مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم اور مدارس بل پر خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم اور مدارس بل پر خطاب

17 دسمبر 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

جناب اسپیکر اور آپ کی وساطت سے تمام معزز اراکین ایوان، ہر چند کہ اس ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمہ داریاں بھی یہی ایوان نبھا رہا ہے اور ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم پاس کی اور یوں سمجھیے کہ وہ ایک اتفاق رائے کے ساتھ تھا اگرچہ ہماری بڑی اپوزیشن پارٹی نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی لیکن اس حوالے سے مذاکرات کا جو عمل ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک رہا اس میں تمام پارٹیاں حکومتی بینچز پہ یا اپوزیشن بینچز پہ سب ان بورڈ تھیں اور سیاست میں یہی ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوتے ہیں دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں دلائل سے سمجھاتے ہیں اور بالآخر مسئلہ ایک حل پہ پہنچ جاتا ہے۔

اسی میں جناب اسپیکر دینی مدارس کے حوالے سے ایک بل بھی تھا اور میں اس حوالے سے کچھ ہسٹری آپ کے سامنے بھی ایوان کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ 2004 میں حکومت اور دینی مدارس کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت نے اس وقت مدارس کے حوالے سے تین سوال اٹھائے تھے، پہلا سوال یہ تھا کہ دینی مدارس کا مالیاتی نظام کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ دینی مدارس کا نصاب تعلیم کیا ہے؟ اور تیسرا یہ کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟ ان تینوں سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد جب حکومت مطمئن ہو گئی تو اس وقت ایک قانون سازی ہوئی اور اس میں اتنا ضرور کہا گیا کہ دینی مدارس اس حوالے سے محتاط رہیں گی کہ کسی طرح بھی کوئی اس میں فرقہ وارانہ تعلیم نہ ہو، شدت پر آمادہ کرنے والا کوئی مواد پیش نہ کیا جائے البتہ تقابل ادیان کے حوالے سے اور تقابل مذاہب کے حوالے سے علمی بحث اگر استاد کرتا ہے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہوگا۔ کچھ بعد میں مشکلات آتی رہیں ہماری خفیہ ایجنسیاں وہ مدارس میں براہ راست جاتی تھی وہاں پر ڈرانے دھمکانے پریشان کرنے کا ایک سلسلہ چل رہا تھا جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی اور 2010 میں ایک پھر معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے حوالے سے کوئی شکایت براہ راست مدرسے میں جا کر نہیں کی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کے ساتھ اس مدرسے کا الحاق ہے۔ ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے پھر اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی تو خود حکومت نے اس وقت یہ سوال اٹھایا کہ مدارس 1860 کی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور چونکہ اب وہ صوبائی مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا آپ وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ خود کو وابستہ کر لیں، یہ یعنی جیسے ہم ایک ڈاک خانہ تبدیل کر رہے ہیں دوسرے ڈاک خانے میں، پہلے ہم وزارت صنعت و حرفت کے ساتھ سوسائٹی ایکٹ جو خالصتاً اسی لیے بنایا گیا تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بننے والے جتنے ادارے کمپنیاں ہوں گی وہ سب اسی میں ہی رجسٹرڈ ہوتی رہیں گی اور اب آئیے وزارت تعلیم کے تحت۔ وزارت تعلیم میں بھی صرف آپ اس نسبت سے منسلک ہو کر رجسٹریشن کرائیں گے اور جہاں صوبوں میں دفتر ہوں گے وزارت تعلیم کے وہاں لوگ جا کر وہ رجسٹریشن کارڈ لینگے۔ اس پر بات چیت ہوتی رہی لیکن وہ ایکٹ نہیں بنا وہ محض ایک معاہدہ تھا اور وہ معاہدہ تین باتوں پر مشتمل تھا، اس میں پہلی بات یہ تھی کہ دینی مدارس جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی، دوسری بات یہ کہ دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے اور تیسری بات یہ کہ غیر ملکی طلباء جن پر پابندی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم حاصل کریں ان کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی اور 9 سال تک ان کو نو سال کا ویزہ دیا جائے گا۔ اس میں جو بعد میں ایجوکیشن ایک بورڈ بنا اس کے تحت 12 مراکز بنائے گئے یہ سب بعد کے ایگزیکٹو آرڈرز ہیں اس کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں، آج اگر کوئی اس کی بات کرتا ہے تو یہ پس از مرگ واویلا کی بات ہے، وہ معاہدہ حکومت کی طرف سے ٹوٹ چکا تھا کہ آج تک تنظیمات مدارس دینیہ سے وابستہ نہ تو کسی مدرسے کے رجسٹریشن ہو سکی ہے، نہ ہی کسی مدرسے کا اکاؤنٹ کھل سکا ہے، نہ ہی اس مدرسے کے لیے آج تک کسی ایک طالب علم کو ویزہ دیا گیا ہے، ہاں بعد میں کسی کے فیض سے مدارس توڑ دیے گئے اب تک یہی پانچ تنظیمیں تھی پانچ بورڈز تھیں اس کے بعد پتہ نہیں 20 25 بنا دی گئی جس کا نہ 2004 کے حوالے سے کوئی کردار، نہ 2010 کے معاہدے سے کوئی کردار اور نہ ہی اس کا کوئی ابھی جو ہماری قانون سازی ہو رہی تھی اس سے کوئی تعلق۔

الیکشن سے پہلے جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو میں نے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض کیا میاں شہباز شریف صاحب سے کہ یہ ایک مسئلہ ہے الجھا ہوا ہے اس کو پورا کریں، انہوں نے حامی بھری بات چیت ہوئی تنظیمات مدارس کے تمام قائدین کو بلایا گیا ان کی مشاورت و مشارکت کے ساتھ اصول طے ہوئے اور ہم نے اپنے موقف میں لچک دکھائی کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہم سے اجازت لیے بغیر آپ نے ہماری تنظیموں کو توڑا اور وہ تنظیمیں کہ جن کو ہم نے تسلیم نہیں کیا سو مدارس آزاد ہوں گے چاہے ادھر رجسٹریشن کرائیں چاہے سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرائیں، ہم نے لچک دکھائی اس میں اور اس پر جنابِ وزیر قانون نذیر تارڑ صاحب ان کی طرف سے ڈرافٹ بنا اور جس طرح معاہدہ ہوا تھا اسی کے مطابق ایک ڈرافٹ آیا اور یہاں ایوان میں پیش ہوا، اس ایوان میں اس کی پہلی خواندگی ہوئی اور جب دوسری خواندگی شقوار ہو رہی تھی تو پتہ نہیں کہاں سے کیا ہدایات آتی گئیں کہ دوران قانون سازی اس قانون سازی میں تبدیلی لائی گئی اور پھر ہم نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے کہ اس معاہدے اس کمٹمنٹ جو ہمارے باہمی اتفاق رائے سے ہوا تھا اس کا ضد ہے، معاملہ کٹائی میں پڑ گیا، اب اس ایوان کے اندر جس وقت 26 ویں ترمیم پر بات ہو رہی تھی تو ہم نے اس میں کہا کہ بھئی وہ ایک چیز ایک مرحوم بل ایک معصوم بل اس سے پہلے جس پر اتفاق ہوا اور جس کا یہاں قتل کیا گیا آئیے اس کو بھی لے آئے، جناب اسپیکر ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ آپ ان مدارس کو اس بل سے نکال دیں یہ بات واضح کردوں! لیکن ڈرافٹ جو پاس ہوا ہے بل جو پاس ہوا ہے یہاں سے اس میں ان وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ مدارس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں بنایا یہ حکومت کی طرف سے آیا، سو ہم نے اس کو بھی قبول کیا تھا اس پر بھی چونکہ ہمارا کوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن ہم نے قبول کیا اور پاس ہو گیا۔

جناب سپیکر بہتر ہوتا اگر آج اس وقت یہاں پہ ایاز صادق صاحب موجود ہوتے تو ذرا میں ان کی روبرو عرض کرتا یہاں 20 اکتوبر اور 21 اکتوبر 12 بجے کے بعد رات کے صبح تک یہ قانون قومی اسمبلی سے بھی پاس ہو گیا سینٹ سے پہلے پاس ہو چکا تھا، سینٹ میں جب پاس ہو رہا تھا تو تاریخ 20 اکتوبر کی تھی اور جب قومی اسمبلی سے پاس ہو رہا تھا تو تاریخ 21 اکتوبر کی تھی اور جوں ہی وہ پاس ہوا میرے پاس جکھرانی صاحب تشریف لائے اور مجھے انہوں نے کہا کہ سائن سرمنی پریزیڈنسی میں ہو رہی ہے فوری طور پر ہم نے وہاں جانا ہے ناشتہ بھی وہی کریں گے اور پریزیڈنٹ صاحب ان پہ دستخط بھی کردینگے میں نے ہاں کیا لیکن آدھے گھنٹے کے بعد وہ پھر تشریف لائے اور کہا کہ وہ فی الحال ملتوی ہو گیا ٹھیک ہے، اب سوال یہ ہے حضرت کہ 28 اکتوبر کو جناب صدر اس بل پر ایک اعتراض بھیجتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دونوں ایوانوں میں جب ایک بل آتا ہے تو جس ایوان میں آخر میں پاس ہوتا ہے اسی سے پریزیڈنسی میں جاتا ہے اور وہاں سے کوئی ابجیکشن ہوتا ہے تو وہاں سے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آیا کیونکہ یہاں آخر میں پاس ہوا اور ابجکشن آیا اور سپیکر صاحب نے اس کی تصحیح کر دی اس کو ایک قلمی غلطی قرار دے کر، اب ابجیکشن آیا اسپیکر صاحب نے باقاعدہ آئین کا حوالہ دیا آرٹیکل 75 کا اسی آئینی حوالے کے ساتھ انہوں نے ان کے پاس جواب بھیجا اور یہ 28 اکتوبر تھی اس کا معنی یہ ہے کہ جناب صدر کو یہ بل موصول ہو چکا تھا، یہ علامت تھی اس بات کی کہ وہ موصول ہو چکا ہے ان کو، اسپیکر صاحب کی طرف سے جواب چلا گیا اور کہا کہ میں آرٹیکل 75 کے تحت اس کی اصلاح کر رہا ہوں اور کر دی ہے، دستخط کر کے بھیج دیے اور سینٹ کی طرف سے بھی مجھے یہ اطلاع ملی کہ وہاں سے بھی انہوں نے جو چیئرمین سینٹ تھے اس وقت انہوں نے اس کو ہاں کر دیا اور معاملہ ختم ہو گیا، کیوں؟ اس لیے ختم ہوا کہ جناب صدر نے اس پر کسی قسم کا دوبارہ اعتراض نہیں کیا، اس پر اپنی رائے پہ زور نہیں دیا، اسے پریس نہیں کیا اور جب انہوں نے تسلیم کر لیا اور قبول ہو گیا تو اِٹ مینز کہ ان کو ایک اعتراض کا حق حاصل ہے دوسرے اعتراض کا حق پریزیڈنسی کو حاصل نہیں ہے! اور اگر پہلی مرتبہ پاس ہو جائے تو پہلی مرتبہ پاس ہو کر کتنے دنوں میں صدر دستخط کرے گا بظاہر آئین اس حوالے سے خاموش ہے لیکن چونکہ صدر جناب عارف علوی صاحب کے وقت پہ ایک بل یہاں سے گیا انہوں نے اس پر 10 دن کے اندر دستخط نہ کیے تو یہاں پر ایکٹ پاس کیا گیا اس کا نوٹیفیکیشن کر دیا گیا، سو اگر آئین کا پہلا حصہ وہ خاموش ہے اس حوالے سے لیکن نظیر قائم ہو گئی اور اس نظیر کے تحت آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدر کا وہ اعتراض ویلڈ تھا اور اس کا جواب ہو چکا اب اس کے پاس دوسرے اعتراض کا کوئی آئینی استحقاق حاصل نہیں ہے، لیکن انہوں نے بعد میں کوئی 13 نومبر کو یعنی 20 اکتوبر کے بعد یا 21 اکتوبر کے بعد 13 نومبر جس میں 10 دن گزر چکے، یہاں پر آئین صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اگر 10 دن کے اندر وہ دستخط نہیں کرتے تو پھر وہ ایکٹ بن جاتا ہے، ہماری قطعی رائے یہ ہے اور اس پر تمام تنظیمات مدارس نے کل اجلاس کیا اور متفقہ موقف تمام معلومات اور مٹیریل کی بنیاد پر انہوں نے طے کیا کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے اور جناب اسپیکر سردار ایاز صادق صاحب انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ الفاظ استعمال کیے کہ ہماری کتابوں کے مطابق تو یہ ایکٹ بن چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ باتیں کرنا کہ جی وہ بھی تو مدارس ہیں سو وہ بھی تو مدارس ہیں تو تھوڑی سی تبدیلی اگر کر دی جائے تو وہی گنجائش جو پہلی نکالی گئی تھی سو اب بھی نکال لی جائے ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بحث اس پہ نہیں ہے بحث اس پر ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ یہ کیا نظیر قائم کی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے اس میں ترمیم پر گفتگو کی، اسے ایکٹ تسلیم نہ کرتے ہوئے اس میں ترمیم شامل کر کے دوبارہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی یا جوائنٹ سیشن بلایا یہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہوگی اور ایک ایسی غلط نظیر قائم کریں گے آپ کہ آنے والے وقتوں میں ہر پاکستانی کے لیے ہر پارلیمنٹ کے لیے ہر حکومت کے لیے ایک مشکل چلی آتی رہے گی اور اس دستخط کی کوئی اہمیت نہیں ہوں گے لہٰذا ہم ایوان کا استحقاق، آئین کا استحقاق اس کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایوان صدر سے ہماری یہ شکایت ہے کہ آپ کا وہ جو دوسرا اعتراض ہے وہ آئینی لحاظ سے بھی ٹھیک نہیں ہے چاہے ہمارے نذیر تارڑ صاحب جو ہیں اس بارے میں بڑے مشاق ہیں کوئی نہ کوئی تاویل اب بنا کر پیش کر دیں گے سو یہ تاویلیں نہیں چلیں گی اب، ہم بھی اسی مدرسے سے پڑھے ہوئے ہیں، میں نے بھی اسی مدرسے سے ہاؤس کے اندر 40 سال گزارے ہیں، آپ مجھ سے جونیئر ہیں آپ قانون پڑھے ہوئے ہیں لیکن آپ پڑھے ہوئے ہیں میں قانون کا طالب علم ہوں، عدالت قانون کے مطابق فیصلے دیتی ہے لیکن اس قانون کے مطابق جو یہاں سے ہم بنا کر بھیجتے ہیں، ہم قانون ساز ہیں، ہم آئین کو کھلواڑ نہیں بنانے دینا چاہتے، اب اس حوالے سے ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے یہ متفقہ چیز ہے جناب سپیکر اگر آپ کی توجہ ہو اسپیکر صاحب اگر آپ کی توجہ ہو میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ 26 ویں ترمیم پر ایک مہینے سے زیادہ ڈیبیٹ ہوتی رہی اور بالآخر ہم ایک اتفاق رائے پر پہنچے، 56 کلازز پر مشتمل پہلا ابتدائی ڈرافٹ جس میں مذاکرات کے نتیجے میں حکومت 34 شقوں سے دستبردار ہوئی، 22 شقوں پر وہ آیا اور پھر ہم نے اس میں پانچ ترامیم پیش کی جو 27 شقوں کی شکل اختیار کر گیا، یہ سب اس کے لیے میں خود کراچی بھی گیا ہوں بلاول ہاؤس بھی گیا ہوں پانچ گھنٹے ہم نے وہاں مذاکرات کیے ہیں یہی دینی مدارس کا بل وہاں ڈسکس ہوا ہے، اگلے روز ہم لاہور آئے ہیں اور میاں نواز شریف صاحب کے گھر پہ پانچ گھنٹے ہم بیٹھے رہے ہیں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوتی رہی ہے ایک اتفاق رائے پایا گیا اور اس طرح سے آکر میں نے اپنے پی ٹی آئی کے دوستوں کو اعتماد میں لیا کہ یہ ہے ساری صورتحال اور یہ ہم وہاں سے کر کے آئے ہیں، ہم نے پارلیمنٹ کے ایک ممبر کو بھی اس تمام پیشرفت سے غافل نہیں رکھا لا تعلق نہیں رکھا بے خبر نہیں رکھا، اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے؟ ایک اتفاق رائے پارلیمنٹ کا ہوا ہے، اب صاحب کہتے ہیں کہ صاحب آئی ایم ایف اور فلاں فلاں وہ پاکستان کے ساتھ تعاؤن چھوڑ دیں گے اس کی مدد نہیں کریں گے ناراض ہو جائیں گے یہ راز تو آج ہم پر کھلا ہے کہ ہماری قانون سازیاں کیا ان کی ہدایات کے مطابق ہوں گی اور ان کی رضامندی سے وابستہ ہوں گی کیا ہم آزاد ملک نہیں ہیں اور اگر آزاد نہیں ہے تو کہہ دیا جائے کہ ہم واقعتاً غلام ہیں پھر ہم جانے اور غلامی جانے، کس طرح پاکستان پر آپ غلامی مسلط کرتے ہیں! لیکن یہ افسوسناک باتیں ہیں اگر امریکہ کے کانگرس میں یا وہاں کی کسی ایوان میں ایک ممبر قرارداد پیش کرتا ہے اور وہ قرارداد یا عمران خان کی رہائی کے لیے ہے یا پی ٹی آئی کے حق میں جاتا ہے تو آپ یہاں قرارداد پاس کرتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے، یہ پاکستان کے معاملات میں دخل دینا اس کا تعلق صرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، کیا ہماری اس آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں ہے! کیا ہمارے قانون سازی کے ساتھ نہیں ہے کہ ہمیں حوالہ دیا جا رہا ہے اس بات کا کہ صاحب آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف ناراض ہو جائے گا، آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا، فلانا ناراض ہو جائے گا یہ تاویلات کیسے ہم قبول کریں گے اور یہ کیسے ہمارے لیے دلیل بنیں گی۔ تو اس حوالے سے پورے ملک بھر میں ایک شدید قسم کی ناراضگی پائی جا رہی ہے اور ہم رفتہ رفتہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی تلخی کی طرف ہم نہ جائیں کیونکہ پاکستان اس کا متحمل ہمیں نظر نہیں آرہا ہے۔ دینی جماعتیں آپ سے تعاؤن کر رہے ہیں، یہ 2001 نہیں ہے، یہ نائن الیون کا سال نہیں ہے، یہ اس کے بعد کوئی چار یا پانچ سالوں کا مسئلہ نہیں ہے، دینی مدارس نے 23 24 سال ثابت کر کے دکھایا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر ان کے امتحان کس بات پہ لیا جا رہا ہے! تو پھر صاف ظاہر ہے کہ ہمیں تکلیف ہے اس بات سے کہ ملک میں مذہبی تعلیم کیوں ہے، اس کے لیے مختلف ادارے کیوں ہیں، قرآن و حدیث اور فقہ پڑھانے کے لیے ہم نے مدارس کیوں قائم کیے ہیں، یہ بات تو پھر آج کی نہیں ہے جب علی گڑھ مدرسہ قائم ہوا اور اس کے نصاب سے لارڈ میکالے نے اس وقت قرآن نکال دیا حدیث نکال دی فقہ نکال دی عربی زبان نکال دی فارسی زبان نکال دی جو یہاں کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی سب نکالنے کے بعد اس کے مقابلے میں مدرسہ بنا جس نے انہی علوم کو تحفظ دیا جس کو انگریز اپنے نصاب سے نکال چکے تھے اور ہمیں جدید علوم سے کوئی ایسا نہیں ہے، میں بتانا چاہتا ہوں آپ کو کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن جب 1919 میں مالٹا سے رہا ہو کر واپس آئے اور یہاں انہوں نے 9 ماہ کی زندگی گزاری، زندگی کے آخری لمحوں میں وہ علی گڑھ گئے اور علی گڑھ کو کہا کہ صاحب ہم مسلمان ہیں آئیں نصاب ایک کرتے ہیں جدید اور عصری علوم کا اور دینی علوم میں فرق و امتیاز یہ تو اس سے پہلے نہیں تھا ہندوستان کی تاریخ میں، یہ تو اس سے قبل نہیں تھا برصغیر سے باہر بھی کسی دینی مدرسے کا سوچ نہیں ہے تو آئیے آپ نصاب ایک کر دیں ان کو پذیرائی نہیں ملی، اور ہر چند کہ ان کو پذیرائی نہیں ملی تب بھی انہوں نے وہاں جامعہ ملیہ قائم کیا مشترکہ نصاب کے حوالے سے وہ آگے پروان نہیں کر سکا آج وہ جامعہ ملیہ میں دہلی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، پاکستان بن گیا پاکستان بننے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق پاکستان کا پہلا جھنڈا انہوں نے لہرایا ہے اور مفتی محمد شفیع عثمانی جو مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد بزرگوار تھے رحمت اللہ علیہ وہ 1951 تک اس بیوروکریسی کے ساتھ اس حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے کہ اب تو نہ ہندو ہے نہ انگریز ہے آئیں ایک نئے ملک میں ہم ایک نیا نصاب تجویز کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچے جو ہیں وہ تقسیم نہ ہوں، لیکن یہاں پر بھی ان کو پذیرائی نہیں ملی، اب دینی مدرسے کے نصاب کو قبول نہ کرنا یہ پاکستان کی ابتدا سے لے کر آج تک ہماری بیوروکریسی اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے اور وہ ذہنیت کار فرما ہے جس کو آج نائن الیون کے بعد ایک نئی سپورٹ عالمی سطح پر مل رہی ہے اور وہ کسی طریقے سے بھی مدارس کے نظام کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں، کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے تو جدید علوم کا انکار نہیں کیا، آپ نے کہا میٹرک پڑھاؤ ہم نے کہا میٹرک پڑھائیں گے، آپ نے کہا ایف اے، ایف ایس سی پڑھاؤ ہم نے کہا پڑھائیں گے، آپ نے کہا اے لیول او لیول پڑھاؤ ہم نے کہا بالکل ٹھیک ہے، آپ نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں کم از کم تین مضامین کا آپ کے بچے امتحان دے دیں تو اس کے بعد ہم آپ کو بی اے اور ایم اے کے گریجویشن کے سرٹیفکیٹس آپ کو مہیا کردینگے، ڈگریاں مہیا کر دیں گے، حضرت ہم نے اور ہمارے بچوں نے آپ کے سکولز یونیورسٹیز کے بورڈ میں امتحانات دیے ہیں، میرے تعلیمی ادارے کے بچوں نے جب آپ کے بورڈز کے اندر امتحان دیے تو پہلی پوزیشن بھی دینی مدرسے کے طالب علم نے لی، دوسری پوزیشن بھی دینی مدرسے کے طالب علم نے لی اور تیسری پوزیشن بھی دینی مدرسے کے طالب علم نے لی۔ آئے شرح دیکھ لیں کہ ہمارے بچے علماء اور مدارس کے بچے کس شرح کے ساتھ کالج پڑھ رہے ہیں اور سکول پڑھ رہے ہیں اور یونیورسٹی میں جا رہے ہیں اور آپ اپنی بھی شرح دیکھ لیں کہ آپ کے بچے کتنے مدرسے میں آتے ہیں اور مدرسے میں قرآن و حدیث کے علوم حاصل کرتے ہیں؟ ہم تو آج بھی میں تو جدید علوم اور قدیم علوم اور عصری علوم اور دینی علوم اس کے فرق کو تسلیم ہی نہیں کرتا، اس کی ضرورت کیا ہے! کیا حضرت نوح علیہ السلام کے پاس لکڑی کا علم نہیں تھا اور لکڑی کا علم تھا تو کشتی بنائی نا، کیا حضرت داوٗد علیہ السلام کے پاس لوہے کا علم نہیں تھا لوہے کا علم تھا تو آپ ذرا بناتے تھے آپ خود بناتے تھے، یوسف علیہ السلام کیا ان کے پاس علم ریاضی اور حساب کتاب اور معاشیات کا علم نہیں تھا تبھی تو انہوں نے خود پیشکش کی کہ مصر کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ مجھے اس کے خزانے کا نظام دیا جائے میں بہت اچھا اس نظام کو جاننے والا ہوں، اپنی خدمات خود پیش کی، اب اگر انبیاء کرام انہوں نے یہ صنعتیں اور یہ حرفت وہ ہمیں سکھائی قرآن نے اس کا تذکرہ کیا تو یہ علوم بھی تو انبیاء کرام کے علوم ہیں ہم کیسے اس کا انکار کریں گے! اگر میں اپنے بچے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اس کو انگریزی آنی چاہیے، اگر میں اپنے بچے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اسے سائنس آنی چاہیے، اگر میں اپنے بچے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اس کو معاشرتی علوم آنی چاہیے، اگر میں اپنے بچے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اسے جغرافیہ کا علم ہونا چاہیے تو کیا قوم کے بچوں کے لیے میں نہیں چاہوں گا کہ یہ علوم ان کے پاس ہو! لیکن کیا اس تقسیم کے ہم ذمہ دار ہیں! آج آپ ہم پہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور میں بطور گواہ پیش کر سکتا ہوں، بہاولپور جامعہ ایک عظیم الشان جامعہ گزرا ہے جس میں مولانا شمس الحق افغانی کے لیول کے علماء کرام درس و تدریس کیا کرتے تھے، کہا ہے وہ جامعہ آج؟ ابھی وہ اسلامیہ کالج بن گیا ہے، پشاور میں جو اسلامیہ کالج ہے جب اس کا قیام ہوا تھا تو اس کا نام دارالعلوم الاسلامیہ تھا آج جا کر دیکھیں نا کیا علوم اسلامیہ کا وہاں کوئی تصور ہے؟ صوبہ سندھ میں ہمارے پاس دو ایسے مدارس تھے کہ جن میں حکومت کے مشورے سے سکول کا نظام رائج کیا گیا آج ایک مکمل سکول ہے اور ایک مکمل کالج ہے دینی علوم اس میں کچھ بھی نہیں ہے، اوکاڑہ میں ایک مدرسہ تھا جس میں سکول کی تعلیم دی گئی سرکار نے اس پر قبضہ کیا آج وہ مکمل سکول ہے اس میں علوم کا تحفظ نہیں ہے، تو جب ہمیں تجربہ ہے کہ جہاں جس مدرسے میں آپ آگئے تو پھر وہ ایک وہ بدو کا خیمہ بن جاتا ہے سر اندر کیا اور اس کے بعد پورا اونٹ اندر اور بدو باہر، اس طریقے سے آپ کے رویے ہے دینی علوم کے ساتھ، کیسے ہم اعتماد کریں! ہم اپنے مدارس کی حریت و آزادی کو ہر قیمت میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن ملک میں قانون سے ماورا زندگی نہیں گزارنا چاہتے، ہم ایک قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو کر رہنا چاہتے ہیں، رجسٹریشن اچھی چیز ہے آپ کہتے ہیں کہ مدارس جو ہیں وہ میں سٹریم میں آئے تو رجسٹریشن کے ذریعے سے آئیں گے نا اور یہ کہنا کہ چونکہ تعلیمی ادارے ہیں لہٰذا تعلیم کے ساتھ ہونے چاہیے، تو کل کوئی ہیلتھ کی دنیا میں رفاہی کام کرے گا ایک این جی او بنائے گا پھر اس کو وزارت صحت کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے؟ رجسٹریشن کا ایک ہی ادارہ ہے بنا ہے انگریزوں کے زمانے سے آج تک ہمارے پاس موجود ہے اور اس سے کوئی مداخلت آج تک نہیں کی لیکن اگر ہم ایک باقاعدہ ڈائریکٹریٹ جنرل فار مذہبی تعلیم اس کا ایک ڈائریکٹریٹ بناتے ہیں ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت بناتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ یہ رجسٹریشن وزارت تعلیم سے محض منسلک نہیں ہوگی محض ڈاکخانہ نہیں ہوگا بلکہ دینی مدارس کے اندر مداخلت کا راستہ بھی آپ نکال رہے ہیں، اب آپ اگر زور دیتے ہیں محض ایکزیکٹیو آرڈر پہ، اگر آپ زور دے رہے ہیں محض ایک معاہدے پہ جس کی خلاف ورزی خود حکومت آج تک کر چکی ہے اور اس کے لیے آپ وہ جو مسلمہ دینی مدارس ہیں اور مسلمہ تسلیم شدہ دینی مدارس ہیں مسلمہ بورڈز ہیں ان کے آپ ان کے نظام کو خراب کر رہے ہیں رجسٹریشن ان کی نہیں ہونے دے رہے تو یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ رجسٹریشن نہیں کریں گے تو مدرسہ ختم ہو جائے گا، میں ایوان میں کہنا چاہتا ہوں آپ آج نہیں 100 سال تک بھی رجسٹریشن نہ کریں نہ کریں اور نہ کریں خدا کی قسم دینی مدرسہ زندہ رہے گا برقرار رہے گا! ان شاءاللہ العزیز۔ آپ بینک اکاؤنٹس نہ کھولے ہمارے، ان شاءاللہ پیسے آئیں گے لیکن خدا کے لیے خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کے نظام کو برباد نہ کیجئے، ہم نے ایوان سے اجازت لی ہے، ہم نے پارلیمنٹ سے اجازت لی ہے، ایکٹ بن چکا ہے اس کے بعد نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا اس کا جی، تو اس پر ذرا میری معزورات کو اہمیت دی جائے، حالات کو خواہ مخواہ بگاڑ کی طرف نہ جائے، پہلے ہم نے اپنے جماعت کا موقف دیا تھا اب تمام تر تنظیمات مدارس دینیہ نے رات کو میٹنگ کر کے ایک واضح موقف دے دیا ہے کہ یہ ایکٹ ہے اور ہم اس کو ایکٹ تسلیم کرتے ہیں اور نوٹیفکیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو اس چیز کو مدنظر رکھ کر یہ جو کہا جاتا ہے جوائنٹ سیشن بلایا جائے گا اور امینڈمنٹ جو ہے وہاں سے، کوئی امینڈمنٹ ہم قبول نہیں کریں گے، روایات کو خراب مت کرو، آئین کو خراب مت کرو، آئین میں جو چیز طے ہے اس کے مطابق ہو جانے دو بعد میں دیکھیں گے نا، ہم کسی کی تعلیم کا تو انکار نہیں کر رہے تعلیم جہاں وہ کر سکتا ہے اس کو حق حاصل ہے سکول یونیورسٹی بھی ہے اور کتنے کتنے ادارے ہیں کتنے رفاہی ادارے ہیں غیر حکومتی ادارے ہیں وہ آج بھی تو اسی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں لیکن صرف مدارس کو کوئی نشانہ بنایا گیا؟ مدارس میں تقسیم پیدا کیوں کی گئی؟ آپ چاہتے ہیں کہ علماء آپس میں لڑیں، ہم علماء نہیں لڑیں گے آپس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم نے پہلے بھی فراخدلی دکھائی ہے ہم آج بھی اس پہ اعتراض نہ کرتے اگر ایکٹ میں پہلے وہی چیز موجود ہوتی لیکن چونکہ ایکٹ بن چکا ہے لہٰذا ایکٹ بننے کے بعد ترمیم اس وقت تو نہیں ہو سکتی بعد میں اگر کوئی تجویز آگئی تو بات کر سکتے ہیں اس کے بعد بات ہوگی لیکن ایکٹ ایکٹ ہے، پارلیمنٹ کی عزت کرو خدا کے لیے، کم از کم میرے تو تحفظات ہیں اس الیکشن پہ، کم از کم اس اپوزیشن کے پی ٹی آئی کے تو اعتراضات ہیں، حکومت تو اپنے آپ کو صحیح حقیقی منتخب نمائندہ سمجھتے ہیں اپنے آپ کو، اپنے دعوے کے مطابق تو آپ اپنا رویہ جو ہے ٹھیک کر لیں، تو اس حوالے سے چاہے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ہو، چاہے پاکستان مسلم لیگ ہو، چاہے ایم کیو ایم ہو، چاہے باپ پارٹی ہو، جتنے بھی ان کی اتحادی اس وقت حکومت میں بیٹھے ہیں سب کی کمٹمنٹ ہے سب کا ووٹ ہے اب ووٹ دینے کے بعد اگر وہ کہیں اور پارلیمنٹ سے کہلوایا جائے کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی تھی میرے خیال میں پھر یہ پارلیمنٹ کی بہت بڑی توہین ہوگی، لہٰذا جو طے ہوا ہے ہم اسی بات کو امپسائز کر رہے ہیں، اس پر زور دینا چاہتے ہیں اور ہر قیمت میں اس کو حل کرنا چاہتے ہیں اگر اس سے آگے پیچھے معاملہ گیا تو یقیناً پھر ایوان نہیں میدان میں فیصلے ہونگے۔ اللہ تعالی ایسی امتحانات سے ہمیں بچائے۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments