مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس سے خطاب

 قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس سے خطاب

8 دسمبر 2024

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب صدر محترم، اکابر علمائے کرام، زعمائے ملت، میرے بزرگو، دوستو، میرے بھائیو! آپ نے آج اس تاریخی اور فقید المثال اجتماع کا انعقاد کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سرزمین فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس سرزمین پر صہیونیت کا کوئی حق نہیں ہے، 15 مہینے قبل یہاں اسی اجتماع میں جس اجتماع کو ہم نے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا اور ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا ہم آج بھی ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہم ایک مضبوط موقف پہ قائم ہیں اور جس طرح آپ میدان جنگ میں ہیں ہم بھی پاکستان کی سرزمین پر آپ کے شانہ بشانہ اور قدم بقدم آپ کے جہاد میں شریک ہیں۔

میرے محترم دوستو! ہمارے محترم مہمان نے ایک بات کہی اور اس کا شاید ترجمہ نہیں ہو سکا انہوں نے کہا کہ آپ یہاں پر اسرائیل مردہ باد کے نام سے اجتماع کر رہے ہیں، اسرائیل مردہ باد کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور ہم ارض فلسطین پر اسرائیل مردہ باد کے نعرے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔

میرے محترم دوستو! امریکہ ہو یا مغربی دنیا انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں مجھے ان کی تاریخ بھی معلوم ہے مجھے ان کا کل بھی معلوم ہے اور آج بھی معلوم ہے۔ جنگ عظیم اول میں اسی مغربی دنیا نے کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا تھا، جنگ عظیم دوم میں اسی مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا تھا اور آج 20 سال تک افغانستان میں افغانوں کا قتل عام ہوتا رہا، عرب دنیا میں عرب مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا، آج غزہ کے مسلمانوں پر بمباریاں ہو رہی ہیں، 50 ہزار کے قریب وہ اپنے شہداء دے چکے ہیں، اسرائیل مجاہدین کی مقابلے میں میدان میں نہیں ٹھہر پا رہا وہ معصوموں اور بے بس مسلمانوں پر بمباری کر رہے ہیں، اس وقت بھی اگر 50 ہزار شہدا ہیں جو 15 مہینوں میں دے چکے ہیں 75 فیصد اس میں چھوٹے بچے اور خواتین ہیں، آپ بتائیں کہ اس ظلم اور فلسطینیوں کی اس نسل کشی پر اگر امریکہ انہیں سپورٹ کر رہا ہے، اگر برطانیہ ان کو سپورٹ کر رہا ہے، اگر نیٹو ممالک ان کو سپورٹ کر رہے ہیں تو کیا ان کو آج کے بعد انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہے؟ جن کے ہاتھوں انسانی حقوق کا قتل عام ہو رہا ہے، جن کے ہاتھوں انسان کی جان محفوظ نہیں، جن کے ہاتھوں انسان کا مال محفوظ نہیں، جن کے ہاتھوں انسانوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں اور چھوٹے چھوٹے شیر خوار بچے آج وہاں پر یہ نہیں سمجھ پائیں گے کل کہ ہم کس کی اولاد ہیں میرے باپ کا نام کیا تھا اور میری ماں کا نام کیا تھا۔ کیا ان کو بھی انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہے؟ تمہارے ہاتھوں سے انسانوں کا خون ٹپک رہا ہے، انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے، انسانی حقوق کا قتل عام ہو رہا ہے، تم انسانیت کے قاتل ہو۔ اگر صدام حسین کو اس بنیاد پر پھانسی دی جاتی ہے کہ آپ نے ایک شہر میں آپریشن کیا اور اتنے لوگ آپ نے قتل کیے تھے تو اتنی انسانیت کے قتل عام پر کیا نیتن یاہو کو پھانسی پہ چڑھانا ان کا حق نہیں بنتا؟ یہ انسانیت کا دشمن ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا انسانیت کے قاتل ہیں اور ان شاءاللہ ہم نے یہاں پر حق و انصاف کی آواز بلند کی ہے، ہم نے اس خطے میں انسانیت کو شعور عطا کیا ہے پتہ چل جائے کہ دنیا میں مظلوم کون ہے اور ظالم کون ہے۔

تم افغانستان پر حملہ کرو اور میں اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی کہنا چاہتا ہوں جنرل مشرف کی مارشل لاء نے امریکہ کا اتحادی ہونے کا اعلان کیا امریکہ کو پاکستان کے اڈے دیے امریکہ کو پاکستان کی فضائیں دی اور افغانستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کیا اپنے ہوائی اڈوں کو استعمال کیا اپنے فضاؤں کو استعمال کیا یہ جمعیۃ علماء اسلام تھی جس نے میدان میں ان کی ان پالیسیوں کو چیلنج کیا اور آج بھی اگر ہماری حکومت ان پالیسیوں کی پیروی کرے گی تو پھر بھی میدان میں مقابلے میں جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن کو پائے گا، پاکستان کا عوام تمہارے ساتھ نہیں ہے، برصغیر کا مسلمان آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ حکمرانوں ذرا سوچو مودی تو ڈٹ کر کہتا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں آپ کو فلسطینیوں کے حق میں کھل کر کھڑے ہونے کی جرات کیوں نہیں ہے؟ تو یہ ایک میدان ہے اور جمعیۃ علماء اسلام کا موقف واضح ہے میرا دعویٰ ہے کہ قوم ہمارے ساتھ ہے، عوام ہمارے ساتھ ہے، ہم نے سالہا سال سے جب بھی عوام کو دعوت دی تاحد نظر انسانیت نے ہمارے آواز پر لبیک کہا اور آج کا اجتماع بھی اس بات کا اعلان کر رہا ہے۔ چند دن پہلے ہم نے سکھر میں اجتماع کیا، اس سے پہلے ہم نے میرپور خاص میں اجتماع کیا، ہم نے پنجاب میں اجتماع کیے، ہم نے خیبر پختون خواہ میں کیے، ہم نے بلوچستان میں کیے، قوم کی ایک ہی آواز ہے اور وہ یہی کہ جمیعۃ علماء اسلام پاکستان کے نظام کو اور پاکستان کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ 

میرے محترم دوستو! ہم میدان جہاد میں ہیں اور ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان حکمرانوں کا نہیں پاکستان ہم سب کا ہے، ایک جرنیل کے جیب میں جو شناختی کارڈ موجود ہے اور جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر وہ پاکستانی ہے اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر میرا کارکن بھی پاکستانی ہے میں بھی پاکستانی ہوں۔ آج ہم اپنے ان اجتماعات اور اس جدوجہد کے راستے سے پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے، پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کے استحکام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پاکستان ہمارے کچھ سرکاری محکموں کا نام نہیں ہے، پاکستان اگر ریاست ہے تو عوام کی بنیاد پر ریاست کہلاتی ہے، عوام کا کیا مقام ہے! اگر پاکستان کے نظریے کا انکار کیا ہے تو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اور جمعیۃ علماء پاکستان کے نظریے کی علمبردار رہی ہے، اگر اس ملک کے نظریے کا انکار کیا ہے تو ان حکمرانوں نے کیا ہے ہم نے اس نظریے کا علَم بلند رکھا ہوا ہے، اگر لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا تھا آج بھی اس نعرے کی آواز ہم لوگ ہیں تم نے تو اس نعرے کو خاموش کر دیا اس نعرے کے ساتھ دھوکا کیا، لا الہ الا اللہ کے ساتھ جو غداری تم نے کی ہے جو بغاوت تم نے کی ہے تم اس کی سزا کاٹو گے تو سزا پاکستان کو ملے گی، تم نے تو پاکستان کی تباہی کا راستہ لیا ہوا ہے، تم نے تو پاکستان کو ختم کرنے کا راستہ لیا ہوا ہے اور میں اپنا ایک جملہ آج ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے قیام میں بھی تمہارا کوئی کردار نہیں پاکستان کی بقا میں بھی تمہارا کوئی کردار نہیں ملک ٹوٹا ہے تو تمہاری وجہ سے ٹوٹا ہے۔

میرے دوستو! آج پھر سے ہم نے عزم کا اظہار کرنا ہے کہ ہم پاکستان کے اوپر اس حکمرانی کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ عوام کی حکومتیں نہیں ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومتیں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عوام کے ہے اور ہم عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ تم نے ختم نبوت کے مسئلے کو چھیڑا تو ہم میدان میں آئے اور اللہ تعالی نے ہمیں توفیق بخشی کہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان تسلیم کرانے کے جو ارادے تھے اور جو عزائم تھے ہم نے انہیں خاک میں ملایا ہے اور ایسی کمر توڑی ہے قادیانیت کی کہ 100 سال تک بھی وہ اپنی کمر سیدھی نہیں کر سکیں گے۔

میرے محترم دوستو! پارلیمنٹ میں 26 ویں ترمیم آئی اور جب ہم نے پڑھا اگر اسی مسودے کو پارلیمنٹ پاس کر لیتی تو نہ آپ کا ملک بچتا، نہ آپ کے ادارے بچتے، نہ آپ کی پارلیمنٹ بچتی، نہ آپ کا آئین بچتا، ہر طرف تباہیوں کا ایک بارود اس میں بھرا ہوا تھا، ہم نے اس سے وہ بارود نکالا اور ایک صحت مند قانون اور آئین کی صورت میں ہم نے ملک کو آئین دیا ترمیم دی، 56 شقوں پر مشتمل وہ ترمیم جو ایک کالا ناگ بن کر وہ لائے تھے ہم نے 34 شقوں سے حکومت کو دستبردار کیا 22 شقوں پر ہم ان کو لے آئے اور پھر اپنے کچھ شقیں جو سود سے متعلق تھی، جو وفاقی شرعی عدالت سے متعلق تھی، جو اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق تھی وہ ہم نے اس کا حصہ بنایا اور الحمدللہ پاکستان کی تاریخ میں ایک پارلیمانی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سے ہم نے ایک آئین میں اسلامی نظام اور قوانین کے لیے پیشرفت دکھائی ہے۔ ہم چھوٹی سی قوت ہے پارلیمنٹ میں اور ہم عوام کے حوالے سے چھوٹی قوت نہیں ہے کسی نے عوام کا حق مارا ہے اور ہمارے حجم کو کمزور کیا ہے لیکن تم کرتے رہو کرتے رہو، اللہ کی گفتگو اور اس کا فرمان وہ ایک حقیقت ہے کہ  

كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ

لیکن بات چیت کے راستے سے سارے مسائل حل ہوئے مذاکرات سے مسئلہ حل ہوا اور میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پہلے تو یہ ترمیمی بل ہم سے چھپایا جا رہا تھا پھر ہمیں کہا جا رہا تھا نو گھنٹے کے اندر اندر پاس کرنا ہے، آپ مجھے بتائیں کہ اٹھارویں ترمیم تو ہم نے نو مہینے تک کمیٹی میں بیٹھ کر بنایا تھا اور تب جا کر پاس ہوا تھا، آج 26 ویں ترمیم نو گھنٹوں میں ہم سے پاس کرایا جا رہا تھا ہم نے کہا یہ مذاق نہیں ہے ہم سنجیدگی کے ساتھ بیٹھیں گے شق وار اس کا مطالعہ کریں گے اور پھر جا کر بات ہوگی، ایک مہینے تک ہم نے ان کے ساتھ مذاکرات کئیں اور جو ظلم انہوں نے آئین کے ساتھ کیا تھا، جو جمہوریت کے ساتھ کیا تھا، جو عدلیہ کے ساتھ کیا تھا، جو پارلیمنٹ کے ساتھ کیا تھا، عوام کی بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا جتنا گندا وار انہوں نے اس مسودے میں کیا تھا وہ سب ہم نے ان سے چھین لی اس سے واپس کرائی اور تب جا کر ہم نے اس ترمیم کو پاس کیا تھا جی، جس میں سود کے خاتمے کا بھی مسئلہ آیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت کو با اختیار اور طاقتور بنانے کا مسئلہ آیا، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کو لازم قرار دیا لیکن ساتھ ساتھ دینی مدارس کا ایک بل جو انتخابات سے پہلے میاں شہباز شریف صاحب کی سولہ مہینے کی حکومت میں ہم نے اس پر بات چیت کی اور حکومت نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا اور اسی ڈرافٹ پر دینی مدارس نے اتفاق کیا اور اتفاق کرنے کے بعد اسمبلی میں آیا تو کچھ قوتوں نے اس میں مداخلت کی اور اس کو رکوا دیا، ہم نے کہا کوئی مسئلہ نہیں یہ سوچتے ہیں کہ مولوی صاحبان تھک جائیں گے، میں ان کو ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ سمندر نے مچھلی سے کہا کب تک تیرتے رہو گے مچھلی نے کہا جب تک تیرے اندر موجیں مارنے کی قوت ہے میرے اندر ان شاءاللہ تیرنے کی طاقت رہے گی، وَالْجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ہم تو قیامت تک اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑنے کا سبق مدرسوں سے سیکھتے ہیں اور تم ہمیں سمجھتے ہو کہ یہ تھک جائیں گے اور بات چھوڑ جائیں گے!

میرے محترم دوستو! اب آپ مجھے بتائیں کہ الیکشن سے پہلے جب حکومت میں تھے ہم لوگ، پیپلز پارٹی حکومت میں تھی آصف علی زرداری اس حکومت کا حصہ تھے بلاول بھٹو اس حکومت کا حصہ تھے مسلم لیگ اس حکومت کا حصہ تھی ایم کیو ایم اس کا حصہ تھی اور بہت سی جماعتیں اس کا حصہ تھیں اس وقت اس بل پہ اتفاق ہوا حکومت نے مسودہ بنایا اور ہم نے ان کے ساتھ بات کر کے اس کو قابل قبول بنایا، آج دوبارہ ہم نے ان سے کہا کہ ایک چیز جو طے ہو چکی ہے اس کو تو پاس کر دیں، اتنی بڑی ترمیم آپ لا رہے ہیں تو ایک قانون دینی مدارس کے حوالے سے معطل پڑا ہوا ہے اس کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اور پیش کیا جائے، میرے گھر پر ایک مہینہ میٹنگیں ہو رہی ہیں آپ بھی دیکھتے رہے ہوں گے، میں کراچی گیا بلاول بھٹو صاحب کے دعوت پر میں ان کے گھر گیا پانچ گھنٹے ہم نے مذاکرات کیے بل کے اوپر ترمیمی بل کے اوپر بھی اور دینی مدارس کے اس ڈرافٹ کے اوپر بھی ہمارا اتفاق رائے ہو گیا، اگلے دن ہم لاہور آئے میاں نواز شریف صاحب کے گھر میں پانچ گھنٹے ہماری میٹنگ چلتی رہی اور ترمیمی بل پر بھی بات ہوئی اور اس مدارس کے بل پر بھی بات ہوئی، ہم نے اگلے روز پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمنٹیرینز کو اعتماد میں لیا ساری تفصیلات ان کے سامنے رکھیں انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اس کے بعد یہ بل پہلے سینٹ میں پیش ہوا اور سینٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل کو ووٹ دیا اور اس کو پاس کرایا، زرداری صاحب کی نگرانی میں، پیپلز پارٹی کی قیادت کی موجودگی میں وہاں سے وہ بل قومی اسمبلی میں آیا قومی اسمبلی میں یہ بل پاس ہوا پیپلز پارٹی کی موجودگی میں، بلاول صاحب کی موجودگی میں، شہباز شریف صاحب کی موجودگی میں، نواز شریف صاحب کی موجودگی میں، تمام حکومتی اتحادیوں کی موجودگی میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ بل منظور ہوا، جب دونوں ایوانوں نے منظور کر لیا اور آپ کی موجودگی میں کیا آپ کی قیادت میں کیا آپ کی نگرانی میں کیا تو پھر آپ نے سب چیزوں پہ دستخط کیے مدارس کی اس بل پر ایوان صدر نے دستخط کیوں نہیں کیا؟ سوال بنتا ہے نا ہمارا؟ میں بڑے صاف الفاظ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ اس پر دستخط نہ کرنا اس کے مسودے کی تیاری میں آپ شریک، اسمبلی میں پیش کرنے میں آپ شریک، اس کو پاس کرنے میں آپ شریک اور اب اس پر دستخط کرنے میں آپ شریک نہیں ہو رہے، یہ کیا ہے؟ یہ بد نیتی ہے یا نہیں؟ یہ دھوکہ ہے یا نہیں؟ یہ فراڈ ہے یا نہیں؟ تو پھر ہم آپ کو معاف کریں گے کیا! تو آپ بتائیں کہ اگر ہم فیصلہ کرتے ہیں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا تو آپ تیار ہیں یا نہیں؟

میرے دوستو ان شاءاللہ یہ جنگ ہم جیتیں گے اور میں نے جب سکھر میں تقریر کی تھی تو میں نے آج کی تاریخ کے لیے کہا تھا کہ ہم حتمی فیصلہ پشاور کے جلسے عام میں کریں گے، آج مجھے حضرت شیخ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بتایا وہ ہمارے وفاق المدارس کے بھی صدر ہیں، وہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے بھی صدر ہے اور میں نے بھی ان سے بات کی طے یہ ہوا ہے کہ تمام اتحاد مدارس کا اجلاس ہوگا اور سب کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ موقف ان شاءاللہ اختیار کریں گے اور اس کے بعد پھر آپ کو اگر ہمیں کال دینی پڑی آپ ہر وقت تیار رہیں گے۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں کہ اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو تم ہمارا راستہ روک سکو گے، تم ہمیں آزما چکے ہو ہم تمہیں آزما چکے ہیں اور ہم ایک بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم تمام دینی مدارس کے مختلف مکاتب فکر کو اعتماد میں رکھنا چاہتے ہیں اور اگر ہمارے صدر نے اجلاس بلا لیا ہے سولہ یا سترہ کو ہمارا اجلاس ہوگا اور اس میں تمام کو اعتماد میں لے کر ہم ایک متفقہ فیصلہ لیں گے ان شاءاللہ العزیز اور یہ بتا دوں کہ ہمیں دھمکیاں مت بھیجا کرو وردی والو، ایجنسیوں والو ہمیں دھمکیاں مت بھیجا کرو دھمکیوں سے ہم ڈرتے نہیں ہم بگڑتے ہیں، ہم تو تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہم نے تو ان جیالوں کو قابو رکھا ہوا ہے اور اگر ہم نے آنے کا فیصلہ کیا تو تمہاری گولیاں ختم ہو جائیں گی ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے ان شاءاللہ، دھمکیاں نہ بھیجا کرو شرافت سے رہو گے تو شرافت سے رہیں گے بدمعاشی کرو گے تو ہم سے بڑا بدمعاش بھی کوئی اور نہیں ہوگا۔

میرے محترم دوستو! ابھی انہوں نے ایک اور چال چلی ہے وہ بھی بتا دوں ہمارے ہی رنگ کے مولویوں کو اٹھا کر میڈیا پہ لا رہے ہیں، لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ تم جس طرح علماء کو لڑانے کی کوشش کر رہے ہو ہم علماء سے نہیں لڑیں گے، ان علماء سے ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کون کار فرما ہے اور اب انہوں نے شوشہ چھوڑا ہے کہ صاحب 29 اگست 2019 کو ایک معاہدہ ہوا تھا اور حکومت کے ساتھ وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہونے کا فیصلہ ہوا تھا تو یہ تمہیں یاد ہے کیا ہمیں یاد نہیں؟ اور جب الیکشن سے پہلے یہ ڈرافٹ تیار ہوا اور اسمبلی میں آیا اس وقت تم نے یہ شوشہ کیوں نہیں چھوڑا؟ اس وقت تمہیں یہ 2019 کا معاہدہ اس وقت کیوں یاد نہیں آیا؟ اور اب جب اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے پاس ہو رہا تھا اس وقت میں یہ معاہدہ کیوں یاد نہیں آیا؟ میرے دوستو سن لو ایک بات ہمارا حکومت کے ساتھ معاہدہ 2004 میں ہوا، 2004 میں وہ قانون کی صورت میں بل کی صورت میں اسمبلی میں لایا گیا باقاعدہ ایکٹ بنا ہے ایک قانون کے تحت ہم نے اس کو قبول کیا ہے، اگر 1860 کی سوسائٹی ایکٹ میں رجسٹریشن کا مسئلہ تھا تو ایک شق نمبر اکیس کا اضافہ کر کے دینی مدارس کے لیے ماحول بنایا گیا اشکالات دور ہو گئے، بھائی ہم ایکٹ کی بات کر رہے ہیں ایکٹ قانون ہوتا ہے تم نے جو وزارت تعلیم کی بات کی تھی وہ تو محض معاہدہ تھا اس کی تو کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور پھر اس کی خلاف ورزی ہوئی! آپ جانتے ہیں اور جان لینا چاہیے کہ دینی مدارس میں ہم سرکار کی مداخلت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، مدارس آزاد ہوں گے، آزاد حیثیت میں اپنا کام کریں گے، 2004 اور 2005 میں ہم نے آپ کو بتایا اور آپ کی ڈیمانڈ پر ہم نے آپ کے ساتھ معاملات طے کیے، آپ نے کہا مدارس کا مالیاتی نظام ہم نے کہا بالکل ٹھیک ہے، آپ نے کہا مدارس کا تعلیمی نصاب ہم نے کہا بالکل ٹھیک آئیں بات کرتے ہیں، آپ نے کہا مدارس کا انتظامی ڈھانچہ ہم نے کہا آئیں ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں ہم ایک دوسرے کو سمجھانے میں کامیاب ہو گئے معاملات طے ہو گئے، دینی مدارس میں میٹرک تک تعلیم دی جائے گی یہ معاملات طے ہو گئے، ان کی سند کو ایک مستقل گریجویشن کی حیثیت حاصل ہوگی، پھر 2010 میں معاہدہ ہوا اور طے ہوا تھا اور پھر جو آپ لوگوں نے وزارت تعلیم کے ساتھ بات چیت کی اور اس وقت تو آپ کی تنظیمیں بھی نہیں تھیں! اس وقت تو آپ وفاق میں تھے اس وقت تو آپ کی تنظیمیں نہیں تھیں، اپوزیشن یعنی کوئی تقسیم ہوئی نہیں تھی وفاق کے نظام میں اتحاد مدارس دینیہ کے نظام میں مذاکرات کے نظام میں تو آپ کا کوئی دخل ہی نہیں تھا آپ کون ہوتے ہیں ہمیں یہ سبق سکھلانے والے؟ اب معاہدہ ہوتا ہے تو معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی وہ معاہدہ ختم کر دیا حکومت نے، اس معاہدے میں یہ تھا کہ مدارس کے رجسٹریشن ہوگی وزارت تعلیم سے ہم منسلک ہوں گے ماتحت نہیں ہوں گے لیکن تم لوگوں نے ایک ڈائریکٹریٹ جنرل بنایا اور کہا کہ اس ڈائریکٹریٹ کے تحت آپ نے رجسٹریشن کرنی ہوگی اور جب ڈائریکٹریٹ آپ نے بنایا اس کا معنی یہ ہے کہ آپ نے دینی مدارس میں مداخلت کے لیے ادارہ بنایا، بتاؤ معاہدے میں کہاں ڈائریکٹریٹ لکھا ہوا ہے، بتاؤ معاہدے میں کہاں پر ڈائریکٹریٹ جنرل ریلیجز تعلیم کا لفظ کدھر لکھا ہوا ہے آپ نے بعد میں یہ ڈائریکٹریٹ بنا کر ہمیں میسج دیا کہ مدارس ہمارے ماتحت ہوں گے ہم نے کہا ہم اپ کے ماتحت نہیں ہوں گے۔ 1860 کے ایکٹ کے تحت ہم نے ضرور رجسٹریشن کی ہے اور کراتے رہے ہیں لیکن انہوں نے تو کبھی ڈائریکٹریٹ نہیں بنایا، انہوں نے جو کبھی ہمارے معاملات مداخلت نہیں کی، وزارت صنعت و حرفت نے کبھی بھی مدارس میں مداخلت نہیں کی، وہ رجسٹریشن وہ تو ایک وزارت ڈاک خانے کی حیثیت رکھتا ہے، ہم نے کہا وزارت تعلیم وہ بھی ڈاک خانے کی حیثیت رکھے گا اس سے زیادہ اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن انہوں نے ڈائریکٹریٹ بنا کر براہ راست مدارس کو کنٹرول کرنے کا عملی اقدام کر کے معاہدے کے خلاف ورزی کی اور پھر اس وقت کے وزیر تعلیم نے بیان دیا کہ دینی مدارس یہ ہمارے وزارت تعلیم کے ماتحت ہونگے، تو تم نے معاہدہ توڑ دیا ہمیں یہ شرط اس وقت بھی قبول نہیں تھی، اس کے بعد آپ نے کہا تھا کہ دینی مدارس کی جتنی رجسٹریشن ہوئی ہے اب وہ رجسٹریشن برقرار رہے گی اور نئے رجسٹریشن کے لیے ہم تعاؤن کریں گے آپ بتائیں کہ 2019 کے اگست سے لے کر آج تک تم نے ایک رجسٹریشن بھی بحال کی ہے مدارس کی؟ ایک بھی رجسٹریشن بحال نہیں کی نہ کوئی نئی رجسٹریشن کے لیے تعاون کیا جو معاہدے میں لکھا ہوا ہے، تو جب آپ نے رجسٹریشن ہماری بند رکھی ہوئی ہے اس معاہدے پر آپ نے عمل ہی نہیں کیا مزید رجسٹریشن کے لیے آپ اجازت نہیں دے رہے تھے تو معاہدہ تو آپ نے توڑ دیا، اس معاہدے میں آپ نے لکھا تھا کہ بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے اور اس میں ہم تعاؤن کریں گے آپ بتائیں ایک بینک اکاؤنٹ کھلا نہیں اور ابھی حال ہی میں سنا ہے کہ ایک بینک میں ایک ہزار اکاؤنٹس مدارس کے بند کر دیے ہیں۔ کس معاہدے کی بات کرتے ہو! جس معاہدے کو تم نے پھاڑا ہے اس معاہدے کو تم نے اچھالا ہے اس کا ذکر کرتے ہو اور وہ بمقابلہ قانون کے، معاہدہ تو لفظی چیزیں ہوتی ہیں ڈائریکٹریٹ تو ایک لفظی چیز ہے، میں بات کرتا ہوں ایکٹ کی اور قانون کی میں قانون سے وابستہ ہو کے مدارس چلانا چاہتا ہوں اور تم مجھے زبانی معاہدات یاد دلاتے ہو! ایسا بے وقوف آپ نے ہمیں سمجھا ہوا ہے، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں آپ جیسے حضرات بے وقوف بن سکتے ہیں ہم بہت سیانے لوگ ہیں ہمیں وہ بیوقوف نہیں بنا سکتے ان شاءاللہ، اور اس معاہدے میں لکھا تھا کہ غیر ملکی طلباء ان کو نو سال کا ویزہ دیا جائے گا تاکہ غیر ملکی پاکستان کے مدارس میں پڑھ سکیں، ایک ویزہ بتاؤ جو تم نے آج تک غیر ملکی لوگوں کو دیا ہو، معاہدہ تو ان چیزوں پر مشتمل تھی، بیرون ملک طلباء کا ویزہ کہاں ہے؟ بینک اکاؤنٹس کا معاہدہ کہاں ہے؟ رجسٹریشن کرانے اور اس کو برقرار رکھنے کے معاہدہ کدھر ہے؟ ڈائیریکٹریٹ جنرل کہاں سے آگیا بیچ میں؟ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں بیڑا غرق کیا تم لوگوں نے، ہم قانون کی بات کرتے ہیں، قانون پاس ہو چکا ہے پہلے بھی قانون پاس ہوا تھا اب بھی قانون پاس ہوا ہے اور جب وفاق ایک ایسا قانون پاس کرے کہ جس کا تعلق صوبوں کے اختیارات کے ساتھ بھی ہو تو وہی قانون صوبوں میں جا کر بھی صوبائی اسمبلیاں پاس کرتی ہے، ہم اس پروسیجر کا تو انکار نہیں کر رہے لیکن دھوکہ کیوں دے رہے ہو لوگوں کو! ٹی وی پہ آکر جھوٹ کیوں بول رہے ہو! گمراہ کیوں کر رہے ہو قوم کو! ہم پوری طرح اس صورتحال کو سمجھتے ہیں تم کسی فورم پر آکر ہمارا سامنا تو کرو پتہ لگ جائے گا کہ تم کیا ہوتے ہو! تو میں ان کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دینی مدارس کے حوالے سے میڈیا کو غلط استعمال مت کرو، اینکروں کو غلط ہدایات مت دو، علماء کرام کو میڈیا پہ لا کر آپ ان کو لڑانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ سنو اب ہمیں کہا گیا کہ آپ یہ ضرور کہیں کہ دینی مدارس 1860 کے ایکٹ کے تحت سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوں گی لیکن اگر کوئی تعلیم کے تحت ان دونوں ان باقی تنظیموں کے ساتھ جو بعد میں بنی ہے اور وہ بھی خفیہ ایجنسیوں نے بنوائی ہے اگر اس کے لیے کوئی مدرسہ رجسٹرڈ ہونا چاہے تو آپ اس پر اعتراض نہیں کریں گے، ہم نے کہا ہم نہیں کریں گے، ہم نے تو فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے تو آپ سے کہا تھا کہ ہمیں اس پہ بھی اعتراض نہیں ہے، اب بھی ایکٹ میں یہی لکھا ہوا ہے کہ مدارس آزاد ہوں گے جہاں سے وہ رجسٹریشن کرانا چاہیں گے، اب کہتے ہیں ہمارے پاس اٹھارہ ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، بائیس لاکھ طلباء ہمارے ساتھ پڑھ رہے ہیں، کدھر ہے؟ ہم بھی تو مدرسوں والے ہیں، ہمارے پڑوس میں تو کوئی مدرسہ نظر نہیں آرہا آپ کا، مدرسہ بورڈ یہ تو ہمارے مرحوم جنرل مشرف نے بھی بنایا تھا، تو تم بھی تو اسی کا تسلسل ہو، نہ تم مدرسہ ہو نہ تم تنظیم ہو نہ تم رجسٹریشن ہو کوئی جاتا ہے تو جائے لیکن جہاں پر کسی کوٹھے کے اوپر آپ نے مدرسے کا نام لکھ دیا اور رجسٹریشن بنا دیا وہ بھی ہم مدرسہ تسلیم کریں! تو یہ ڈمی چیزیں نہیں چلیں گی حقیقی مدرسہ چلے گا، لیکن پھر بھی میں نے آپ پہ اعتراض نہیں کیا میں نے آپ کو مد مقابل نہیں سمجھا، ہم نے علماء کو آپس میں لڑانا نہیں چاہا، اب آپ آج اٹھے ہیں آج آپ جاگ گئے ہیں ٹیلی ویژن پہ آرہے ہیں یہ ہوا تھا اور وہ ہوا تھا ہمیں یاد دلا رہے ہیں، وہ بچونگڑو تم ہمارے شاگرد ہو! او تمہاری پگڑی ہم نے تمہیں پہنائی ہیں اور پگڑیوں کے اوپر جو دو تین چادریں آپ نے پہنی ہیں وہ بھی ہم نے اڑائے ہیں آپ کو، آلائے کار مت بنو ان لوگوں کا جو دینی علوم کے دشمن ہیں، جو قرآنی علوم کے دشمن ہیں، جو حدیث کے علوم کے دشمن ہیں، جو فقہ کے علوم کے دشمن ہیں، جدیدیت کے نام پر ہم نے بھی میٹرک پڑے ہیں ہم نے بھی اپنی مدارس میں یہ نصاب رائج کیا ہوا ہے، بی اے، ایف اے، ایف ایس سی تک ہمارے لوگ بھی تو پڑھ رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ صرف پڑھ رہے ہیں، ہمارے دینی مدارس کے بچوں نے آپ کے بورڈ میں امتحانات دیے ہیں اور پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن دینی مدرسے کے طالب علم نے لی ہے آپ کے بورڈ میں، ایسا بھی نہیں کہ ہمیں تم انپڑھ سمجھتے ہو ہم نے سرکار کی تعلیمی بورڈ میں امتحانات دیے ہیں اور وہاں پہلی پوزیشن بھی ہم نے لی ہے دوسری بھی ہم نے لی ہے اور تیسری بھی ہم نے لی ہے، کس سے بات کر رہے ہو کس کو دھوکہ دے رہے ہو، میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں سے ہم متاثر نہیں ہوں گے ہم نے ایک جائز موقف لیا ہے اور علم قرآن کو علم حدیث کو علم فقہ کو تحفظ دینے کے لیے اگر ہمیں جانیں بھی دینی پڑے گی تو ہم اپنے لیے سعادت سمجھیں گے ہم پیچھے مڑنے والے لوگ پھر نہیں ہوں گے۔ یہاں ہمارے اسمبلیوں میں قانون سازیاں ہوئیں اور اس کے پیچھے لکھا گیا کہ یہ قانون سازی دراصل ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ ہے، یہ ان کی ضرورت ہے، آپ بیرونی بین الاقوامی اداروں کے دباؤ پر پاکستان میں قانون سازی کرتے ہیں تو ذرا بتاؤ تو سہی ان کے ساتھ طے کیا ہوا ہے؟ ایف اے ٹی ایف نے کیا منوایا ہے آپ سے، وہ راز میں کیوں ہے، اس کو چھپایا کیوں ہوا ہے، وہ بلی تھیلے میں کیوں ہے، لاؤ اس بلی کو تھیلے سے باہر تاکہ ہم اس کا بھی آپریشن کریں اور بتا سکیں کہ اگر آپ کی ان خواہشات کا نام غلامی ہے تو نہ ہم ایف اے ٹی ایف کو تسلیم کریں گے نہ ہم آئی ایم ایف کو تسلیم کریں گے۔ 

(آخری کچھ جملے پشتو زبان میں)

تو میرے دوستو! ہماری باتیں پوشیدہ نہیں ہوتی، ہماری باتیں دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہے اور بڑی واضح ہوتی ہے۔ اور آج ہم اپنا پیغام اس جلسے سے، اس قوم اور ان کارکنوں کی طرف سے ان کو بھیج دیا ہے اور ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان شاءاللہ موقع دیں گے ایک ہفتہ دو ہفتے اگر سدھرنا ہے تو سدھر جاؤ ورنہ قسم سے ہم آپ کو سدھاریں گے۔ اب وہ لوگ ہاتھ اوپر کرے جو ہمارے ساتھ میدان میں نکلے گے، جو نہیں جانا چاہتے وہ ہاتھ نہ اٹھائے تکلف نہ کرے۔ وہ لوگ ہاتھ اٹھائے جو واپس نہیں ہوں گے، قائد اشارہ کرو، کیا میں بھاگنے کے لیے اشارہ کروں گا؟ پھر ہم چڑھ دوڑے گے پھر واپسی نہیں ہوگی۔ لیکن ہم تحمل سے کام لے رہے ہیں تاکہ ان کو عقل کی زبان سمجھا سکے اگر عقل کی زبان نہیں سمجھتے پھر ڈنڈے سے سمجھائے گے۔

اللّٰہ رب العزت آپ کا یہ جذبہ قبول فرمائے ان شاءاللہ دین کی سربلندی کے لیے لڑیں گے اور فلسطین سے لے کر پاکستان کے مدرسہ تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اللّٰہ ہمارا حامی ہو اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

 

 

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں