قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سکھر میں باب الاسلام کانفرنس سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سکھر میں باب الاسلام کانفرنس سے خطاب

28 نومبر 2024

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِين صدق اللہ العظیم

جناب صدر محترم حضرت سائیں عبد القیوم ہالیجوی صاحب، سٹیج پر موجود علماء کرام، مشائخ عظام اور اس خطے کے زعماء، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو، میں صرف شکریہ ہی ادا نہیں کر رہا بلکہ اس عظیم الشان تاریخی اجتماع کو دیکھ کر میں آپ پر فخر کرتا ہوں، جب بھی ہم نے آپ کو آواز دی ہے آپ نے اس پر لبیک کہا ہے اور آپ کے اس جذبے کا جواب ہمارے پاس اس کے لیے الفاظ موجود نہیں ہیں اللہ تعالی آپ کے اس خلوص کو آپ کے اس ولولے کو آپ کے اس جذبے کو قبول فرمائے اور ان شاءاللہ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس ملک کا مستقبل آپ کا منتظر ہے اور ان شاءاللہ اب اس ملک کے قیام کا اصل مقصد پورا کرنے کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن میدان میں پُرعزم ہیں۔

میرے محترم دوستو! ہمارے بھائی ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید، ہمارے بزرگ مخدوم مقتدیٰ حضرت مولانا عبد الصمد ہالیجوی رحمہ اللہ ان کی نسبت سے آج اس جلسے کا نام باب الاسلام رکھا گیا ہے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ یہ ہماری تاریخ ہے، ان اکابر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے باب الاسلام کا عنوان یہ ہماری تاریخ ہے اور اگر سندھ کو باب الاسلام کہنے کے دعویدار ہم ہیں تو پھر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی ذمہ دار بھی ہم لوگ ہیں ان شاءاللہ العزیز۔

میرے محترم دوستو! یہ ملک ہمارا ہے اور اس ملک کے کچھ تقاضے ہیں، اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں اگر ہم دین کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کے لیے بطور نظام کے اس کو پسند کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ اسلام امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے، اسلام انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے، اسلام انسانوں کے جان ان کے مال اور عزت و آبرو اور اس سے متعلق تمام حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اسلام ایک بہتر معیشت کی نوید سناتا ہے، اسلام خوشحالی اور سلامتی کا پیغام ہے لیکن ہمیں بھی گریبان میں جھانکنا چاہیے اور 77 سال سے جو قوتیں پاکستان پر مسلط ہیں ان کو بھی گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جس وطن عزیز کی بنیاد ہم نے لا الہ الا اللہ سے رکھی تھی کیا ہم نے لا الہ الا اللہ سے وفا کی ہے؟ وفا تو دور کی بات سوچو ذرا کیا ان حکمرانوں نے لا الہ الا اللہ سے دغا نہیں کی ہے، ہم نے اپنے طرز حکمرانی سے اور اپنے فتنہ انگیز ذہنیت سے اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے ہم خدا کے رحمت کے مستحق نہیں ہو پا رہے، کچھ سوچنا پڑے گا، میں جرنیلوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وردی پہن کر اور سونے کے بلے لگا کر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کو خوبصورت وطن بنا سکیں گے، میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی کہنا چاہتا ہوں، میں پاکستان کی اس متکبر بیوروکریسی کو بھی کہنا چاہتا ہوں، میں پاکستان کے اس مفاد پرست طبقے اور ان سیاستدانوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اب آپ کے بس میں پاکستان کی خوشحالی نہیں ہے اب تم راستے سے ہٹ جاؤ ہم ان شاءاللہ پاکستان کو اللہ کے فضل و کرم سے ایک خوشحال اور مستحکم سرزمین بنا کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی ناکامی کو تسلیم کرو، اداروں کی قوت کو تم غلط استعمال کر رہے ہو اور تمہارے غلط روش اور غلط حکمرانی کے نتیجے میں آج پاکستان میں قدم قدم پر اضطراب ہے، خون بہہ رہا ہے، حقوق سلب ہو رہے ہیں، قوموں کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور جمعیۃ علماء اسلام ہے جو پاکستان کے ہر صوبے کے عوام کو ان کے حقوق کا علَم بلند رکھے ہوئے ہیں، ہم صوبائی حقوق کے علمبردار ہیں اور ہمارا نعرہ یہی ہے کہ اگر صوبہ سندھ ہے تو سندھ کے وسائل پر صرف سندھ کی عوام اور ان کے بچوں کا حق ہے اور کسی کے باپ کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سندھ کے وسائل پر جبراً قبضہ کر سکے اور اگر سندھ کے وسائل پر قبضہ کیا جائے گا تو تحریک بھی اٹھے گی اور ان شاءاللہ فضل الرحمن آگے ہوگا سندھی عوام ساتھ ہوں گے۔ بلوچستان کے حقوق اس پر بلوچستان کے عوام کا حق ہے ان کے بچوں کا حق ہے، خیبر پختونخواہ کہ وسائل پر انہی کا حق ہے اور ان کے حق کو تسلیم کرنا پڑے گا، پنجاب کے حقوق پر پنجاب کی قوم اور پنجاب کے بچوں کا حق ہے، ہم نہ اپنا حق کسی کو دینا چاہتے ہیں اور نہ کسی کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔ لیکن حقوق کی جنگ اس کی تعلیم مجھے دین اسلام عطا کرتا ہے اور پھر علماء کرام بیٹھے ہیں اس روایت کو بھی سامنے رکھیں کہ وَمَن قُتِل دُونَ مَالِه فَهُو شَهِيدٌ جو اپنے حق کے لیے مارا جائے گا اسے بھی شہید کہا جائے گا اس راستے میں قربانی دی جا سکتی ہے۔

میرے محترم دوستو! پاکستان کو انارکی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، لوگ آئین کا بھی احترام کرتے ہیں قانون کا بھی احترام کرتے ہیں اور آئین و قانون کا احترام اور اس کی پیروی یہ تمام دنیا کی انسانی اقوام کا متفقہ موقف ہے کوئی اس سے روگردانی نہیں کر رہا، لیکن اگر میرے ملک میں قانون نہیں ہے اور قانون ہے تو اس پر عمل درآمد حکمرانوں کی طرف سے نہیں، اگر میرے ملک میں آئین ہے اور اس کو ہمارے ملک کے آمر اور ناجائز حکمران کھلواڑ بناتے ہیں تو پھر قوم بھی جانتی ہے کہ اگر میرے آئین کا مذاق تم اڑاؤ گے اگر میرے قانون کو ہاتھ میں تم لوگے تو پھر میں بھی پابند نہیں ہوں میں بھی اپنے حقوق کی جنگ پوری قوت کے ساتھ لڑوں گا۔ ہم اس ملک میں غلامی کی زندگی گزارنے کے لیے نہیں بیٹھے، آزادی کی بات تو ہر ایک آدمی کر سکتا ہے لیکن جب میں آزادی کی بات کرتا ہوں تو میری تین سو سالہ تاریخ میری پشت پر 300 سالہ تاریخ وہ میرے اس دعوے کی تصدیق بھی کرتا ہے، آزادی کا سبق سیکھنا ہے تو آؤ ہم سے سیکھو۔

میرے محترم دوستو! یہ اسمبلیاں بنائی جاتی ہیں، یہ عوام کی منتخب اسمبلیاں نہیں ہوتی اور ہر اسمبلی کے حوالے سے ان کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے کہ ہم نے ایک ایسی اسمبلی بنانی ہے کہ جس سے ہم یہ قانون سازی کرائیں گے یہ ترمیم کرائیں گے یہ تبدیلیاں کرائیں گے چنانچہ آج کی اس پارلیمنٹ سے حکمرانوں نے اور ان کی پشت پر کھڑے طاقتور قوتوں نے اس آئین کا حلیہ بگاڑنے کا سوچا اور میرے دوستو یہ آج سے نہیں ہے، اس آئین کا مذاق جنرل ضیاء الحق نے بھی اڑایا تھا اور جنرل ضیاء الحق کا مقابلہ بھی جمعیۃ کے کارکن نے کیا تھا، اس آئین کا مذاق جنرل مشرف نے بھی اڑایا تھا اور پھر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے اس کی تلافی کی گئی، جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا اس ساری محنتوں پر پانی پھیرنے کے لیے ایوان میں 26 ویں ترمیم لائی گئی، میں اس موضوع پر زیادہ تفصیلی بات نہیں کروں گا لیکن تم نے جو ارادے قائم کیے تھے، تم نے جو دھاندلی کی، تم نے جس طرح اسمبلیاں وجود پذیر بنائی، تم نے جس طرح کی اسمبلیاں منتخب کرائیں دھاندلیاں کرا کے اپنی مرضی کی اکثریتیں بنائیں، تم نے جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ جو ظلم کیا کہ اگر ہمارے 16 سیٹیں تھی تو وہ 8 سیٹوں پہ آگئی قومی اسمبلی میں، یہ آپ کی روش تھی کہ یہ جمعیۃ والے یہ پھر رکاوٹ بنتے ہیں یہ ہم سے اپنی مرضی کراتے ہیں تو 16 سے بھی کم کرو ان کو اب ہمارے پاس آٹھ سیٹیں تھی سینٹ میں پانچ سیٹیں تھی، اللہ نے ایسا پھنسایا اللہ نے ایسا پھنسایا ان کو کہ پھر راستہ نکلنے کا ان کے پاس موجود نہیں تھا، جب ترمیم کی بات ہوئی تو مجھے کہنے لگے آج ہی آج پاس کرنی ہے میں نے کہا پاس تو ہوتا ہے جب کوئی مسودہ تو ہوگا پہلے مسودہ تو بناؤ پھر ہم مسودہ دیکھیں گے تو اس میں تم نے کیا گل کھلائے ہیں تیسرے دن رات کے کہیں دو ڈھائی بجے ہمیں مسودہ ملا ایک کالے لفافے میں اور جب ہم نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ آئینی ترمیم نہیں تھی وہ ایک کالا ناگ تھا جس سے قوم کو ڈسا جا رہا تھا اور اس آئینی ترمیم کا آغاز آئین کے بنیادی انسانی حقوق سے تھا جس میں بنیادی انسانی حقوق پامال کر دیے گئے تھے اور برائے نام جمہوریت اور دراصل مارشل لاء اس طرح کا ایک اس میں ترمیم لائی گئی، عدلیہ کا بیڑا غرق کر دیا گیا تھا اس کے اندر، عدلیہ کو غلام بنا دیا گیا تھا اور پھر جس طریقے سے انہوں نے اسمبلیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا ہم نے کہا کہ آپ کی گنتی ہمارے ووٹ کے بغیر پوری نہیں ہو رہی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ آئین کا حلیہ بگاڑ سکیں۔ 

میرے محترم دوستو! جو مسودہ 56 شقوں پر مشتمل تھا 56 شقوں پہ ہم نے ان کو پسپا کرتے کرتے ان کا مسودہ ہم 22 شقوں پہ لے آئے، ایک مہینہ لگا اس میں جی، میری نیندیں ضرور حرام کی انہوں نے لیکن میں نے بھی ان کی نیندیں حرام کی ہے، وہ بھی آرام سے سو نہیں سکیں اور پھر ایک قابل قبول مسودہ بنا، پھر ہم نے اس میں اپنی شقیں اضافہ کئیں جب پانچ شقیں ہم نے اضافہ کئیں تو 22 سے 27 شقیں ہو گئے، جس میں ہم نے سود کے خاتمے کا شق اس میں ڈال دیا، جس میں ہم نے وفاقی شرعی عدالت کو طاقتور اور با اختیار بنایا اور اس کے فیصلے کو نافذ العمل قرار دلوایا، ہم نے اس میں عدلیہ کا تحفظ کرایا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اس پر اسمبلی کو بحث میں لانے کو دستوری ہے تحفظ فراہم کیا، تو میرے محترم دوستو! 8 اراکین کے ساتھ اتنی پیشرفت میں سمجھتا ہوں کہ جمعیۃ علماء اسلام کے اور پاکستان کے اندر دین دار طبقے کے آرزوؤں کا مداوا ہو سکا جی۔ یہ آپ حضرات کی قوت تھی اور سیاست میں قوت لازم ہوتی ہے قوت کے بغیر کچھ نہیں ملتا پھر، باقی مواقع اللہ دیتا ہے محنت کے مواقع بھی دیتا ہے اور نتیجے کے مواقع بھی وہ خود دیتا ہے۔

میرے محترم دوستو! میں جو کچھ آج دیکھ رہا ہوں جو کچھ اسلام آباد میں ہوا گزشتہ روز مجھے کسی پارٹی کے فیصلے سے کوئی غرض نہیں ہے وہ اپنے فیصلے کے خود ذمہ دار ہیں صحیح فیصلہ کرتے ہیں غلط فیصلہ کرتے ہیں ہاں اگر ہم سے مشورہ لیں گے تو دیانت کے ساتھ مشورہ دیں گے، المُستَشارُ مؤتَمَن، لیکن جب پورے ایک صوبے سے قافلے آرہے ہیں اس وقت تو آپ ان کے لیے راستے چھوڑ رہے ہیں پیچھے ہٹ رہے ہیں پھر احسان جتلاتے ہیں کہ ہم گولی نہیں چلانا چاہتے تھے پھر جب وہ ڈی چوک پہنچ گئے پھر گولی کیوں چلائی؟ سیاسی کارکن تھے دو چار روز بیٹھے رہتے تو بیٹھے رہتے، ہم اس حوالے سے بھی حکمرانوں کے اس پر تشدد رویے کی مذمت کرتے ہیں ہر پارٹی کو جلسہ کرنے مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے، مجھے بھی حاصل ہے میرے مخالف کو بھی حاصل ہے لیکن جس صوبے سے آپ کو شکایت ہے کہ وہاں سے یلغار ہوتا ہے کوئی کہے نہ کہے میں بڑے واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ اس صوبے کی حکومت بھی تو تم نے بنوائی تھی وہ دھاندلی بھی تو آپ نے کرائی تھی جب نا اہلوں کو آپ حکمرانی دیں گے تو پھر یہی نتائج اس کے سامنے آئیں گے، تم نے جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ زیادتی کی تم نے جمیعۃ علماء کا مینڈیٹ چرایا اور اب حالات بھی قابو نہیں کر سکتے، کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ علاقوں پہ قابض ہوتے جا رہے ہیں حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں، بلوچستان کی یہی صورتحال ہے کہ وہاں پر امن و امان کی صورتحال وہ وہاں کے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں رہی، ہمارے امن قائم کرنے والے ادارے وہ کس چیز کی تنخواہیں لے رہے ہیں؟ سیاسی لوگوں کے کارکن شہید ہوتے ہیں وہ بھی جنازے اٹھاتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں ہمارے کارکن شہید ہو گئے اصول کے لیے شہید ہو گئے نظریے کے لیے شہید ہو گئے، آپ کی بھی دو چار شہداء آجاتے ہیں آپ بھی کندھوں پر اپنے شہداء اٹھائے پھرتے ہیں آپ بھی کہتے ہیں ہمارے جوان شہید ہو گئے بتاؤ عام لوگوں میں اور آپ کے فرائض میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں ہے! ملک کو سنبھالنا ہے یہ ملک ہمارا ملک ہے یہ ہم سب کا ملک ہے ہم اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اور اس ملک کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے اس کے اندر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے، تو پاکستان زندہ باد پاکستان رہے گا ان شاءاللہ۔

میرے محترم دوستو! ختم نبوت کا مسئلہ آیا 50 سال کے بعد ایک لمبے عرصے سے یہ کوشش ہو رہی تھی کہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان تسلیم کیا جائے لیکن اللہ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے ایسا جھٹکا لگا کہ پھر مجھے نوٹس دیا گیا کہ تم بھی عدالت میں آجاؤ میں نے کہا میں 72 سالوں میں کبھی جج کے سامنے پیش نہیں ہوا پہلی مرتبہ آپ مجھے جج کے سامنے کیوں پیش کر رہے ہیں لیکن چونکہ مسئلہ ختم نبوت کا تھا میں اس کو سعادت سمجھتا ہوں اگر 50 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے قومی اسمبلی کے اندر آئینی ترمیم کے ذریعے اس فتنے کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو آج ہم نے اس عدالت میں جا کر یہ کردار ادا کیا کہ ان کا کافر ہونا اور غیر مسلم ہونا برقرار رہے گا ان شاءاللہ، اگلے 50 سال کیا صدی تک بھی ہم نے ختم نبوت کے لیے عدالت میں ان کی ایسی کمر توڑی ہے کہ وہ دوبارہ جلد سیدھی نہیں ہو سکے گی۔

میرے محترم دوستو! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں آئینی ترمیم پاس ہونے کے وقت ایک قانون بھی پاس کیا گیا وہ قانون جو ہماری تحریک پر پیش کیا گیا تھا الیکشن سے پہلے جب شہباز شریف صاحب وزیراعظم بنے اس میں پیپلز پارٹی بھی موجود تھی ہم بھی موجود تھے جناب آصف علی زرداری صاحب بھی موجود تھے جناب بلاول بھٹو بھی موجود تھے تمام کے اتفاق رائے کے ساتھ تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ دینی مدارس کے حوالے سے ایک بل پر اتفاق ہوا، مدارس کے رجسٹریشن مدارس کے بینک اکاؤنٹس اس پر اتفاق رائے ہوا اور وہ اسمبلی میں پہنچ گیا اس کی اسمبلی میں ایک خواندگی بھی ہو گئی لیکن بیچ میں کسی قوت نے اس کو روک دیا اور اس کا حلیہ بگاڑ دیا جی، ہم نے کہا ہم مزید قانون سازی نہیں مانیں گے یہی روک دو، مجھے شہباز شریف صاحب نے کہا کہ چلو جس حد تک بھی ہو جائے پاس ہو جائے میں نے کہا نہیں اس طرح ادھورا کام ہم نہیں کریں گے مدارس کی آزادی و حریت یہ ہمارا نصب العین ہے، مدارس نے کرہ ارض پر الحاد کا راستہ روکا ہے، مدارس نے کرہ ارض پر ارتداد کا راستہ روکا ہے، مدارس نے کرہ ارض اور برصغیر میں اسلامی تہذیب اور قوموں اور علاقائی تہذیب کا تحفظ کیا ہے، تم مدارس کا خاتمہ کر کے مغرب کا اسلام امریکہ کا اسلام یورپ کا اسلام اور ان کو بھی لوگ ملے ہوتے ہیں ہر زمانے میں جدت پسندی کے نام پر نت نئے تشریحات کرتے رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کا حلیہ بگاڑ دے اور جو مغرب کو منظور اسلام ہے وہی اسلام ہم دنیا میں پیش کریں لیکن مدارس ہیں جو اس راستے میں رکاوٹ ہیں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ مدارس آپ کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ جس بل پر اتفاق ہوا تھا پاکستان پیپلز پارٹی اس اتفاق رائے میں شریک تھی اور ابھی جب دوبارہ 26 ویں ترمیم کا معاملہ اٹھا تو ہم نے کہا کہ اس بل کو بھی پاس کرنا ہے، ہم نے کہا کہ اس بل کو بھی پاس کرنا ہے آپ نے اس پر اتفاق رائے کیا، میں نے کراچی میں بلاول ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے ساتھ پانچ گھنٹے مذاکرات کیے اور اس بل پر ان کو راضی کیا، میں نے لاہور میں آصف علی زرداری صاحب کی موجودگی میں بلاول بھٹو صاحب کی موجودگی میں میاں نواز شریف صاحب کے گھر میں پانچ گھنٹے کی بحث کی ہے ان کے ساتھ اور وہاں پر بھی ہم نے اس بل پر اتفاق کر لیا تھا اور اب جب پاس ہو گیا تو پاس ہونے کے بعد آپ نے اسمبلی سے کچھ اور بل بھی پاس کروائے زرداری صاحب آپ نے ان سب پہ دستخط کر دیے ان کا گزٹ ہو گیا آج تک دینی مدارس کے حوالے سے بل پر کیوں دستخط نہیں ہو رہے اور جس بل پر تم نے دستخط کیے ہیں اس پر اتفاق رائے نہیں ہوا وہ 26 ویں آئین کی روح کے خلاف ہے، تم نے ایک طرف اتفاق رائے کر کے کچھ چیزوں سے دستبرداری کی اور قانون کے راستے سے آکر پھر آپ نے قوم کے عام آدمی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا یہ متنازعہ بل اس پر تو آپ دستخط کر رہے ہیں لیکن جس پر آپ نے خود اتفاق کیا تھا آج تک اس پر کیوں دستخط نہیں کیے جا رہے؟ میری بات سمجھ میں آرہی ہے آپ کو؟ تو یہ آپ کے لیے کوئی آسان نہیں ہوگا ان شاءاللہ اور جمعیۃ علماء اسلام پورے ملک کے کونے کونے میں اور دینی مدارس ملک کے کونے کونے میں اب اٹھے گے اور وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے اور جب یہ دنیا اسلام آباد کی طرف جائے گی تو تمہارا باپ بھی ہمارا راستہ نہیں رو سکے گا!

میرے دوستو! ہم ہر مسئلے پر ہنگامہ آرائی نہیں کیا کرتے ہمارا احتجاج اور ہمارا سوال بڑا مضبوط اور دلیل کی بنیاد پر ہے اور اگر اس پر دستخط نہیں ہوتے تو پھر ان شاءاللہ 8 دسمبر کو جب پشاور میں اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگے گا تو تمہارے مردہ باد کا نعرہ بھی لگے گا۔

میرے محترم دوستو! ہم ایک دینی اور اسلامی حق کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، میرا مدرسہ دین اسلام کا محافظ ادارہ ہے، قرآن کے علوم کا محافظ ادارہ ہے، حدیث کے علوم کا محافظ ادارہ ہے، فقہ کے علوم کا محافظ ادارہ ہے اور جن مضامین کو انگریز نے علی گڑھ مدرسے میں نصاب سے نکال دیا تھا دینی مدرسے نے اس نصاب کو تحفظ دیا ہے اور 1866 سے میرے اکابر نے اس مدرسے کو قائم کر کے جن علوم کو تحفظ دیا تھا آج وہ ایک طاقتور اور تناور درخت بن چکا ہے تمہارا باپ بھی اس درخت کو اب نہیں کاٹ سکے گا اور ہم لڑیں گے اس کے لیے جی۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ خدا کرے ایسی نوبت نہ آئے پہلے سدھر جاؤ ٹھیک ہو جاؤ عقل کے ناخن لو اور وطن عزیز میں اسلام کے ان قلعوں پر حملے بند کر دو ورنہ پھر ان قلعوں سے جو جواب ملے گا تم پھر اپنے قلعوں میں نہیں ٹھہر سکو گے۔ ہماری سیاست میں لچک ہے ہماری سیاست میں اعتدال ہے ہماری سیاست گفتگو پہ یقین رکھتی ہے لیکن جب معاملات ایک جگہ پر آکر طے ہو جاتے ہیں پھر آپ سوچیں گے کہ ہم پیچھے ہٹیں گے پھر پیچھے ہٹنے کا سبق ہمیں اپنے بزرگوں نے نہیں سکھایا ہے، ان شاء اللہ العزیز آگے بڑھیں گے اور اپنے اس حق کی جنگ لڑیں گے۔ آپ کو قبول ہے یہ سارا؟

میرے محترم دوستو! میں ایک بار پھر اپنے اس موقف کو دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم نے فروری 2024 کے الیکشن مسترد کیے تھے آج بھی اس کو مسترد کرتے ہیں اور ان اسمبلیوں کو ہم اسٹبلشمنٹ کا نمائندہ کہتے ہیں یہ عوام کے نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں، یہ اسمبلیاں خریدی گئی ہیں ان کی بولیاں لگی ہیں ہم ایسی اسمبلیوں کو کیسے مانیں یہ ہمارے اصول کے خلاف ہے یہ ہمارے نظریے کے خلاف ہے اور جب تک دوبارہ الیکشن نہیں ہوتے ملک میں منصفانہ الیکشن نہیں ہوتے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے جدوجہد جاری رہے گی اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہوگا۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments