قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو
12 دسمبر 2024
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آج کل ملکی سیاست میں دینی مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے جو بحث چل رہی ہے اس سلسلے میں کچھ نکات میں وضاحت کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہماری جو شکایت ہے وہ صرف ایوان صدر سے اور صدر مملکت سے ہے نہ کسی مدرسے سے ہے نہ مدرسوں کی کسی تنظیم سے ہے نہ ان سے وابستہ علمائے کرام سے ہے بلا وجہ خلط بحث کیا گیا، معاملے کو ایسا گمبھیر کیا گیا کہ اچھے بھلے دانشور لوگ بھی حیران ہیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ دو جمع دو چار کی طرح سادہ ہے، اسے غیر ضروری طور پر گمبھیر بنانا اس میں کیا فائدہ ہے ان لوگوں کو جنہوں نے ایسے حرکت کی، مجھے سمجھ میں نہیں آرہی۔ دینی مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے یا ان کی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے حکومت نے ڈرافٹ تیار کیا جب 26 ویں آئینی ترمیم پر گفتگو چل رہی تھی اس دوران اسی بل پر گفتگو چل رہی تھی اور ہم نے ڈیمانڈ کیا تھا کہ الیکشن سے پہلے میاں شہباز شریف صاحب کی حکومت میں جو ڈرافٹ اسمبلی میں لایا گیا تھا اور پاس نہیں ہو سکا تھا اسے بھی پاس کیا جائے۔ چنانچہ پہلے سینٹ میں آیا اور اتفاق رائے سے پاس کر دیا گیا۔ اس کے بعد قوم اسمبلی میں آیا اور یہ کاروائی 20 اور 21 اکتوبر کو صبح تک مکمل ہو گئی۔ جب آئینی ترمیم پر بھی دستخط ہو گئے تو پھر اس بل پر دستخط کیوں روکے گئے۔
یہاں میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں پہلی بات یہ کہ سیاسی جماعتیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین جس کے سربراہ خود جناب آصف علی زرداری صاحب ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو صاحب جہاں اسلام آباد میں باتیں ہوتی رہیں وہاں میں خود بلاول ہاؤس کراچی گیا وہاں پانچ گھنٹے ان سے بات چیت ہوئی۔ وہاں سے ہم لاہور آئے رائیونڈ میں میاں نواز شریف صاحب کے گھر پر آصف علی زرداری صاحب کی موجودگی میں بلاول بھٹو صاحب کی موجودگی میں میاں شہباز شریف صاحب کی موجودگی میں ہم نے ان تمام چیزوں پر اتفاق رائے کیا۔ وزارت قانون نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا اور ہم نے اس ڈرافٹ کو قبول کر لیا۔ جس ڈرافٹ کی تیاری میں حکومت کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں شریک تھی اور ہم نے انہی کے ڈرافٹ کو تسلیم کیا اور قبول کیا ہے اس کے بعد آصف علی زرداری صاحب کو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش تھی۔ ایک بات، دوسری بات یہ کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا تھا کیا ریاستی ادارے اس میں انگیج نہیں تھے۔ کیا وہ پل پل کی صورتحال میں اپنا ان فٹ نہیں دے رہے تھے۔ کیا اس تمام تر مراحل میں وہ شریک نہیں تھے۔ اور ایک ایک لفظ چاہے 26ویں آئینی ترمیم کا ہو یا دینی مدارس کے حوالے سے اس بل کا ہو کہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت یعنی سن 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت اس میں ترمیم کی گئی اور ترمیم کے ساتھ اس کو ہم نے قبول کیا اور وہ پاس ہو گیا۔ اب جن لوگوں نے ہمارے ہی ان علماء کرام کو یا ہماری وہ مدارس کی تنظیمیں جو وزارت تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل سے وابستہ رجسٹریشن کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں اس کا سارا نزلہ ہم پر کیوں گر رہا ہے۔ وفاق المدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ تنازعہ کیوں اٹھا رہے ہیں۔ ہمارا تو ان سے جھگڑا ہی نہیں ہے اور جنہوں نے ڈرافٹ تیار کیا ان کے کہنے پر آکر وہ شور و غوغا کر رہے ہیں اور وزارت تعلیم سے وابستہ ہو جائیں یا سوسائٹی ایکٹ سے وابستہ ہو جائیں نیا سوال اٹھا لیا انہوں نے، الیکشن سے پہلے بھی اگر ڈرافٹ تیار ہوا تھا تو وہ بھی تو سرکار نے بنایا تھا اور سرکار کے ڈرافٹ کو ہم نے قبول کیا تھا جس میں ہم نے یہ رعایت ضرور دی ہے اس وقت کہ اگر سوسائٹی ایکٹ سے کوئی وابستہ ہونا چاہے رجسٹریشن کے لیے یا وزارت تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل سے وابستہ ہونا چاہیے۔ تو اگرچہ ہمیں تحفظات ہیں کہ مدارس کے نئے وفاق کیوں بنائے گئے نئی تنظیمیں کیوں سامنے آگئی، اس کو کس نے توڑا ہے، کیا مدارس کی ان تنظیموں کو تقسیم کرنے میں اداروں کا ہاتھ نہیں تھا، اور جس نے یہ تقسیم کی تھی وہ باقی تمام معاملات میں مجرم تھا اور اس حوالے سے وہ صحیح تھا اور اس کو تسلسل دے رہا ہے انہوں نے، تو میں تو علماء کرام کی خدمت میں بھی گزارش کروں گا کہ جن لوگوں نے آپ کو بلایا، جنہوں نے آپ کو اکسایا، جن کے اشاروں پر آپ ایک محاذ اٹھا کر یہی تو ذمہ دار ہے اس ڈرافٹ بنانے کے، اب کس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ کس کے ساتھ آپ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہمارا آپس میں نہ کوئی جھگڑا ہے، نہ ہم آپ کے خلاف فریق ہے۔ ڈرافٹ بھی انہوں نے بنایا وہ والا بھی انہوں نے بنایا تھا سو ہم نے تحفظات کے باوجود قبول کیا اور یہ بھی انہوں نے بنایا تھا سو آپ کا کیس ہمارا کیس نہیں ہے۔ آپ کیوں ہم سے الگ ہوئے۔ آپ نے مدارس کی تنظیم کو کیوں توڑا۔ اب الگ سے ایک اور بورڈ میں کیوں چلے گئے اور وہ جو ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم یہ تو ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا۔ اور پھر اگر ڈائریکٹریٹ جنرل بنا ہے تو وہ ایگزیکٹو آرڈر سے بنا ہے۔ کہاں ایگزیکٹو آرڈر کہاں معاہدے کی ایک تحریر اور کہاں ایک ایکٹ، سو ہم ایک قانون کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ اس ملک کی قانون کے ساتھ کہ جس میں بے شمار رفاہی تنظیمیں، این جی اوز یہاں تک کہ تعلیمی ادارے سن 1860 سے آج تک اسی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں اور صرف رجسٹریشن کے لیے کچھ یہ وزارت خاص کی گئی تھی۔ سو پاکستان بننے سے پہلے بھی اسی کے ساتھ رجسٹریشن ہوتی تھی پاکستان بننے کے بعد بھی آج تک ہو رہی تھی۔ آج تک کیوں اعتراض نہیں ہو رہا تھا کہ دینی مدارس تو تعلیمی ادارے ہیں تو پھر جو دوسرے تعلیمی ادارے ہیں وہ بھی تعلیمی ادارے ہیں۔ وہ اس سوسائٹی ایکٹ کے تحت کیوں رجسٹرڈ ہیں۔ صرف دینی مدارس کے لیے یہ سوال کیوں پیدا کیا جا رہا ہے اور پھر اگر وہ معاہدہ ہم معاہدے کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے، معاہدہ اپنی جگہ معاہدہ ہوتا ہے لیکن ایکٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج تم ایکٹ لائے ہو، ایکٹ میں آپ ترمیم لائے ہیں، اس کو ہم نے قبول کیا ہے اور وہ جو معاہدہ تھا اس کو آپ نے توڑا ہے۔ اس میں آپ نے لکھا تھا کہ جن مدارس کے رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی مزید جو مدارس رجسٹر ہونا چاہیں گے حکومت تعاون کرے گی۔ اس میں لکھا ہے کہ تمام مدارس کے اکاؤنٹس بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے۔ اس میں لکھا ہے کہ تمام جو بیرون ملک طلباء ہیں اور پاکستان میں پڑھنا چاہتے ہیں ان کو نو سال کا ویزہ دیا جائے گا۔ ہمیں بتائیں نا اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ وابستہ کسی ایک مدرسے کی بینک اکاؤنٹ کھلا ہے۔ کسی ایک مدرسے کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ کسی ایک مدرسے کے لیے بیرونی طالب علم کو ایک ویزہ دیا گیا ہے۔ تین شقیں ہیں اس کی اور تینوں کے خلاف ورزی اب تک ایسی ہوئی ہے کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ مجرم وہ اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہمیں کہہ دیا گیا کہ آپ تو غلطی کر رہے ہیں۔
سو میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار تو ایوان صدر ہے۔ ایوان صدر کے بارے میں بھی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں ہمارے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے ہم دستاویزی بات کرتے ہیں۔ کیا صدر مملکت ایک ایکٹ کے اوپر یا ایک آئینی ترمیم کے اوپر جو پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے دو بار اعتراض بھیج سکتا ہے۔ جو اعتراض انہوں نے آٹھ نکات پر مشتمل بھیجا ہے کیا اس سے قبل وہ ایک نقطے پر مبنی قلمی غلطی کی بنیاد پر وہ اعتراض بھیج نہیں چکا، کیا رولز کے تحت اس کو دوبارہ اعتراض پارلیمنٹ میں بھیجنے کا آئینی قانونی حق ہے؟ سو ایک اعتراض اس سے قبل وہ بھیج چکا ہے اور سپیکر صاحب نے اس کی اصلاح کر کے اس پر دستخط کر کے واپس کیے ہیں۔ چیئرمین سینٹ جو قائم مقام تھے اس وقت انہوں نے اس پر اصلاح کر کے اس میں دستخط کر کے ایوان صدر کو واپس بھیجے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس پر دستخط کیوں نہیں کیے جا رہے۔ اور اگر دس دن تک اس پہ دستخط نہیں ہوتے تو کیا وہ خود بخود ایک ایکٹ نہیں بن جاتا! ہمیں بتایا جائے کہ بیس اور اکیس اکتوبر کو پاس ہونے والا بل اس پر جو اعتراضات بھیجے گئے ہیں وہ تو ڈیڑھ مہینے کے بعد بھیجے گئے ہیں۔ اب کیا ایوان صدر اور پارلیمنٹ یا ایوان صدر یا لاء منسٹری اس میں تو جو چیزیں جاتی رہتی ہیں وہ تو چند منٹوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ ڈیسپیچ فوراً چلا جاتا ہے۔ ڈیڑھ مہینے تک کس ڈاک میں پڑا رہا، بیک ڈیٹ میں دستخط کرکے آپ جھوٹ چھپا سکیں گے پھر، لہٰذا ہمارا دعویٰ ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر نے ایک اعتراض بھیج دیا ہے۔ اس کے بعد اگر اس نے آئینی مدت کے اندر اندر اس پر دستخط نہیں کئے تو حکومت نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں اس کا گزٹ کرنے کے لیے اور صدر عارف علوی انہوں نے جو دستخط نہیں کیے تو کیا اس وقت حکومت نے اس پر باقاعدہ نوٹیفکیشن نہیں کیا۔ اس ایکٹ کا گزٹ نہیں کیا انہوں نے، یہ کیا چیزیں ہیں جو ریاست، ریاستی ادارے حکمران، ذمہ دار ملک بحرانوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ہم نے تو اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم تو ملک میں جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں ایک ایکٹ کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ کسی معاہدے کے محتاج ہم کیوں ہوں۔ اور پھر بنایا بھی حکومت نے ہے اور ان علماء کو برانگیختہ بھی حکومت والے کر رہے ہیں۔ بنایا بھی ادارے کے لوگوں نے ہے اور ان علماء کرام اور تنظیموں کو برانگیختہ بھی یہی لوگ کر رہے ہیں۔ اور یہ ان کے کہنے پر بندے برانگیختہ ہو بھی جاتے ہیں۔ اس سادگی پہ میں کیا کروں۔
لہذا ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے دو جمع دو چار کی طرح اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایکٹ پاس ہو چکا ہے اس کا نوٹیفکیشن فوراً ہونا چاہیے۔ اور میری تجویز ہوگی اتحاد مدارس دینیہ کو بھی جس کا اجلاس 16 دسمبر کو ہو رہا ہے کہ اس پر ہمیں اگر کورٹ کو بھی رجوع کرنا پڑے تو ہم جائیں گے ان کے ساتھ، ہمیں جانا چاہیے۔ لیکن میں فیصلہ اس لیے نہیں کہہ رہا اس وقت کہ الریڈی اجلاس بلایا جا چکا ہے۔ تو ان کی مشاورت سے یہ ساری باتیں ہونی چاہیے۔ لیکن میں یہ موقف واضح کرنا چاہتا تھا کہ تنازعہ کسی اور جگہ پر ہے شور کہی اور مچ رہا ہے۔
لہذا اس چیز کو کلیئر ہونا چاہیے بلا وجہ یہ مسئلے پیدا کرنا کہ مدارس تو تعلیمی ادارے ہیں تو تعلیمی اداروں کو تو وزارت تعلیم کے ساتھ تو کتنے تعلیمی ادارے ہیں جو آپ کے ملک میں ہیں اور اس کے ساتھ کیوں نہیں ہو رہا، اور آج تک کیوں نہیں ہوتا رہا اس کے اوپر، ایک وزارت بنائی ہی اسی لیے گئی تھی اس کی ذمہ داری قرار دے دی گئی تھی کہ جتنے بھی پرائیویٹ ادارے رجسٹر ہوں گے وہ آپ کی وزارت کے تحت ہوں گے۔ انہوں نے ڈائریکٹریٹ نہیں بنایا ہمارے لیے، ڈائریکٹ بنانا مدارس کے اندر مداخلت اور مدارس آزاد رہنا چاہتی ہے۔ کیونکہ ہم نے تجربہ کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں کہ جتنے مدارس میں اگر حکومت مداخلت کی ہے یا حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے آج جو مدرسہ نہیں رہا ہے۔ سندھ میں دو مدرسے ہیں وہ سکول ہیں اور کالج ہیں۔ بہاولپور کا آج وہ اسلامیہ کالج بن گیا جس میں کسی زمانے میں بڑے بڑے علماء کرام حدیث و قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ پشاور کا دارالعلوم الاسلامیہ کے بعد اسلامیہ کالج بن گیا اور آج وہ اسلامیہ کالج ہے عام کالجوں کی طرح، کہاں گیا دینی تعلیم وہاں پر، تو سرکار نے تو جو ادارے اپنے ہاتھ میں لیے ہے اور ان کے زیر اثر تھے اس میں دینی علوم ختم کر دیے تھے جو جاری بھی تھے پہلے، اور ہم ان پر اعتماد کرے! تو مدارس میں وہ جس طرح مداخلت کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں اور کسی طریقے سے اس میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا اگر ہمیں آپ کوئی معاہدے یاد دلانا چاہتے ہیں تو یہ جو ابھی معاہدہ ہوا جس میں 26ویں ترمیم پاس ہوئی ہے اس میں یہ بھی شامل ہے۔ تو سب سے بڑی مخالفت تو آپ کر رہے ہیں ایکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں آپ، ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں، پارلیمنٹ کی مخالفت کر رہے ہیں، اور جو پارٹیاں ہے اس کی تدوین میں ہمارے ساتھ موجود تھیں وہ کیا بہانہ بنائیں گی اور جو ادارے اس پہ ان فٹ دے رہے تھے اور ہمارے ساتھ انگیج تھے اس حوالے سے وہ کیا جواب دیں گے ہمیں، تو کب تم پر یہ راز کھلا، انکار سے پہلے یا کے بعد، ذرا اپنے سے سوال کرے یہ لوگ، اور ہمارے علماء کرام بھی ذرا تھوڑا سا دانشمندی کا مظاہرہ کریں کہ جنہوں نے بل بنایا ہے وہی آپ کو اکسارہے ہیں اور اس کو متنازعہ بنانے کے لیے آپ کو ابھار رہے ہیں۔ تو یہ چیز تھی جس پر میں آپ حضرات سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا تاکہ شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
سوال و جواب
سوال: مولانا صاحب آپ کے خیال میں کیا ہے کیا کوئی بین الاقوامی کوئی دباؤ ہے جو حکومت محسوس کرتی ہے حالات پہ اس میں یا حکومت کے اندر جو اتحادی جماعتی ہیں ان میں اختلافات ہیں اس چیز پہ اور اس کی وجہ سے یہ اب تک بل پر دستخط نہیں ہو سکے؟
جواب: اگر بالفرض میں مان بھی لوں تو پھر ایک آزاد اور خودمختار مملکت اور اس کے پارلیمنٹ کہاں گئی۔ تو اس لیے ہم تو اور ابھی چند دن ہوئے ایک قرارداد اسی قومی اسمبلی نے پاس کی جب حکومت نے بھی نہیں کیا امریکی کانگرس میں یا ان کی پارلیمنٹ میں قرارداد آئی تو ہماری ہی پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی کہ امریکہ کو ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تو پی ٹی آئی کے لیے تو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ دینی مدارس کے لیے حق حاصل ہے ان کو، یہ بھی ذرا سوچنا چاہیے نا۔
سوال: سعودی عربیہ بھی ہو سکتا ہے؟
جواب: نہیں سعودی عرب اس میں نہیں ہے۔
سوال: اچھا مدارس کے حوالے سے جو الگ الگ موقف ہے آپ کا الگ موقف ہے، مدارس کے جو تنظیمات ہیں ان کا بھی ہے تو کیا آپ لوگوں نے کوارڈینیشن نہیں کی؟
جواب: کوئی کوئی موقف نہیں ہے ان کا تعلق تنظیمات مدارس ہے ہی نہیں، مذاکرات میں ہم ہی تھے اور گورنمنٹ نے بھیجا ہے تو جب گورنمنٹ نے بھیجا ہے تو ہم نے قبول کیا ہے نا تو پہلے والا بھی ہم نے قبول کیا گورنمنٹ نے بنایا تو گورنمنٹ پر ان کو اس وقت اعتراض کیوں نہیں تھا جب یہ بل اسمبلی میں آرہا تھا۔ کوئی خفیہ تو نہیں تھا۔ جب آگیا اور پاس ہو گیا اس وقت ان کو اعتراض کیوں نہیں تھا یہ دو مہینے کے بعد کہاں سے آنکھ کھل گئی ان کی، بات تو یہ ہے نا کسی نے اٹھایا ہے نا اعتراض نہیں ہے ان کو جی لیکن کسی نے اٹھا لیا ہے اگر ان کی وہاں رجسٹریشن ہوئی ہے یا وہ کر رہے ہیں وہ تو ویسے بھی ایکٹ نہیں ہے۔ جب ایکٹ نہیں ہے وہ اور ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے ساتھ انہوں نے ایک وہ بنا لیا ہے ایک ڈائریکٹریٹ جنرل بنایا ہے تو یہ ڈائریکٹ جنرل تو ایک آرڈر کے تحت ہے۔ تو اگر وہ وہاں پر رجسٹرڈ ہوئے تو ہم نے کب اعتراض کیا ان کے اوپر، اور وہ ایگزیکٹیو آرڈر اس سے کم متاثر ہوگا اس کے لیے اپنے طریقہ کار ڈھونڈیں اگر ڈھونڈ سکتی ہے لیکن قانون اور پارلیمنٹ کی توہین کیوں کر رہے ہیں۔ ایک سنجیدہ مذاکرات کے نتیجے میں ایک مہینے تک مذاکرات ہوتے ہوتے یہ چیزیں حل ہوئی ہیں۔ پاکستان میں اتنے غیر سنجیدگی ہے، ادارے سنجیدہ ہو گئے ہیں، حکمران اتنے سنجیدہ ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی ایکٹ اور اپنی پاس کیے ہوئے قانون کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ یہ ان کے شایان شان نہیں ہے میں تو حیران ہوں ان لوگوں کے اوپر جو کس زاویے سے سوچتے ہیں۔ کس طرح سوچتے ہیں۔ مذاق اڑا رہے ہیں، اپنا بھی مذاق اڑا رہے ہیں ملک کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں، پارلیمنٹ کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں، آئین کے بھی مذاق اڑا رہے ہیں، قانون کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں، اور ہمارے بھی مذاق اڑا رہے ہیں۔
سوال: تو کیا صورتحال بنے گی اگر حکومت اسی طرح سے اپنا رویہ رکھتی ہے اور عدالت کا آپ راستہ بتا رہے ہیں اس کے علاوہ کیا لائحہ عمل ہو سکتا ہے؟
جواب: لائحہ عمل تو دیکھیں ہم نے طے کر لیا تھا کہ ہم پھر اس پر مظاہرہ کریں گے۔ پورے ملک میں احتجاج مظاہرے چلیں گے۔ اسلام آباد جانا بھی اس میں شامل ہوگا اور ایک بھرپور قوت کے ساتھ ظاہر ہے کہ ہم نے عوام کی طرف جانا ہے جب سرکار جو ہے وہ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی تو پھر ہمارے پاس سوائے عوام کی طرف جانے کا کیا راستہ بچا ہے۔
سوال: مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے وہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا صاحب کے ساتھ ہماری جو کمٹمنٹ ہوئی ہے وہ ہم ہر صورت پوری کریں گے تو وہ کون سی کمٹمنٹ ہوئی ہے؟
جواب: یہی تھی جو آپ کے سامنے ایک گھنٹہ میں نے تقریر کی یہی تو تھی۔ اس میں خرابی کی کون سی بات ہے اور اعتراض ایک دفعہ آچکا ہے دوسری دفعہ اٹھانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جی۔
سوال: مولانا صاحب یہ نواز شریف شہباز شریف اور آصف زرداری میں اختلافات کی وجہ تو نہیں ہو سکتی؟
جواب: نہیں ابھی تو اس وقت تو یہ ایک پیج پہ نظر آرہے ہیں دونوں، ایوان صدر کو پھر جواب دینا چاہیے تھا نا ان کو آپ نہیں بھیج سکتے آپ کو حق نہیں۔
سوال: بل کی راہ میں حائل جو سب سے بڑی رکاوٹ جو آپ دے رہے ہیں وہ ایوان صدر کو قرار دے رہے ہیں، جب کہ حکومت بھی ہے اس میں اور ریاستی ادارے بھی ہیں تو کیا وہ بری الزمہ ہے؟
جواب: نہیں نہیں میں تو ایوان صدر کے نیچے سب کو سمجھتا ہوں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہیں جی، صدر کی نگرانی میں حکومت بھی آرہی ہے، ایجنسیاں بھی آرہی ہیں سب ساری چیزیں، کیونکہ آئین اس کو اختیار دیتا ہے نا کہ وہ دستخط کرے گا ایک دفعہ کرے گا اور دس دن کے اندر اگر نہ کیا تو پھر اس کو وہ خود بخود ایکٹ بن جاتا ہے اور اس کا نوٹیفکیشن گورنمنٹ جاری کرتی ہے جس طرح کے عارف علوی صاحب جو ہیں انہوں نے کیا اور اس کے بعد انہوں نے جب دستخط نہیں کیے تو جاری کر دیا۔ تو نظیر موجود ہے۔
سوال: مولانا صاحب دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس ایکٹ کے اگینسٹ جو ہے جا رہے ہیں؟
جواب: کس نے کیا ہے، میں عرض کر رہا ہوں کہ تمام مکاتب فکر نے مکمل طور پر تنظیمات مدارس دینیہ اور ہمارے موقف کی حمایت کی ہے اور بھرپور طور پر ہمیں ہمہ جہت حمایت حاصل ہے۔ جن لوگوں کو انہوں نے بلایا تھا ان کے اپنے گھروں سے آوازیں اٹھنی لگی کہ ہم ہماری طرف یہ بات منصوب نہ کی جائے ختم ہو گئی بات۔
سوال: آپ کا ٹارگٹ بھی ڈی چوک ہوگا؟
جواب: یہ چھوٹا سوال ہے جی ذرا بڑا سوال کرے آپ سینئر آدمی ہے۔
سوال: حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بات چیت چل رہی ہے، کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے تحریک انصاف کی طرف سے، تو آپ کا بھی اس میں کوئی۔۔۔
جواب: بات چیت تو اچھی چیز ہے بات چیت سے تو ہم انکار نہیں کر رہے ہم نے بھی بات چیت ہی کہ ذریعے معاملات طے کیے۔ اگر پی ٹی آئی اور گورنمنٹ کے درمیان بات چیت ہوتی ہے اور مذاکرات سے کچھ چیزیں سیٹل ہو جاتی ہیں ہم تو اس میں حائل نہیں ہیں ہم تو خود مذاکرات کے قائل لوگ ہیں۔
سوال: مولانا صاحب جنرل فیض حمید کے بارے میں آپ کیا فرما رہے ہیں۔
جواب: جنرل فیض حمید ایک فوجی آدمی ہے ریٹائرڈ، آئی ایس آئی کے سربراہ رہا ہے اور بتاؤ کیا بتاؤں۔
سوال: اس کے خلاف جو کچھ چل رہا ہے کیا وہ عمران خان کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
جواب: اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے میں عدالت کے معاملے میں کیوں مداخلت کروں۔
سوال: پی ٹی آئی کے احتجاج کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ نہ مانو والی پالیسی پر چل رہے ہیں۔
جواب: کئی صحافی یہ سوال کر چکے ہیں نا جی، تو مذاکرات کر رہے ہیں تو اچھی بات ہے۔
سوال: اچھا آپ کی پیش رفت جو ہے نا پی ٹی آئی کے ساتھ اس کی قیادت کے ساتھ بڑی نمایاں نظر آئی ہیں تو کے پی کے کہ وزیراعلی آپ پہ بڑی کڑی تنقید کرتے ہیں اس کے بارے میں بتائے۔
جواب: یہ فارم سینتالیس والی حکومت ہے نا جی (قہقہہ)
سوال: صوبے کی جو صورتحال ہے یہاں پہ جو نو گو ایریا بن چکا ہے صوبائی حکومت وفاق پہ ڈالتی ہے اور وفاق صوبے پر، آپ کیا کہیں گے؟
جواب: کوئی حکومت یہاں نہیں ہے ایک مذاق ہے ایک مضحکہ ہے اس سے زیادہ کوئی حیثیت اس حکومت کی نہیں ہے۔ نہ ان کو صوبہ کے مسائل کا پتہ ہے نہ ان کی نزاکت کا پتہ ہے، ہم غیر محفوظ ہیں کرم میں قتل عام شروع ہے۔ یہاں ہمارے جنوبی اضلاع میں، آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہیں ایسا نہ ہو سورج غروب ہو جائے اور ہم گھر نہ پہنچے۔ یہ اس صورتحال میں ہم زندگی گزار رہے ہیں تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ صوبے میں حکومت کہاں ہے۔ اولین چیز جو عام آدمی کا حق ہے وہ ان کے جان و مال کا اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے سب سے اولین حق جو انسان کا ہے وہی نہیں ہے آج، وہی نہیں ہے اور جب وہ نہیں ہے تو پھر معیشت کہاں سے آئے گی، کاروبار لوگ کیسے کریں گے۔ اب آپ مجھے بتائیں ہمارے دیہاتوں میں جہاں مسلح لوگ مسجدوں میں رہ رہے ہیں، بیٹھکوں میں، وہاں کے عوام کا کیا حال ہوگا۔ سکول میں بچوں کو نہیں بھیج سکتے، کاروبار نہیں کر سکتے کہ بچوں کے لیے کچھ کما کے لا سکیں، تو گاؤں چھوڑ رہے ہیں ایسے علاقوں میں جا رہے ہیں جہاں بچوں کو بھی پڑھا سکیں، جہاں کوئی کاروبار بھی کر سکیں جی، تو اس صورتحال میں اس وقت جو صوبے کی عوام زندگی گزار رہے ہیں اس کو بھی آپ سمجھیں کہ کوئی حکومت ہے یہاں پر، ایک مضحکہ قسم کی چیز ہے بس بھگت رہے ہیں۔
سوال: مولانا صاحب کرم میں جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہاں پہ تو اب حکومت کے بعد جو ایجنسیز ہیں ادارے ہیں ان کی ناکامی کے بعد جرگے بھی ناکام ہو رہے ہیں اور وہاں پہ امن نہیں لایا جا پا رہا، لوگوں کے پاس زاد راہ نہیں ہے کھانے پینے کو نہیں ہے، حکومتیں اس چیز میں بھی ناکام نظر آتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا کردار بنتا ہے؟
جواب: میں صرف اتنا آپ کو عرض کر دوں کہ دونوں طرف سے انتہائی اہم شخصیات میرے پاس آئی ہیں۔ ہم نے اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے پارٹی کی ذمہ داران کے ساتھ ابتدائی مشاورت کی لیکن ہماری اس مشاورت میں جو کچھ طریقہ کار یا منصوبہ تشکیل دیا گیا اس پہ اگلی روز ایسے واقعات ہو گئے اور مسلسل ایک ہفتے دس دن تک انتہائی تلخ واقعات ہوتے رہے تو ظاہر ہے کہ گرمی کے ماحول میں تو آدمی وہاں جا کر صرف سیز فائر اگر کوئی ہمت ہو تو کر سکے۔ لیکن معاملے کے اصل مسئلے پہ ہاتھ ڈالنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے، تو ہم نے اپنے ارادہ ترک نہیں کیا لیکن ہم دوستوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان شاءاللہ العزیز ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اس پہ جائیں اپنا کردار ادا کریں جو ہمارے بس میں ہے۔
سوال: مولانا صاحب میرا کوسچن یہ ہے کہ آپ نے جیسے ابھی فرمایا کہ ہم احتجاج کریں گے تو اگر حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا ایک سوال یہ اور دوسرا کے پی کے میں امن و امان کے حوالے
جواب: آپ یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ مرنے کے بعد کیا کرو گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے بعد کیا ہوگا، جانے دو صبر کرنے دو۔
سوال: گزشتہ دنوں سکھر جلسے میں آپ نے ایک مخصوص ادارے پہ کھلے اور دبے لفظوں میں بڑی شدید تنقید کی ہے، ہم لوگوں میں یہی تاثر ہے کہ مولانا صاحب جب حکومت کا حصہ ہوتے ہیں تو فوج کا کردار قابل تعریف ہوتا ہے اور جب مولانا صاحب حکومت سے باہر ہوتے ہیں اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو مولانا صاحب جو ہے نا وہ تھوڑا سا
جواب: میرے بھائی یہ ہماری ہی خصوصیت ہے اور شاید ہم اس معاملے میں ممتاز ہوں تمام دوسری جماعتوں سے کہ اگر ہمارے رائے ہمارے منشور ہمارے نظریے سے ہٹ کر ہماری اتحادی حکومت بھی کوئی اقدام کرتی ہے تو ہم نے ان کے بھی مخالفت کی ہے آپ جانتے ہیں جب آصف علی زرداری اور جنرل کیانی اس زمانے میں یہ آپریشنز کا آغاز کر رہے تھے اور اس کے لیے فیصلے کر رہے تھے سوات اور باجوڑ ان علاقوں میں، تو ہم نے کہا تھا کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔ جو بھی ہے اس سے کبھی امن نہیں آئے گا۔ جو آپ طریقہ کار اپنا رہے ہیں۔ اور وہ حکمت عملی جو ہے آج آپ دیکھ رہے ہیں اس وقت آپ کے سامنے ہیں بیس بائیس سالوں کے بعد آپ کے سامنے ہے ساری صورتحال جی، پھر نواز شریف صاحب کی حکومت میں ہم تھے انظمام کا مسئلہ ہوا فاٹا کا، ہم حکومت میں تھے ہم نے اختلاف رائے کیا، ڈٹ کر کیا اور ایسا اختلاف رائے کیا کہ پیپلز پارٹی کے زمانے میں تو ان کو ان کیمرہ اجلاس بلانا پڑا جس میں جنرل صاحب آئے انہوں نے بڑی تین چار دن تک ہمیں بریفنگ دیتے رہے اور ہم نے اس کے مخالف میں نے تقریر کی ہے اس کے مقابلے میں ہم حکومت میں تھے اور اس کی حکومت میں نواز شریف کی حکومت میں ہم سب سے فرنٹ لائن پر آئے یہ ابھی جو شہباز شریف صاحب کی حکومت تھی جس میں ہمارے وزارتیں تھی اور انہوں نے ریکوڈک کے مسئلے پر ایک قانون سازی کی کوشش کی تو ہم نے مخالفت کی، ہم نے کابینہ سے واک آؤٹ کیا۔ تو ایسی سوال ہمارے بارے میں نہ کریں کسی اور کے بارے میں کریں۔
سوال: مولانا صاحب میڈیا کے حوالے سے ایک کوسچن ہے کہ اس وقت وزیراعلی خیبر پختونخواہ سے جتنی میڈیا ٹاک ہو رہی ہیں تو صحافیوں کو سوال کرنے سے روک دیا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ آپ تنقید کرتے ہیں تو کیا ایک سیاست دان کا یہ رویہ اس طریقے سے درست ہے؟
جواب: آپ نے تبصرہ کر لیا میرے تبصرے کی کیا ضرورت ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میں اس لیول پہ نہ آؤں۔
سوال: مولانا صاحب آپ دینی طور پر دنیاوی طور پہ انسانی حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں اکثر اور پارلیمنٹ میں بھی آپ اس حوالے سے آواز بھی بلند کرتے ہیں، ابھی دینی مدارس کے حوالے سے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تو صحافیوں کے جو مسائل ہیں تو یہ بھی انسانی حقوق سمجھ لیں یا آزادی تقریر یا تحریر کی بھی، اس کو بھی پابند کرنے کی سازش ہے اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: ظاہر ہے جی کہ میں ایک پارٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں اور کسی بھی محکمے سے وابستہ یا کسی بھی ادارے سے وابستہ ملازمین نے یا ان سے متعلق افسران نے جو بھی متاثر لوگ ہوتے ہیں تو وہ پھر ہمارے پاس اپنا معاملہ لاتے ہیں اور اگر وہ ہم سے تعاون مانگتے ہیں تو ہم نے ہر ایک کو اپنا تعاون دیا ہے لیکن یہ ہے کہ اب وہ وکیل بلا توکیل تو نہیں بن سکتے۔ ہم اگر اس ادارے کے لوگ آتے ہیں ہم سے بات کرتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہیں ہم بالکل ساتھ دیں گے لیکن ابھی تک کوئی ہمارے پاس ایسا وفد نہیں آیا کہ وہ ہمیں آگاہ کر سکیں اس کا بھی یہی طریقہ کار ہوتا ہے کہ صحافی لوگوں کا مشکل درپیش ہو جائے مجھے کیا پتہ کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے، آپ کے ڈیمانڈ کیا ہے جب تک کہ آپ ملے نہیں، رابطہ نہیں کرتے اس پر آپ سمجھاتے نہیں ہیں تو ان شاءاللہ کوئی سمجھائے گا تو اتنا ہمارے اندر ہے کہ سمجھتے ہیں، دیکھتے ہیں۔
سوال: مولانا صاحب آپ کورٹ مارشل ہوتے دیکھ رہے ہیں ایک بہت بڑے ادارے کے ایک بہت بڑا سابق آفسر کے خلاف چارج شیٹ کی بات آگئی ہے تو کیا آپ کہکورٹ مارشل ہوتے دیکھتے ہیں؟
جواب: دیکھیے بات یہ ہے کہ یہ ہم سے ہمارے دائروں سے باہر کا معاملہ ہے فوج کے اندر کا معاملہ ہے اسی لیے تو ان کے اندر کہ اپنی کورٹس اپنے معاملات ہیں۔
سوال: مولانا صاحب لیکن یہ سب کچھ باہر میڈیا کے سامنے پیش کر دی ہے اتنی بڑی بڑی پریس کانفرنس، آپ نے اپنا کردار ادا کرنا ہے عوام نے اپنا یا خواہش کا اظہار کرنا ہے یا اس کے لیے لیکن
جواب: میں حضرت میں اصول کا پیروکار ہوں اس طرح کے ہر بات کا حامی نہیں ہوتا ہوں کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تو کہنے دو لیکن ہم میری رپورٹ کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
سوال: مولانا صاحب سوشل میڈیا پر سیاسی عدم برداشت اور نفرت پر مبنی پروپیگنڈے کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں اور آپ اس کا حل کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: دیکھیں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا ایک شتر بے مہار ہے۔ اور یہ تو ایک آلہ ہے اس کو آپ اچھائی کے لیے استعمال کریں اس کو آپ برائی کے لیے استعمال کریں دونوں پہلو آزاد ہیں۔ لیکن زیادہ تر یہ برائیوں کے لیے زیادہ استعمال ہو رہا ہے اور بے ہنگم قسم کی اس طرح ہمارے علاقوں میں شام کو دوست اکٹھے ہوتے ہیں ایک بیٹھک میں اور وہ جب بیٹھتے ہیں تو وہ آزاد ہوتے ہیں۔ جس طرح کی بھی کمنٹس چاہیں کر لیتے ہیں جی، آپس میں جی، اب وہ ایک خاص بیٹھک کی جو مجلسیں ہماری ہوتی ہیں اور اس میں ہم کمنٹس کرتے ہیں وہ بین الاقوامی بیٹھک بن گئی تو میں تو زبان اور الفاظ کے استعمال میں اس قسم کے کمنٹس جو ہم دیکھتے ہیں انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے۔ ان کو بہرحال اچھی تعلیم دینے کی ضرورت ہے تہذیب اور وقار وہ لازمی امر ہے۔ انسان اگر انسان ہے تو صرف تعلیم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنی تہذیب اخلاق اقدار وقار کے بھی ان کو حاجت ہوتی ہے۔
سوال: مولانا صاحب کل کابل میں جو بلاسٹ ہوا ہے جس میں خلیل الرحمان حقانی جو حقانی فیملی کے سینیئر لیڈر ہے تو اس ٹائپ کے واقعات ہو رہے ہیں وہاں پہ اور جو ہمارے قبائلی علاقے یہاں پہ بھی آمن و امان کے حالات آپ کو پتہ ہے تو وہاں پہ جو یہ سچویشن یا اس ٹائپ بڑے واقعات ہوتے ہیں تو۔۔
جواب: میں پورے درد دل کے ساتھ خلیل الرحمن حقانی صاحب کے شہادت پر تعزیت کرتا ہوں پورے امارات اسلامیہ سے اور پوری ملت افغان سے اور یقیناً وہ کوئی پورا خاندان اس کی بہت بڑی اہمیت ہے افغانستان کی تاریخ، افغانستان کی جہاد ضرور اس کے خلاف ہوا یا ابھی امریکہ کے خلاف ہوتا رہا یقینا اس خاندان کا بہت بڑا کردار ہے۔ مولانا جلال الدین حقانی صاحب ان کی جو جہادی جذبہ تھا اور اس حوالے سے جو ان کی صلاحیتیں تھیں ان کی جو خود اعتمادی تھی ان کے جرات تھی وہ یقیناً تاریخ میں ثبت ہوگی۔ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔ ان کی راہ سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے یہ تو ہر کسی کا حق ہے لیکن بہرحال اس خاندان نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں بڑی جدوجہد کی ہے اور مولانا خلیل الرحمن حقانی صاحب کی شہادت پر یقیناً بڑا افسردہ ہوا ہوں۔ لیکن بس یہ دنیا میں بھی یہ ساری چیزیں چل رہی ہیں کہاں پر کیا کچھ نہیں ہوا، کیا کچھ نہیں ہو رہا، اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کر دیا گیا، پھر اس کے بعد دوسرے جو لیڈر آئے حماس کے یحییٰ سنوار ان کو شہید کر دیا گیا۔ اتنے بڑے بڑے واقعات دنیا میں بڑے بڑے شخصیات نشانہ بن رہی ہیں۔ اس سارے صورتحال کی تو یہ تشویش ناک صورتحال تو پوری دنیا میں ہے، اسرائیل جس طریقے سے ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے بھئی جنگ ہے تو جنگجو سے لڑو آپ عام آدمی کے اوپر بمباری کیوں کر رہے ہیں۔ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ آپ نے شہید کر دیے، پچھتر فیصد اس میں چھوٹے بچے ہیں اور خواتین ہیں اور امریکہ اس کی حمایت کر رہا ہے، برطانیہ اس کی حمایت کر رہا ہے۔ تو یہ انسانی حقوق کے بعد کیسے کریں گے، ان کو حق کیا پہنچے گا کہ آئندہ وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ وہاں پچاس ہزار لوگ شہید ہو گئے اور ان کو یہ تکلیف پڑی ہوئی ہے کہ افغانستان میں بچیوں کی تعلیم پر کیوں پابندی ہے اس کو مطلب بنایا ہوا ہے انہوں نے، وہ افغانستان ہے ان کو اپنے اختیار سے چلنے دو۔ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے وہ حکومت ہے اب، اور ان کے ساتھ معاملات کیے جائیں اب اگر رشیا وہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اگر چائنہ کر رہا ہے تو دنیا کی دو بڑی قوتیں جو ہیں ان کے ساتھ انگیج ہو چکی ہیں اور اس کے باوجود بھی مغرب اور امریکہ بس وہ نا اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ مان رہے ہیں نہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے مان رہے ہیں اب جرات کے ساتھ ان کو مسترد کر رہے ہیں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں پھر اگر قانون جو ہے وہ سب کے لیے ہے۔
سوال: شام کی موجودہ صورتحال کیا یہ مقامی ایشو ہے یا اس کے پیچھے بین الاقوامی سازش ہیں؟
جواب: ابھی اس پر کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہے لیکن بہرحال بڑی تبدیلی ہے عرب ملکوں میں عراق کے بعد لیبیا کے بعد ابھی شام میں اس کو ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جائے گا لیکن یہ ہے کہ اب مزید آگے کیا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا تو وہاں کوئی رابطہ نہیں ہے کہ ہم فوری طور پر اس وقت کوئی حتمی رائے قائم کر سکیں لیکن نظر ہے اس کے اوپر، دیکھتے ہیں آگے کیا صورتحال ہوتی ہے ہماری تمنا یہ ہوگی کہ وہاں ایک مستحکم حکومت ہو اور وہ بھی ہماری مسلمان بھائی ہیں وہاں بھی امن و امان رہے اور استحکام آئے۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
ایک تبصرہ شائع کریں