مدارس بل: صدر زرداری کے اعتراضات ملک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان
حافظ مومن خان عثمانی
صدر پاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے مدارس بل پر سامنے آنے والے اعتراضات ملک وملت کے لیے انتہائی خطرناک اور شرمناک ہیں۔ صدر زرداری نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہے بلکہ عالمی قوتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کا غلام ہے اور غلام کبھی اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ صدر زرداری کی طرف سے سامنے آنے والے اعتراضات اور خوئے غلامی کے اظہار نے ایک بار پھر 24 کروڑ پاکستانیوں کو غلامی کا احساس دلایا ہے کہ ہم 1947ء میں آزاد نہیں ہوئے صرف اقتدار کی منتقلی ہوئی ہے، یہی بات تو اس وقت امت کے اکابر کرہے تھے اور جب وہ یہ باتیں کرتے توان کو غدار، اسلام کا دشمن، ہندووں کا زرخرید کہا جاتا تھا انہیں طرح طرح سے بدبودار گالیوں سے نوازا جاتا تھا ان پر الزامات کی بارش کی جاتی تھی۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور دیگر اکابر علماء کرام اس وقت یہی کہا کرتے تھے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بنا رہے گا عوام بدحال اور اسلام اجنبی ہی رہے گا۔ پاکستان چند سرمایہ دار اور جاگیرداروں کی عیاشیوں کا مرکز ہی رہے گا۔ 77 سال سے پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے، ملک پاکستان عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بناہوا ہے ہم اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے ہم اپنے لئے حکمرانوں کا انتخاب خود نہیں کرسکتے، ہم اپنے لئے کوئی قانون نہیں بناسکتے، ہمارے حکمرانی کے فیصلے مغربی ایوانوں میں ہوتے ہیں کہ کس کو حکمران بنانا ہے کس کو حکومت سے دور رکھنا ہے، کس کو کونسی وزارت سے نوازنا ہے، کس کونسی کرسی پر بٹھانا ہے بلکہ یہاں تو ڈپٹی کمشنر تک کے فیصلے ہمارے اپنے نہیں، یہ بھی مغربی قوتیں طے کرتی ہیں، ان حالات میں مدارس بل کیسے ایکٹ بن سکتا ہے، مدارس کے بارہ میں عالمی قوتوں کی ایک ایک بات کو حکمران سر آنکھوں پر رکھتے ہیں، ہمارے حکمران جو مغربی تعلیمی اداروں میں غلامی کا سبق پڑھ کر آتے ہیں ان کی سمجھ میں آزادی، غیرت اور خودمختاری کی باتیں آتی ہی نہیں، انہیں مغربی تعلیمی اداروں میں جو غلامانہ سوچ اور غلامانہ فکر دی جاتی ہے وہ اسی لکیر کے فقیر بن کر چلتے ہیں اور اسی کا اظہار صدر زرداری نے دونوں ایوانوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور ہونے والے مدارس بل کو مسترد کرتے ہوئے کیا ہے کہ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پابندیاں لگ جائیں گی، اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں یہ اختیار نہیں کہ ہم کوئی قانون سازی کرسکیں ہم تو ان مالیاتی اداروں کو دیکھ کرہی قوانین بنائیں گے، انہیں کے اشاروں پر چلیں گے، ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر براجمان شخص اگر غلام ابن غلام ابن غلام ہو تو اس ملک کی عوام کا کیا حال ہوگا، صدر صاحب نے اپنے حلف سے غداری کا ارتکاب کیاہے، لیکن ان چیزوں کی اہمیت تو آزاد وخود مختار ممالک میں ہوتا ہے غلام ممالک کے اصول بھی خوئے غلامی پر مبنی ہوتے ہیں، صدر زرداری کو جنہوں نے صدر بنوایا ہے وہ انہیں قوتوں کو جواب دہ ہیں وہ پاکستانی قوم کو جواب دہ ہے ہی نہیں، اس لیے انہوں نے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر منظور شدہ بل کو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مسترد کیا ہے۔ مگر زرداری صاحب کوپتہ نہیں کہ ان کا پالا جن لوگوں سے پڑاہے انہوں نے انگریز کے جبر و استبداد اور اس کی غلامی کو کبھی قبول نہیں کیا تھا تو آج وہ فیٹف کی غلامی کو کیسے قبول کرسکتے ہیں، جمعیت علماء اسلام 17 دسمبر کو اتحاد تنظیمات مدارس کے اجلاس کا انتظار کررہی ہے کہ وہ کیا لائحہ عمل طے کرتے ہیں اس کے بعد دمادم مست قلندر ہوگا۔ یہ لاتھوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں، جب تک احتجاج نہیں ہوگا اس وقت تک انہیں ہوش نہیں آئے گا جب جمعیت علماء اسلام کا سیلاب لے کر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کا رخ کریں گے تو پھر ان کو ہوش آئے گا اور شاید یہ احساس بھی ہوجائے کہ ہم غلام نہیں ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں۔ وہ درباری مولوی جو اسلام آباد جاکر سرکاری دسترخوان سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ بھی براہ راست مغربی قوتوں کے آلہ کار ان کے وظیفہ خوار ہیں انہیں اپنے کردار پر شرم آنی چاہیے کہ وہ کس گھاٹ پر پانی پینے کے لیے سر بسجود ہورہے ہیں، وہ مدارس کے معصوم نام کو استعمال کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں یہ عالمی قوتوں کے وظیفہ خوار جمعیت علماء اسلام اور قائد جمعیت کے مقابلہ میں نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آئندہ کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ۔
ایک تبصرہ شائع کریں