مدارس رجسٹریشن پر شیخ الاسلام، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی مجلس عاملہ میں گفتگو
الحمدلله رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا وحبیبنا ومولٰنا محمد خاتم النبیین وامام المرسلین وعلی آله واصحابہ اجمعین وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ امابعد
آج کل عام لوگوں کے ذہنوں کو مشوش کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ حکومت تو یہ چاہ رہی ہے کہ مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں لہذا انہیں وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے اور اہل مدارس یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو سوسائٹیز ایکٹ تحت رجسٹرڈ ہونا ہے، جبکہ سوسائٹیز ایکٹ تو وزارت صنعت و تجارت سے تعلق رکھتا ہے یا وزارت داخلہ سے تعلق رکھتا ہے۔
لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ہم وزارت تعلیم کی بجائے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کیوں رجسٹریشن پسند کرتے ہیں؟
اولاً یہ سمجھنا چاہئیے کہ سوسائٹیز ایکٹ کیا چیز ہے؟
سوسائٹیز ایکٹ در حقیقت ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت آپ کوئی ایسی سوسائٹی یا پرائیویٹ ادارہ بنا سکتے ہیں۔
یعنی آپ کو کوئی بھی ادارہ بنانا ہو، کوئی بھی تعلیم دینی ہو، کوئی رفاہی کام کرنا ہو، اپنا تربیتی ادارہ قائم کرنا ہو، پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کرنی ہو، یہاں تک کہ کوئی آرٹس کونسل قائم کرنی ہو تو وہ سارے کے سارے پرائیویٹ ادارے اس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ سوسائٹیز ایکٹ پرائیویٹ اداروں کو رجسٹرڈ کرنے کا ایک ڈاکخانہ ہے کہ جس کے ذریعے پرائیویٹ ادارے ایک قانونی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اب وہ پرائیویٹ ادارے اپنے نظام کے تحت چلتے ہیں، ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ان کے عہدے دار یا مجلس منتظمہ کے لوگ ہی اس کے تمام امور کے نگران ہوتے ہیں، ان کو مکمل اختیار ہوتا ہے کہ اپنی بنائی ہوئی سوسائٹی کے اندر جو نظم قائم کریں، کر سکتے ہیں، صرف اتنا ہے کہ وہ رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ ان کا وجود قانونی طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے، لیکن اپنے اندرونی معاملات میں وہ بالکل خود مختار آزاد ہوتے ہیں، انہیں یہ باور کرانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم خود مختار ہیں، بلکہ جوں ہی اس میں رجسٹرڈ ہوئے، تو اس رجسٹریشن کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظام کے تحت اپنے ادارے کو چلانے کے لیے خود مختار ہیں۔
دوسری طرف وزارت تعلیم حکومت کا ایک ادارہ ہے اور حکومت کے ادارے کی حیثیت سے وہ اپنے سارے تعلیمی نظام کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے ماتحت یونیورسٹیاں بھی آتی ہیں، اس میں وہ کالج، اسکول بھی آتے ہیں جو سرکار کے تحت قائم ہو رہے ہیں، یہ سب وزارت تعلیم کے نظام کے پابند ہو جاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ فرق ہے کہ اگر سوسائٹیز ایک کے تحت کوئی ادارہ رجسٹرڈ ہے وہ پرائیویٹ ہے اور اس کو اپنا نظام چلانے کا مکمل اختیار حاصل ہے اور اگر کوئی کسی وزارت تعلیم کے تحت وزارت کا حصہ بن گیا تو اس وزارت کے نظام کے اندر وہ آگیا۔
ہمارے مدارس کی بنیاد حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے وقت سے ہی اس بات پر ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے ہیں، ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمیں حکومت سے نہ کوئی امداد چاہئیے، نہ ہی حکومت کی مداخلت برداشت ہے، ہم اپنے اکابر سے چلے آ رہے طریقہ کے تحت، اپنی خود مختاری سے چلنا چاہتے ہیں، کسی ایسے ادارے کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتے جو ہمارے اندرونی نظام میں دخل اندازی کرے، جو ہمارے طریقہ کار میں مداخلت کرے، جو کسی طرح بھی ہمارے مقاصد پر اثرانداز ہو- مدرسہ کو ہم اس سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اور یہ آزادی ہمیں سوسائٹی ایکٹ کے تحت ملتی ہے، کیونکہ وہ پرائیویٹ ہے اس میں سارے ادارے پرائیویٹ ہیں۔
بہت سے تعلیمی ادارے اب بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں اس لئے کہ وہ پرائیویٹ ہیں، اور پرائیویٹ طریقے سے اپنے نظام کے تحت چلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر اس لئے اصرار ہے کہ وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک نہیں ہونا، اور میری تو اول روز سے یہی رائے ہے۔
وزارت تعلیم کے متعلق اس سے قبل ہم نے انتہائی دباؤ کے حالات میں (ایک مفاہمتی یاد داشت میں) اتنی سی بات تسلیم کی تھی کہ ٹھیک ہے، ہمارا ڈاکخانہ بدل جائے اور وزارت تعلیم کی طرف چلا جائے۔ لیکن جس اندیشہ کی بناء پر ہم وزارت تعلیم میں جانے سے پرہیز کررہے تھے، وہ اسی وقت حقیقت بن کر سامنے آگیا، جب ہمارے ساتھ مذاکرات میں ایک مفاہمتی یاد داشت تیار ہوئی۔ جسے آج معاہدہ کا نام دیا جارہا ہے، وہ درحقیقت اصطلاحی اعتبار سے ایم او یو ہے، (یہ محض) مفاہمتی یاد داشت ہوتی ہے، قانونی اعتبار سے اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ ابھی بات چل رہی ہے اس کے اندر کچھ چیزوں پر مفاہمت ہوئی ہے۔ اس مفاہمت کا ایک حصہ یہ تھا کہ ہمارے بینک اکاؤنٹ کھلیں گے، ہم خود مختار آزاد رہیں گے، ہمارے غیر ملکی طلباء کو ویزے ملیں گے، اس میں یہ بھی تھا کہ جب تک اس پر پوری طرح عمل نہیں ہو جاتا، سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کو مدارس رجسٹرڈ ہورہے ہیں وہ اپنی جگہ رجسٹرڈ ہوتے چلے جائیں گے، یہ ابھی مفاہمتی یادداشت کے مرحلہ میں ہی تھی، کہ ایک ارب روپے کا بجٹ بنا کر ایک ڈائریکٹریٹ قائم کردی گئی، جس کو ایک سابق ملٹری میجر جنرل کے ماتحت کر دیا گیا، اور اس کے لئے مختلف جگہوں پر دفاتر قائم کرنا شروع کردئیے گئے، اور اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ مدارس اپنے نظام میں آزاد اور خود مختار رہیں گے، لیکن آخر میں یہ بھی لکھا کہ وقتاً فوقتاً وزارت تعلیم کی طرف سے جو ہدایات آئیں گی مدارس اس کے پابند ہونگے۔ اس مرحلہ پر ہمیں اپنے اندیشے حقیقت بن کر سامنے نظر آنے لگے، ہم جو کہتے تھے کہ وزارت تعلیم میں جائیں گے تو کسی نظام میں پھنس کر اس کے تمام ارشادات کے تابع ہونگے، (تو ایسا ہی نظر آنے لگا)۔
ہم یہ بات واضح کہہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی حکومت کے ماتحت ہو کر ہم اپنے نصاب و نظام کو جاری نہیں رکھ سکتے، ایسا کرنا ہمارے لئے زہر قاتل ہے، ہم نے ایسا کرنے والوں کے انجام دیکھے ہیں، ہم نے سعودی عرب دیکھا، ہم نے امارات دیکھا، مصر دیکھا ہے، ہم نے شام دیکھا ہے کہ ان ممالک میں مدارس کو کس طریقے سے ختم کیاگیا، مدارس کو کس طریقے سے دبایا گیا، آج وہاں ہر کوئی کلمہ حق کہنے والا موجود نہیں ہے، یا کوئی حق بات کہے تو تو اس کی جگہ جیل ہوتی ہے یا اس کے اوپر تشدد کیا جاتا ہے۔
الحمدللہ، پاکستان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کے لئے بنایا، پاکستان کو درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کا قلعہ بنایا ہے، ہم یہاں یہ صورت حال کسی قیمت برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے مدارس اور ہمارے علماء اس طرح ہوجائیں کہ ان کے سامنے کچھ بھی ہوتا رہے، وہ اپنی زبانوں کو بند رکھیں اور شیطان اخرس بن کر زندگی گزاریں۔ (حکومتوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ) جب کسی (ادارہ، شخص) کو گھیرنا ہوتا ہے تو شروع میں ساری پابندیاں عائد نہیں ہوتیں، شروع میں اس کے لئے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے، اس کے بعد آگے جاکر اس کو کسی وقت میں گھیرا جاتا ہے، پوری تاریخ میں یہی طریقہ کار رہا ہے۔ ابھی اگر چہ اس (مفاہمتی یادداشت) میں لکھا ہوا ہے کہ اپنے نظام میں آزاد و خود مختار رہیں گے، لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ جب اس دائرے کے اندر آگئے جبکہ اس میں یہ جملے بھی موجود ہیں کہ وزارت تعلیم کی طرف سے وقتاً فوقتاً ملنے والی ہدایات کے پابند ہونگے، تو اب آپ دیکھیے آج کسی کی حکومت ہے، کل کسی اور کی حکومت ہوگی۔ وہ لوگ بھی حکومت میں وزارت تعلیم کے اندر آئیں گے، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں، (وہ لوگ بھی حکومت میں آ سکتے ہیں) جنہوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مدارس تو صرف یہ سکھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا تو یہ مدارس موجودہ زندگی کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں،تو ایسے لوگ بھی تعلیم کے نظام کے اندر آ سکتے ہیں۔ کل کو کون آتا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا، لہذا مدارس کو اس دائرے کے اندر لانے کے ہم بالکل سختی کے ساتھ مخالف ہیں۔
چونکہ سوسائٹیز ایکٹ پرائیویٹ اداروں کا قانون ہے، اس واسطے ہم پرائیویٹ اداروں کے طور پر اپنا کام کرنا چاہتے ہیں، جس میں ہمارے کام میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ ہم خود الحمدللہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں، وفاق المدارس پوری طرح باخبر ہے، اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ ہمارے علماء کو موجودہ دور میں اپنا پیغام بہتر طریقے سے پیش کرنے کے لیے کن معلومات کی ضرورت ہے؟ ہم اپنے مدارس میں وہ معلومات پڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم (یہ جدید معلومات اس الزام کو دور کرنے) کے لیے نہیں پڑھا رہے، جو ساری دنیا یہ نا معقول بات کہہ کر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ مدارس سے ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں ہوتے، اس سے لائیر کیوں نہیں پیدا ہوتے، انجینئر کیوں نہیں نکلتے، مدارس کے فضلاء کسی ملٹری کے اندر کمیشن کیوں نہیں لیتے، اور اس بات کو بڑے فخر سے بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں مدرسہ کے لوگ کمیشن لے چکے ہیں، وہ بریگیڈیئر بن چکے ہیں، (تو سب مدارس ایسا کیوں نہیں کرتے)۔ ارے بھائی! یہ مدرسہ بریگیڈیر اور کرنل پیدا کرنے لیے نہیں تھا، قرآن و سنت کا علم محفوظ کرنے کے لیے تھا، یہ عالم پیدا کرنے کے لیے تھا، یہ بتاؤ کہ پورے پاکستان میں کون سے سرکاری ادارے میں اسلام کی تعلیم دی جارہی ہے؟ کون سے سرکاری ادارہ میں حافظ پیدا ہو رہے ہیں؟ اس ملک کی کسی مسجد میں کبھی یہ اعلان نہیں سنا گیا ہوگا کہ ہمارے ہاں تراویح پڑھانے کے لئے حافظ نہیں ہے۔ (ہمارے ملک میں الحمدللہ) حافظ زیادہ ہیں، مسجدیں کم ہیں، یہ حافظ کہاں پیدا ہورہے ہیں؟ جو حفاظ قرآن کریم کی خدمت انجام دے رہے ہیں، تراویح پڑھانے کے لئے موجود ہیں یہ کہاں سے آرہے ہیں؟ کسی کالج سے؟ کسی یونیورسٹی سے؟ کسی انسٹی ٹیوٹ سے؟ (نہیں) یہی مدارس ہی ہیں جو یہ سب پیدا کررہے ہیں، کوئی آدمی یہ بتائے کہ کیا اس معاشرے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی دینی مسئلہ پیش آجائے تو اس کا جواب دینے والا کوئی موجود ہو؟
آج یہ ساری دنیا دیکھ لے کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی نکاح طلاق کا مسئلہ پوچھنا ہو، بیع و شراء کا مسئلہ معلوم کرنا ہو، نماز اور روزے کا پوچھنا ہو تو وہ کیا کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کے پاس جاتے ہیں، اس کے پاس جاتے ہیں جس نے اسلامک سٹڈیز کی ڈگری لے رکھی ہو؟ کیا کسی ایسی یونیورسٹی یا کسی پروفیسر کے پاس جاتے ہیں؟ جو اسلامک سٹڈیز پڑھا رہا ہے؟ وہ اگر جاتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جن کے پاس قرآن و حدیث، فقہ، اصول فقہ کا پورا علم ہے۔ کیوں جاتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ جانتے ہیں کی صحیح علم ان کے پاس ہے، انہیں دین صحیح طریقے سے آتا ہے۔
یہ سارا کام مدارس اس لئے کررہے ہیں اور اس طرح کررہے ہیں کہ ہم کسی کے تسلط کے روادار نہیں ہیں، ہم وہ بات کہیں گے جو قرآن کہتا ہے، ہم وہ بات کہیں گے، جو حدیث کہتی ہے، ہم وہ بات کہیں گے جو ہمارا دین کہتا ہے، اس وجہ سے ہم کوئی مداخلت کسی قیمت برداشت نہیں کرسکتے اگر کریں گے تو ہم تو ہم اپنے فرض منصبی میں زبردست کوتاہی کے مرتکب ہوں گے، ہم نے اللہ اور رسول کے کے ساتھ جو عہد کیا ہے، اس سے غداری کے مرتکب ہونگے۔
سوسائٹیز ایکٹ میں ہم پرائیویٹ طریقے پر کام کررہے ہیں، اس کا صنعت و تجارت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کا تعلق ایک سوسائٹی سے ہے، یہ سوسائٹی کچھ بھی کرسکتی ہے، جس طرح ایک ٹرسٹ ہوتا ہے، وہ ٹرسٹ جو چاہے کرسکتا ہے، اسی طرح سوسائٹیز ایکٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہوکر ایک سوسائٹی بنتی ہے اور وہ سوسائٹی اپنے نظام کے مطابق جو چاہے کرسکتی ہے اور وزارت تعلیم میں جائیں گے تو ہم سرکار کے ماتحت ہونگے۔
یہ ہماری گزارشات ہیں، یہ ہمارا اصل مقصود ہے اور اس وجہ سے ہم اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ ڈٹے رہیں گے۔
واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط وترتیب: محمد اویس مجیب، فاضل جامعہ دارالعلوم کبیروالا
ایک تبصرہ شائع کریں