قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ تحسین القرآن نوشہرہ میں طلباء سے خطاب
06 دسمبر 2024
محترم حضرت قاری عمر علی صاحب، جامعہ تحسین القرآن کے اساتذہ کرام، طلبہ عزیز اور اس اجتماع میں بیٹھے تمام بزرگوں، نوجوانوں اور میرے بھائیو! میرے لیے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ پاک نے اس مبارک محفل میں آپ کے ساتھ بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں
ومَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، ويتَدَارسُونَه بيْنَهُم، إِلاَّ نَزَلتْ علَيهم السَّكِينَة، وغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَة، وَحَفَّتْهُم الملائِكَةُ، وذَكَرهُمْ اللَّه فيِمنْ عِنده
کہ جو لوگ اللہ کے گھر پر جمع ہو جاتے ہیں اور پھر اس مجلس میں یہ قرآن پڑھتے ہیں اور اس پر ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں اس محفل میں شریک تمام لوگوں پر اللہ کی طرف سے پہلا انعام یہ ہوتا ہے کہ ان پر سکینہ نازل فرماتے ہیں۔ سکینہ، سکون، اطمینان، طمانیت یہ ضد ہے اضطراب، پریشانی اور پراگندگی کی۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ سکینہ قلب کی کیفیت کا نام ہے جب دلوں پر انوار کا نزول ہوتا ہے تو دل اور دل کی دنیا کو ایک تسکین ملتی ہے، اطمینان ملتا ہے۔ اور دوسرا انعام یہ کہ اللہ ان کو اپنی رحمت میں چھپا دیتے ہیں اور تیسرا انعام کہ فرشتے ان کے گرد حلقہ بنا لیتے ہیں اور انسانوں کی اس منظر کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں، اور پھر جب ہم اس مجلس میں اللہ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ رب العزت اپنے ماحول میں اس مجلس کے شرکاء کو یاد کرتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے جیسے کمزور لوگ جب دنیا میں کسی بادشاہ کے دربار میں یاد کیے جاتے ہیں اور خیر کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں تو ہم اس کو اپنے لیے کتنی بڑی اعزاز کی بات سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کی مجلس میں فلاں کو یاد کیا جا رہا تھا اور اچھے الفاظ میں یاد کیا جا رہا تھا۔ تو جب اللہ رب العزت جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، شہنشاہ کُل ہے اس کے مجلس میں جب ہم یاد ہوتے ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی اعزاز تو نہیں ہوسکتی۔ تو دعا کرے کہ اللہ رب العزت اس مجلس اور اس میں شریک تمام شرکاء کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مصداق بنائیں۔
میں ہمیشہ سے تحسین القرآن میں حاضری لگاتا رہا ہوں۔ قاری صاحب کے ساتھ ایک روز یا ایک ہفتے یا مہینے کا نہیں بلکہ پوری عمر کا تعلق ہے اور پھر ان کی وساطت سے تحسین القرآن کے اساتذہ، طلبہ جن کا شب و روز قرآن کریم سے تعلق ہوتا ہے ان کی زیارت ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت میں دلیل اول کتاب اللہ ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو دوسرے مخلوقات سے ممتاز بنایا ہے۔ امتیازات تو بہت زیادہ ہے لیکن دو امتیازات جو خصوصی طور پر انسان کو نوازے گئے ہیں ایک یہ کہ انسان کو عقل دیا گیا ہے اور دوسرا انسان کو قوت گویائی عطاء کی ہے۔ زبان میں بات کرنے کی طاقت قوتِ نُطق، یہ دو قوتیں ایسی ہے جو خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ایک قوت کے ساتھ انسان بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری قوت سے انسان دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک قوت کے ساتھ انسان علم حاصل کرتا ہے اور دوسری قوت سے وہ لوگوں کو سکھاتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ایک آپ کی اور ہماری ضرورت ہے۔ آپ میرے استاد میں آپ کا شاگرد، آپ مجھے سمجھاتے ہے اور جب میں سمجھ جاتا ہوں پھر میں آوروں کو سمجھاتا ہوں یہ انسانی معاشرے کی ایک باہمی ضرورت ہے لیکن اللہ کو کیا ضرورت ہے کہ اس نے یہ دو قوتیں انسان کو عطاء کیں، تو یہ یقین رکھے کہ اللہ پاک بھی ایک مجلس رکھتے تھے اور وہ مجلس انسان کی طرف بھیج رہے تھے تو پہلے عقل عطاء کی تاکہ اللہ کی باتوں کو سمجھ سکیں اور جب یہ اللہ کی باتوں کو سمجھیں تو پھر ان باتوں کو دوسروں کو سمجھائے۔ پہلے کی مصداق انبیاء علیہم السلام ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو براہ راست وحی کا نزول ہوتا تھا اور پھر خود اللہ پاک نے فرمایا
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا۔ ایک مکمل نظام حیات آپ کے حوالے کی اور قیامت تک یہ آپ کے راہنمائی کے لیے کافی ہوگی۔
تو سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ عقل ایک عظیم الشان نعمت ہے جو رب نے انسان کو عطاء کی ہے اور اس نعمت کا ہمسر بہت مشکل ہے کہ کوئی کر سکے۔ لیکن ہر چند کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے پھر بھی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ عقل متاثر ہو سکتی ہے، کبھی کبھی مغلوب ہو جاتی ہے، محبت غالب اور عقل مغلوب ہو جاتی ہے، غضب غالب اور عقل مغلوب ہو جاتی ہے، شہوت خواہشات غالب اور عقل مغلوب ہو جاتی ہے۔ تو راہنما ہے لیکن راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے تو پھر عقل کو وحی کے ذریعے راہنمائی دی گئی کہ ایسے مواقع پر پھر وحی آپ کی راہنمائی کرے گی۔ جب وحی کی راہنمائی نہیں ہوتی تو اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ رات ہے ہماری آنکھیں تو ہے بینائی بھی موجود ہے سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہو لیکن اگر لائٹ بند کر دیے جائے اور باہر کی روشنی بھی ختم ہو جائے تو پھر بینائی بھی ٹھیک ہوگی، قوت بصارت بھی ٹھیک ہوگی لیکن آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ تو خارجی روشنی سورج کی صورت میں، لائٹ کی صورت میں وہ آپ کو وہ قوت دیتی ہے جس میں آپ کی بینائی کام کرے گی۔ تو عقل آپ کو عطاء کی گئی لیکن یہ اس وقت تک کام نہیں کرتا جب تک وحی کی راہنمائی حاصل نہ ہو۔
ایک تو اس اعتبار سے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ، تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کیا۔ یہ ہے اِکمال دین، اب اکمال دین کیا ہے؟ دین کامل اور مکمل ہے باعتبار تعلیمات کے اور احکامات کے، تو یہ تو بہت بڑی نعمت ہے، تو فرمایا وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، اور اپنی نعمتیں تمام کر دی۔ اب لفظ نعمت اس کی خارج میں مصداق کیا چیز ہوگی؟ کسی کو ایک گلاس پانی دو یہ بھی ایک نعمت ہے، ایک لقمہ روٹی دو یہ بھی نعمت ہے، کپڑے دو یہ بھی نعمت ہے، سردی میں مہمان آجائے ان کو کمبل رضائی دو یہ بھی نعمت ہے، روٹی دی یہ بھی نعمت ہے لیکن اللہ رب العزت نے جو یہاں لفظ نعمت استعمال کی ہے یہ مطلق استعمال کیا گیا ہے اور جو چیز مطلق استعمال ہوتی ہے تو اس سے مراد فرد کامل ہوتا ہے، نعمت کا فرد کامل خارج میں کیا ہوگا؟ تو ہمارے اکابر اور علماء فرماتے ہیں کہ اس کامل دین کہ جو باعتبارِ تعلیمات و احکامات کے کامل اور مکمل ہے یہ خارج میں بطور نعمت جو مصداق رکھتی ہے وہ اسی دین اسلام کی حاکمیت ہوگی۔ تو جب اسلام ہوگا اور نعمت ہوگی اور خارج میں اس نعمت کی مصداق حکمرانی کی صورت میں کامل ہوگی ورنہ پھر سب نعمتیں نامکمل صورتوں میں موجود ہوگی، یہ ہمارے اکابر کی تشریحات ہیں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا اور اسلام کو بطور نظام حیات کے پسند کیا گیا ہے۔
تو جو چیز اللہ نے ہمارے لیے پسند کی ہے وہ ہم نے پسند نہیں کیا نعوذباللہ۔ اس کے لیے محنت نہیں ہے۔ مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ عالی ہمارے ڈی آئی خان میں آئے تھے تقریر کر رہے تھے تو حضرت شیخ الہند کی بات کو ذکر کیا کہ حضرت شیخ الہند فرماتے تھے کہ جو مولوی حجرے میں بیٹھا یا محراب کے اندر خدمات کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہو یہ دین کا خادم نہیں بلکہ دین کے دامن پر ایک کالا دھبہ ہے۔ تو میری اور آپ کی بنیاد تو ہندوستان میں شیخ الہند ہے اور برصغیر میں، اس مدرسے کے اساس میں شیخ الہند محمود حسن بطور طالب علم کے موجود ہے اور جمیعۃ علماء اس کی بنیاد میں بھی حضرت شیخ الہند موجود ہے یہی محمود حسن پھر شیخ الہند بن جاتے ہیں۔
اب ظاہری بات ہے کہ جہاد ایک بہت بڑا اور مقدس فریضہ ہے، ذُروَةُ الإسلامِ لیکن جہاد احکامِ اسلام میں سے ہے ارکانِ اسلام میں سے نہیں ہے، کیوں فی ذاتہ حسن نہیں ہے کیوں کہ جنگ و جدل ہے، قتل و غارت ہے، بغیرہ حسن ہے اور ہر جنگ تدبیر چاہتی ہے لیکن ان سب موضوع کا خلاصہ ایک لفظ ہے کہ ہر وہ محنت اور جدوجہد جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو وہ جہاد شمار کیا جائے گا۔ اور اعلاء میں قاری صاحب نے ایک آیت کا حوالہ دیا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ
پیغمبر کی آواز پر آواز اونچا کرنا یہ بھی حبط اعمال کا ذریعہ بن سکتی ہے،
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
پیغمبر پاک کو دیوار کے اس پار سے بھی آواز نہیں دوگے۔ اب اس حوالے سے قرآن پاک کا پہلا شارح وہ بذات خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، قولی اعتبار سے بھی اور فعلی اور عملی اعتبار سے بھی وہ ہمارے لیے نمونہ ہے جی، أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ اس دین کے لیے اور اس کی حاکمیت کے لیے جو کوششیں جو جدوجہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کی ہے تو اس میں جب آپ مولوی صاحبان ایک ساتھ بیٹھتے ہو تو کہتے ہو کہ ألعلماء ورثة الأنبياء، اتنی آسانی سے اپنے آپ کو ورثہ بنا دیتے ہو۔ إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً إنما ورثوا العلم۔ یہ دین آپ کو دیا ہے، آپ دین میں وارث ہو اور اب اس علم پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل کیا ہے اور اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے تو کچھ نظر نہیں آئے گا۔
تو اسلام کا یہی پہلو بھی اپنا ایک تقاضا رکھتی ہے اور پھر نبی پاک علیہ السلام کو تو اللہ نے سند دیا ہے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍۢ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُ
اللہ اور اس کے پیغمبر نے جو فیصلہ دیا کسی کو رتی بھر اس میں تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کو کرنے کا کہا ہے وہ کرو جن سے منع فرمایا وہ نہ کرو، یہ اختیار اس کو دیا ہے اور اب قیامت تک وحی نہیں آئے گی۔ تو اب اس وحی کی نیابت کون کرے گا؟ قیامت تک وحی نہیں ہوگی لیکن قیامت تک شوریٰ ہوگی۔
وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ۔ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ۔
تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے کوئی نیا مسئلہ درپیش آتا تھا تو میں قرآن میں اس کا حل تلاش کرتا تھا مجھے وہاں کامیابی نہیں ملتی تو میں حیات نبی میں اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا وہاں بھی نہیں ملتی تو پھر میں اپنے دوستوں کو جو عابدین ذاہدین اور اصحاب الرائے ہوتے تھے ان کو جمع کرتا تھا اور وہ موضوع سامنے رکھتا اور مشورے کے بعد جس بات پر اتفاق رائے ہو جاتا اس پر حکم صادر فرماتے۔ یہی قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے لیکن ایک اضافے کے ساتھ کہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات میں اس کا حل ڈھونڈتا، یہی قول ایک اضافے کے ساتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہے کہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حیات میں اس کا حل تلاش کرتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ خود سے فیصلے نہیں کرنا، کیوں کہ یہ امت اور ملت کے فیصلے ہیں فرد واحد کی رائے وہاں حجت نہیں ہے، علماء کی اجتماعی رائے وہ حجت ہے اور اسی دلیل پر جمعیۃ علماء ہند قائم ہوئی تھی اور ہمارا یہ سلسلہ اسی دلائل کی کڑی ہے۔ اب ہر بندہ آکر ہمیں نیا سبق سکھاتا ہے اور ایسا نہیں کہ ہمیں سبق سکھاتا ہے بلکہ میں شیخ الہند کو چھوڑوں گا، میں حضرت مدنی کو چھوڑوں گا، میں مولانا رشید احمد گنگوہی کو چھوڑوں گا، میں قاسم نانوتوی کو چھوڑوں گا، میں مفتی کفایت اللہ مفتی ہند کو چھوڑوں گا، میں احمد علی لاہوری کو چھوڑوں گا، میں حضرت مفتی صاحب کو چھوڑوں گا، میں مولانا عبد الحق صاحب کو چھوڑوں گا اور اس نئے مولوی کی بات کو مانوں گا اور اگر نہیں مانتا تو پھر مجھے کافر کہے گا اور اکابر کو بھی کافر کہے گا، کیا یہ حق ان کو ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر آرام سے بیٹھ جاؤ نا، اپنے حدود میں رہو۔ آپ کے پاس اپنی فکر اور میرے پاس اپنی فکر کی سند موجود ہے۔ تو میں اپنے آپ کو اکابر کی اس سند کا امین سمجھتا ہوں، تم ہوتے کون ہو مجھے نئی راہیں دکھانے والے، آپ کی حیثیت کیا ہے جو مجھے نئے راستے دکھاتے ہو، ہم اپنی اس درست راستے کو نہیں چھوڑیں گے ٹھیک راستہ ہے۔
اللّٰہ رب العزت نے ہم پر کچھ احسانات کیے ہیں۔ پہلا احسان اللہ تعالیٰ کا یہ ہے کہ ہم پر جدوجہد اور محنت ہے نتیجے کہ ہم مکلف نہیں ہے۔ دوسرا احسان یہ ہے کہ جدوجہد وہ بھی اپنی بساط کے مطابق، اپنی بساط سے نکلنا اور بڑے بڑے حوالے دینا،
لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ
اللہ پاک نے تو اصول دیے ہیں۔ اپنے بڑوں سے آگے نہ چلو، جماعت تک پہلے پہنچنا کتنا بڑا مقام ہے لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دروازے میں کھڑے ہوتے کھڑے ہوتے اور جیسے ہی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو آپ ان کے پیچھے جماعت میں داخل ہو جاتے، اسی سوچ کے ساتھ کہ کہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ جاؤ۔ اب صوفیاء بھی کہتے ہیں نا کہ اپنے شیخ سے آگے نہ جاؤ۔
تو یہ ہمارا وطن ہے۔ ہمارے اپنے کچھ معروضی حالات ہیں، ان حالات میں جدوجہد کا تعین کرنا، اس کے لیے تدبیر بنانا، حکمت عملی مرتب کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اسی حکمت کے ساتھ چلیں گے۔ ابھی جو اسمبلی ترامیم کا حوالہ انہوں نے دیا، ہم نے کون سی بندوق اٹھائی تھی؟ لیکن اسی پارلیمنٹ اور اسی جمہوریت میں فتح حاصل کی کہ نہیں! لیکن یہ بات سنو کہ ان سب چیزوں کے لیے تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے، تدبیر و انتظام حالات کے مناسبت سے کہ آپ اپنی مقصد کے حصول تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ بہت عرصہ گزارا ہم نہیں کر سکتے تھے، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سن 1962 میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور 1973 کی آئین میں اسلامی دفعات شامل کرنے میں کامیاب ہوئے اور 1974 میں ختم نبوت کے مسئلے میں کامیاب ہوئے، تو انہوں نے ڈنڈا یا بندوق تو نہیں اٹھائی تھی، جدوجہد کا ایک تسلسل تھا اور مواقع اللہ پاک دے رہے تھے، یہ تو اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے اگر مواقع نہ ہو تو پھر کیا کرو گے۔ اب کی بار پھر جب سپریم کورٹ میں ختم نبوت کے مسئلے پر حملہ ہوا، بڑا خطرناک حملہ تھا، ہمارے اکابر کی تمام محنتیں اور قربانیاں ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ اللہ نے موقع دیا اور ہم میدان میں کود پڑے اور اس کو مزید مظبوط اور مستحکم بنا دیا اور قادیانیت کی کمر الحمدللہ ایسی توڑ دی ہے کہ آئندہ سو سالوں تک ان کی کمر سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اور پھر اس کے بعد سود کے مسئلے پر اللہ نے موقع فراہم کیا اور ان شاءاللہ یکم جنوری 2028 سے پاکستان میں سود نظام کا خاتمہ ہوگا اور یہ ہم نے کیوں کیا لوگ کہتے ہیں کہ اوئے 2028، اللہ کے بندوں پچھلے 77 سال سے اس نظام میں آرہے ہو وہ نظر نہیں آرہا اور یہ دو تین سال نظر آرہے ہیں! یہ شریعت کورٹ کا فیصلہ تھا انہوں نے تمام اداروں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ آپ 31 دسمبر 2027 تک اپنے اداروں کے مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرو گے، انہوں نے یہ فیصلہ کیا تو ہم نے کہا ٹھیک ہے آئین میں یہ لکھ دیا۔ تو اللہ توفیق دے جدوجہد کاری رہے گی، ہم مایوس نہیں ہونگے اور پیچھے بھی نہیں ہٹیں گے کیوں کہ ہم نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ الجھادُ ماضٍ الی یومِ القیامة یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گی۔
تو ہم تمام کفری طاقتوں، بے دین قوتوں کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مولوی تھک جائیں گے اور جمعیۃ تھک جائے گی، بے بس ہو جائے گی، نا نا ہم نے یہ سبق دل سے اور مضبوطی سے یاد کیا ہے، الجھادُ ماضٍ الی یومِ القیامة۔ ان شاءاللہ العزیز اللہ پاک ہمیں ہمت دے گا اور یہ سلسلہ یونہی رواں دواں رہے گا۔
تو اس حوالے سے جو حالات چل رہے ہیں الحمدللہ جماعت موجود ہے، بہت اچھا کام کر رہی ہے اور مشکلات ہیں اس میں شک نہیں کہ مشکلات ہیں، لیکن مشکلات میں بھی تو اللہ کی طرف رجوع کریں گے نا، تو آپ کم از کم یہ مہربانی تو کرے کہ تہجد میں، پانچ وقت نمازوں میں اور دعاؤں میں تو ہمیں یاد کیا کرے۔ ایک بہت بڑے عالم تھے الحمدللہ ابھی بھی حیات ہیں ان سے کہا کہ حضرت دعا تو کیا کرے نا، تو کہنے لگا کہ ہاں یہ تو میرے بس میں ہے۔ تو میں نے کہا اور کیا چاہیے بس دعا ہی چاہیے۔ تو یہ اتنی بڑی ذمہ داری میں آپ کے کندھوں پر نہیں ڈال رہا۔ لیکن بہرحال جس قوم میں تنظیم ہوتی ہے پھر اس قوم کی تعظیم ہوتی ہے، تنظیم کے ساتھ تعظیم ہوتی ہے اور اسی لیے ہمارے اکابر نے سیاست کو تعبیر کیا ہے تنظیم الاعمال سے اور شریعت کو تعبیر کیا ہے تعلیم الاحکام سے اور طریقت کو تعبیر کیا ہے تہذیب الاخلاق سے، یہ تینوں چیزیں اپنے اندر لاؤ تو ایک معتدل مسلمان بن جاؤ گے۔
ان شاءاللہ مدرسے بھی ہوں گے، یہ سلسلے بھی جاری رہیں گے، قرآن کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے اور جس کی پشت پر اللہ کی حفاظت موجود ہوتی ہے تو پھر حکومت کیا چیز ہے، اور انگریز کیا چیز ہے، اور امریکہ کیا چیز ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کیا چیز ہے، اور بیوروکریسی کیا چیز ہے، میرے پشت پر اللہ کی حفاظت ہوگی اور ان کے ارادے ہونگے کہ میں مدرسہ کو ختم کر دو گا، تمہارا باپ بھی ختم نہیں کر سکتا۔
تو ان شاءاللہ آپ دعائیں کریں گے اور پورے اخلاص کے ساتھ کریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ: #سہیل_سہراب
،ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں