قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ایم کیو ایم کے قیادت کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو
17 دسمبر 2024
متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت جناب خالد مقبول صدیقی صاحب کے ساتھ ان کے رفقاء گورنر سندھ جناب ٹیسوری صاحب، ہمارے محترم بھائی فاروق ستار صاحب، امین الحق صاحب، ہمارے کولیگز بھی ہیں، ہمارے پرانے رفقاء بھی ہیں وہ تشریف لائے ہیں اور میں سب سے پہلے تو ان کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ان کی یہاں تشریف آوری ہمارے لیے باعث اعزاز ہے۔ کچھ گفتگو ہوئی ہے میرے خیال میں خالد مقبول صاحب سے میں گزارش کروں گا کہ وہ اس پر اپنا اظہار خیال فرما دیجیے۔
خالد مقبول صدیقی صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز صحافی حضرات، کیمرہ مین اس سردی میں آپ سب موجود ہیں بہت بہت شکریہ ویسے تو ہم مولانا صاحب کے پاس ہر دور میں آتے رہے اور ہمارے درمیان سیاسی طور پہ بھی اور ذاتی طور پہ بھی ہمیشہ ہی بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، بڑے اہم اور نازک وقت میں بھی ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی رہی ہے۔ جو موجودہ صورتحال تھی جو ابھی موجودہ 26ویں ترمیم کے اوپر ہم سب کی اپنے اپنے موقف تھے تو آج ہمیں یہ موقع ملا کہ اس حوالے سے مولانا صاحب مولانا فضل الرحمن صاحب جو کہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں ان کے موقف کو سمجھنے کی ہم نے اور قریب سے آ کے کوشش کی ہے۔ ان کی گفتگو میں ان کی باتوں میں بڑی دلیل موجود تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس پہ ہم بھی آگے چل کے بات کریں گے ہمارے درمیان بھی گفتگو رہے گی۔ اور جہاں جہاں حکومت سے اور دوسری سیاسی جماعتوں سے جتنا ہم نے ان کی بات سمجھا ہے اس کو آگے لے کے جائیں گے یہ ذہنی ہم آہنگی یہ سیاسی جماعت کے جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور مکالمہ اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ ہوتا نہیں ہے۔ اور خاص طور پہ ایسی سیاسی جماعتیں کہ جن کی جڑیں عوام میں ہوں ان کے ساتھ تو صرف مکالمہ ہی ایک صورت ہے۔ جس کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم نے ان کی گفتگو سنی ہے اور ان کی بہت سارے نقطوں کو نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ اس میں بڑی دلیل تھی اور یہ بات آگے چل کے ہم غور کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں متحدہ قومی موومنٹ کے اس قیادت کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمارے موقف کو سنا اور تسلی کے ساتھ سنا۔ جہاں تک 26 ویں ترمیمی بل کا تعلق ہے وہ تو اتفاق رائے سے پاس بھی ہو چکا ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن بھی ہو چکا ہے۔ لیکن جو دینی مدارس کے حوالے سے قانون سازی ہوئی تھی اور پھر اس کے بعد اس پر ایوان صدر نے اپنے اقدامات کے تحت الجھا دیا معاملے کو، تو ہماری نظر میں چونکہ اب وہ ایکٹ بن چکا ہے اور ہمارا مطالبہ حکومت سے یہ ہے کہ اب آپ اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کریں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس پہ کچھ مزید اصلاح کی ضرورت ہے یا کچھ اس میں اضافے کی ضرورت ہے تو گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد بھی تو حکومت جو ہے کوئی ترمیم لا سکتی ہے پارلیمنٹ موجود ہے۔ تو اس وقت جو ایک عمل مکمل ہو چکا ہے اس کو مکمل تسلیم کیا جائے۔
تو یہ موقف ہم نے ان کی خدمت میں بھی عرض کیا آج میں نے پارلیمنٹ میں بھی اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور میں ان سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ہماری گفتگو کو ہمارے دلائل کی روشنی میں اپنے فورم پہ لے جائیں۔ حکومتی فورم پہ لے جائیں اور کوشش کریں کہ وہ ہمارے اس موقف کو تسلیم کر لیں تاکہ کسی قسم کے سیاسی تنازعہ سے ہم ملک کو تحفظ دے سکے۔
خالد مقبول صدیقی صاحب
جی آج ہمیں یہ بھی موقع ملا ہے کہ 26 ویں ترمیم کے حوالے سے جو ہمارا نقطہ نظر تھا کہ پاکستان کی جمہوریت کو اگر استحکام دینا ہے تو اس کو پائے پہ تو کھڑا کریں۔ وہ ستونوں پہ تو کھڑا کرے جس کے ذریعے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ تو جو بنیادی جمہوریت ہے تھرٹی ائیر آف گورنمنٹ ہے اس کے حوالے سے جو ہمارا موقف ہے وہ ہم نے مولانا صاحب کو دیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اس کو دیکھیں بھی اگر ہم اور یہ اس پہ ہم آہنگ ہوتے ہیں تو آگے مل کے اس کو بھی ایوان میں دوبارہ لانے کی ضرورت ہے۔ یہی ایک ایسا نقطہ ہے اور یہ ایک یہی ایک نسخہ ہے جس کے ذریعے ہم جمہوریت کے ادوار میں بنیادی طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
آج بہت زبردست ہمارے درمیان گفتگو ہوئی ہے اور بہت سارے ایسے مسائل پہ بھی ہوئی ہے جس سے پاکستان کے عوام کے درمیان ذہنی آہنگی کے لیے اور جو مختلف سیاسی عقائد، مختلف سیاسی نظریے اور جماعتیں ہیں ان کے درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود گفتگو کا سلسلہ جاری رہے۔
مولانا فضل الرحمان صاحب
ایم کیو ایم کی طرف سے جو ان کی ترامیم کے حوالے سے تجاویز تھی جس طرح 26 ویں ترمیم میں اگر یہ ترمیم نہیں سموئی گئی تب بھی اس کے گزٹ نوٹیفکیشن میں یہ رکاوٹ نہیں بنی۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کوئی نئی بات دینی مدارس کے بل اور ایکٹ کے حوالے سے بھی اس میں نوٹیفکیشن کے حوالے سے کوئی بات رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ تو اگر ایم کیو نے قربانی دی ہے اور اس کو سموئے بغیر انہوں نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے۔
کامران ٹیسوری صاحب
میں مولانا صاحب سے اندر کہہ رہا تھا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت رجسٹر کرائے اور ہم تو اپنا وزیر تعلیم لے آئے آپ کے پاس رجسٹرڈ کرنے کے لیے۔
صحافی: گزشتہ دنوں بھی کچھ علماء کے جو تحفظات ہیں یا وہ بھی سنے، مولانا صاحب سے بھی ملاقات کی، تو مولانا صاحب کے جو مدارس کے حوالے سے آپ مکمل حمایت کر رہے ہیں؟
خالد مقبول: دیکھیے اس دن بھی وہ علماء نے چاہا تھا کہ ہم ان کے نقطہ نگاہ کو سنیں تو ہم جا کے سنا تھا آج ہم خود آئے ہیں مولانا صاحب کا نقطہ نگاہ کو کسی طرح آپ اگنور نہیں کر سکتے اور ان کی گفتگو میں جیسے میں نے پہلے بھی کہا ہے بڑی دلیل ہے اور اس دلیل کو لے کے ہم آگے جائیں۔ ان شاءاللہ
صحافی: اچھا مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ آپ کے یقیناً حکومت سے اس حوالے سے رابطے تو ہوئے ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ حکومت کا اس میں کیا موقف ہے اور اگر اس میں تھوڑی تاخیر ہوتی ہے کس قسم کی آئینی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں آپ کی نظر میں؟
مولانا فضل الرحمان: دیکھیے ہم کوئی غلط مثالیں قائم نہیں کرنا چاہتے اگر آج ہم نے قانون اور ضابطے کے حوالے سے اور جس طرح کے جناب اسپیکر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری کتابوں میں جو میں نے پڑھا ہے اس کے تحت یہ ایکٹ بن چکا ہے۔ اگر آج ہم ایکٹ بننے کے باوجود اس کو کسی بحث میں الجھاتے ہیں، کسی نئی تجویز کو اس پہ لاتے ہیں، تو پھر ایک ایسی مثال قائم ہو جائے گی کہ آنے والے وقتوں میں ہر ایک کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ لہٰذا آئین اور قانون کے ضابطے کے تحت اس کو مزید نہ الجھایا جائے۔ اس کو حل کر دیا جائے اور جب وہ حل ہو جاتا ہے تو ملک ہے، پارلیمنٹ ہے، ہم ہیں، آپ ہیں، بات چیت ہے، گفتگو ہے جو تجویز آپ لائیں گے یا ہم لائیں گے اس پر بات ہو سکے گی۔
صحافی: خالد مقبول صدیقی صاحب آپ نے موقف سن لیا ہے آپ کے خیال میں کس کے موقف میں وزن ہیں؟
خالد مقبول: جناب دیکھیے وہ مولانا صاحب کے ساتھ بھی اپنی پوری ٹیم تھی۔ ان کے ساتھ بھی وفاق کے لوگ ہیں۔دونوں کے نقطہ نظر کو سمجھے آج ایک طرف سنا تھا آج دوسری طرف سن لیا میں سمجھتا ہوں مولانا صاحب کے گفتگو میں اور ان کے نقطہ نظر میں بڑی دلیل موجود ہے۔ جو دونوں دلیلوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور بات کرنی چاہیے راستہ نکل جائے گا بہت مضبوط گفتگو کی ہے مولانا صاحب نے۔
صحافی: اچھا مولانا صاحب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ آپ کی خدمات جو ہیں وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان: دیکھیں جس بات کے حوالے سے مجھ تک کوئی بات نہ پہنچی ہو میں اس پر کیسے تبصرہ کر سکتا ہوں۔
صحافی: مدارس کے حوالے سے اگر یہ بل نہیں پاس ہوتا اور آپ کوئی تحریک چلاتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی آپ کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوگی یا احتجاج میں؟
مولانا فضل الرحمان: میرے خیال میں بل پاس ہو چکا ہے اگر مگر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اب تو اگر ختم ہو گیا ہے اب تو نکاح ہو چکا ہے صرف رخصتی باقی ہے۔
صحافی: اگر بات نہیں بنتی اور آپ سڑکوں پہ آتے ہیں تو پی ٹی آئی آپ کے ساتھ سڑکوں پہ آئے گی؟
مولانا فضل الرحمان: تو پھر اگر آپ کے نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوگی جو آپ کا فیصلہ ہوا وہ ہمارا۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں