قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چارسدہ میں موجودہ صورتحال پر اہم پریس کانفرنس
09 دسمبر 2024
حکومت نے جو آج کچھ علماء کرام کا اجلاس بلایا ہے یہ درحقیقت ملک میں علماء کو آپس میں تقسیم کرنے کی ایک سازش ہے۔ اور ہم ان علماء کو بھی اپنے علماء سمجھتے ہیں۔ اپنے احباب سمجھتے ہیں۔ اپنے صف کے لوگ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایک بات تو بڑی واضح ہونی چاہیے کہ ہم اگر دینی مدارس کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دینی مدارس کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو وہ صرف اپنے پانچ بڑے تنظیمات کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کے ایک ایک مدرسے اور مدرسے میں پڑھنے والے ایک ایک طالب علم اور پڑھانے والے ایک ایک استاد کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور قرآنی علوم ہوں، حدیث کے علوم ہوں، فقہ کے علوم ہوں اس سے متعلقہ علوم ہوں ان کا تحفظ وہ ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مدارس اسی لیے قائم ہوئے تھے آج نہیں جب انگریز نے قرآن و حدیث کے علوم کے خلاف نیا نصاب قوم کو دیا تو ہمارے اکابر نے اس کے مقابلے میں دینی مدرسہ قائم کیا۔ آج پوری دنیا میں وہ پھیلا ہوا ہے ہر طرف اور ہر محلے میں ہر گاؤں میں اس کے شاخیں موجود ہیں۔ اور وہ ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا، ہاں ہم ریاست سے تصادم تو نہیں چاہتے ہم تو رجسٹریشن چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں رجسٹریشن سے دھکیل رہے ہیں۔ ہم رجسٹریشن کی طرف جانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے 2004 میں بھی ایک قانون سازی ہوئی تھی۔ اور آج جب 2018 کے بعد انہوں نے 2019 میں ایک نیا نظام ہمیں دینا چاہا وہ محض ایک معاہدہ ہے اور اس معاہدے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ایک ڈائریکٹریٹ جنرل قائم کیا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ 12 مراکز ہوں گی جہاں آپ رجسٹریشن کریں گے۔ وہ ایک ایگزیکٹو آرڈر تھا۔ آج جب اس الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو تمام پارٹیوں نے اس پہ اتفاق رائے کیا اور تمام جماعتوں نے اور حکومت نے اتفاق رائے کے ساتھ اس کو اسمبلی میں پیش کیا اس کی پہلی خواندگی پر کوئی اختلاف نہیں ہوا اتفاق رائے سے پاس ہوا دوسری خواندگی میں اداروں نے مداخلت کر کے قانون سازی رکوائی۔ اب جب چھبیسویں ترمیم کا مرحلہ آیا ان مذاکرات میں جہاں ہم نے چھبیسویں ترمیم پر مذاکرات کی ایک مہینہ اور چھپن کلازز سے ہم ان کو چونتیس کلازز سے دستبردار ہونے پر ہم نے ان کو آمادہ کیا۔ اور اس کے بعد ہم نے ان سے کہا کہ ایک بل ہمارا پہلے سے متفقہ موجود ہے اس کو بھی پاس کیا جائے تو اس سے ہماری ایجنسیاں بھی واقف تھی۔ ہماری ادارے بھی واقف تھے۔ زرداری صاحب خود اس میں فریق تھے جو اس پہ متفق ہو گئے تھے۔ میاں نواز شریف صاحب اور شہباز شریف صاحب دونوں متفق ہو گئے تھے۔ پارلیمنٹ کے اندر کی تمام پارٹیاں اس سے متفق ہو گئی تھی۔ اور وہ بل پیش ہوا اور سینٹ نے پاس کیا قومی اسمبلی نے پاس کیا اگر بل پر صدر دستخط کر سکتا ہے اور اگر دوسرے ایکٹس پر وہ دستخط کر سکتا ہے تو پھر متفقہ اس دینی مدرسے کے اس قانون پر کیوں دستخط نہیں کر سکتا اور اعتراضات کے ساتھ کیوں بھیجا گیا ہے۔ آج نیا سوشہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ یہ تو پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے ہم بتانا چاہتے ہیں۔ اس ڈرافٹ کے اندر جو اسمبلی نے پاس کیا پارلیمنٹ نے پاس کیا اس کے اندر ہم نے مکمل طور پر آزادی دی ہوئی ہے تمام مدارس کو کہ وہ کسی بھی وفاق کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں چاہے وہ 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہونا چاہیں اور چاہے وہ وزارت تعلیم کے تحت یعنی ان کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں۔ ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا دونوں اطراف آزاد ہیں ہر مدرسہ آزاد ہے اس حوالے سے، تو پھر آج کیوں اس کو تنازعہ کی طرف اٹھایا جا رہا ہے۔ علماء کے مقابلے میں علماء کو لایا جا رہا ہے۔ قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ مدارس کے طلباء اساتذہ کو ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ کوئی اضطراب نہیں ہے کوئی پریشانی نہیں ہے کوئی اختلاف رائے نہیں ہے متفقہ ایک ڈرافٹ ہے سب کا اس پر اتفاق رائے ہے۔ نئے شوشے نہ چھوڑے جائے اور ہم آج گزشتہ رات کو اپنی کانفرنس میں ایک حتمی اعلان کرنے کی طرف جا رہے تھے لیکن صدر وفاق اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی طرف سے اطلاع آئی کہ 17 دسمبر کو انہوں نے تمام اتحاد تنظیمات کا اجلاس بلا لیا ہے ہم نے اس فیصلے کو اس کے لیے روک دیا اور ہم چاہیں گے کہ تمام تر جماعت کے باہمی مشاورت کے ساتھ ایک متفقہ موقف اختیار کیا جائے اس متفقہ موقف کی روشنی میں ہم اگلے فیصلے کریں گے۔
سوال و جواب
سوال: مولانا صاحب اس کے ساتھ ایک دوسرے نام آپ نے بتایا مولانا نعیم صاحب کا بتایا ان کا نمائندہ بھی آج وہ اس میٹنگ میں بیٹھا اسلام آباد میں اور اس میں جو ریمارکس آئے ہیں یہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے حوالے سے کہ اس کو سیاسی اکھاڑا بنایا جا رہا ہے یہ جو ہے یہ صرف تعلیمی ایشو ہے اور اس کو سیاسی اکھاڑا بنایا جا رہا ہے۔
جواب: بالکل میں سمجھتا ہوں کہ وہ حکومت کو کہے کہ اس کو سیاسی اکھاڑا مت بناؤ ان کی رائے حکومت کے لیے بالکل ٹھیک ہے ہم تو قانون کی بات کر رہے ہیں وہ مدرسوں کو ایک ایکٹ سے ایک معاہدے سے اور ایک ایگزیکٹو آرڈر سے وابستہ کر رہے ہیں ہم مدارس کو قانون سے وابستہ کر رہے ہیں ہم مدارس کو قانون کے تحت ریگولرائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مدارس کی آزادی و خود مختاری وہ اپنی جگہ پر قائم رکھنا چاہتے ہیں، کبھی بھی ہمیں سوسائٹی ایکٹ کے تحت وزارت صنعت و حرفت نے ڈائریکٹریٹ نہیں دیا کہ آپ ہمارے احکامات اور تنظیم کے تحت مدرسوں کو چلائیں گے لیکن جب وزارت تعلیم کے تحت ہم نے منسلک ہو کر رجسٹریشن کی بات مانی تو انہوں نے ایگزیکٹو آرڈر کے ساتھ ایک ڈائریکٹریٹ ہم پر مسلط کر دیا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنے ماتحت کرنا چاہتے تھے مدارس ان کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سوال: جس طرح آپ نے بتایا کہ حکومت اور تمام پارٹیاں اس مدارس بل پر متفق تھی مگر ایجنسیوں کا کردار۔۔۔
جواب: حضرت ایجنسیاں بھی متفق تھی ان کے اتفاق رائے کے ساتھ سارے معاملات طے ہوئے اگرچہ وہ نظر نہیں آتے لیکن وہ ہوتے تو ہیں رابطے میں تو رہتے ہیں تو ساری چیزیں اتفاق رائے کے بعد اب کیوں متنازع بنایا جا رہا ہے یہ ہے وہ بدنیتی۔
سوال: مولانا صاحب انگلی کون کر رہا ہے اس میں جی انگلی کون کر رہا ہے یہ جو نظر نہیں آتا وہ کہاں سے انگلی کر رہے ہیں؟
جواب: یہ جو نظر نہیں آتا یہ انگلی کرتے ہیں۔
سوال: یہ جو فسادات ہو رہی ہے اس کا مستقبل کیا ہوگا اور اس میں آپ کو بیرونی ہاتھ نظر آتے ہیں؟
جواب: ہم جیتیں گے ہم جیت چکے ہیں پارلیمنٹ ہمارے ساتھ اس کو پاس کر چکی ہے روزانہ روزانہ نئی نئی باتیں نہیں اٹھائی جاتی عدم استحکام وہ کیوں لا رہے ہیں ہم جو چیز طے ہو چکے ہیں اس کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں وہ جو چیز طے ہو چکے ہیں اس کے مقابلے میں نئی نئی باتیں لا رہے ہیں لہٰذا اس وقت تک ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں ہے اور اگر انہوں نے اس میں ترمیم کرنے کے لیے کچھ ہمیں دیا فی الحال تو میری رائے یہ ہے کہ میں ان کی تجویز قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے چمٹے سے بھی پکڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
سوال: مدارس کے حوالے سے اگر جے یو آئی سخت موقف اختیار کرتی ہے اور حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کو اعتماد میں لے گی؟
جواب: ہم سب کو اعتماد میں لے چکے ہیں ان کو اعتماد میں لینے کے بعد یہ ساری چیزیں طے ہوئی اور اگر پی ٹی آئی نے ووٹ نہیں دیا تو ان کے اپنے مخصوص حالات تھے جس میں ان کے فیصلے سے پہلے کہ ہم ووٹ نہیں دیں گے میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ ان حالات میں آپ ووٹ نہ کریں تو اس حد تک بھی ہمارا اتفاق رائے تھا۔
سوال: سر اب جو فسادات چل رہے ہیں اس میں آپ کو بیرونی ہاتھ نظر آرہے ہیں اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
جواب: میں اسی پہ تو رو رہا ہوں کہ امن و امان تباہ ہو چکا ہے کے پی کے جنوبی اضلاع بالخصوص اور تقریباً تمام قبائلی علاقے اس وقت بارود میں بھسم ہو رہے ہیں اور انسانوں کا بے جا قتل عام ہو رہا ہے گھر چھوڑ رہے ہیں لوگ اب ان کے مسجدوں میں مسلح لوگ رہ رہے ہیں، ان کے بیٹھکوں میں مسلح لوگ رہ رہے ہیں، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ہے، ان کے روزگار کا مسئلہ ہے، لوگ اپنے گاؤں چھوڑ کر دوسری جگہوں پہ جا رہے ہیں، ان حالات میں اور پھر کرم میں جو صورتحال ہے کہ جس طریقے سے قتل عام ایک دوسرے کا کیا جا رہا ہے ان کا یہ تو کوئی مسئلہ ان کے نزدیک نہیں ہے اور دینی مدرسے کو کنٹرول کرو، کیوں؟ ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے، کیوں؟ آئی ایم ایف چاہتا ہے، کیوں؟ امریکہ اور مغرب چاہتا ہے، بتائیں ہمیں ذرا قوم کے سامنے وہ معاہدے سامنے رکھیں انہوں نے کیا شرائط دیے ہیں ہمیں اور ہم نے کیا مانا ہے ان کے ساتھ ایجنسیاں ان کو کیوں چھپا رہی ہے حکومت کیوں چھپا رہی ہے عوام کے سامنے سب کچھ لایا جائے ان ساری چیز کو تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک ہم غلامی کی تصور سے کر رہے ہیں یا مدارس کی خیر خواہی میں کر رہے ہیں۔
سوال: مولانا صاحب بلوچستان اور کے پی کے بارود کے ڈھیر بن چکے ہیں اور پاکستان میں دو صوبے امن میں ہے وجہ کیا ہے؟
جواب: یہی تو ہمارا سوال ہے کہ اس وقت بلوچستان جس صورتحال میں ہے بلوچستان ہو یا ہمارا خیبر پختونخوا ہو 2024 کے الیکشن میں دونوں صوبوں کے اندر مسلح گروپ موجود ہیں اور دونوں صوبوں کے اندر مذہبی سیاسی قیادت کو بھی پارلیمنٹ سے باہر رکھا گیا اور قوم پرست قیادت کو بھی پارلیمنٹ سے باہر رکھا گیا تو یہ بتا رہے ہیں کہ کیا یہ ملک کو توڑنے کی سازش تو نہیں ہے ہم ملک کو بچا لیں گے ہم نے ملک کو بچانا ہے ہم نے قربانی دینی ہے حکمران کم از کم ملک کو بچانے کے لیے فکر مند ہو جائیں مدرسے کو معاملہ کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کو اٹھا رہے ہیں۔
سوال: اچھا کل جے یو آئی کی جانب سے اسرائیل مردہ باد کانفرنس منعقد ہوئی اس حوالے سے مولانا صاحب میرا یہ سوال ہے اس پروگرام میں کمنٹ کرنا ہے کہ یہ تقریباً مسئلہ فلسطین کا ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے یہ مسئلہ چل رہا ہے تو جے یو آئی نے کافی تاخیر نہیں کی اس میں جو اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اس کی وجہ کیا؟
جواب: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ آپ کو تو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے آپ تو چارسدہ کے رہنے والے ہیں آپ کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ 7 اکتوبر 2023 کو یہ جنگ شروع ہوئی اور 14 اکتوبر کو ہم نے پشاور کے اندر طوفان اقصیٰ کانفرنس کی تھی صرف ایک ہفتے کے اندر اندر اس کے بعد ہم نے یہ کانفرنس بلوچستان میں پشین کے مقام پہ اس کے بعد ہم نے دو تین دن کے فاصلے کے ساتھ کراچی میں یہ کانفرنس کی ہم نے مظفرگڑھ میں پنجاب میں یہ کانفرنس کی ہم تو مسلسل ان کے حق میں ہر موقع پر ملین مارچ کر رہے ہیں اتنے بڑے بڑے جلسے جو تاریخی ہمارے اپنی تاریخ جو ہے اور ریکارڈ توڑ رہے ہیں وہ جی تو یہ چیزیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ایک صحافی جو ہے اس قسم کا سوال کرے کہ اس کے گھر میں اتنے بڑے جلسے اور مظاہرے ہو رہے ہوں اور وہ اس سے ناخبر ہے جی۔
سوال: آپ ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا گارنٹی ہے کہ نئے انتخابات سے عوام کے مسائل حل ہو سکیں گے اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ باقی پارٹیاں اس نتائج کو تسلیم کر لے گی؟
جواب: کیا دھاندلی کے الیکشن سے عوام کے مسائل حل ہو جاتے ہیں، بلوچستان جل رہا ہے سب جعلی لوگ وہاں اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں ایک بھی عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کرم جل رہا ہے جنوبی اضلاع جل رہے ہیں آپ کے ایم این ایز ایم پی ایز قوم کے سامنے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اگر کہیں پر بھی پبلک کے سامنے کوئی جا سکتا تھا تو جے یو آئی کا نمائندہ جا رہا ہے ایسے حالات میں مان لینا چاہیے کہ یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں یہ جعلی اسمبلیاں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی اسمبلی ہے جو عوام کا سامنا نہیں کر سکتی تو جو ڈمی حکومتیں ہمیں قبول نہیں ہے اور سنجیدہ کام کیے جائیں اور جو چیزوں پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے ہم نے تو حضرت پارلیمانی کردار کو زندہ رکھا ہے جمعیۃ علماء اسلام پارلیمانی کردار اس لیے زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان کا مذہبی طبقہ ملک کے ساتھ آئین کے ساتھ جمہوریت کے ساتھ پارلیمنٹ کے ساتھ چلے کیوں ہمیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، کیوں مدارس کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، انہوں نے ثابت کیا ہے نائن الیون کے بعد آج تک کتنے سال ہو گئے ہیں 23 سال ہو گئے ہیں مدارس کو ابھی تک آپ تسلیم نہیں کر رہے مدارس نے آپ کو تسلیم کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا اپنے کردار سے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کے ساتھ کھڑے ہیں علماء ملک کے ساتھ کھڑے ہیں جمعیت علماء ملک کے ساتھ کھڑی ہے مذہبی طبقے ان کی وساطت سے سب ملک کے ساتھ کھڑے ہیں کیوں مایوس کیا جا رہا ہے کیوں تکلیف ہے ان کو کہ علماء اعتدال کی سیاست کر رہے ہیں کیوں تکلیف ہے ان کو کہ وہ پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں کیوں ان کو تکلیف ہے اس بات کی کہ وہ ایک آئین کے ماتحت اور قانون کے ماتحت سیاست کر رہے ہیں بہت برا لگ رہا ہے ان لوگوں کو کہ علماء اور مذہبی طبقہ مین سٹریم میں کیوں جا رہا ہے تو ہم ان سے زیادہ ملک کے وفادار ہیں ہم زیادہ ملک کے لیے فکر مند ہیں یہ لوگ تو پتہ نہیں کن کے مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں ہم پاکستانی عوام اور پاکستان اور ریاست کا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور وہ امریکہ اور مغرب کے مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں۔
سوال: امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے کیا جے یو آئی گورنر راج کے حق میں ہے؟
جواب: گورنر راج کی گنجائش تو بہرحال آئین کے اندر کسی مرحلے پہ آجاتی ہے اس سے انکار نہیں ہے لیکن یہاں تو گورنر راج سے بھی ہمیں کوئی امید نہیں ہے کہ وہ کوئی کامیاب ہو سکے گی مارشل لاء بھی حالات کو قابو نہیں کر سکتی حالات میں سنجیدگی سے بیٹھنا ہوگا اور تمام پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور ملک کے اندر پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا ہوگا اگر پارلیمان کے ذریعے سے شریعت کو اس طرح دھکیلا جاتا رہا تو پھر جمہوریت شکست کھائے گی اور مسلح قوتیں جو ہیں ان کا ایجنڈا جو ہے وہ قبول ہو سکے گا۔
سوال: چین کا پاکستان کی طرف خوشحالی کا ایک بڑا منصوبہ شروع ہے اور امریکہ سی پیک کا مخالف ہے آپ کو پاکستان کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟
جواب: یہ تو پاکستان کو سوچنا چاہیے امریکہ کو تو وہی سوچنا جو اس کے مفاد میں ہے لیکن ہم نے وہ سوچنا جو ہمارے مفاد میں ہے، ہم نے ایک ملک جو ہمارا دوست تھا 70 سال ہم نے دوستی میں گزارے اور ایسی دوستی کہ بحر الکاہل سے گہری ہمالیہ سے بلند شہد سے میٹھی لوہے سے مضبوط اور جمہوری اقتصادی دوستی میں تبدیل ہو گئی تو پھر باہر کی قوتیں آئیں اور پاکستان کو جام کر دیا لہٰذا ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ہم کیا کھیل کھیل رہے ہیں ہم نے اپنے دوستوں کا اعتماد ختم کیا ہے چین کا اعتماد ختم کیا ہے سعودی عرب کا اعتماد ختم کیا ہے امارات کا اعتماد کی ختم کیا ہے دوسرے جو پاکستان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں ان کا اعتماد ختم کیا ہے اس پر یہ لوگ سوچیں مدرسہ خیر خیریت ہے مدرسہ کوئی مشکل نہیں ہے۔
سوال: لیکن پارٹی کے بعض تنظیم عہدیداروں نے کسی دوسرے کا کینڈیڈیٹ کو سپورٹ کیا تھا تو کیا آج۔۔۔
جواب: میں جماعت کا مرکزی امیر ہوں اور تم مجھ سے ایک حلقے کا سوال کرتے ہو یہ تمہاری سطح آگئی صحافت کی!
سوال: ایران کی حمایت یافتہ حکومت ختم ہونے جارہی ہے اس کا خطے پر کیا اثر پڑے گا؟
جواب: ابھی تک تو ہم اس کو مطالعہ کر رہے ہیں حالات پہ نظر رکھے ہوئے ہیں اور خدا کرے کہ صورت حال نارمل ہو جائے کیونکہ ہم نے عراق کے حالات بھی دیکھے ہم نے لیبیا کے حالات بھی دیکھے شام کی صورتحال کے جس حالات سے گزرے ہیں اور آج جہاں وہ پہنچ رہے ہیں لبنان کی صورتحال جس طرح خراب کی جا رہی ہے یہ ساری گند جو ہے جو عرب دنیا کے اندر ہے اس کے اندر، تو ہمارے اکابر کہا کرتے تھے کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں باہم چپقلش ہو تو اس میں بھی سیاست افرنگی کا ہاتھ ہوتا ہے اس میں بھی آج سیاست امریکہ کا ہاتھ ہے۔
سوال:
جواب: جس کو آپ بیک ڈور کہہ رہے ہیں نا وہ آپ کے جواب کے لیے پھر نہیں ہوتا جی،
سوال: زرداری کے حوالے سے آپ نے کہا تھا کہ مطلب آپ کے دوست بھی ہے اور جو تعلق ہے وہ بالکل لوگوں کے ساتھ دیتے ہیں۔ اب جو بل پر دستخط نہیں ہو رہے آپ کا ایک سٹیٹس آیا تھا۔
جواب: اس بیچارے کا اختیار مجھے پتہ ہے کس نے اس کو روکا ہوا ہے بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں