اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس

اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس

16 دسمبر 2024

مفتی منیب الرحمان صاحب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسوله الکریم، سیدنا و مولانا محمد وعلی آله وصحبه اجمعین

میڈیا کے تمام دوستوں کا بے حد شکریہ کہ آپ حضرات ہمارے موقف کو قوم تک اور ارباب اقتدار و اختیار تک پہنچانے کے لیے یہاں تشریف لائے۔

آج اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے سپریم کونسل کا اجلاس جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکائے گرامی کے اسمائے مبارک یہ ہیں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا محمد حنیف جالندھری، یہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مفتی منیب الرحمن اور صاحبزادہ محمد عبد المصطفی ہزاروی اور مولانا حافظ محمد اسحاق ظفر یہ تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ پروفیسر مولانا ساجد میر، مولانا قاری یاسین ظفر، مولانا حافظ یونس یہ وفاق المدارس سلفیہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مولانا عبد المالک، مولانا عطاء الرحمن اور مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمن یہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ علامہ افضل حیدری، علامہ محمد تحسین، علامہ لال حسین توحیدی یہ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اور محترم کامران مرتضی ایڈوکیٹ صاحب یہ قانونی مشیر کی حیثیت سے ہمارے ساتھ اجلاس میں شریک رہے اور جناب اسلم غوری صاحب۔ اجلاس میں موجودہ صورتحال پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا اور طویل تبادلہ خیال اور بحث و تمحیص کے بعد مندرجہ ذیل قرارداد اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔

قرارداد کا متن یہ ہے، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت ترمیمی سوسائٹیز رجسٹریشن بل مورخہ 20 / 21 اکتوبر 2024 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا اور اسی روز قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دستخط سے حتمی منظوری کے لیے ایوان صدر کو ارسال کر دیا گیا۔ مورخہ 28 اکتوبر 2024 کو صدر کی طرف سے ایک غلطی کی نشاندہی کی گئی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے آئین اور قانون کے تحت اسے قلمی غلطی گردانتے ہوئے اس کی تصحیح کر دی اور تصیح شدہ ترمیمی مورخہ یکم نومبر 2024 کو ایوان صدر ارسال کر دیا۔ اسے صدر نے قبول کرتے ہوئے اس پر زور نہیں دیا بعد ازاں صدر کی طرف سے دس دن کے اندر مذکورہ ترمیمی بل پر کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا البتہ 13 نومبر 2024 کو نئے اعتراضات لگا دیے گئے جو کہ معیاد گزرنے کی وجہ سے غیر مؤثر تھے۔ نیز ایک کے بعد دوبارہ اعتراض لگایا بھی نہیں جا سکتا تھا لہٰذا یہ بل اب قانونی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حوالے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی نظیر موجود ہے۔ نیز سپیکر نے علی الاعلان اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے اور انہیں صرف ایک ہی اعتراض موصول ہوا تھا اور دوسرا اعتراض آج تک انہیں نہیں ملا۔ پس ہمارا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق بلا تاخیر اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے تاکہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہو۔

یہ قرارداد کا مکمل ٹیکسٹ متن آپ کے سامنے پیش کر دیا۔

صحافی: سر اس کے بعد حکمت عملی طے کی گئی ہے؟ آپ نے جو مطالبہ پیش کیا تھا اگر وہ حکومت کی طرف سے پورا نہیں کیا جاتا؟

مفتی منیب الرحمن: شریعت کا حکم یہ ہے کہ حسن ظن سے کام لیا جائے، جو لوگ اقتدار و اختیار کے مالک ہوتے ہیں ان سے ہمیشہ معقولیت، انصاف اور تواضع کی امید کی جاتی ہے۔ لہٰذا اس وقت تک ہماری پوری سپریم کونسل کی اجماعی رائے یہ ہے کہ حکومتِ وقت ہمارے اس قرارداد کو معقول گردانتے ہوئے اسے تسلیم کرے گی اور اس پر عمل درآمد کرے گی۔ لیکن اگر خدا نخواستہ اس کے برعکس کوئی صورت حال پیش آئی تو پھر ان شاءاللہ تعالیٰ ہم بلا تاخیر مل بیٹھیں گے اور اس کے بعد کا لائحہ عمل اتفاق رائے سے طے کیا جائے گا اور اس پر ان شاء اللہ تعالیٰ عمل بھی کیا جائے گا۔

صحافی: اچھا مفتی صاحب یہ بتائیے گا ایک طرف بڑی مدارس ہے جیسا کہ آج آپ کا اجلاس ہوا دوسری طرف وہ مدارس ہے جن کو طاہر اشرفی صاحب لیڈ کر رہے ہیں، ایک طاہر اشرفی پورے علماء کرام پر بھاری کیسے ہوگیا؟

۔۔۔۔۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ آپ پیپلز پارٹی کے پریزیڈنٹ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کے ساتھ اچھے تعلقات ہے مولانا فضل الرحمان صاحب کی ملاقاتیں بھی ہوئیں آپ کے ساتھ وعدے بھی کیں، ابھی کون سی رکاوٹ ہے کہ یہ بل حکومت اسی طرح تسلیم نہیں کر رہی جب کہ آپ کا موقف یہ ہے کہ بل قانونی طور پر ایک قانون بن چکا ہے اب دوبارہ اس کی منظوری کی ضرورت نہیں، ایک جوائنٹ اجلاس بھی بلایا جا رہا تھا جو اب کینسل کر دیا گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن: دیکھیے اس مسئلے کا ذاتی مراسم سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے اور ریکارڈ پر ہے کہ الیکشن سے پہلے میاں شہباز شریف صاحب کی حکومت، پاکستان پیپلز پارٹی جس کے سربراہ وہ خود ہے اور بلاول بھٹو صاحب تمام اجلاسوں میں خود شریک ہوتے تھے۔ اور اس بل کے حوالے سے اس وقت بھی حکومت کی طرف سے ڈرافٹ لایا گیا اور ہم نے قبول کیا۔ پھر بوجوہ وہ اسمبلی سے پاس نہ ہو سکا، وہ ایک الگ عنوان ہے۔ اب جب ہم نے 26ویں ترمیم کے موقع پر بات چیت میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ایک بل جو ہمارا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے اسے بھی اس موقع پر پاس کیا جائے۔ اور انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم اس کو پاس کریں گے اور وہ پاس ہو گیا جیسے کہ مولانا مفتی منیب الرحمان صاحب نے اپنی گفتگو میں آپ کو بتایا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی تبدیلی لائی ہے ہم نے تو نہیں لائی اور وہ بھی اسی گورنمنٹ نے لائی ہوگی اور اسی لوگوں نے لائی ہوگی کہ وہ ڈرافٹ آیا تو ظاہر ہے کہ ہمارے لیے تو اس میں کوئی تنازعہ والی بات نہیں تھی۔ پھر اس کے بعد کیا انہوں نے اس بل کے پاس ہونے کے بعد کوئی اعتراض کیا؟ کیا انہوں نے کوئی سوال اٹھایا؟ جب کوئی سوال نہیں اٹھایا اور بلکہ وہ تو بل پاس ہونے کے ایک ہفتے کے اندر میرے پاس مجھے مبارک باد دینے کے لیے آنا چاہتے تھے لیکن شاید میری مصروفیات یا شہر سے باہر ہونا ملاقات میں مانع رہا اور آج وہ سوال اٹھا رہے ہیں کوئی مہینے ڈیڑھ کے بعد تو ہم ان سے کوئی جھگڑا نہیں کر رہے وہ ہمارے بھائی ہیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں انہوں نے یہ سوال کس ضرورت کے تحت اٹھایا، اٹھانا چاہیے تھا تو ہم سے اگر بات کرتے تو ہم خوشی کے ساتھ ان کے ساتھ بیٹھتے، کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں ہے لیکن ایک ایسا ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ جیسے یہ بل بڑا متنازعہ ہے۔ لہٰذا بل بالکل متنازع نہیں ہے۔ بل متفقہ اتفاق رائے کے ساتھ پارلیمنٹ کے اختیار کے ساتھ پاس ہوا ہے، پہلے بھی اسمبلی ہی میں پیش ہوا تھا آج بھی اسمبلی ہی میں پیش ہوا اور اسی کے تحت یہ ساری چیز معاملات طے ہوئے ہیں لہٰذا اب جو اس وقت اس کی آئینی اور قانونی پوزیشن ہے ہماری نظر میں بالاتفاق وہ ایک ایکٹ بن چکا ہے، لہٰذا اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن کیا جائے۔ ہم اس پہ اصرار کر رہے ہیں۔ ہمارے مدعیٰ کو سمجھا جائے۔ ہمارا مدعیٰ اس سے آگے نہیں ہے۔ ہم نہ کسی کے مقابلے میں ہیں نہ کسی کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا تنازعہ ہے۔ ہم ایوان صدر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے خلاف قانون اقدامات کیوں کئے! گزٹ کیوں نہیں کرایا۔ گورنمنٹ سے ہماری شکایت ہے کہ وہ اس وقت نوٹیفکیشن کیوں نہیں کر رہی۔ ہمارا مدعا بڑا واضح اور بڑا مختصر ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ اگر یہ کنفرم نہ ہو جائے اور اگلا لائحہ عمل نہ آجائے۔۔۔۔۔

مفتی منیب الرحمن: ایک منٹ بھائی جان میں یہاں آپ کے توسط سے ان تمام اکابر علماء کی طرف سے پوری قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت قومی اور عالمی سطح پر حالات کی جو نزاکت ہے اس کا ہمیں بخوبی احساس ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم سے بڑھ کر کوئی محب وطن نہیں ہے۔ اس لیے اس ملک میں امن، سلامتی، عافیت اور امان یہ ہمارا بھی مطلوب ہے، ہر پاکستانی کا مطلوب ہونا چاہیے۔ اس لیے حالات کو بگاڑنا یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ ہم ایک مثبت اور تعمیری پیغام دینا چاہتے ہیں اور اہل اقتدار کو اس پیغام کو مثبت معنوں میں لینا چاہیے اور احسن طریقے سے، پرامن طریقے سے پیار اور محبت کی فضا میں اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کر دینا چاہیے۔ تاکہ ہم مل جل کر اس ملک اور قوم کی خدمت کر سکیں۔

صحافی: مولانا صاحب اگر گورنمنٹ کی طرف سے فاسٹ ریسپانس نہ آیا تو ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جیسے احتجاج یا دیگر قسم کے؟ کیا آپ سپریم کورٹ بھی جا سکتے ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: ہم کسی بھی ایسے جال کی طرف نہیں جائیں گے کہ جس سے معاملات لٹک جائے، لمبا ہو جائے۔ ہم سادہ مسئلہ سادہ طریقے سے فوری طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم نے اپنا میسج دے دیا ہے۔ اس وقت ہم اور آپ یہاں بیٹھے ہیں اور ہمارا میسج وہاں پہنچ چکا ہوگا۔ تو یہ ضرور ہے کہ اس میں یہ میسج بھی ہے کہ ہم گفتگو یا قانونی، پارلیمانی، آئینی راستے سے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم ابھی تک منفی گفتگو نہیں کرنا چاہتے ورنہ میدان آگے ہوگا ہم بھی ہوں گے دوبارہ بھی بیٹھ سکیں گے اور ہم اپنے پلیٹ فارم سے اس پر جو اپنی رائے دیں گے اس کے لیے ابھی وقت ہے ایسی کوئی بات کہنا کہ جس کا معنی یہ ہو کہ ہم کوئی شدت سے دباؤ سے قوت سے ان سے بات منوانا چاہتے ہیں، ہم بڑے قانونی اور آئینی لب و لہجے کے ساتھ جس طرح مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس ملک میں ہمیں استحکام اور امن کی بھی ضرورت ہے اور ہم اس کی طرف اگر جانا چاہتے ہیں تو ان کو بھی اسی جذبے کے ساتھ رسپانس کرنا چاہیے۔ ہم نے بہت اچھا میسج دے دیا ہے ہمارا موقف آئین اور قانون کے تابع ہے۔ پارلیمانی روایات کے تابع ہیں۔ ایوان صدر کی روایات کے تابع ہیں۔ آئین پاکستان کے تابع ہیں۔ ہم نے بالکل صحیح موقف دیا ہے اور ہم اپنے موقوف قائم رہیں گے۔

صحافی: مولانا صاحب 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت رات گئے تک ہماری آپ سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، حکومت کے طرف سے بھی، لیکن اس کے باوجود یہ بل پاس نہیں ہو رہا، صدر دستخط نہیں کر رہے آپ کو کیا واقعی لگتا ہے کہ حکومت اس میں رکاوٹ ڈال رہی ہے یا اس کے پیچھے کسی اور کا قوت کا بھی ہاتھ ہے؟ 

مولانا فضل الرحمٰن: ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ ستارے کچھ نظر آتے ہے کچھ۔۔۔۔۔ 

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ جو آپ کی ملاقات ہوئی تھی بلاول بھٹو سے، تو ایوان صدر سے کچھ پیغام لے کر آئے تھے تو آخر آپ کو وجہ کیا بتائی گئی ہے یہ غیر قانونی کام کیا کیوں گیا؟ کوئی تو وجہ ہوگی حکومت کے ساتھ بھی آپ کی بات چیت ہوئی ہے، اس سے پہلے جتنی قانون سازی کی گئی کبھی ایسا نہیں کیا گیا جو اس بل کو لے کر کیا جا رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن: جو سوال آپ کے ذہن میں ہے یہی تو میری ذہن میں ہے کہ کیا وجہ ہے بتائے تو سہی، یعنی ہماری نظر میں خود اسپیکر صاحب کی نظر میں، خود حکومت کے جو ذمہ داران ہے ان کی نظر میں، یعنی اس وقت تک انہوں نے اپنا موقف کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں دیا۔ دستخط نہ کرنے کی کوئی آئینی قانونی وجوہات نہیں بتائے۔ وہ گھسی پھٹی باتیں جس کا ان کو شاید یہ خیال ہو کہ ہمارا واسطہ کسی اَنپڑھوں کے ساتھ پڑا ہے ہم جس شکل میں اور جس لفاظی میں ان کے سامنے اپنی بات کریں وہ مان جائیں گے۔ ان کو تجربہ ہو چکا ہے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر ان کو خوب پتہ چل گیا ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح کی ہنسی مسکراہٹ میں ان سے بات نہیں منوائی جا سکے گی۔ لہٰذا حقائق کی طرف آئے ہم نے حقیقت پسندانہ موقف دے دیا ہے اور اب مزید جو بھی آگے جائے گا ہم اپنے موقف کی بنیاد پر کریں گے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائیے گا کہ ایک قانون پہلے سے ایکزسٹ کر رہا تھا اور پچھلا اجلاس ہوا اس میں کہا گیا کہ تمام مکاتب فکر علماء کے دستخط اس پر موجود ہے اور اس کے تحت بے شمار ہزاروں کی تعداد میں مدارس رجسٹرڈ بھی ہیں اور ان مدارس سے طلباء پاس ہو کر جا چکے ہیں انہیں سرٹیفکیٹس مل چکیں ہیں، اس قانون کے ہوتے ہوئے یہ دوسرے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اب اس صورت میں اس قانون کی کیا حیثیت رہ جائیگی؟

مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیں میں ایک تو ان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہوں گا دوسرا اس کا ذرا وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ اپ لفظ قانون استعمال نہ کریں اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔ ہم قانون کی بات کر رہے ہیں، ہم باقاعدہ سوسائٹی ایکٹ کی بات کر رہے ہیں، وہ پتہ نہیں کس کی بات کر رہے ہیں وہ اس کا کوئی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا معاہدات اور اس کا حوالہ دینا اور کوئی انہوں نے ڈائریکٹریٹ بنایا ہوا ہے وہ ایکٹ تو نہیں ہے لیکن ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت شاید اس وقت انہوں نے کیے تھے جو معاہدے کا حصہ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے ساتھ تقابل نہ کیا جائے ہمارے ان کے موقف میں آسمان و زمین کی باتیں ہیں، ہمارا ان سے جھگڑا ہی نہیں ہے کیوں ایسی باتیں لوگوں کو کی جاتی ہیں کہ صاحب یہ تو تعلیم کے ادارے ہیں تو تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونی چاہیے۔ تو ستر سال کے بعد یہ سبق یاد آیا! کب تم پر یہ راز کھلا انکار سے پہلے یا کے بعد، تو اس قسم کی چیزیں حضرت آج صنعت و حرفت کے حوالے سے کوئی ادارے ہوں گے رفاہی ادارے جو رجسٹرڈ ہونا چاہیں گے کل کو آپ کہیں گے کہ وزارت صنعت و حرفت کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ، صحت کے حوالے سے لوگ کام کر رہے ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہے ہیں آپ انہیں کہیں کہ وزارت صحت کے ساتھ جا کر رجسٹرڈ ہو جاؤ، رفاہی ادارے ہیں رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں آپ ان کو کہیں کہ جب کسی رفاہی وزارت کے ساتھ آپ نتی ہو جائیں۔ یہ تو ایک عجیب سا فلسفہ ہے سمجھ میں نہیں بات آرہی ایک ایکٹ ہے جو انگریزوں کے زمانے سے آج تک محفوظ ہے اور ہے ہی صرف اس لیے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں جو ادارے بنیں گے وہ اسی کے تحت رجسٹرڈ ہوں گے، یہ صرف بنایا ہی اسی لیے گیا ہے اور ہم نے ملک میں باقی بھی اسی لیے رکھا ہے اس پر تو جھگڑا ہی نہیں ہے تو جھگڑا نہیں ہے پھر ایسے سوالات خواہ مخواہ کس لیے اٹھائے جا رہے ہیں، ضرورت کیا ہے، سب ہمارے بھائی ہیں، قابل احترام ہیں لیکن کم از کم مدارس کو پریشان نہ کرے، مدارس کا نظام چلنے دے۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments