سہیل سہراب
کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے کارکن ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتا ہے جس کے بغیر وجود کا کھڑا ہونا ناممکن ہوتا ہے یہی کارکن اپنے جماعت کا کل اثاثہ ہوتا ہے جو ہر حال میں اپنے جماعت کے ساتھ وفادار رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم وقتاً فوقتاً ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ بھی چکے ہیں اور ان شاءاللہ آئیندہ بھی اس موضوع پر لکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے تاکہ سوشل میڈیا پر موجود اپنے دوستوں کے علم میں بھی اضافہ کیا جاسکے۔
دوستو! سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے اور یقیناً یہ خدمت ہی ہوگی ورنہ کسی ایک شخص کے پیچھے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں لوگ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں، نعرہ بازی کرتے ہیں، یہاں تک کہ خود کی جان نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سیاست ایک عمل کا نام ہے اور اس کی اپنی روایات ہوتی ہیں، سیاست کسی ڈسپلن میں رہتے ہوئے، عوامی فلاح کے لئے منظم جدوجہد کا نام ہے، جس میں ایک ضابطہ اخلاق متعین ہوتا ہے، جس کا ماننا ہر سیاسی کارکن اور ممبر کا فرض ہوتا ہے۔
اب مذکورہ بالا پیراگراف کی روشنی میں اگر سیاسی کارکن کی تعریف کی جائے تو ایسا شخص جو کسی سیاسی جماعت کا ممبر ہو، اس کے مینی فیسٹو کو پڑھ کے، جان کے شامل ہوا ہو۔ جس کی تربیت باقاعدہ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہو چکی ہو۔ سیاسی تاریخ سے متعارف ہو۔ سیاسی جماعت کے نظریہ کو باقاعدہ عقل و شعور سے پرکھنے والا ہو۔ اس پیمانے پر خود کو پرکھنے کے بعد ہی ہم سب کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آیا ہم سیاسی کارکن ہے یا صرف ہجوم۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے، تو اس وقت گوگل کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک سو تریانوے سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں دس کے قریب بڑی اور نامور سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کو پرکھا جائے تو ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاؤہ کسی نے بھی ایسا پلیٹ فارم نہیں دیا جس کے تحت ان کے ماننے والے سیاسی کارکن کی سیاسی تربیت کی گئی ہو اور جو کسی زمانے میں اپنے کارکن کی تربیت کرتے تھے اب انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ جماعت کے جیالے ہو سکتے ہیں۔ شیر جوان ہو سکتے ہیں، جنونی ہو سکتے ہیں، یا پھر کوئی بھی ایسا جوانمرد نام دیا جاسکتا ہے جس سے طاقت کی عکاسی ہوتی ہو۔ مگر کسی جماعت نے اپنے کارکنوں کو سیاسی کارکن بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ کوئی ایسا منظم لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا گیا جس کے تحت اپنے جیالوں، شیروں اور جنونیوں کو سیاسی تاریخ سمجھائی جا سکے، سیاسی سمجھ بوجھ دی جا سکے، سیاست، سماج اور معیشت کی رشتہ داری کو دکھلایا جا سکے۔ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اپنے کارکنوں کو نعروں، ہلڑ بازی اور ڈیروں کی رونق کا حصہ بنا کر ہی رکھا گیا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا مثبت کام سیاسی جماعتوں نے کیوں نہیں کیا ؟
تو اس کا سادہ جواب ہے کہ اس لئے کہ سیاسی تربیت کا صاف مطلب سیاسی شعور بنتا ہے۔ سیاسی شعور نہ صرف انسانی آنکھ میں روشنی لاتا ہے، بلکہ سیاست، معیشت اور سماج کو پرکھنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ سیاسی تاریخ پڑھانے اور سیاسی شعور دینے سے سیاسی جماعت پہ کھل کے سوالات اٹھیں گے، جمہوری روایات کو اپنانے کی چہ میگوئیاں ہوں گی، جماعت کے اندر شفاف الیکشن کی باتیں ہوں گی، سیاسی جماعت کو تنقیدی سوالوں کا جواب دینا پڑے گا جس سے چبھن ہوتی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں شامل الیکٹیبلز جو کسی بھی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ان کی جیت یقینی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا اثر و رسوخ ووٹرز اور اپنے حلقہ پہ بہت ہوتا ہے۔ وہ بھی سیاسی تربیت کے خلاف ہی رہیں گے۔ ان کو بھی بس نعرے لگانے والے اور ان کے ڈیروں کو رونق بخشنے والے چہرے اور سر ہی چاہیے ہوتے ہیں۔
تربیت نہ ہونے کا نقصان؟
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے، کہ حقیقی سیاسی لیڈرشپ کا فقدان رہتا ہے۔ جماعت سے وابستہ لوگ سیاسی جماعت نہیں بلکہ کسی شخصیت اور خواب کے پیچھے گھومتے بند دماغ یا بند گوبھی ہوتے ہیں۔ جو اس محبت اور عشق میں اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ سیاسی تاریخ کو بھی کسی کھاتے میں نہیں رکھتے ہیں۔ مختصر یاداشت کے مالک اور عقیدت کے مارے ہر ہوائی قلعہ کی تعمیر میں بطور مزدور مفت میں کام کرتے رہتے ہیں۔ پھر ہجوم در ہجوم در ہجوم رہنا پسند کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ آج کل کی سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے ایسے کارکنوں کے گروہ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
#سہیل_سہراب
ایک تبصرہ شائع کریں