مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ ملکی صورتحال پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ پروگرام میں گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ ملکی صورتحال پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ پروگرام میں گفتگو

21 دسمبر 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ السلام علیکم۔

جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے گھر سے خصوصی جرگہ لے کر سلیم صافی حاضر خدمت ہے۔ ناظرین اس وقت ہم مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ابھی تک جو واقعات ہوئی ہے ان کے بارے میں بھی اپنے آپ کو ان سے ایجوکیٹ کر سکیں اور مستقبل کے حوالے سے سیاست میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اور دینی مدارس کے حوالے سے جو کچھ ہونے جا رہا ہے تو اس حوالے سے ان کا موقف جان سکے۔

بہت شکریہ مولانا صاحب اور پہلے تو گزشتہ روز آپ کی ملاقات ہوئی وزیراعظم صاحب سے اور مدارس کے موضوع پہ بات ہوئی تو کیا طے پایا وہاں پہ، ان کا کیا موقف تھا۔ آپ کا کیا موقف تھا؟

مولانا فضل الرحمن: سلیم صافی صاحب آپ نے بروقت اور صحیح سوال کیا۔ ایک عرصے سے پاکستان میں بالخصوص دینی مدرسہ موضوع بحث رہا ہے۔ اور نائن الیون کے بعد امریکہ نے جس عنوان کے ساتھ افغا نستان میں یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں فوجیں اتاریں اور تمام ریاستوں کے اوپر دباؤ ڈالا اور اس میں مذہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کو ایک بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ د ہشت گردی کا عنوان اختیار کر کے انہوں نے پورے افغا نستان پر فوج کشی کی اور پاکستان بھی اس کے دباؤ میں رہا۔ جنرل مشرف صاحب کے زمانے میں دینی مدارس پر دباؤ بڑھ گیا۔ لیکن پاکستان کے دینی مدارس جس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو انہوں نے انتہائی دانشمندی اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے سنجیدہ رویہ اور افہام و تفہیم پر مبنی رویہ اپنایا۔ اور 2004 میں جا کے دسمبر میں مدارس اور حکومت وہ ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔ اور اس کے بعد جنوری یا فروری 2005 میں اس پر دستخط ہو گئے، پھر وہ ایک ڈرافٹ بن گیا اور اس کے اوپر قانون سازی ہو گئی، پھر اس کے بعد صوبوں میں اس پر قانون سازی ہوئی۔ اور یہ دیکھنا تھا کہ مدارس میں پڑھایا کیا جا رہا ہے؟ تو جو عالمی تحفظات تھے ہمارے نصاب کے اوپر کہیں یہاں پر شدت پر مبنی مضامین تو نہیں پڑھائے جا رہے، کہیں وہ دہشت گردی کا سبب تو نہیں بن رہے۔ چنانچہ اس کو خاص طور پر فوکس کیا گیا اور بالآخر حکومت نے اطمینان کا اظہار کیا کہ آپ کا نصاب پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ اس میں کوئی فرقہ وارانہ یا ایک قسم کی تشدد پر مبنی گفتگو اسباق میں نہ پڑھائی جائے، ہاں تقابل ادیان کی حد تک اگر استاد اس پر بحث کرتا ہے علمی تو اس پہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

سلیم صافی: ٹھیک یہ تقابل ادیان ہوتا ہے یا کے تقابل فقہ بھی ہوتا ہے؟

مولانا فضل الرحمن: یہ اسی کو تو تقابل ادیان تقابل مذاہب تقابل مسالک یعنی علمی بحث جہاں ہوتی ہے۔ آپ کی ایک رائے ہے میری ایک رائے ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ دلائل پہ بات کر رہے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ یہ علمی بحث ہے اس پہ ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہاں اگر مدارس کے پاس وسائل آتے ہیں تو وسائل کے مناسبت سے اگر کچھ عصری علوم بھی چاہے میٹرک ہو چاہے ایف اے ہو وہ بھی اگر شامل کر سکیں تو وہ تدریجی طور پر مدارس میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں کوئی عصری علوم سے نہ چھڑ ہے اور نہ کوئی اس کے ساتھ جھگڑا ہے ہمارا جی، تو یہ معاملہ طے ہو گیا۔ کچھ اس پر عمل درآمد قانون پر عمل کچھ رکاوٹیں آتی رہیں، مسائل مشکلات تو 2010 میں پھر ایک معاملہ آپس میں بیٹھ کر طے ہو گیا اور معاملات صاف ہو گئے۔ اس کے بعد 2019 میں ایک نیا کھٹہ کھول دیا گیا اور کہا جی کہ آپ سوسائٹیز ایکٹ جو ہے 1860 کا جو صنعت و حرفت کے ساتھ وابستہ ایک رجسٹریشن کے لیے بنایا گیا تھا 1860 میں، تو یہ تو اب صوبائی معاملہ بن گیا ہے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ہو گیا، تو وہ ہو گیا۔ تو ایسے ایسے سوالات انہوں نے اٹھائے اور ایسے ایسے دباؤ دینے مدارس پر آیا کہ دینی مدارس جو ان کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھ گئے۔ اس وقت صرف ایک معاہدہ ہوا صرف معاہدہ تحریری، اس معاہدے کی تین بنیادیں تھی نمبر ایک کہ دینی مدارس کی جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی، اگر کسی کی نہیں ہوئی تو ان کی رجسٹریشن کے لیے حکومت تعاون کرے گی۔ دوسری بات یہ تھی کہ تمام مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے۔ اور تیسری بات یہ تھی کہ جو غیر ملکی طلباء پاکستان میں پڑھنا چاہیں تو پاکستان ان کو 9 سال کا ویزہ دے گا تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پھر پڑھ لکھ کر واپس اپنے ملک چلا جائے۔ تو اس کے بعد معاہدے میں تو نہیں ہے لیکن انہوں نے باقاعدہ ایک ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم قائم کر دیا اور کہا کہ ہم ملک میں 12 مراکز کھولیں گے اور وہاں وہاں جا کر آپ نے رجسٹریشن کرانے ہیں۔ اب یہ ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ہوا، یک طرفہ ہوا، اور یہی وہ چیز تھی کہ جس سے مدارس نے محسوس کیا کہ یہ تو حکومت مدارس کے اندر دخل اندازی کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اور اس وقت وزارت تعلیم کے حوالے سے ایسے بیانات بھی آئے کہ اب مدارس وزارت تعلیم کے ماتحت ہوں گے جبکہ آپ جانتے ہیں 1860 کی جو سوسائٹی ایکٹ ہے اس کے ساتھ وزارت صنعت کا اتنا تعلق ہے کہ بس وہ ڈاکخانہ ہے اور وہاں رجسٹرڈ ہوگیا ختم ہو گئی بات، کوئی مداخلت نہیں، کوئی سروکار نہیں، اور جس شعبے سے متعلق ہو چاہے تعلیم سے، چاہے صحت سے، چاہے زراعت سے، چاہے کسی بھی کوئی این جی او ہو، کوئی کارخانہ ہو، کوئی فیکٹری ہو وہیں پہ رجسٹر ہوتی رہیں گے اور اس کی لسٹ بنتی ہے کہ پاکستان میں یہ ہے اور مداخلت کوئی نہیں ہے۔

سلیم صافی: آپ وزارت تعلیم کے حق میں کیوں نہیں ہے؟

مولانا فضل الرحمن: میں عرض کر رہا ہوں نا کہ وزارت تعلیم کو اگر اصول بنایا جائے تو میں نے آپ سے کہا کہ وزارت تعلیم نے ایک تو معاہدے کے خلاف ورزی کی کہ نہ تو کوئی انہوں نے ہمارے تنظیمات مدارس دینیہ کے کسی ایک مدرسے کے رجسٹریشن بحال کی، نہ کوئی نئی رجسٹریشن کی، نہ کوئی بینک اکاؤنٹ کھولا، نہ کسی ایک طالب علم کو ویزا دیا ہے۔ بعد میں اگر کوئی مدارس ہم سے الگ ہو گئے اور ان کی ہوئی ہے ان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔

سلیم صافی: یہ جو اٹھارہ ہزار کہتے ہیں یہ ان کے ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: یہ ویسے ہی کہہ رہے ہیں۔ یہ ایسی ہی باتیں ہیں۔ لیکن ہمارا ان سے کیا سروکار جی، ہمارے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس وقت تو یہ نہیں تھے بلکہ وہ تو ہمارے ماتحت تھے۔ ان کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا جی۔

تو یہ ساری چیزیں جب گڑ بڑ کی انہوں نے تو پھر ہم نے ان سے کہا جی کہ بھئی اب چھوڑو ان چیزوں کو آپ نہیں چلا سکے اس نظام کو، پھر ہمارا اعتماد ختم ہو گیا آپ کے ساتھ، یہ ساری چیزیں اعتماد کے ساتھ چلتی ہیں۔ تم نے اپنے اپنے ایک ایک قول کی خلاف ورزی کی۔ اس کا پاس نہیں رکھا، تو آپ جانتے ہیں کہ جس وقت یہ 2023 میں یا 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی ہے، شہباز شریف صاحب پرائم منسٹر بنے اور ان میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی اے این پی بھی شامل تھی، ایم کیو ایم بھی شامل تھی، باپ پارٹی بھی شامل تھی، یہ سب لوگ اس میں شامل تھے۔ اور وہاں ہم نے دوبارہ یہ مسئلہ اٹھایا کہ بھئی اس کو آخر کسی کنارے لگاؤ اور اس میں قانون سازی کراو اور حتمی کرو مسئلے کو جی، تو ری اوپن بھی گورنمنٹ نے کیا تھا وہ جو 2004 یا پانچ کا معاہدہ ہے جی اور پھر وہ ان سے پورا بھی نہیں ہو سکا تو ہم نے کہا جی اس کو ایک کنارے لگاؤ، چنانچہ ڈرافٹ تیار ہوا حکومت نے تیار کیا، ہم نے اس سے اتفاق کیا، تمام مدارس کے تنظیمات نے ان سے اتفاق کیا، اور اس اتفاق رائے کے بعد وہ جب پارلیمنٹ میں آیا تو قومی اسمبلی میں اس کی پہلی خواندگی ہوئی اور دوسری خواندگی میں کسی نے روک دیا ان کو، اور وہ نہیں پاس ہو سکا اور ہم نے انکار کر دیا کہ اس شکل میں ہمیں قبول نہیں ہے۔ کیونکہ ڈرافٹ یک طرفہ تبدیلی جو ہے اس کے کیا معنی ہے۔ پھر یہ چیز معطل رہی، معطل رہی، معطل رہی یہاں تک کے ابھی یہ جو گزشتہ مہینے میں 26ویں ترمیم کا سوال سامنے لایا گیا تو 26ویں ترمیم کے دوران ہم نے یہ بات حکومت کو یاد دلائی کہ ایک معصوم قسم کا ایک ڈرافٹ قانون سازی کے انتظار میں ہے اگر وہ بھی شامل کر لیا جائے۔ ہم سے تو اس حد تک وعدہ کیا گیا کہ پہلے اس کو کریں گے پھر 26 ویں ترمیم کو پاس کریں گے۔

سلیم صافی: یہ وعدہ پیپلز پارٹی کی طرف سے تھا یا نون لیگ کی طرف سے؟

مولانا فضل الرحمن: کیا

سلیم صافی: کہ پہلے اس کو پاس کریں گے پھر 26 ویں ترمیم کو

مولانا فضل الرحمن: مطلب یہ ہے کہ یہ باہمی اتفاق سے ہوا۔ اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی خوش اسلوبی کے ساتھ، اب اس حوالے سے 20 اکتوبر کو 12 بجے سے پہلے سینیٹ نے پاس کیا اور رات کے 12 بجے کے بعد تو تاریخ بدل گئی اور 21 اکتوبر ہو گئی تو صبح نماز تک قومی اسمبلی نے پاس کر دیا۔ اور قومی اسمبلی نے اس مدارس کے بل کو بھی پاس کیا یہاں تک کہ ایک لفظ جو سینیٹ میں قلم سے لکھ کر پاس کیا گیا تھا وہ بھی اس کی بھی نشاندہی کی گئی کہ یہاں اس لفظ کی مستقل منظوری دے دی جائے کہ قومی اسمبلی بھی اس کو پاس کرتی ہے تاکہ جب اس کو دوبارہ ہم اس کی ٹائپنگ کریں گے اور اس کو تحریر میں لائیں تو وہ ہم اس کو باقاعدہ اس کا جز بنا سکے تو وہ بھی پاس ہو گیا۔

اب اس کے بعد ہونا تھا اس کے اوپر دستخط صدر مملکت کے، صدر مملکت نے باقی دستخط کر لیے لیکن اس پر نہیں کیا۔ اب حضرت انہوں نے ایک اعتراض بھیجا اور وہ اعتراض بھیج کر سپیکر صاحب نے جواب میں آئین اور پارلیمانی رولز ریگولیشن اس کا حوالہ دے کر جواب دیا کہ یہ اعتراض میرے نزدیک ایک لفظی غلطی ہے جس کی میں نے اصلاح کر دی ہے، اور وہ میں آپ کو واپس بھیج رہا ہوں اس کے لیے جوائنٹ سیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ صدر صاحب نے اس کو قبول بھی کیا، اس پر کوئی اور بات بھی نہیں کی، اصرار بھی نہیں کیا، نہ یہ یاد دہانی کرائی کہ نہیں اس کے لیے بھی جوائنٹ سیشن بلائیں اور معاملہ ہمارے نزدیک تو ختم ہو گیا تھا جی۔ اس کے بعد دیکھتے دیکھتے 8 اعتراضات پر مشتمل نیا ورقہ انہوں نے بھیج دیا 13 نومبر کو، اب اگر تو ایسا ہے کہ کوئی کہے کہ جو پہلا اعتراض بھیجا اس میں تو آئین خاموش ہے، دس دن ہے، چودہ دن ہے، پندرہ دن ہے، تیس دن ہے، لیکن عارف علوی صاحب کی مثال موجود ہے کہ انہوں نے جب دس دن تک دستخط نہیں کیے تو یہاں حکومت نے ان کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا تو ایک مثال اور نظیر تو خود قائم کی حکومت نے اس کی، اب اس کے بعد جو دوسرا آیا ہے ہمارا موقف یہ ہے کہ دوسرے اعتراض کرنے کا صدر کو اختیاری نہیں ہے، اگر اس نے پھر بھی بھیج دیا یا اس کی کوئی تاویل کرے تب بھی 10 دن کے اندر نہیں بھیجا، 13 دن کے بعد بھیجا ہے لہذا کسی قیمت پر وہ دوبارہ اس کے لیے جوائنٹ سیشن بلانے کا جواز نہیں ہے، سوائے ایک بات کہ آپ اس کو ایکٹ تسلیم کریں اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کریں۔

سلیم صافی: میرے نزدیک تو سب سے بڑی یہ وعدہ خلافی تھی جو اس وقت کی گئی تھی بلکہ منظوری کے وقت مسلم لیگ نون بھی تھی، پیپلز پارٹی بھی تھی، ان کے بڑے بڑے دماغ بھی تھے جنہوں نے اس کو دیکھا ہوگا تو ان کو اگر مخالفت کرنی تھی تو اس وقت مخالفت کرتے جو بعد میں انہوں نے کی۔ یہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ یہ جو وعدہ خلافی ہے یہ زرداری صاحب نے کی، یہ حکومت نے کی یا کسی اور طرف سے ہوئی؟

مولانا فضل الرحمن صاحب: دیکھیے اب جہاں سے بھی ہوئی ہو لیکن سوال تو ان کے لیے ہے کہ ایسا کیوں کرتے ہیں وہ، میری اس کے بعد جو رابطہ رہا ہے یا پرائم منسٹر کے ساتھ یا پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ، ایون کہ خود زرداری صاحب کے ساتھ، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ جی ہمارا وعدہ ہے اور ہم نے کرنا ہے۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ 13 نومبر کو جب وہ اعتراضات بھیج رہے ہیں اسمبلی میں اور 27 نومبر کو میں لاڑکانہ میں تھا اس لیے کہ 28 کو سکھر میں کانفرنس تھی۔ محترم جناب زرداری صاحب مجھے فون کرتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ مولانا آپ ناراض نہ ہوں آپ کی تو خواہش ہمارے لیے حکم ہے بس ایک دو دنوں میں دستخط کر لوں گا ادھر اعتراضات بھیجتے ہیں ادھر مجھے فون پہ کہتے ہیں کہ میں دستخط کر دوں گا۔ تو یہ اپنے دستخطوں کی نفی ہے یہ کیا کر رہے تھے مجھے خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہاں آئین کدھر ہے، یہاں قانون کدھر ہے، یہاں رولز کدھر ہے اور اس کے تحت ایک چیز ایکٹ بن چکا ہے آپ کیوں اس کے گزٹ نوٹیفکیشن نہیں کر رہے۔ بہرحال بالآخر ہم نے اپنا فرض سمجھا اور میری اس سلسلے میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ساتھ گفتگو ہوئی اور میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں ہے نہ وفاق المدارس کا ہے، یہ تو تمام مکاتب فکر کی تنظیمات کا مسئلہ ہے تو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے، ان کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اس کا اجلاس 16 تاریخ کو یہاں اسلام آباد میں ہوا۔ انہوں نے بالکل دو جمع دو چار کی طرح صاف لکھ دیا کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے اور سوائے نوٹیفیکیشن کے اور کچھ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

سلیم صافی: لیکن مولانا صاحب ایک بات سمجھ نہیں آتی کچھ لوگوں کو کہ آخر وزارت تعلیم بھی حکومت کا ایک محکمہ ہے اور یہ بھی تعلیم کا ایک شعبہ ہے تو یہ اگر اس سے منسلک ہو اس کی بجائے وہ کہتے ہیں کہ جی مولانا صاحب اس کو وزارت صنعت یا کسی اور وزارت سوسائٹیز کے تحت رجسٹرڈ کرنے۔۔۔

مولانا فضل الرحمن: حضرت سوسائٹی ایکٹ پاکستان میں نہیں ہندوستان کے زمانے سے صرف اور صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں جو بھی ادارہ ہو چاہے تعلیمی ہو، چاہے ہیلتھ کے ساتھ ہو، چاہے زراعت ہو، چاہے این جی او ہو، چاہے کوئی کارخانہ ہو، جو کچھ بھی ہو اسی ایک ہی سوسائٹی ایکٹ میں ان کا اندراج ہوتا رہے گا اور رجسٹریشن یہ ایک ڈاکخانہ ہے جی۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ چونکہ یہ تعلیمی ادارہ ہے تو تعلیم کے ساتھ ان کی رجسٹریشن ہونی چاہیے تو پھر اگر آپ نے ہسپتال بنا دیے ملک میں تو پھر ہسپتالوں کو آپ جو ہے ہیلتھ میں کریں گے یا تعلیم میں کریں گے یا سوسائٹی ایکٹ میں کریں گے وہ تو سوسائیٹی ایکٹ میں ہونگے۔ اب الغزالی سوسائٹی ایکٹ میں، اقبال اوپن یونیورسٹی سوسائٹی ایکٹ میں، اور کئی مدارس جو شاید اس وقت میرے ساتھ ابھی ذہن میں شاید نہ آرہے ہوں ایدھی کا ادارہ جو ہے وہ سوسائٹی ایکٹ میں، اب یہ صرف مدرسے کو وزارت تعلیم کے اندر لا کر اس کے اوپر ایک ڈائریکٹریٹ مسلط کر دینا۔۔۔

سلیم صافی: دنیا کا کوئی ایسا اسلامی ملک ہے کہ جدھر دینی تعلیم کی وزارت حکومت کے زیر انتظام نہ ہو؟

مولانا فضل الرحمن: حضرت یہ دنیا کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ برصغیر کا مسئلہ ہے اور دینی مدرسہ برصغیر میں وجود میں آیا تھا 1866 میں دارالعلوم دیوبند پہلا مدرسہ دیوبند بنا تھا جی اور کیوں بنا تھا یہ رد عمل تھا، 1857 سے پہلے برصغیر میں یہ مدرسہ کیوں نہیں تھا، 1857 سے پہلے اور آج تک برصغیر سے باہر ایسا مدرسہ کیوں نہیں ہے، یہ صرف برصغیر میں کیوں ہے؟ وجہ یہ تھی کہ لارڈ میکالے نے جو نصاب تعلیم دیا اور وہ رائج ہوا علی گڑھ میں، تو چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کہلاتا تھا مدرسہ کہلاتا تھا، اسکول کہلاتا تھا جی، اس میں سے قرآن کریم کے حوالے سے تمام علوم نصاب سے نکال دیے گئے، حدیث کے حوالے سے تمام علوم نکال دیے گئے، فقہ کے حوالے سے سارے علوم نکال دیے گئے، یہاں عربی زبان پڑھا جاتا ہے وہ نکال دی گئی، فارسی زبان سرکاری زبان تھی ہندوستان کی وہ نکال دی گئی تاکہ آئندہ نسل جو ہیں پڑھ ہی نہ سکے جی۔ اس پر مدرسے نے اگر ان علوم کو تحفظ دیا اور فروغ پایا اس نے، جتنا علی گڑھ نے فروغ پایا سرکار کے سائے میں، اتنا پرائیویٹ سیکٹر میں مدرسے نے فروغ پایا اور جہاں دنیا میں وہ ہیں وہاں مدرسہ بھی ہے تو اب وہ ایک سوسائٹی کا رچا بسا ایک حصہ بن چکا ہے جس کو سوسائٹی سے کسی قیمت پر اب الگ نہیں کیا جا سکتا۔

سلیم صافی: لیکن سوسائٹی کے بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جی پہلے قرآن بنیادی سورس ہے دین کا، پہلے قرآن پڑھانا چاہیے تھا۔ پھر حدیث اور سنت پڑھانے چاہیے تھے۔ پھر اس کے بعد فقہ کی نمبر آنی چاہیے تھی۔ لیکن کہتے ہیں کہ یہاں پہ مدرسوں میں فقہ تو پہلے پڑھایا جاتا ہے۔ آپ کے ہاں اگر ہے تو قدوری اور یہ جو کتابیں ہیں یہ پہلے پڑھائی جاتی ہیں اور پھر اس کے بعد حدیث کی باری آتی ہے اور پھر قرآن کی باری آتی ہے۔ جس کی وجہ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے۔ لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ فرقہ واریت پھیل رہی ہے۔ یہ بیس قرآن ہی ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمن: فرقہ واریت حضرت اس میں اگر آپ تو سمجھتے ہیں کہ مسالک کا اختلاف ہے تو یہ اجتہادی اختلاف ہے اس کا کوئی گناہ بھی نہیں ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اختلاف أمتي رحمة "میری امت کے درمیان جب اختلاف ہوگا دلیل کی بنیاد پر ہوگا، اجتہاد کی بنیاد پر ہوگا، نیک نیتی کی بنیاد پر ہوگا"

تو آپ کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب ایک ہی مسجد میں کہ ایک کونے میں ایک مسلک کہ لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے اور اسی مسجد کے دوسرے کونے دوسرے مسلک کے اور اسی کے تیسرے کونے میں دوسرا استاد بیٹھا ہوتا تھا۔ سب کے سب مختلف رائے رکھنے والے ایک ہی مسجد میں درس و تدریس کرتے تھے اور کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ تو یہ معاون علوم ہے قرآن و حدیث سے پہلے ہم عربی گرامر پڑھتے ہیں جس کو صرف کہتے ہیں نحو کہتے ہیں۔ اس کے بعد پھر ہم ابتدائی فقہی علوم شامل کر لیتے ہیں۔ پھر اصول فقہ شروع کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ہم ہندسہ اور معانی اور اس قسم کے علوم جو پڑھاتے ہیں ساتھ ساتھ میں ہم فقہ بھی چل رہا ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہم کچھ اصول تفسیر کی کتابیں بھی شروع کر دیتے ہیں، تو بہت سے علوم ہوتے ہیں جس میں فلکیات بھی ہوتے ہیں، جس میں ارضیات بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ تمام علوم جو آگے جا کر قرآن کریم کو سمجھنے میں آپ کو معاونت دیتی ہے اور آپ جو قرآن کریم سے جو اصطلاحات لیتے ہیں وہ اصطلاحات آپ کو پہلے سے ازبر ہو جاتے ہیں جو وہاں آپ کو کام آتے ہیں۔

سلیم صافی: اب اگر حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اور پھر کوئی ٹال مٹول سے کام لی تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟

مولانا فضل الرحمن: کل ہماری بات چیت ہوئی حکومت کے ساتھ، تو وہ بڑے مثبت پیرائے میں ہو گئی اور ہمارے دلائل کو انہوں نے قبول کر لیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی دلیل مضبوط ہے اور ہمارے اوپر ایک کمٹمنٹ ہے جو ہماری وہ ہم پر اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ تو اب مجھے امید یہ ہے کہ ایک آدھ دن کے اندر اس کو وہ جو قانون کے تقاضے ہیں اس کو صحیح کر کے اس پر غالباً ہو جائیں گے دستخط، اور ان کی نوٹیفکیشن ہو جائے گی۔ لیکن مجھے امید یہ ہے کہ نہ ہمیں اسلام آباد کی طرف مارچ کی ضرورت پڑے گی اور نہ ان کو جوائنٹ سیشن کی ضرورت پڑے گی۔

سلیم صافی: مولانا صاحب ملک میں جو امن و امان کی صورتحال ہے اور بالخصوص بعض اوقات مجھے تھوڑا گلہ بھی رہتا ہے کہ خصوصاً جو کرم ضلعے کا مسئلہ ہے اس میں آپ ایک اہم کردار ادا کر سکتے تھے لیکن متحرک آپ نظر نہیں آئے جتنا کہ ہم توقع کر رہے تھے؟

مولانا فضل الرحمن: صافی صاحب نے بہت صحیح سوال کیا ہے میں اس کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ میں اللہ کا فضل ہے کسی سرکاری منصب پہ نہیں ہوں اور نہ اس حوالے سے میری کوئی ایسی ذمہ داری بنتی ہے لیکن ایک جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے اور پھر ہمارے قبائلی منطقے میں جس طرح کے پبلک کا ایک تعلق جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ ہے اس ناطے ایک فرض بنتا ہے میرا، اسلامی فرض بھی، دینی فرض بھی، اخلاقی فرض بھی کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں جی۔ یہ بات واضح رہے کہ جو ہمارا پورا قبائلی علاقہ ہے وہ بھی کوئی بیس بائیس سالوں سے شورش زدہ ہے اور بالخصوص کرم کا جو مسئلہ ہے وہ اس سے ذرا مختلف ہے لیکن بہرحال ایک مسئلہ ہے جو بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ مجھے کرم کے جو ہمارے سنی مرتبہ فکر کے علماء اور اکابرین ہیں قبائلی زعماء ہیں وہ بھی ملے ہیں اور شیعہ مکتبہ فکر کے اکابرین میں مجھے ملے ہیں۔ اور دونوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان رابطوں کے بعد میرے اندر ایک حوصلہ پیدا ہوا کہ میں اب شاید اس میں قدم رکھوں تو اس قابل ہوں گا کہ میں کوئی کردار ادا کر سکوں۔ میں نے ایک مختصر سا مشاورتی مجلس پشاور میں بلائی، جس میں ہمارے کرم ایجنسی کے عوامی اک نمائندہ اور ساتھ ساتھ جماعتی ذمہ داران اور بڑے اچھی صورتحال سے آگاہ لوگ بیٹھے ہیں ہم لوگ، اور اس میں ہم نے ایک طے کیا کہ اس میں داخل ہونے کا کیا راستہ ہونا چاہیے۔ اور ایک ضابطہ کار ہم نے آپس میں طے کیا۔ ابھی ہم اس حوالے سے قدم رکھنے کا آغاز کرنے والے تھے کہ وہاں کچھ انتہائی سخت قسم کے اور بڑے پیمانے پر واقعات ہو گئے جی۔ کنوائز پر فائرنگ ہو گئی، بازار گاؤں جل گئے۔ اس کے جواب جواب جواب الجواب، تو اس سے صورتحال ایسی گرم کر دی کہ اس وقت اس گرم زمین میں داخل ہونا شاید مصلحت کے خلاف تھا جی، میں اب بھی اپنے اس عزم سے پیچھے نہیں ہٹا ہوں اور میں دوبارہ متعلقہ لوگوں کے ساتھ رابطہ کر کے اور میں چاہتا ہوں کہ قبائلی سطح پر قبائلی زعماء کو بھی اس میں انوالو کیا جائے اور حکومتی سطح پر بھی میں چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ کیونکہ اگر اس طرح اجتماعی صورت میں ہمارا تعاون نہیں رہا حکومت اور ہم ایک پیج پہ نہیں، قبائل اور ہم ایک پیج پہ نہیں تو شاید پھر ہم یہ بیل مونڈے نہ چڑھ سکے۔

سلیم صافی: لیکن صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے اگر ان حالات میں یہ تعلقات رہے کہ وہ مارچ کرے، وہ اسلام آباد کی طرف آئے۔۔

مولانا فضل الرحمن: حضرت انہی چیزوں نے تو معاملات خراب کیے ہیں۔ دیکھیے آپ جانتے ہیں مظاہرے تو ہم بھی کرتے تھے۔ عمران خان کی حکومت میں ہم نے کوئی 13 ملین مارچ کئیں پورے ملک کے طول و عرض میں جی، لیکن کہیں کا کوئی نیا مسئلہ تو نہیں کریٹ کیا ہم نے، کوئی مشکل تو نہیں پیدا کی کہیں پہ جی، اپنی آواز بھی اپنے میسج بھی دنیا کو دیا، طاقت کا مظاہرہ بھی کیا اور کوئی ریاست کو بھی کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ آزادی مارچ یہاں اسلام آباد میں ہم نے کیا، چودہ پندرہ دن ہم یہاں رہے ہیں۔ کوئی پرابلم نہیں ہوا لیکن پبلک تھی انہوں نے دنیا کو ایک میسج دیا۔ تو یہ ایک صورتحال ہے جی کہ میں پنجاب میں داخل ہوں گا، پنجاب پر یلغار کروں گا، اسلام آباد کی یلغار کروں گا اور صوبہ ورسز صوبہ یا صوبہ بمقابلہ وفاق، اس قسم کے الفاظ کا استعمال کرکے جب گھروں سے نکلیں گے اور نوجوانوں کو نکالیں گے تو یہ ہوتا ہے ملک کو نقصان پہنچانے والی بات، سٹیٹ تک کو زک پہنچتی ہے جی۔ میں حکومت سے اختلاف کر سکتا ہوں، میں اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کر سکتا ہوں لیکن مجھے خود بھی عقل اللہ نے جتنی دی ہے اس میں حدود طے کرنے ہوں گے کہ یہ حد جو ہے اس سے آگے جاؤں گا تو سٹیٹ متاثر ہوگی، حکومت متاثر نہیں ہوگی۔ تو ہم نے کبھی بھی اس بات کی حمایت نہیں کی اور میں اپنے ان دوستوں کو بھی یہی مشورہ دیا کرتا ہوں کہ بھئی آپ حضرات تھوڑا سا بیٹھ کر کچھ نظر ثانی کریں اپنی اس رویوں کے اوپر کہ جس کے بعد سٹیٹ آپ کے سامنے آجاتی ہے ۔ صوبہ آپ کے مقابلے میں آجاتا ہے۔ اور دو صوبوں کے درمیان اور پھر پشتون کا لفظ استعمال کرنا اور پنجاب اور پشتون کا تصور یہ تو پھر انارکی کی طرف ہم جائیں گے جی۔ تو میں اس قسم کی پولیٹکس سے ہر چند اتفاق نہیں کرتا۔

سلیم صافی: نہیں تو اس کا کیا طریقہ ہے یہ تو آپ بھی کہتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، یہ ناجائز اسمبلی ہے۔ تو اس سے جان چھڑانے کا پھر کیا راستہ ہو سکتا ہے؟

مولانا فضل الرحمن: تو آپ نے میرے موقف تو دیکھا ہے کہ میں 2018 میں بھی موقف لیا تھا نا میں نے، تو 2018 میں بھی اگر ہوا ہے تو میں نے ایک موقف لیا اور اگر 2024 میں بھی ہوا تب بھی میں نے وہی موقف لیا ہے۔ میں نے اب تک تسلسل کو نہیں توڑا جی، اگر توڑا ہے تو ان لوگوں نے توڑا ہے جو میرے ساتھ تھے اور اب نظر نہیں آرہے جی۔ لیکن بہرحال ہم نے اپنے موقف پال رکھا ہے۔ لیکن اس موقف کے ساتھ ہم نے چلنا ہے آج اپوزیشن پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے، 90 سے اوپر اراکین ہیں ان کے، ہم کوئی 8 اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی میں ہیں، 5 اراکین کے ساتھ سینٹ میں ہیں۔ اب اپوزیشن کا بھی ایک رول ہوتا ہے کیا ہم نے اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی اپوزیشن کرنی ہے یا کچھ تبدیلی روئیوں میں لانی ہے۔ تو ہم اپوزیشن کو بھی ایک متفقہ رول کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ہم ان کو بھی انگیج رکھتے ہیں جس طرح چھبیس ویں ترمیم میں ہم نے ان کو مکمل انگیج رکھا اور ایک ایک قدم پر ہم کو اعتماد میں لیتے رہے۔ تو ہر چند کے ہمارے درمیان نظریاتی یا فکری اختلافات ہوں گے اور رہے ہیں لیکن اس کے بعد جو ان حالات کے تقاضوں سے اگر ہم نظریات میں کوئی فرق نہیں لا سکے یا اب تک اس کے حوالے سے کوئی تحفظات دور نہیں ہو سکی تب رویے میں تو فرق لایا جا سکتا ہے نا جی، تو رویوں کا فرق نظریات کے اختلاف کی نفی تو نہیں کر رہا ہوتا۔

سلیم صافی: عمران خان سے آپ کی ملاقات تو نہیں ہونے جارہی نہیں؟

مولانا فضل الرحمن:  نہیں ابھی تو کوئی میرے پاس نہ کوئی تو پیغام آیا ہے نہ ہمارے ماحول میں کوئی ایسی تجویز ہے۔ پتہ نہیں جب صحافیوں میں جاتا ہوں کوئی نہ کوئی سوال کر لیتا ہے۔ رات کو یہ بات پھیل گئی تھی۔ کوئی ایک بندہ بھی میری طرف ایسے پیغام لے کر نہیں آیا ہے جی۔

سلیم صافی: اگر پیغام لے کر آگیا تو پھر ملیں گے؟

مولانا فضل الرحمن: تو پھر بھی ہم نے سوچنا ہوگا اس حوالے سے کہ کیا ممکن بھی ہے یا نہیں ہے۔ اگر ممکن ہے تو صرف ان کی خواہش پوری کرنی ہے یا مقصد بھی، تو بہت سی چیزیں اس میں آسکتی ہیں اس پر ہم نے فوری طور پر فیصلے بھی نہیں دینا ہوگا کافی غور و خوض اور اس کی افادیت اور نقصانات ہر پہلو کو ہم نے سوچنا ہوگا۔

سلیم صافی: بلوچستان میں یہ جو کچھ ہو رہا ہے

مولانا فضل الرحمن: بلوچستان اور کے پی کی تقریباً ایک جیسی متشابہ صورتحال ہے یہاں جو مسلح گروپ ہیں وہ زیادہ تر وہاں سے بھی ہیں۔ بلوچستان میں اگر ہیں تو وہ ذرا قوم پرست ہے اور وہ اس طرح مذہبی حوالے سے نہیں ہے۔ لیکن یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے اور بندوق جو ہے وہ سیاست کا جنازہ نکالتی ہے۔ بندوق اصل میں سیاست کو قتل کرتی ہے اور وہ حکومت کو قتل کرے یا نہ کرے لیکن سیاست ختم ہو جاتی ہے وہاں پر جی، جن ملکوں میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں، انقلابات آئے ہیں چاہے لیبیا میں ہو چاہے عراق میں ہو، ابھی شام میں تو اب وہ بھی تو زبردستی کہ انقلابات ہیں آگئے اور آگے کیا بنتا ہے کیا نہیں بنتا، تو پاکستان جو ہے وہ ان کی طرح نہیں ہے وہاں کی ڈکٹیٹر آئے بھی زور سے اور نکالے بھی زور سے گئے۔ یہاں پر جو بھی آتا ہے وہ ایک آئینی راستے سے آتا ہے اور آئینی راستے سے جاتا ہے۔ تو اس پر ہمیں ضرور تحفظات ہیں کہ کیا جو قوم کو اختیار ہے ووٹ کا، نتیجہ قوم کی رائے کے مطابق ہے یا نہیں اور میں آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں کل مجھے کسی نے رپورٹ کیا ہمارا بلوچستان میں ایک صوبائی حلقہ ہے اس کی پوری انویسٹیگیشن جو ہے نادرا نے کی ہے صرف دو فیصد ووٹ صحیح نکلے ہیں باقی کا کچھ پتہ نہیں، پتہ نہیں کدھر ہے کہاں سے آئے ہیں جی، تو اس قسم کی چیزیں جب سامنے آئیں گی آپ مجھے بتائیں کہ اس الیکشن پر کیسے اعتماد کیا جائے گا۔ سو اختلاف ہے اور آگے بڑھائیں گے صورتحال کو اور ہماری یہ کوشش رہے گی۔ دیکھیے بھٹو صاحب کے زمانے میں دھاندلی کا مسئلہ آیا مفتی صاحب نے تحریک چلائی، تمام اپوزیشن اکٹھی تھی ایک پیج پہ تھی، گرفتاریاں ہوئیں۔

سلیم صافی: اچھا پچھلے گورنمنٹ میں تو آپ لوگوں نے بہت حد تک مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی، اب آپ متاثرہ ہیں، پی ٹی آئی متاثرہ ہیں، باقی جماعتیں کچھ متاثرہ، قوم پرست جماعتیں متاثرہ ہیں، تو آپ ان کے ساتھ مل کر کوئی موومنٹ چلائیں گے پچھلے موومنٹ کی طرح یا کہ نہیں انڈویجولی؟

مولانا فضل الرحمن: دیکھیے یہ کوئی سیاست میں ایسی بات نہیں ہے کہ خارج از امکان قرار دیا جائے، سیاست میں معاملات چلتے ہیں۔ لیکن کچھ کا ماضی کا تو ہمارا تجربہ ہے کہ ان کی کچھ کی دوستی کا تجربہ ہے، کچھ کی مخالفت کا تجربہ ہے تو دونوں کو سامنے رکھ کر ہم نے اگلی مستقبل کو بنانا ہوگا۔

سلیم صافی: مولانا فضل الرحمان صاحب ہمیں وقت دینے اور ہم سے بات کرنے کے لیے بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments