وائس آف امریکہ کا قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے انٹرویو 3 جولائی 2019

وائس آف امریکہ کا قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے انٹرویو

3 جولائی 2019
ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ الیکشن کرائیں، اگر الیکشن ہمیں ملتے ہیں تو پھر مارشل لاء کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اگر مارشل لاء لگتا ہے تو عام طور پر یہ ہوتا ہے۔ کے ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں پھر فوج نجات دہندہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔
یعنی اس گورنمنٹ کے خلاف منفی پروپیگنڈا بھی ہو جاتا ہے ہے اس حکومت کے خلاف عوام میں ناراضگی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے خلاف جو لوگوں کی ناراضگی ہے اس میں حکومت تنہا نہیں ہے۔ بلکہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
لہذا مجھے نہیں لگتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ان لوگوں کو حکومت میں لانے کی ذمہ داری سے مبرا ہیں یا بری ذمہ ہیں۔ تو یہ چیز ملحوظ نظر ہے لہذا کون ان کو نجات دہندہ تسلیم نہیں کر سکتی۔
آپ اگر آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے تو آپ کی رائے کا بھی ہمیں احترام ہے۔ آپ کی صلاحیتوں کا بھی ہمیں اعتراف ہے اور ہم ملک کے لئے اس سے استفادہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کوئی نفی کر رہے ہیں لیکن اگر سیاستدان کا دائرہ کار ہے تو وہ اس کے حوالے کیا جائے۔
تب ملک چلے گا جب سیول اور ہمارے جو دفاعی ادارے ہیں وہ اپنا اپنا دائرہ کار رکھتے ہیں اپنا اپنا ماحول رکھتے ہیں۔ اسی ماحول میں اگر ہم مل کر کام کرنا چاہیں تو تب ہمارا باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اور میں اسی اعتماد کو بحال کرنے کی جنگ لڑ رہا ہوں۔
جو بظاہر تو ایک ناراضگی نظر آتی ہے لیکن ملک کی بہتری کے لئے کر رہا ہوں۔
ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں وہ ایسی گارنٹی لینا چاہیں گے کہ دوبارہ یہ دھاندلی نہ ہوسکے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک پولنگ بوتھ کے اندر فوج کا سپاہی کھڑا ہوگا اور گنتی فوج کے سپاہی کی نگرانی میں ہوگی بلکہ وہی کرے گا۔
تو پھر تو ہم اس کو منصفانہ انتخابات تسلیم نہیں کر سکتے۔
یہ جو وقت گزرا ہے اس نے کچھ بد اعتمادیاں جنم دی ہیں اور اب جو ہمارا اکٹھ ہوا ہے تو ظاہر ہے اس سے اعتماد بحال ہوا ہے۔ اس اے پی سی کے انعقاد کی وجہ سے یہ بھی طے ہو گیا کہ تحریک چلانے کے لیے ایک رہبر کمیٹی بنائی جائے گی۔ تاکہ اقدامات کے لیے حکمت عملی وضع کر سکے۔
ابھی ہم رہبر کمیٹی بنانے کے آخری مراحل میں ہیں ہیں تقریبا کام ختم ہو چکا ہے اس بات کا امکان ہے کہ ایک دو دن میں اس کا اعلان کیا جا سکے۔
طالبان کا موقف یہ ہے کہ ہماری امارت کا خاتمہ امریکیوں نے کیا تھا ہم پر بمباری کی تھی۔ ہمارے ملک کے اوپر قبضہ کر لیا تھا لہذا اب ہم جو بھی بات چیت ہوگی وہ امریکیوں کے ساتھ کریں گے۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور اپنی جگہ پر صائب ہے لیکن یہ کہ کیا یہ ملک کے داخلی امن کے لئے کافی ہوگا۔ اور اگر داخلی طور پر مقامی لوگ آپس میں کوئی مصالحت نہیں کرتے اور آپس میں ایک امن کے فارمولے پر اتفاق رائے نہیں کرتے۔
تو کیا صرف امریکیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے سے وہ معاملات کافی ہو جائیں گے اب یہ چیزیں جو ہے یہاں بھی زیر غور ہیں اور اس کے اوپر بات چیت ہو رہی ہے تو اس لحاظ سے ہمیں میرے خیال میں زیادہ پُرامید بھی نہیں ہونا چاہیے اور مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اور کئی مراحل ہمارے سامنے پڑے ہوئے ہیں ان کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ ہمیں پیش رفت کرنی چاہئے۔

 

0/Post a Comment/Comments