قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو
20 دسمبر 2024
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
جنابِ وزیراعظم نے دینی مدارس کے حوالے سے جو بل دونوں ایوانوں سے منظور ہوا تھا اس پر آج بات چیت کے لیے انہوں نے دعوت دی، ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے متفقہ طور پر جو موقف اختیار کیا ہے اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس پر حکومت اب کوئی حتمی فیصلہ کرے اور اس کے لیے انہوں نے آج مجھے دعوت دی۔ میں نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے سربراہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو اس کی خبر دی اور ان کے اعتماد و اجازت کے ساتھ آج میں نے یہاں پرائم منسٹر ہاؤس میں اس موضوع پر گفتگو کے لیے ہاں کی۔ آج کی اس گفتگو میں جہاں جمعیۃ علماء اسلام کا وفد موجود تھا وہاں پرائم منسٹر صاحب کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اسپیکر قومی اسمبلی، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما وہ سب موجود تھے، اٹارنی جنرل صاحب موجود تھے، ہم نے اپنا موقف وہاں دہرایا اور ہم نے یہ بات ان پر واضح کی کہ دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو جانے کے بعد اب وہ ایکٹ بن چکا ہے اگر صدر صاحب نے اس پر اعتراض کرنا ہے تو ایک اعتراض ہو چکا اور اس کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق سپیکر صاحب نے اصلاح کر کے جواب بھی دے دیا اور اس جواب پر صدر صاحب نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اعتراض پر کوئی اصرار کیا، اس کے بعد جو دوسرا اعتراض انہوں نے بھیجا ایک تو دوسرا اعتراض آئینی طور پر بنتا نہیں ہے ان کو اختیار نہیں ہے، دوسرا یہ کہ وہ وقت گزرنے کے بعد جو مدت آئینی مدت ان کے پاس تھی وہ گزرنے کے بعد انہوں نے بھیجا ہے اور پھر وہ بھی اس وقت تک اسپیکر صاحب کی دفتر میں نہیں پہنچا جبکہ اس قسم کی چیزوں کی آمدورفت پریزیڈنسی اور اسپیکر صاحب کی دفتر کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ ہمارے اس موقف کا انتہائی مثبت جواب دیا گیا اور وزیراعظم نے وزارت قانون کو فوری ہدایات جاری کیں کہ اب قانون و آئین کے مطابق آپ فوری طور پر عملی اقدام کریں۔ اب دیکھیں عملی اقدام ان شاءاللہ العزیز ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے مطالبے کے مطابق آئے گی اور میں بھی اس ساری صورتحال سے تنظیمات مدارس دینیہ کو آگاہ کروں گا اور ان شاءاللہ العزیز ایک آدھ دن کے اندر ہم اس حوالے سے بھی خوشخبری سنیں گے اور ہمارا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔
صحافی: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کا کہ جو مدارس کا جو مطالبہ ہے انہوں نے اس کو تسلیم کر لیا ہے آپ کیا اس کو سمجھتے ہیں؟
مولانا صاحب: بالکل اچھی سپرٹ تھی ان کی، قابل اعتماد سپرٹ تھی اور انہوں نے جس سپرٹ میں بات کی ہے اس پہ امید ہم رکھ رہے ہیں کہ معاملہ ان شاءاللہ العزیز آئین و قانون کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق حل ہوجائے گا۔
صحافی: مولانا صاحب جو آپ کی رائے تھی کہ پہلے دستخط کر دیں اگر کوئی کمی کوتاہی ہے تو اس کو بعد میں ترمیم کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو کیا اس میں بھی اتفاق ہوا ہے؟
مولانا صاحب: حضرت میں نے جو بات آپ سے کی ہے آپ کا سارا جواب اس میں آگیا ہے اور آئین و قانون کے عین مطابق ہمارا مطالبہ تھا اور اس کو تسلیم کیا جائے گا ان شاءاللہ۔
صحافی: مولانا صاحب کیا مدارس کے علاوہ بھی آج یہ پولیٹکس کے اوپر کوئی گفتگو کی گئی ہے جو ملک کا سیاسی استحکام ہے اس کے حوالے سے کوئی گفتگو ہوئی؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں موضوع صرف ایک ہی تھا باقی جب سیاسی لوگ آپس میں بیٹھتے ہیں تو کچھ جزیات آ ہی جاتے ہیں لیکن وہ کوئی موضوع نہیں تھا گفتگو کا۔
صحافی: مولا صاحب جوائنٹ سیشن کی بات کی جا رہی تھی کیا وہ بتایا گیا کہ جوائنٹ سیشن کب بلایا جائے گا اگر کہیں ضرورت پڑتی ہے مستقبل میں اس کے مزید بہتر کرنے کے لیے۔
مولانا صاحب: شاید ضرورت نہ پڑے اس کی۔
صحافی: مولانا صاحب صدر پاکستان کے جو اعتراضات ہیں اس بل کے حوالے سے ان پر کوئی بات ہوئی ہے وزیراعظم سے؟
مولانا صاحب: اسی پہ تو باتیں ہو رہی تھی، ہمارا موقف ان شاءاللہ تسلیم کیا جائے گا۔
صحافی: مولانا صاحب ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے وہ بل کا معاملہ۔۔۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھیں بھائی جان تکرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ ساری باتیں جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ جو ہم نے پہلے کہی ہیں اور یہاں نہ کہی ہوں اور ہم نے اس سب کا جواب لیا ہے اور جواب مثبت آیا ہے تو میں مزید گفتگو نہیں کر سکتا۔ آپ کو بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں