اختلاف ہوا، مسلم لیگ ہے تو اس سے بھی ہمارا اختلاف ہوگا، نیشنل پارٹی ہے تو اس سے بھی ہمارے اختلاف ہوگا، ایم کیو ایم ہے تو اس سے بھی ہمارے اختلاف ہوگا لیکن تلخی نہیں ہے ہم ایک دوسرے سے ملنا جلنا، پی ٹی آئی کے ساتھ تلخی تھی اگر اس تلخی کو ہم دوبارہ اعتدال پہ لے آتے ہیں تو وہ ایک اچھی سیاسی ایک انگیجمنٹ بن جائے گی اور اس میں ہم رفتہ رفتہ کامیاب ہو رہے ہیں یہ ضروری بھی تھا اور ظاہر ہے دو جمع دو چار کی طرح یہ تو ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔
حامد میر صاحب: ابھی آپ کا یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ابھی اب کچھ معاملات پہ مل کے چل سکتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: میں عرض کر رہا ہوں نا جی کہ اب ظاہر ہے ہم یہ تو نہیں کر سکتے کہ گورنمنٹ کے مقابلے میں بھی اپوزیشن کریں اور اپوزیشن کے اندر بھی اپوزیشن کریں، تو یہ جو اپوزیشن اور اپوزیشن دونوں جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھ گئی اس کا فائدہ اٹھانا یہ ہے ایک سیاسی عمل اور اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے ہمیں، تلخیوں سے ہم اختلافات کو تو ختم نہیں کریں گے لیکن تلخیوں سے ہم ذرا اعتدال کی طرف آجائیں گے نرمی کی طرف آجائیں گے اور ایک بہترین سیاست ہے۔۔۔۔
حامد میر صاحب: تو آج کل تو بلاول صاحب بھی ناراض نظر آرہے ہیں حکومت سے تو آپ کو یہ نہیں لگ رہا کہ اگر بلاول صاحب بھی ناراض ہو گئے اور آپ بھی ناراض رہے تو حکومت کو تو بہت نقصان ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: بلاول صاحب اور ان کی والدہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اس وقت سے لے کر آج تک مجھے ایک دن بتا دیں جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی ہم آہنگی رہی ہو جی، اب الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف جس طرح انہوں نے الیکشن کمپین چلائی وہ ایسی نہیں تھی کہ جس کے بیچ میں کوئی محسوس کر رہا ہو کہ بھئی پی ڈی ایم کا دور بھی گزرا ہے، سرے سے یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا جی اب آپ مجھے بتائیں کہ اگر آپ یہ اس پہ اصرار کریں گے کہ پیپلز پارٹی حکومت میں ہے تو میں نہیں مانتا اس کو جی، وہ حکومت کا سہارا ہے حکومت کا حصہ نہیں ہے، تو ظاہر ہے جی کہ پھر اس قسم کے مرحلے تو آتے رہیں گے، اس طرح تو ہوتا ہے پھر اس طرح کی باتوں میں۔
حامد میر صاحب: اس طرح تو ہوتا ہے پھر اس طرح کے کاموں میں / کانپتے کیوں پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
مولانا صاحب جو 26ویں آئینی ترمیم جب منظور ہوئی تو اس پہ جو کچھ اسلامی دفعات آپ نے شامل کروائی تو اس پہ جو دینی حلقے تھے ان میں بڑی آپ کو پذیرائی ملی علماء کرام کے حلقوں میں بڑی خوشی تھی، ہو سکتا ہے یہ جو مدارس والا بل ہے اس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ یہ پچھلے دنوں کچھ سوشل میڈیا کے استعمال سے روکنے کے لیے حکومت جو ہے اس نے کہا کہ وی پی این کا استعمال بھی نہیں ہونا چاہیے وزارت داخلہ نے ایک خط بھی لکھ دیا اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک فتویٰ بھی آگیا تو یہ عام ایک خیال یہ ہے کہ یہ جو کچھ خوش آمد قسم کے علماء ہیں وہ فرمائشی فتوے دیتے ہیں وہ مجموعی طور پر جو علماء کرام کا امیج بڑا متاثر ہوا ہے، اس رائے سے آپ اتفاق کریں گے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: دیکھیے ایک چیز ہے کہ گورنمنٹ کسی چیز پر پابندی لگاتی ہے یا نہیں لگاتی وہ حکومت ہے وہ اپنی ذمہ داری کے تحت یہ دیکھتی ہے کہ ان چیز جو ہے وہ معاشرے میں اچھائی پھیلا رہی ہے یا برائی پھیلا رہی ہے یا اس چیز سے گورنمنٹ کو کیا مشکلات پیدا ہو رہی ہیں سسٹم کو کیا مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اس پر ان کا ایک صواب دید ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ لے اور وہ ظاہر ہے کہ وہ ان حالات کے تحت ہوتا ہے کوئی دائمی فیصلہ نہیں ہوا کرتا جی، تو یہ فیصلے اس سے قبل بھی آتے رہے ہیں سوشل میڈیا کو کیسے کنٹرول کیا جائے، کون سے کون سے پہلو اس کے ایسے ہیں کہ جو ناقابل برداشت ہیں اور قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں یا ان کے اخلاقی جو ساخت ہے اس کو تبدیل کر رہے ہیں یہ ایک معاملہ چلتا رہتا ہے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، رہا یہ کہ وی پی این کو بند کرنا ہے یا اس کو حلال کہنا ہے حرام کہنا، دیکھیے یہ جو ایجادات ہیں یہ تو آلات ہیں، آلات جو ہے اس کی روح تو نہیں ہوتی جی نہ اس کا دماغ ہوتا ہے نہ اس کی سمجھ ہوتی ہے کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا برا کر رہا ہوں جی یہ آپ کے اوپر انحصار کرتا ہے کہ آپ اس کا استعمال اس کا مصرف جو ہے وہ اچھا استعمال کرتے ہیں یا اس کا مصرف آپ غلط استعمال کرتے ہیں جی یہ آپ کے اوپر ہے جی، اب اس میں توازن گورنمنٹ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ آلہ جو ہے یہ اچھائیوں کے لیے زیادہ۔۔۔۔۔ مثلاً بندوق ہے تو بندوق کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کی اچھائی والا پہلو جو ہے وہ بہت کم ہے نقصان والا پہلو زیادہ ہے تو اس کے لیے لائسنس قرار دینا شرطیں قرار دینا کہ اس شرط پہ آپ رکھیں گے اور یہ رکھیں گے اور اس طرح کبھی کبھی لائسنس پہ بھی پابندی لگ جاتی ہے کہ بھئی لائیسنس یافتہ اسلحہ بھی آپ باہر نہیں لا سکیں گے اور اس کے نمائش نہیں کر سکیں گے یہ وغیرہ یہ انتظامی معاملات ہیں جی، تو یہ چیزیں تو حکومت کو اختیار حاصل ہوتا ہے وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا رہتا ہے، کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کو سیاسی طور پہ استعمال کرتے ہیں کہ بھئی کسی سیاسی پارٹی کو فائدہ ہو رہا ہے تو اس کو کیوں فائدہ ہو رہا ہے جی اور اس کو فروغ کیوں مل رہا ہے، تو یہ آلات ہیں اور آلات جو ہیں اس کا تعلق جو ہے اس کے صحیح اور غلط ہونے کا تعلق اس کے مصرف کے ساتھ ہوتا ہے اگر آپ اس کو اچھائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اس پہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اس پہ تفسیر پڑھتے ہیں، اس میں علماء کرام کے درس آپ سنتے ہیں، اس میں اچھی قسم کے آپ تعلیمات حاصل کر رہے ہیں، حدیث کا مطالعہ کر رہے ہیں، یہ پہلو بھی بہت زیادہ ہے اس کے اندر لیکن فحاشی اور عریانی والی پہلے بھی بہت زیادہ ہے اس کے اندر جی، اب نوجوان کو اور آج کے نوجوان کو کون سا پہلو زیادہ متاثر کرتا ہے میرے خیال میں جو روحانی اور صاف پہلو ہے وہ کم اور جو بدتہذیبی اور بداخلاقی ہے وہ زیادہ متاثر کر رہا ہے، اب یہ چیز تو ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا تعلق ہے یہ تو گورمنٹ کے معاملات ہیں وہ اپنے فائدے نقصان ملک کے فائدہ نقصان معاشرے کے فائدے نقصان۔۔۔۔۔
حامد میر صاحب: اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک غیر ضروری فتویٰ دے دیا؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: غیر ضروری دیا ہے میرے خیال میں اور اچھا ہوا کہ ان کے اپنے اراکین نے اس کا نوٹس لیا ان شاءاللہ حل ہوجائے گا باقی میں آپ کو ایک بات بتا دوں جی کہ جہاں تک راغب حسین صاحب کا تعلق ہے معقول آدمی ہے جی ایسا نہیں ہے لیکن یہ انسان انسان ہیں کہ بعض دفعہ کوئی بات ایسی انہوں نے اپنی اچھے خیال سے کی ہوگی اور اس کا جو تاثر جو ہے وہ اچھا نہیں گیا ہوگا۔
حامد میر صاحب: آخر میں یہ بتائیں مولانا صاحب کہ آپ کی جو جماعت ہے یہ کئی سال سے اس کے اندر یہ بحث چل رہی ہے کہ پارلیمانی سیاست جو ہے اس کو برقرار رکھا جائے عسکریت کی طرف چلے جائیں اور یہ جو 8 فروری 2024 کا الیکشن ہے اس کے بعد سے پھر سے آپ کی جماعت کے اندر یہ گفتگو شروع ہو گئی ہے، اب آپ یہ بتائیے کہ آپ کو کیا لگ رہا ہے پاکستان میں پارلیمانی سیاست کا مستقبل روشن ہے، یہ جو سبز کتاب آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہے یہ تو ایک وفاقی پارلیمانی نظام جو ہے یہ اس کی تائید کرتی ہے تو اس آئین کا اور پارلیمانی سیاست کا پاکستان میں آپ کو کیا مستقبل نظر آرہا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: یہ تو آپ نے بڑا حساس قسم کا سوال کر دیا ہے، میری عادت ہے میری جماعت بہت سنجیدہ جماعت ہے وہ ہر معاملے کو بڑے سنجیدگی سے دیکھتی ہے، پارلیمنٹ کو ہم سے کسی نے زبردستی نہیں منوایا اگر ہندوستان میں جمعیۃ علمائے ہند وہ پارلیمانی سیاست نہیں کرتی تو کوئی زبردستی تو نہیں کرا سکتی جی، پاکستان کے اندر مجلس احرار اسلام ہے وہ پارلیمانی سیاست نہیں کرتے کوئی زبردستی کرا سکتی ہے، منظور پشتون ہے وہ کہتا ہے کہ میں پارلیمانی سیاست نہیں کرتا کوئی زبردستی تو نہیں کرا سکتا اس سے جی، تو ہم سے بھی کسی نے یہ زبردستی یہ راستہ نہیں اپنایا ہم نے ملک کے حالات کو اور ملک کی سیاست میں مؤثر کردار کے لیے اس کو ایک مناسب فورم سمجھا ہے اور ہم بڑے اختیار کے ساتھ اس نظام کے ساتھ چل رہے ہیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پارلیمانی سیاست میں ضرور سیاسی جماعت کا یہ ہدف ہوتا ہے کہ میں اقتدار تک بھی پہنچوں جی لیکن اقتدار تک پہنچنے کے لیے نظریات کا سودا نہیں کیا جاتا تھا مقاصد کا سودا نہیں کیا جاتا اس کے لیے جدوجہد جاری رہتی ہے اور جتنی آپ کے اندر طاقت اور بساط ہے اس کے مطابق آپ آگے بڑھ رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں جی، اب اس حوالے سے جمعیۃ علماء ایک پارلیمانی سیاسی جماعت ہے اور ملک میں جمہوریت کی جو تعریف اس آئین نے کی ہے کہ جس میں پارلیمنٹ کو یا اس کے اکثریت کو قرآن و سنت کے منافی قانون بنانے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کے پابند ہے ہمارے پارلیمنٹ سے اور اس حوالے سے جو ہمارے اسلامی نظریاتی کونسل ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کے رپورٹ آتی تھی سن 73 سے اور جا کر کمیٹی کے روم میں ڈمپ ہو جاتی تھی اور آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات جو مکمل ہو چکی ہے اور جو موقع بہ موقع کوئی مسئلہ آتا تھا اور پارلیمنٹ ان کے پاس بھیجتا تھا اس کی بھی سفارشات مکمل ہو چکی ہے لیکن آج تک ایک قانون سازی نہیں ہوئی، اب ظاہر ہے کہ ہم کسی سے پارلیمنٹ کے قانون سازی کا اختیار تو نہیں سلب کر سکتے جی یا اسلامی نظریاتی کونسل ایسا ادارہ بھی تو نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کا حق سلب کر سکے لیکن قانون سازی تک ہم پہنچیں گے تب جب اس پہ ڈیبیٹس تو ہو، تو اب یہ ہے کہ اس آئین میں انہوں نے یہ کر دیا ہے کہ صرف پیش ہی نہیں ہوں گی بلکہ پارلیمنٹ میں ڈیبیٹ ہوگا جی اب جو ڈیبیٹ ہوگا تو دو حصے بن جائے گا ایوان ایک اس کے حق میں جائے گا اس کے خلاف جائے گا، تو اس میں پھر اس پہ ایک پوزیشن میں آجائیں گے کہ بھئی اس کے مطابق قانون سازی بھی ہونی چاہیے تو ہم پارلیمنٹ کی اسلام اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کے مرحلے تک پہنچنے میں ہم نے راستہ بنا لیا ہے اس کے لیے جی تو یہ ایک مثبت پیشرفت کہا جا سکتا ہے اس کو جی، دوسری بات یہ ہے کہ شریعت کورٹ اس میں آگئی جی اب شریعت کورٹ آپ کو پتہ ہے کہ وہ اتنے کمزور کورٹ ہے کہ اگر اس کے فیصلے کے خلاف سفید کاغذ پہ بھی آپ کچھ لے کر سپریم کورٹ میں بھیج دے یا اس کے اپیلیٹ بینچ میں بھیج دیں تو فیصلہ ختم اور پھر وہ 100 سال تک بھی نظر ثانی میں لگا رہے، لگا رہے گا کوئی اس کو سننے والا نہیں ہوتا جی، آج شریعت کورٹ کو مضبوط اور مستحکم کر دیا گیا ہے اور اس کے ہر فیصلے کو نافذ العمل قرار دیا گیا ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جی، اس کے خلاف اپیل کا حق تو آپ کسی سے نہیں چھین سکتے، اب کوئی شخص چلا گیا سپریم کورٹ میں یا اس کا اپیلیٹ بینچ میں، اپیلیٹ بینچ میں یا اپیل کے ادارے میں اس کو پابند کر دیا گیا ہے کہ آپ ایک سال تک ضرور فیصلہ دیں گے، چاہے آپ آئین کی رو سے مثبت فیصلہ دیں یا منفی یہ آپ کو اختیار ہوگا لیکن اگر نہ دے سکے تو خود بخود وہ فیصلہ نافذ العمل ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ شریعت کورٹ کا کوئی جج اپنی ہی کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا اور کوئی جج آتا بھی نہیں تھا کہ یہاں پر تو جج کے اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے جی، اب یہ ہے کہ اس 26 آئین کے تحت فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں میں سے ایک جج خود اس کورٹ کا چیف جسٹس بن سکے گا، تو فیصلے پہ بھی اس پر عمل درآمد ہو جائے گا اور باقی چیزیں معاملات بھی بہتر ہو جائیں گی، اور سود کے لیے چونکہ کورٹ فیصلہ دے چکی ہے یہی فیڈرل شریعت کوٹ تو جب اس نے فیصلہ دے دیا ہے کہ رِبا جو ہے 31 دسمبر 2027 تک اس کو اس مالیاتی نظام کو سود کے آلائش سے پاک کر دیا جائے تو ہم نے کہہ دیا کہ 31 کے بعد رِبا ختم ہو جائے گا جی یکم جنوری 28 کے بعد جی، اب اگر آپ اس پالیسی کو پڑھیں گے اور پھر کورٹ کے فیصلے اور شریر کورٹ کے فیصلے کو آپ پڑھیں گے اور پھر اس کو جو آئینی اختیار میں اضافہ کیا گیا اس کو آپ پڑھیں گے اور ان کو یکجا کریں گے تو مفر نہیں ہوگا کہ اس سے کوئی انحراف کر سکے اور جب کورٹ میں کوئی آدمی جائے گا تو میرا جو لاء منسٹر ہوگا یا میرا جو اٹارنی جنرل ہوگا کیا وہ اپنے آئین کی پالیسی کے خلاف جائے گا؟ اس کے مطابق ہم کچھ جو کہنا ہوگا کہ ہاں کورٹ کا فیصلہ ہے اور وہ نافذ العمل ہے اب اس کے بعد ملک کے اندر کوئی مالیاتی نظام وہ سود کی آلائش کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔
حامد میر صاحب: تو آپ نے کافی کچھ حاصل کر لیا؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: الحمدللہ
حامد میر صاحب: بہت بہت شکریہ جی
مولانا فضل الرحمٰن صاحب: بڑی مہربانی جی
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں