جامع مسجد ویکفیلڈ برطانیہ میں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب

جامع مسجد ویکفیلڈ برطانیہ میں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب

10 نومبر 2024

نحمدہ ونصلی علی رسوله الکریم، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

حضرات علماء کرام، برطانیہ میں میرے ہم وطنوں، میرے بزرگوں، میرے دوستو اور بھائیو! کافی عرصہ ہوا جہاں میں تقریباً ہر سال برطانیہ آیا کرتا تھا کوئی سات آٹھ سال کے بعد آپ کے پاس حاضر ہو رہا ہوں تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا یہاں کے احباب، یہاں کی جمیعۃ علماء اور بالخصوص برادر عزیز مولانا اسلام علی شاہ صاحب ان کی محبت ہے ان کا خلوص ہے کہ آپ حضرات کے ساتھ آج اس جامع مسجد میں ملاقات ہو رہی ہے اور مجھے آپ کی زیارت اور آپ کی ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر اور ہم سب پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا تعلق علمائے کرام کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور ہمارے ملنے جلنے کا مرکز مساجد کو بنا دیا ہے اور دین کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مدارس دینیہ کا جال بچھا دیا ہے۔ یہ ہماری اور آپ کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے ہے۔ اس میں خیر خواہی کے علاوہ اور کوئی تصور ہو ہی نہیں سکتا بس بات اتنی ہے کہ ہم اس کی قدر کر سکیں اس بات کو سمجھ سکیں یہ میرا اللہ اس بات پر قادر تھا کہ ہمیں گمراہوں میں بٹھا دیتے، چوروں اور ڈاکوں کے گروہوں میں بٹھا دیتا، غلط راہ پر چلنے والوں کے گروہوں میں حصہ بنا دیتا، لیکن اس سے بچا کر اللہ رب العزت نے اپنے پیارے بندوں کے ساتھ ہماری بیٹھک بنائی ہماری مجلس بنائی ہمارا تعلق بنایا اور ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں جو دین ہمارا رہنما ہے یہ وہ عظیم الشان دین ہے کہ جو ہماری مملکتی زندگی میں، ہماری قومی زندگی میں، ہماری ملی زندگی میں ہماری دو ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ایک ہمارا انسانی حقوق اور دوسرا ہماری معیشت، ایک مملکت کے لیے ایک ایسا نظام کہ جو ہمارے انسانی حقوق کا محافظ ہو اور انسانی حقوق کا تعلق تین باتوں سے ہے انسان کی جان، انسان کا مال اور انسان کی عزت و آبرو، پوری دنیا میں چاہے مسلم ہو یا نان مسلم وہ جو اپنی قانون سازی کرتے ہیں تو یہ تین چیزیں ان کے نظر میں ہوتی ہیں۔ پوری قانون سازی ان تین چیزوں کے گرد گھومتی رہتی ہے انسانی حقوق ان کا تعین کرنا پھر انسان حق کا تحفظ کرنا پھر انسانی حق کی تلافی کرنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساری زندگی توحید کا درس دیا۔ شرک کے خلاف لڑے یہاں تک کہ آگ میں جھونک دیے گئے، بندے کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم کرنے کے لیے تمام تکلیفیں برداشت کی، ہر امتحان سے گزرے اور ہر امتحان میں کامیاب ہوئے،

وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ

جب اس کے رب نے بہت سی باتوں پر ان کا امتحان لیا اور وہ اس پر پورے اترے۔ ہر منصب کے لیے پہلے انٹرویو ہوتا ہے ناں تو اللہ نے امتحان لیا اور ہر امتحان میں کامیاب ہوئے اس کے بعد آپ کو امامت کبریٰ کا منصب عطا کیا،

قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ

پوری انسانیت کا تمہیں امام بنانے والا ہوں۔ توحید کی طرف دعوت یہ ایک سبق تھا، تمام تر مشکلات کو آپ نے عبور کیا لیکن اس کی انتہا ایک اجتماعی زندگی اور منظم اجتماعی زندگی جس میں آپ کو مملکت کا امام بنا دیا گیا، انسانیت کا امام بنا دیا گیا اور ذمہ داری تبدیل ہو گئی پہلے کچھ فرق تھا اضافہ ہو گیا اب امامت کبریٰ پر فائز ہونے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ترجیحات کو ذرا مطالعہ کیجئے، اب فرماتے ہیں،

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ

اے اللّٰہ اس شہر کو اس آبادی کو امن نصیب فرما یہاں کے لوگوں کی جان مال اور عزت آبرو کی حفاظت فرما۔ ایسا نظام عطا فرما کہ جس نظام کے ذریعے سے انسانی حقوق محفوظ ہو جائے اور خوشحال معیشت کی دعا کی پھل فروٹ کی بات کی دال ساگ کی بات نہیں کی لیکن آپ نے فرمایا کہ یا اللہ انہیں پھل فروٹ عطا فرما لیکن ان کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور یوم آخرت پر، تو اللہ تعالی نے فرمایا نہیں دنیا میں تو ان کو بھی دوں گا یعنی ایک اسلامی معاشرے میں بھی اسلامی مملکت کے اندر بھی مسلم نان مسلم کے حقوق کو برابر کر دیا۔ اگر وہ جنگ نہیں لڑتے امن سے رہتے ہیں پرامن برادرانہ زندگی گزارتے ہیں تو ان کی جان بھی ایسی ہی محفوظ جس طرح کے اپنی، ان کا مال بھی ایسا ہی محفوظ جس طرح اپنا مال اور ان کی عزت و آبرو بھی اسی طرح محفوظ جس طرح کہ اپنی، اب اس تصور کے بعد جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا تو حکم بھی اسی کا چلے گا، تخلیق کائنات بھی آپ نے کی ہے اور ان پر حکم بھی آپ کا چلے گا اور پھر سب سے اولین پیغام وہ اس کے امن کا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ وہ دین اسلام اور اس دین اسلام سے وابستہ مسلمان وہ کیسے کرہ ارض پر فساد کا سبب بن سکتا ہے۔ اسلام کے معنی دوسرے کو سلامتی دینا، ایمان کے معنی دوسرے کو امن دینا، جس دین کے ناموں کے اندر امن اور سلامتی کے معنی پنہاں ہوں اس حوالے سے الٹا تاثر قائم کرنا یہ پھر دین اسلام کے ساتھ بے انصافی ہے اور پھر یاد رکھے عام طور پر جب ہم آپس میں بیٹھتے ہیں جرگوں میں یا اس میں پھر دو فریق ہوتے ہیں تو ہمیشہ اقرار کرنے والا صلح کا ذریعہ بنتا ہے اور انکار کرنے والا جھگڑے کا سبب بنتا ہے اب مسلمان تو سب کو مانتا ہے، مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لاتا ہے، مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئی کتاب بائبل پر بھی ایمان لاتا ہے، مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لاتا ہے، اس کی تورات پر بھی ایمان لاتا ہے۔ جب ہم سب کو مانتے ہیں سب کی کتابوں کو مانتے ہیں ان کو آسمانی کتاب مانتے ہیں تو پھر مسلمان کبھی بھی فساد کا سبب نہیں بنتا، پھر جو ہمارا انکار کرتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جان کر خود اپنے سے کچھ سوالات کریں کہ دنیا میں جو اس وقت شورش ہے بد امنی ہے اس کے اسباب کیا ہے۔ ہم بھی ان چیزوں کو تلاش کریں۔

ہمارے علماء ایک بڑی خوبصورت بات کرتے ہیں فرماتے ہیں ایک یہ کہ انسان کو راستہ چاہیے اگر راستہ ہی نہیں تو جائے کدھر اور جب اس کو راستہ مل جاتا ہے تو پھر اس کو راستے پر چلنے کا اسلوب بھی چاہیے اس کا ڈھنگ بھی چاہیے اس کو اور اس راستے میں اگر کوئی رکاوٹ اتی ہے کہیں پتھریلی زمین آجاتی ہے کبھی جھاڑیاں آجاتی ہیں کبھی پانی آجاتا ہے تو اس مشکل مرحلے کو عبور کرنا یہ بھی تو راستے کے لوازمات ہے۔ تو ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ راستہ تو شریعت ہے اور راستے پر چلنے کا اسلوب طریقت ہے اور راستے کے مشکل کو دور کرنا اور مشکل کا مقابلہ کرنا سیاست ہے۔ یہ تینوں موالید اسلام ہے، شریعت کو ہماری کتابوں میں تعلیم الاحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے، طریقت کو ہماری کتابوں میں تہذیب الاخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور سیاست کو ہماری کتابوں میں تنظیم الاعمال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اعلان کیا کہ میں آخری سیاست دان ہوں اور اس سے پہلے بنی اسرائیل کے اندر انبیاء آتے تھے اور وہ سیاست کرتے تھے یعنی مملکتی اور اجتماعی زندگی میں تدبیر و انتظام کیا کرتے تھے۔ چارہ گری کرتے تھے۔ 

كانت بنو إسرائيل تسوسهم الانبياء كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدی

بنی اسرائیل کے انبیاء سیاستدان تھے امور مملکت اس کا انتظام و انصرام ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا ایک جاتا تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لیتا تھا اب میں آخری پیغمبر ہوں اب یہ باگ ڈور میرے ہاتھ میں ہے۔

ولا نبیا بعدی

میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا اور وسيكون خلفاء، میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بڑی تعداد میں ہوں گے۔ میں اپنے علماء کرام سے بھی کبھی کبھی الجھتا ہوں کہ یہ جو آپ جلسوں میں کہتے ہیں کہ ختم نبوت جو ہے سیاست سے بالاتر ہے یہ امت کا متفقہ مسئلہ ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اب تو اس حدیث کے بارے میں ذرا سوچیں آپ کہاں کھڑے ہیں کہ جو وظیفہ انبیاء کرام کا تھا اور اس کے آخری کڑی خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہاں ہم نے اس کو خالصتاً دنیا داری کہہ دیا ہے۔ جھوٹ بولو، دھوکہ دو تاکہ منصب تک پہنچ سکو، اس میں کوئی کامیاب ہو گیا تو ہم کہتے ہیں یہ کامیاب سیاستدان ہے۔

تو ہم نے شریعت کے ایک اصطلاح کو کیا معنی پہنا لیا ہے، کیا مفہوم پہنا دیا اس کو، بحیثیت مسلمان ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے علمی لحاظ سے غور کرنا چاہیے۔ مسائل اتے ہیں اور دین اسلام کا جو اولین تقاضہ ہے جس پر آپ کی سماجی زندگی بھی اسی پہ کھڑی ہے آپ کی معاشی زندگی بھی اسی پہ کھڑی ہے، آپ کے معاشرت کا نظام بھی اسی کے اوپر کھڑا ہے وہ ہے آزادی، یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے شریعت کو ایک مشکل گزرگاہ سے تعبیر کیا ہے۔ 

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ

جب جب انسان گھاٹی میں داخل ہو اور جانتے ہو گھاٹی کیا ہے گھاٹی کیا ہوتا ہے مشکل گزرگاہ کو کہتے ہیں، پہاڑوں کے اندر جو چھوٹے درے ہوتے ہیں جب آپ اس سے گزرتے ہیں تو پتھریلی زمین بھی ائے گی، پانی بھی آئے گا، جھاڑیاں بھی آئے گی، کانٹیں بھی آئیں گے۔ اب اس مشکل گزرگاہ میں داخل ہو جانا، شریعت کو قبول کر لینا، دین اسلام پر ایمان لے آنا، اس کا جو اولین تقاضہ ہے خود رب العالمین نے فرمایا فَكُّ رَقَبَة، گردن چھڑانا، اب جس زمانے میں غلام رکھے جاتے تھے اس زمانے میں تو یہ بات سمجھ میں اتی تھی کہ غلام آزاد کردو۔ تمام مفسرین نے ان کو آزاد کرنے کے معنی سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن یہ تو قرآن ہے اللہ کا کلام ہے جتنا اللہ عظیم ہے اس کا کلام اتنا ہی عظیم، اس کے معنی مفہوم میں بھی وہی وسعت ہوگی۔ ایک فرد کو آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ پورے قوم کو آزاد کرانا یہ دین اسلام کا اولین ترجیح ہے، انسانیت کو آزاد کرانا یہ دین اسلام کا اولین تقاضہ ہے۔ آج آزادی کے حق کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے بعد ہر ایک کہتا ہے انسان آزاد ہے۔ انسان کی آزادی کے تصور کو تو کوئی اختلاف نہیں، اس کو آزادی حاصل ہوگا، انسانی حق کو تو کوئی جھگڑا نہیں ہے یعنی حق کی تعریف کرنا، حق کی تفصیل بیان کرنا اس میں شائد فرق ہو، آزادی کے تصور پر کوئی اختلاف نہیں البتہ آزادی کی مفہوم پر بحث ہو سکتی ہے۔

میرے دوست تھے آزاد خیال قسم کے، ابھی بھی حیات ہے مجھے کہنے لگے کہ آپ مولوی صاحبان سارا دن مسجد میں بیٹھ کے اللہ کی بندگی اور اللّٰہ کی بندگی ہو اللہ کی بندگی اور سوائے بندگی سکھانے کی کوئی اور کام تمہارا نہیں ہے لیکن جب سڑکوں پہ آتے ہو روڈوں پہ تو آزادی اور آزادی اور یہ عذاب ہے کہ مسجدوں میں اور حجروں میں تو آپ لوگوں کو غلامی اور بندگی پڑھا رہے ہوتے ہیں اور روڈوں کے اوپر پھر آزادی اور آزادی کی باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ شائد آزادی کا معنی سمجھے نہیں آئیے ہم اپنے خاندان میں آتے ہیں اور خاندان میں آکر ہم اس کو پھر سمجھتے ہیں۔ جس طرح کائنات میں کائنات کا خالق ایک ہے۔ جس طرح ہر انسان کا باپ ایک ہوتا ہے۔ انسان کی جو ظاہری تخلیق ہے اس کا جو ظاہری ہے سبب ہے وہ باپ ہے۔ اب جب اس باپ کی اولاد اور وہ اولاد اپنے والد کی خدمت کرتا ہو، اس کی فرمانبرداری کرتا ہو، اس کی دکان پر بیٹھتا ہو، اس کی زمین پر محنت کرتا ہو، کیا ہمارے معاشرے میں اس بیٹے کو باپ کا نوکر کہا جاتا ہے، باپ کا مزدور کہا جاتا ہے، باپ کا مزارع کہا جاتا ہے، کبھی نہیں، اپنے جائیداد کا مالک کہا جاتا ہے لیکن اگر معاشی مجبوری ہو جائے پھر کسی طاقتور آدمی کے سامنے، کسی بڑے زمیندار کے، کسی بڑے کاروباری کے، کسی کارخانہ دار کے، ان کے سائے میں زندگی گزارنا تو جب آپ کسی طاقتور کے ساتھ اپنی ضرورتوں کی وجہ سے زندگی گزارتے ہیں تب آپ کو نوکر بھی کہا جائے گا، مزدور بھی کہا جائے گا، مزارع بھی کہا جائے گا لیکن اپنے والد کی اطاعت میں سب کچھ کرنا اس کو ہمارے معاشرے میں کبھی مزدور یا نوکر نہیں کہتے۔

تو یہ شخص جو اپنے والد کا اطاعت گزار ہے، اس کا فرمانبردار ہے اسے ہمارے معاشرے میں نوکر اور مزدور نہیں کہا جاتا باپ کا، لیکن اگر وہ بوجہ مجبوری اپنی ضرورتوں کے تحت کسی کے گھر جا کر نوکری کرتا ہے، کسی کی زمین پر مزارع بنتا ہے، کسی کے کارخانہ میں کام کرتا ہے کسی کے دکان پہ بیٹھتا ہے تو آپ اس کی ملازم بھی کہتے ہیں، مزدور بھی کہتے ہیں، مزارع بھی کہتے ہیں۔

اسی طریقے سے اگر ایک قوم اپنے خالق کائنات کی اطاعت میں زندگی گزارے اور اس کے قانون کی پیروی کرتی نظر آئے وہ قوم آزاد کہلائے گی۔ اور اگر ہم اللہ کے علاوہ کسی دوسرے انسان کے بنائے ہوئے نظام کی پیروی کریں گے تو پھر ہمیں غلام کہا جائے گا۔ ہمیں اگر پاکستان میں چاہیے تو یہ نظام چاہیے اور یہ کوئی اسان کام نہیں ہے اور ہم نے اس کے لیے پُرامن راستے چنے۔ جمہوری راستہ، الیکشن کا راستہ، پارلیمنٹ کا راستہ، قانون سازی کا راستہ، کسی کو کنونس کرنے کا راستہ، طریقے سے اس کو اپنی بات پر آمادہ کرنا اور قائل کرنا، اور یہی دعوت کا تقاضا ہے کیونکہ یا تو آپ نے مقام عبدیت میں رہنا ہے یا مقام حکومت میں رہنا ہے۔ جب تک آپ مقام حکومت میں نہیں پہنچتے اور وسائل پر آپ کی گرفت نہیں اتی تب تک آپ مقام دعوت پر ہو تو دعوت والا جو ہے وہ پھر اپنا ہی مقام رکھتے ہیں وہ گالم گلوچ نہیں دیتا، لڑائی جھگڑا نہیں کرتا، مقام دعوت سے بالکل نیچے نہیں اترتا، جیسے کہ اللہ رب العزت نے کچھ لوگوں کو بھیجا،

واضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ،

دو بندوں کو بھیجا پھر تیسرے کو بھیجا اور اس لیے تاکہ وہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دے ان کو، لیکن انہوں نے جھٹلایا، پھر دھمکیاں تک دی پھر کہا یہ تمہاری وجہ سے نحوست ہے نعوذ باللہ،

قَالُوْۤا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْۚ لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَیَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔

اب وہ منکر ہے یہ داعی ہے منکر گر رہا ہے، بد اخلاقی کی طرف جا رہا ہے، دھمکیوں کی طرف جا رہا ہے، مار کٹائی کی طرف جا رہا ہے، سنسار کرنے کی طرف جا رہا ہے اور وہاں ان سے کہا جاتا ہے،

قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۔

کوئی اللہ نے کچھ نہیں کیا تم بھی ہماری طرح انسان ہو، کیا اللّٰہ اللّٰہ کی باتیں کرتے ہو، جھوٹ بولتے ہو، لیکن وہ کہتا ہے نہیں،

قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ لَمُرْسَلُوْنَ

تمہارا اللہ جانتا ہے ہم اسی کی طرف سے آئے ہیں۔ اللہ کی دعوت دے رہے اپنے مقام سے نیچے نہیں اتر رہے، کوئی بد اخلاقی نہیں کر رہا، کوئی سختی نہیں، یہاں تک کہ وہ جو گاؤں والا نصرت کے لیے آتا ہے اس کو شہید کر دیتے ہیں اور جب اس کو قبر میں اتارا جاتا ہے اور اس کو کہا جاتا ہے قبر میں اتار کر اس کو کہا جا رہا ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، انسانیت کی طرف بلاؤ، اللہ کے اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ، حکمت اور دانائی جس کو مل گئی حکمت تو ایسی چیز ہے جس کو مل گئی بس خیر کثیر اسی کو مل گئی اور حکمت جو ہے جو مسئلہ اپ بیان کر رہے ہیں اس کے موقع محل کو سمجھنا، میں کس سے بات کر رہا ہوں، سننے والے کا مزاج کیا ہے، اس کی تربیت کہاں ہوئی ہے وہ نرم دل والے ہیں یا سخت دل والے ہیں، میری بات کو وہ قبول کرے گا نہیں کرے گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آج وہ قبول نہیں کرتا تو اس کو دوست بنا لو تاکہ مانوس ہو جائیں آپ کے ساتھ، اس قابل ہو جائے کہ آپ کی بات کو قبول کر سکے اور آپ کی گفتگو میں شائستگی ہو، ہاں دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی جا رہی ہے کہیں پر کوئی الجھ آگئی ان کے بیچ میں، اپس میں الجھ گئے تو اس مرحلے پر ا کر بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ جھگڑے والا اور جدال والے ماحول کو بھی شائستگی کے ساتھ انجام دینا ہوگا، یعنی دعوت کے ذریعے تو دو ہیں ایک حکمت اور ایک حسن موعظت، جدال جھگڑا یہ نظریہ دعوت نہیں ہے لیکن اگر درپیش ہو جائے تو پھر اس جدال کو بھی اس طرح انجام تک پہنچاؤ کہ جو نتیجہ حکمت اور حسن موعظت کا ہے وہی نتیجہ و معال اپ کے جدال میں بھی ہو۔

تو اختلاف آجاتا ہے مذاکرہ ہوتا ہے لیکن وقار کے ساتھ، گالیوں کے ساتھ نہیں، سیاست گالیوں سے نہیں ہوتی، عبادت گالیوں سے نہیں ہوگی، عقیدے کا بیان گالیوں سے نہیں ہوگا، گالیوں سے آپ اپنے شدت آتی ہے وہ آپ کے لیے نرم نہیں ہوگا کہ آپ کو قبول کر سکے۔ قبول نہ کرنے کا نہ ہونے کا ثبوت بن سکتا ہے تو قبول کرنے کا نہیں بن سکتا۔

تو اس انداز کے ساتھ ہم اختلاف رائے بھی کریں گے اور ہم انسان ہیں جو بات ہم کہہ رہے ہیں کیا واقعی ہم خود بھی اس معیار پر پورے اترتے ہیں، یقیناً ہم بھی قصور وار ہوں گے لیکن جہاں ہم قصور کرتے ہیں، سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں جہاں اپنے مخالف کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں ہمیں داد بھی اسی پہ ملتی ہے۔

تو یہ ساری چیزیں اس میدان کی اصلاح کی چیزیں ہیں۔ ہم نے اس بات کو سمجھنا ہے کہ انسانی حقوق کیا ہیں۔ ہم نے اس بات کو سمجھنا ہے کہ مملکتی اور قومی زندگی کا دارومدار معاشی ترقی پہ ہے۔ اس سے آگے آپ کے لیے اپنی نماز ہے اپ کا اپنا مسلک ہے جس طرح پڑھیں جہاں پڑھیں روزہ رکھیں جس طرح رکھے آپ کے اعمال ذاتی اعمال ہیں۔ لیکن مملکت آپ سے دو چیزیں مانگتا ہے ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور ایک خوشحال معیشت، لوگوں کو روزگار دینا، لیکن جب اللّٰہ اپ پر ان دونوں چیزوں کا انعام کر دے پھر شکر گزار ہونا چاہیے نا شکری اللّٰہ کو قبول نہیں۔

وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے ایک ابادی کی مثال دی ہے کہ وہاں امن بھی تھا سکون بھی تھا۔ جب امن ہوگا سکون بھی ہوگا اطمینان بھی ہوگا۔ ہر طرف سے رزق کچ کچ کے آتا تھا ان کے پاس، خوشحال معیشت تھی وہاں، لیکن جب انہوں نے اللہ کی ناشکری کی، کفران نعمت کیا، اللّٰہ کی عبادت سے انکار کر دیا، عیاشیوں کی طرف چلے گئے، اپنی مرضی کی زندگی گزارنا جس طرح حیوانات گزارتے ہیں اور اسی کو ازادی کہہ دیا اس نے، تو پھر اللّٰہ رب العزت نے ان کو مزہ چکھایا کن چیزوں کا، دو باتوں کا، ایک بھوک کا اور ایک بد امنی کا، اللّٰہ نے ان پر بھوک اور بد امنی مسلط کر دی اور یہ ایک ایمان والوں سے بات ہو رہی ہے اپ کہیں گے کہ بھئی کافر دنیا، کافر دنیا کی تو کمٹمنٹ بھی نہیں ہے نا، آپ نے تو اللہ کے ہاں بیعت کی ہوئی ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا ہوا ہے کلمہ پڑھا ہوا ہے آپ نے، جو آپ کے ساتھ کمٹمنٹ کرتا ہے اس کے بارے میں اپ کا رویہ اور ہو سکتا ہے جس کی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا فنا ہونے والی چیز اور اخرت ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ ترغیب اسی پہ ہے کہ اخرت کو مد نظر رکھ کر اسی پہ گزارا کرو۔ لیکن کیا یہ دنیا کی نعمتیں جو اللّٰہ نے پیدا کی ہیں اس کو لات مار دیں، یہ تو اللّٰہ تعالیٰ بھی نہیں کہتا، اللہ رب العزت فرماتے ہیں لوگوں سے کہہ دو یہ جو میں نے اپنے بندوں کے لیے نعمتیں پیدا کی ہیں پاک رزق پیدا کی ہے کس نے تم پر حرام کیا ہے۔ کہہ دو یہ سب کچھ دنیا میں تمہارے لئے ہے لیکن مجھے نہ ماننے والا بھی دنیا میں شریک ہوگا اور قیامت کے دن خالصتاً آپ لوگوں کے لیے ہوگا۔ یہ جو نعمتیں دنیا میں ہے یہ ہمارے لیے ہی ہے۔ ایمان والوں کے لیے ہے لیکن اگر ایمان کا رشتہ ہی اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے پھر تو پڑوسی ان پر قبضہ کریں گے نا، دنیا کی نعمتوں پر اگر آج دوسری دنیا کا قبضہ ہے تو گلا اپنے سے کرو ان سے کیوں کرتے ہو، کیوں معیشت ان کے قبضے میں ہے اور کیوں ہم ان سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ ملک ہم نے اس لیے تو حاصل نہیں کیا تھا۔ ہم نے تو اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم آزاد ہوں گے، ہماری معیشت بہتر ہوگی، ہمارے حقوق محفوظ ہوں گے لیکن سب سے زیادہ بدامنی کی شکایت بھی ہم کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ معاشی بدحالی کی شکایت بھی ہم کر رہے ہیں۔ اس ملک کے لیے فکر مند ہونا یہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے وطن کے لیے فکرمند ہو، اس کی بہتری کے لیے کردار ادا کرے، اس کو پرامن بنانے کے لیے ہم کردار ادا کرے۔ وہاں کے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ہم کردار ادا کرے۔ وہاں کے خوشحال معیشت کے لیے ہم کردار ادا کریں اور دین اسلام کے رہنمائی میں، ہم کہتے ہیں کہ سود حرام ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تو کہتے ہیں کہ جو لوگ سودی کاروبار کہتے ہیں وہ اللّٰہ سے جنگ کے لیے تیار رہے۔ اللہ سے جنگ بھی تو ہے اسلام کے نام پر حاصل کیے ہوئے ملک میں ستتر سال ہو گئے ہم آج تک اللّٰہ کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں اور پھر بھی ہم خوشحالی کی بات کرتے تھے۔ آبادی کی بات کرتے ہیں، امن کی بات کرتے ہیں۔ فلاں ذمہ دار ہے، اس کا قصور ہے، اس کا قصور ہے، اور وہ نااہل ہے یہ نااہل ہے اسی طرح گزر رہی ہے۔ لیکن اصل مرض کو ہم نے اج تک پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔

تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں جس کے لیے ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے انفرادی کام نہیں ہے اس کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ آپ حضرات اگر عملاً شریک نہیں ہو سکتے یہاں دعا تو کر سکتے جو کام کر رہے ہیں ان کو اللہ توفیق دے، اللّٰہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت عطا فرمائے، جو کام کر رہے ہیں اللہ ان کو کامیابی نصیب فرمائے۔

تو اچھا ہوا آج کی اس مجلس سے کچھ فائدہ ہم نے اٹھا لیا ہے اور کچھ دل کی باتیں ایک دوسرے سے کہہ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرما لے اور ہر قسم کے آزمائشوں سے اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرمائے، جو خطائیں ہم نے کی ہیں اللہ آپ کو معاف فرما دے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پردے میں رکھے اور رسوائی سے دنیا میں بھی محفوظ رکھے اور آخرت میں بھی محفوظ رکھے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamJUIswat





0/Post a Comment/Comments