قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صوابی میں میڈیا سے گفتگو
06 دسمبر 2024
صحافی: اچھا مولانا صاحب سب سے پہلے تو آپ کو صوابی آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایک تو مولانا صاحب آپ نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی دھمکی دی ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس میں سنجیدہ ہے اور اب جو آٹھ تاریخ کو اسرائیل مردہ باد کانفرنس یا ایک ملین مارچ پشاور میں ہونے جا رہا ہے تو اس میں ہم اپنا موقف پوری قوم کو دیں گے، قوم کے سامنے پیش کریں گے اپنا موقف، اور ساتھ ساتھ حکومت کے لوگ بھی رابطے میں آرہے ہیں ان کے ساتھ بھی ہماری بات چیت جاری ہے۔ دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ یا جو ہمارے اتحاد مدارس دینیہ ان کے ساتھ بھی ہمارا رابطہ ہے اور روزمرہ کی صورتحال سے ہم ان کو آگاہ کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور ملکی سیاست میں عدم اعتماد کا سبب بنے گا۔ یعنی ہم تو جو چاہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی اعتماد کا ماحول آئے اور ایک معتدل قسم کی سیاست جو ہے وجود پائے لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کو نرم رکھنے میں اپنی تمام سرکاری وسائل کو استعمال کرے، اپنی توانائیاں استعمال کرے وہی سبب بن رہی ہے ملک میں لوگوں کو شدت کی طرف لے جانے کی، وہی سبب بن رہی ہے شعوری طور پر قوم کو احتجاج کی طرف لے جانے پہ، اگر دینی مدارس کے حوالے سے جو بل ہے تو یہ ظاہر ہے یہ کہ یہ تو الیکشن سے پہلے جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تھی اور جس میں پیپلز پارٹی شامل تھی اور زرداری صاحب خود جو ہے اس کے بڑے سٹیک ہولڈر تھے اس وقت اتفاق رائے کے ساتھ یہی ڈرافٹ پاس ہوا تھا۔ پھر کچھ قوتوں نے جو اس میں غیر ضروری مداخلت کی اور اس پر قانون سازی رک گئی تو اب پھر دوبارہ جب ہم نے ان سے یہ بات کی کہ جب سب چیزیں طے ہو رہی ہیں اور ایک 26 ویں ترمیم آرہی ہے تو وہ ایک ڈرافٹ جو ہے جس پہ اتفاق رائے ہے اس کو بھی پاس کرایا جائے اور اس پر اتفاق رائے ہو گیا اور باقاعدہ مذاکرات میں یہ ساری چیزیں طے ہوئی ہیں۔ بلال ہاؤس میں پانچ گھنٹے کی میٹنگ ہوئی، لاہور میں بھی نواز شریف کے ہاں پانچ گھنٹے کی میٹنگ ہوئی، پی ٹی آئی کو بھی ہم نے اعتماد میں لیا اور بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ سارے معاملات طے ہوئے۔ آج کہاں سے اعتراضات آگئے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو اس بل کو بنانے میں اس کی ڈرافٹ تیار کرنے میں باقاعدہ شریک رہا ہے آج وہ کہتا ہے کہ اس پر اعتراضات ہیں یہ بدنیتی ہے اور اس حوالے سے ہمارا اپنا موقف ہے ان شاءاللہ قوت کے ساتھ ہم اپنا موقف دیں گے۔
صحافی: مولانا صاحب وزیراعظم نے بھی آپ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تو اس میں مدارس بل کے حوالے سے آپ کو کوئی یقین دہانی دی گئی ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے وہ ہر دم کہتے رہیں کہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس پر آپ کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ گفتگو تو اچھی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے 26ویں ترمیم سے پہلے گفتگو ہوئی تھی اگر اس گفتگو اور اس اعتماد کا آج یہ عالم ہے میں آج اس کے ایک ٹیلی فون پر کس طریقے سے اپنے موقف میں لچک پیدا کروں یا جو ٹارگٹ ہے ہمارا ہم اس سے پیچھے ہٹے کیوں ہٹیں گے جی۔
صحافی: دوسرا مولانا صاحب فروری میں جو ہے نا حکومت چینج ہو رہی ہے جو سیٹیں ہیں وہ شہباز شریف سے لے کے بلاول کو دی جائے گی اس حوالے سے کیا کہیں گے۔
مولانا صاحب: ہمارے لیے الیکشن دھاندلی کا الیکشن ہے یہ حکومت بھی کوئی قانونی حکومت نہیں ہے آئینی حکومت نہیں ہے بس ایک زبردستی والی حکومت ہے تو اگر کوئی تبدیلی آئے گی تو ہم اس کا حصہ نہیں ہوں گے باقی اس کے علاوہ ہمارا وہی موقف اس پارلیمنٹ کے بارے میں اور حکومت کے بارے میں ہوگا جو پہلے سے ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اگر لانگ مارچ کی امید پہ حکومت کے خلاف تو کیا پی ٹی آئی آپ کے ساتھ ہوگا؟
مولانا صاحب: مجھے نہیں پتہ ان کا، اس بارے میں ہمارا کوئی اپس میں نہ معاہدہ ہے نہ کوئی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ ہے لیکن ہم اپنا فیصلہ اپنے پلیٹ فارم سے بڑے قوت کے ساتھ کریں گے۔
صحافی: مولانا صاحب ایک تو صوبے میں آمن و امان کا جو بڑا مسئلہ درپیش ہے اس پہ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: صوبے میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے کوئی رٹ نہیں ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سوچتے کیا ہے اور میرے خیال میں وہ شاید بس کرسی پر بیٹھنے کو کافی سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک سٹیٹس مل گیا ہے اور اسٹیٹس سے آگے سوچ ہی نہیں ہے نہ انتظامی صلاحیتیں ہیں نہ کوئی نظریاتی صلاحیتیں ہیں نہ قیام امن کے لیے کوئی پیش رفت ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ کیوں گورنر کو اجلاس بلانا پڑا، یہ تو ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے اور ایگزیکٹو جو ہے وہ اس صلاحیت سے محروم ہے اور گورنر جو ہے وہ اجلاس بلا رہا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بھی بس میں نہیں ہے اس کی بھی بس میں نہیں ہے اور ہم اس پر مشاورت کر رہے ہیں۔ ہم جمیعت علماء کی سطح پر دوسری تمام صوبے کے سٹیک ہولڈرز ہیں پولیٹیکل پارٹیز ہیں حتی کہ ہم مذہبی گروہوں کے ساتھ بھی بیٹھ کر بات کرنا چاہیں گے تاکہ کچھ مستقل حل کی طرف ہم جا سکے۔
صحافی: صوبے میں گورنر راج کی باتیں ہو رہی ہے کہ گورنر راج نافذ کیا جا رہا ہے دوسری طرف یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
مولانا صاحب: میرے علم میں ایسے کوئی بات نہیں ہے نہ میں اس پر کوئی تبصرہ کر سکتا ہوں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہر چند کے ائین میں ایک مرحلہ ایسا اتا ہے کہ جہاں ایمرجنسی کی کوئی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے لیکن تا ہم جو معروضی حالات ہیں اس میں آج گورنر راج بھی مسئلے کا حل نہیں ہوگا جی۔
صحافی: مولانا صاحب کل آل پارٹیز کانفرنس ہوگیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے دورس نتائج سامنے آئیں گے؟
مولانا صاحب: اس کا جواب جو میں نے ابھی دیا وہ اس کے لیے کافی ہے، بڑی مہربانی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں